رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے ایک ایسی جگہ وہ پہنچ گیا جہاں اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نوٹ : ـــــــــ یہ داستان صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹرمحنت مزدوری کرکے لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ ساری رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ یہ کہانی بھی آگے خونی اور سیکسی ہے تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
-
میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا
April 17, 2025 -
کالج کی ٹیچر
April 17, 2025 -
میراعاشق بڈھا
April 17, 2025 -
جنبی سے اندھیرے
April 17, 2025 -
بھائی نے پکڑا اور
April 17, 2025 -
کمسن نوکر پورا مرد
April 17, 2025
رقصِ آتش قسط نمبر- 38
کار رکی نہیں۔ البتہ اندر بیٹھے ہوئے ہیولے نے کسی قدر با ہر کی طرف جھک کر فائرنگ شروع کردی۔ کار کی طرف دوڑتے ہوئے آدمی کے منہ سے خوف ناک چیخ نکلی اور وہ لڑکھڑاتا ہوا سڑک پر ڈھیر ہو گیا۔ کار، بندوق سے نکلی ہوئی گولی کی طرح تیزی سے آگے چلی گئی۔
انسپکٹر چیانگ شو چند لمحے جھاڑیوں میں دبکا رہا پھر اٹھ کر سڑک کی طرف دیکھنے لگا۔ دو انسانی ہیولے سڑک پر بے حس و حرکت پڑے ہوئے تھے۔ انسپکٹر ریوالور تانے محتاط انداز میں آگے بڑھنے لگا۔ ان دونوں ہیولوں میں سے کسی میں کوئی حرکت نہیں ہوئی تھی۔ انسپکٹر چیانگ شو کے منہ سے گہرا سانس نکل گیا۔ وہ اپنے کا نسٹیبلوں کے نام لے کر پکارنے لگا۔ ایک کانسٹیبل تو رائفل سنبھالے جھاڑیوں میں سے نکل کر دوڑتا ہوا سامنے آگیا مگر دوسرے کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا تھا۔
شین کہاں ہے؟۔۔۔ انسپکٹر نے کا نسٹیبل سے پوچھا۔
جیپ سے کودتے ہوئے اس کے گھٹنے کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ وہ بے ہوش ہے۔ میں نے اسے جھاڑیوں میں گھسیٹ لیا تھا۔۔۔ کا نسٹیبل نے جواب دیا ۔
تم یہیں رکو۔ میں جیپ لے کر آتا ہوں۔۔۔ انسپکٹر نے کہا اور روحان کو آواز یں دیتا ہوا جیپ کی طرف چل پڑا۔
وہ جیپ اسٹارٹ کرکے سڑک پر لے آیا لیکن روحان جھاڑیوں سے نہیں نکلا۔ انسپکٹر نے اسے دو تین مرتبہ پکارا پھر جیپ سے اتر کر جھاڑیوں میں گھستا چلا گیا۔ روحان کو ایک جگہ جھاڑیوں میں بے حس و حرکت دیکھ کر انسپکٹر چیانگ شو کو سینے میں سانس رکتا ہوا محسوس ہونے لگا۔ اس نے جھک کر پہلے روحان کے جسم کوٹٹولا پھر اسے اٹھا کر سڑک پر لے آیا ۔ جیپ کی ہیڈلائٹس کی روشنی میں اس نے ایک بار پھر روحان کا جائزہ لیا۔ اس کے جسم پر کوئی زخم نہیں تھا۔ وہ بے پناہ خوف اور دہشت سے بے ہوش ہو گیا تھا۔
تم انہیں دیکھو۔ میں وائرلیس پر پولیس اسٹیشن اطلاع دیتا ہوں۔۔۔ انسپکٹر یہ کہتے ہوئے جیپ کے پاس آگیا اور ڈیش بورڈ پر لگے ہوئے ریڈیو کا مائیک اٹھا کر کال نشر کرنے لگا۔
دس منٹ کے اندر اندر وہاں پولیس کی کئی گاڑیاں پہنچ گئی تھیں اور حیرت کی بات یہ تھی کہ اس دوران میں کوئی پرائیوٹ گاڑی اس سڑک پر نہیں آئی تھی اور شاید اگر کوئی آئی بھی ہوگی تو فائرنگ کی آواز سن کر دور ہی سے کسی اور طرف مڑگئی ہوگی۔ پولیس کی گاڑیوں کے ساتھ دو ایمبولنس گاڑیاں بھی پہنچ گئی تھیں۔ ایک ایمبولنس میں بے ہوش روحان اور کانسٹیبل کو ڈال دیاگیا۔ اور دوسری ایسولنس میں ان دونوں چینیوں کو۔
ایک چینی کی لاش گولیوں سے چھلنی تھی۔ یہ وہ شخص تھا جو لنگڑاتا ہوا کار کے پیچھے دوڑا تھا اور کار والے نے فائرنگ کر کے اسے زخمی کر دیا تھا اور دو سرا وہ تھا جو جیپ سے ٹکرا کر گرا تھا اور جیپ کا اگلا پہیا اس کے اوپر سے گزر گیا تھا۔ وہ ابھی زندہ تھا۔
ظاہر ہے ، گھر جانے کا اب انسپکٹر چیانگ شو کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔ وہ بھی ایمبولنس گاڑیوں کے ساتھ ہی اسپتال پہنچ گیا۔ روحان کو تقریباً آدھے گھنٹے بعد ہوش آ سکا تھا۔ خوف کے مارے اس کے چہرے کی رنگت بالکل سفید ہو رہی تھی۔ ایک ہی رات میں پے درپے تین ایسے خوف ناک واقعات پیش آئے تھے جنہوں نے اسے نچوڑ کر رکھ دیا تھا۔ وہ واقعی باہمت لڑکا تھا۔ بڑا دل گردے والا تھا جو سب کچھ برداشت کر رہا تھا۔ اگر کوئی جون شخص بھی ہو تا تو شاید اس کا ہارٹ فیل ہو چکا ہوتا۔
روحان کی طرف سے مطمئن ہو کر انسپکٹر چیانگ شواس کمرے میں آگیا جہاں بے ہوش چینی کو ہوش میں لانے کی کوشش کی جاری تھی لیکن ڈاکٹر اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکے اور وہ ہوش میں آئے بغیر ہی دم تو ڑ گیا۔
روحان کے ہوش میں آنے کے تھوڑی دیر بعد ڈاکٹرنے اسے انجکشن لگا دیا اور وہ سو گیا تھا۔
اس وقت اسپتال میں درجنوں پولیس والے موجود تھے سکیورٹی کے ان انتظامات سے مطمئن ہو کر انسپکٹر چیانگ شو پولیس اسٹیشن آکر اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔
O✩O
روحان کی آنکھ کھلی تو دن کے گیارہ بج رہے تھے۔ اس کاسر بو جھل ہو رہا تھا اور آنکھوں کے سامنے دھند سی پھیلی ہوئی تھی۔ وہ سر کو ہولے ہولے جھٹکنے لگا۔ اس کے ہونٹوں سے ہلکی ہلکی کرا ہیں سی خارج ہو رہی تھیں۔ اس نے ایک بار پھر آنکھیں کھول دیں۔ نظروں کے سامنے اس وقت بھی دھند پھیلی ہوئی تھی۔ کوئی چیز واضح نہیں تھی پھر یکا یک دھند میں لپٹا ہوا ایک چہرہ اس پر جھک گیا۔ اس چہرے کے نقش واضح نہیں تھے۔ روحان سوچ رہا تھا کہ وہ کہاں ہے اور اس پر جھکا ہوا دھندلا چہرہ کس کا ہے۔ وہ ایک بار پھر سر کو جھٹکے دینے لگا۔ اور پھر اسے سب کچھ یاد آتا چلا گیا۔ وہ چی فانگ اور اس کے ساتھی سے بچ کر ہوٹل او بیرائے کی طرف آگیا تھا جہاں رانا سے سامنا ہو گیا۔ رانا سے بچ کر نکلا تو انسپکٹر چیانگ شو کے ساتھ اس کے گھر کی طرف جاتے ہوئے مسلح چینی غنڈوں نے ان کی جیب روک لی تھی۔ اس نے جیپ سے چھلانگ لگا دی تھی اور جھاڑیوں میں چھپ گیا تھا اور پھر فضا زبردست فائرنگ سے گونج اٹھی تھی۔ اس وقت اسے اپنا دل سینے میں ڈوتا ہوا محسوس ہوا تھا۔ دماغ میں دھماکے سے ہونے لگے تھے۔ اسے اپنے چاروں طرف ہر چیز گھومتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔ اس نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کی تھی، لیکن اس کا ذہن تاریکی میں ڈوبتا چلا گیا تھا اور اب وہ اپنے آپ کو آرام دہ بستر پر پا رہا تھا۔ اسے یاد آرہا تھا کہ اس دوران میں ایک مرتبہ اس کے حواس بحال ہوئے تھے۔ اس وقت انسپکٹر چیانگ شو اس کے پاس موجود تھا اور پھر اسے اپنے بازو میں سوئی کی چھن محسوس ہوئی تھی اور اس کے بعد اس کا ذہن ایک بار پھر تاریکی میں ڈوبتا چلا گیا تھا اور اب اس کے چاروں طرف دھند کی چادر پھیلی ہوئی تھی۔ دھند میں لپٹا ہوا وہ چہرہ اب اس پر جھکا ہوا تھا۔
کا کے!۔۔۔ ایک مانوس اور پیار بھری آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔۔۔ اب کیسے ہو کا کے؟
چاچا۔۔۔ روحان کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ وہ سر کو ایک بار پھر زور زور سے جھٹکے دینے لگا۔
آنکھوں کے سامنے چھائی ہوئی دھند چھٹنے لگی اور اس نے اس چہرے کو پہچان لیا ۔ وہ شمشیر سنگھ تھا جو اس کے بیڈ کی پٹی پر بیٹھا ہوا تھا۔
چاچا۔۔۔ تم مجھے چھوڑ کر کہاں چلے گئے تھے ؟۔۔۔ وہ اٹھ کر شمشیر سنگھ سے لپٹ گیا۔
میں تجھے چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتا پتر۔۔۔ شمشیر سنگھ نے اسے سینے سے لگا کر بھینچ لیا۔ اس کی آواز گلو گرفتہ تھی اور آنکھوں میں آنسو تھے۔ ۔۔شکر ہے، تو مجھے مل گیا ورنہ میں رب کو کیا منہ دکھا تا ۔
وہ روحان کی پیشانی پر بوسے دینے لگا۔
اگلی قسط بہت جلد
مزید اقساط کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں
-
A Dance of Sparks–110–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–109–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–108–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–107–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–106–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–105–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

کالج کی ٹیچر

میراعاشق بڈھا

جنبی سے اندھیرے

بھائی نے پکڑا اور
