A Dance of Sparks–54–رقصِ آتش قسط نمبر

رقصِ آتش

رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے وہ ایک ایسی جگہ  پہنچ گیا  جہاں زندگی کی رنگینیاں اپنے عروج پر تھی۔  تھائی لینڈ جہاں کی رنگینیوں اور نائٹ لائف کے چرچے پوری دنیا میں دھوم مچاتے ہیں ۔وہاں زندگی کے رنگوں کے ساتھ اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔ اور لڑکیوں کے دل کی دھڑکن بن کے اُبھرا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

رقصِ آتش قسط نمبر- 54

لارڈبُدھانے بھائی چارے اور امن و آشتی کا درس دیا ہے لیکن  لوگ ان کی تعلیمات کو بھول گئے۔ شیطان کے جال میں آکر اچھائی کو بھول کر برائی کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں۔ سڑکوں پر  خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں اور عبادت گاہوں میں بھی  بے  گناہوں  کے خون کے چھینٹے اچھالے جا رہے ہیں۔۔۔ مہاراج بات کرتے رک گیا پھر روحان کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔ مجھے تمہاری  باتوں میں سچائی کی مہک محسوس ہو رہی ہے۔ مجھے تفصیل سے سب کچھ بتاؤ۔ وہ لوگ کون ہیں اور تمہیں کیوں قتل کرنا چاہتےہیں۔  اگر تم وانگ ونگ پائے کی نظروں میں بے گناہ ہوئے تو برائی کی بڑی سے بڑی قوت کا ہاتھ بھی تم تک نہیں پہنچ سکے گا۔ وہ تمہارے  سائے سے بھی ڈرنے لگیں گے۔

 روحان چند لمحے خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔اور پھر مہاراج کو شروع سے بتانے لگا کہ وہ کون ہے اور اس خوف ناک کہانی کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی تھی۔

(اب کہانی کچھ روحان کی زُبانی شروع کرتے ہیں۔)

جب سنگا پور میں رہنا مشکل ہو گیا تو چاچا شمشیر سنگھ بھیس بدل کر مجھے یہاں لے آیا۔ پہلے ہم کوالا لمپور آئے تھے۔ شوچائی ہماری تلاش میں وہاں بھی پہنچ گیا۔ ہم بال بال بچے تھے۔ اسی رات ہم چوری چھپے کوالا لمپور سے نکل آئے تھے اور آج رات ۔۔۔میں خاموش ہو گیا۔ چند لمحے اپنے سامنے بیٹھے ہوئے مہاراج وانگ ونگ پائے کو دیکھتا رہا پھر بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بولا۔۔۔آج رات میں گہری نیند سویا ہوا تھا کہ چاچا شمشیر سنگھ نے مجھے جھنجھوڑ کر جگا دیا۔ اس نے بتایا کہ رانا نے ہمارا سراغ لگالیا ہے اور ٹیلی فون پر دھمکی دی ہے کہ صبح دس بجے سے پہلے پہلے مجھے اس کے حوالے کر دیا جائے۔ بصورت دیگر وہ چاچا شمشیر  کو بھی ہلاک کر دے گا۔ چاچا شمشیر  نے ہوٹل کے ویٹر کو کچھ رقم دے کر ایک گاڑی کا انتظام کر لیا تھا۔ ہم چوری  چھپے ہوٹل سے فرار ہوئے تھے مگر انہیں پتا چل گیا اور ایک گاڑی ہمارے پیچھے لگ گئی۔ چاچا شمشیر کا خیال تھا کہ اس خانقاہ میں داخل ہو کر ہم ان سے بچ جائیں گے ۔ لیکن موت نے چاچا شمشیر سنگھ، کو جھپٹ لیا۔ وہ بہت اچھا آدمی تھا۔ میرے ڈیڈی سے کیا ہوا وعدہ نبھانے کے لیے اس نے اپنا سب کچھ چھوڑ دیا تھا۔ اپنے مذہب تک سے بغاوت کر ڈالی تھی۔ اس نے داڑھی اور کیس منڈوا دیے تھے۔ مجھے دشمنوں  سے بچانے کے لیے بالآخر اس نے اپنی جان بھی دے دی۔ اس نے میرے مرتے ہوئے باپ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ جب تک زندہ رہے گا، مجھ پر آنچ نہیں آنے دے گا۔ وہ واقعی مجھ پر زندگی کا سایہ بن کر رہا اور اب ۔۔۔ میری آواز گھٹ کر رہ گئی۔ آنکھوں سے آنسو بہہ  نکلے تھے اور پھر میں ہچکیوں سے رونے لگا۔

مہاراج وانگ ونگ پائے اپنی جگہ سے اٹھ کر میرے قریب آگیا اور میرے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔

 زندگی نام ہی نشیب و فراز کا ہے۔ اچھے برے وقت انسان پر آتے ہی رہتے ہیں۔ دشواریوں پر قابو پانا ہی حوصلہ مندی ہے۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ تم کم عمری میں ہی مشکلات کے بھنور میں پھنس گئے ہو اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ تم ایک حوصدا مند بچے ہو۔ نہیں۔ میں تمہیں بچہ نہیں کہوں گا۔ تم تو ایک بہادر اور دلیر نوجوان ہو۔ اب تم میری پناہ میں آگئے ہو۔ تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ دشمن کا سایہ بھی تمہارے قریب نہیں آسکے گا۔ میں تمہاری ان بانہوں میں فولاد بھر دوں گا۔

لیکن مہاراج۔۔۔  میں نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔۔۔ رانا بنکاک میں موجود ہے۔ اگر اس نے مجھے تلاش کر لیا تو؟

 نہیں۔ وہ اب تمہیں تلاش نہیں کر سکے گا۔۔۔  مہاراج نے جواب دیا ۔۔۔ وہ تمہیں اس وقت تک تلاش نہیں کر سکے گا جب تک میں نہیں چاہوں گا۔

کیا میں شمشیر  چاچا کو دیکھ سکتا ہوں مہاراج؟۔۔۔  میں نے کہا۔۔۔ اس کا یہاں کوئی نہیں ہے۔ اس کی آخری رسومات کون کرے گا۔

اس کا انتظام ہو جائے گا۔۔۔  مہاراج نے کہا۔۔۔ اب بہت ہو چکی ہے۔ پولیس نے شمشیر سنگھ کی لاش اسپتال بھجوادی  تھی۔ صبح میں تمہیں اسپتال لے جاؤں گا۔ آخر ی باردیکھ لینا اپنے چاچا کو ۔ اب تم سو جاؤ۔ صبح بات کریں گے۔

 وہاں سونے کے لیے فرش ہی تھا جس پر چادر بچھی ہوئی تھی ۔مہاراج وانگ ونگ تو اٹھ کر اس چبوترے پر لیٹ گیا جسے  میں نے دیکھتے ہی بیڈ تصور کر لیا تھا۔ میں فرش پر بچھی ہوئی چادر پر لیٹ کر تکیے کے لیے ایک موٹی سی کتاب اٹھا کر سر کے نیچے رکھی ، اور آنکھیں بند کر کے سونے کی کوشش کرنے لگا لیکن نیند میری آنکھوں  سے کوسوں دور تھی۔

راناا کا فون آنے کے بعد جب ہم ہوٹل سے نکلے تھے تواس وقت رات کا ڈیڑھ بجنے والا تھا اور اب مجھے اندازہ نہیں تھاکہ کیا  بجا ہوگا۔ کمرے میں نہ تو کوئی گھڑی تھی اور نہ ہی کھڑکی یا  روشن دان جس سے باہر کی فضا دیکھ کر وقت کا اندازہ لگایا جاسکتا۔ میں نے گردن گھما  کے مہاراج کی طرف دیکھا۔ وہ پتھر کے چبوترے پر لیٹتے ہی  سو گیا تھا۔ اس کے جھریوں بھرے چہرے پر طمانیت سی تھی۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ وہ بوڑھا شخص کس طرح اطمینان سے پتھر پر سو گیا تھا۔ مجھے نیند نہ آنے کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ فرش مجھے چھب رہا تھا۔

میں بڑے ناز و نعم میں پلا تھا۔ اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ ت مجھے ماں باپ کی تمامتر توجہ حاصل تھی۔ انہوں نے میری آسانی اور آرام کا ہر سامان مہیا کر رکھا تھا۔ میری ہر خواہش پوری کی  جاتی۔ مجھے ذرا سی تکلیف ہوتی تو وہ دنوں تڑپ اٹھتے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک مرتبہ گلی میں سائیکل چلاتے ہوئے میں گرا تھا۔ میرے بازو اور گھٹنوں میں رگڑ لگنے سے خون رسنے لگا تھا۔ مجھے حالانکہ زیادہ تکلیف نہیں تھی لیکن ممی  بدحواس تھیں۔ وہ مجھے فورا ہی ڈاکٹر کے پاس کے گئی تھیں۔ ڈاکٹر نے میری رگڑ کھائی ہوئی کھال پر لال دو الگا کر ممی کو تسلی دی تھی کہ معمولی بات ہے ایک  دو  دن میں ٹھیک ہو جائے گا اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس کے کئی روز بعد تک ممی اپنے ہاتھ سے میرا منہ ہاتھ دھلاتی اور اپنے ہاتھ سے مجھے کھانا کھلاتی رہی تھیں ۔

یہ  ماں باپ بھی عجیب ہوتے ہیں۔ اولاد کی معمولی سی تکلیف نہیں دیکھ سکتے۔ میرے ماں باپ نے میرے بڑے نازو نخرے اٹھائے تھے ۔اور اب میں ننگے فرش پر پڑا کروٹیں بدلتے ہوے سونے کی کوشش کر رہا تھا۔ مجھے نیند نہ آنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی  تھی کہ میرا دماغ اس وقت منتشر خیالات کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ اور کوئی بات بھی ڈھنگ سے نہیں سوچ پا رہا تھا۔

شمشیر سنگھ کا خیال مجھے سسکیاں بھرنے پر مجبور کر رہا تھا اور جب راناا اور شوچائی کا خیال آتا تو روح تک کانپ اٹھتی۔ میرے خیال میں وہ دنیا کے سفاک ترین انسان تھے۔ انہوں نے جس طرح میرے ماں باپ کو قتل کیا تھا، وہ منظر یاد کر کے میرا دل کانپ اٹھتا تھا۔ اور اس کے بعد تو وہ موت کے فرشتے کی طرح میرے پیچھے لگ گئے تھے۔ کتنے حملے ہوئے تھے مجھ پر کتنے بے گناہ مارے گئے تھے مگر میں ہر مرتبہ بچتا رہا تھا۔ شمشیر سنگھ واقعی مجھ پر زندگی کا سایہ بنا ہوا تھا اور اب وہ سایہ بھی ہٹ گیا تھا۔

شمشیر سنگھ مجھے سنگا پور سے بچا کر لے آیا تھا اور یہاں اس کے دوست اتم سنگھ نے اسے مہاراج وانگ ونگ پائے سے ملنے کو کہا تھا۔ اس کے خیال میں مہاراج واحد شخص تھا جو ہمیں راناا اور شوچائی  جیسے بھیڑیوں سے نجات دلا سکتا تھا۔ شمشیر  اپنی زندگی میں تو مہاراج تک رسائی حاصل نہیں کر سکا تھا لیکن اس کی موت نے مجھے مہاراج وانگ و نگ پائے کو سونپ دیا تھا۔ چاچا شمشیر سنگھ میرا ساتھ چھوڑ چکا تھا اور اب میں مہاراج و انگ و نگ پائے کے رحم و کرم پر تھا۔ یہ بوڑھا ابتدا ہی میں میرے لیے پراسرار ثابت ہوا تھا۔ اس کی عمر ستر کے لگ بھگ تھی۔ وہ تو خود اتنا کمزور سا لگ رہا تھا وہ شاید خود دوسروں کی مدد کا محتاج تھا۔ میری حفاظت کیا کر سکے گا لیکن وہ جس طرح پتھر کے چبوترے پر اطمینان سے سو رہا تھا اس پر مجھے بڑی حیرت ہو رہی تھی۔ میری آنکھوں میں جلن سی ہو رہی تھی۔ دماغ میں غبار سا بھرتا جا رہا تھا۔ میں نے آنکھیں بند کرلیں اور تمام خیالات کو ذہن سے جھٹک کر سونے کی کوشش کرنے لگا اور بالآخر وقت کو مجھ پر رحم آگیا اور میں نیند کی آغوش میں پہنچ گیا۔

مجھے یوں لگا جیسے کوئی میرے اوپر جھکا ہوا ہوکیونکہ  سانسیں میرے چہرے سے ٹکرا رہی تھی اور بڑی مسحور کن سی مہک میرے نتھنوں سے ٹکرا رہی تھی۔ میں نے آنکھیں کھول دیں اور اس چہرے کو غور سے دیکھنے لگا جو میرے اوپر جھکا ہوا تھا۔ نیند کا خمار آہستہ آہستہ چھٹنے لگا اور میں نے اس چہرے کو پہچان لیا۔ وہ پاتونگ تھی۔ بڑا حسین چہرہ تھا اس کا اور بڑی دل فریب مسکراہٹ تھی اس کے ہونٹوں پر۔ میں نے آنکھیں کھولیں تو وہ کسی قدر پیچھے ہٹ گئی۔

آہان چاؤ۔۔۔پاتونگ نے کہا

میں اس کی بات کا مطلب تو نہیں سمجھا لیکن جب سیدھے ہاتھ کو ایک مخصوص انداز میں حرکت دی تو میں سمجھ گیا کہ وہ مجھے ناشتے یا کھانے کو کہہ رہی ہے۔

ٹائم کیا ہوا ہے؟۔۔۔ میں نے کلائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔

گاؤ۔۔۔ پاتونگ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔

 عجیب عورت تھی۔ میں نے وقت پوچھا تھا اور وہ مجھے گانے کو کہہ رہی تھی۔ میں نے پھر کلائی کی طرف اشارہ کیا تو اس نے ایک بار پھر گاؤ ” کہا اور اس مرتبہ اس نے ایک ہاتھ کی پانچوں انگلیاں اور دوسرے ہاتھ کی چار انگلیاں میرے سامنے کردیں۔ میرے منہ سے بے اختیار گہرا سانس نکل گیا۔ وہ مجھے گانے کو نہیں کہ رہی تھی بلکہ وقت بتا رہی تھی۔ نو بجے تھے پھر اس نے مجھے ہاتھ سے پکڑ کر اٹھا دیا اور اس کمرے سے باہر لے گئی اور مختلف راہداریوں میں گھومتے ہوئے مجھے اس باتھ روم میں لے آئی جہاں پہلے میں غسل کر چکا تھا۔

ٹب بھرا ہوا تھا۔ اس نے اس خوشبو دار  سیال کے چند قطرے پانی میں ٹپکا دیے اور مجھے اشارہ کیا۔ اس مرتبہ اس کے سامنے کپڑے اتارتے ہوئے مجھے شرم سی محسوس ہوئی۔ میں اسے بازو سے پکڑ کر دروازے کے قریب لے گیا اور باہر دھکیل دیا دروازہ بند کرتے ہوئے مجھے اس کے ہلکے سے قہقہے کی آواز سنائی دی تھی۔ میں نے جسم پر ساری کی طرح لیٹی ہوئی چادر اتار کر ایک طرف ٹانگ دی اور ٹب میں گھس گیا۔ ٹھنڈے اور خوشبو دار پانی میں غسل سے میری ساری کسل مندمی دور ہو گئی۔ ٹب سے نکل کر میں نے تولیے سے جسم خشک کیا اور وہی چادر دھوتی کی طرح لپیٹ کر باہر آگیا۔ پاتونگ مجھے اپنے کمرے میں لے آئی اور میری وہ چادر تبدیل کردی۔ دوسری چادر پہلے جیسے مخصوص انداز میں لپیٹی گئی تھی۔

وہ مجھے ایک اور کمرے میں لے آئی۔ یہ بہت بڑا کمرا تھا جہاں تقریباً دو فٹ چوڑی لمبی لمبی لا تعداد میزیں بچھی ہوئی تھیں۔ میزوں کے دونوں طرف لکڑی کے بیچ رکھے ہوئے تھے۔ چند بھکشو مختلف جگہوں پر بیٹھے ناشتا کر رہے تھے۔ یہ اس واٹ (خانقاہ) کا ڈائنگ ہال تھا جہاں اس واٹ کے بھکشو کھانا کھاتے تھے۔ ان میزوں کی تعداد اور لمبائی دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ اس خانقاہ میں کتنے بھکشو ہوں گے۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

رومانوی مکمل کہانیاں

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کالج کی ٹیچر

کالج کی ٹیچر -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

میراعاشق بڈھا

میراعاشق بڈھا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

جنبی سے اندھیرے

جنبی سے اندھیرے -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

بھائی نے پکڑا اور

بھائی نے پکڑا اور -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کمسن نوکر پورا مرد

کمسن نوکر پورا مرد -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page