A Dance of Sparks–55–رقصِ آتش قسط نمبر

رقصِ آتش

رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے وہ ایک ایسی جگہ  پہنچ گیا  جہاں زندگی کی رنگینیاں اپنے عروج پر تھی۔  تھائی لینڈ جہاں کی رنگینیوں اور نائٹ لائف کے چرچے پوری دنیا میں دھوم مچاتے ہیں ۔وہاں زندگی کے رنگوں کے ساتھ اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔ اور لڑکیوں کے دل کی دھڑکن بن کے اُبھرا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

رقصِ آتش قسط نمبر- 55

پاتونگ نے مجھے ایک جگہ بٹھا دیا اور کچن سے میرے لیے ناشتا لیے آئی۔ دو تین چیزیں تھیں جو میری سمجھ میں نہیں آسکیں۔ میں نے سموسے جیسی ایک چیز اٹھا کر چکھی۔ اس کا ذائقہ بھی سموسے جیسا تھا۔ میں نے اس سموسے اور ایک پیالی چائے پر اکتفا کیا اور پاتونگ کی طرف دیکھتا ہوا اٹھ گیا۔

میرے لیے یہ بات باعث اطمینان تھی کہ یہ ڈائننگ ہال تہ خانے میں نہیں تھا بلکہ خانقاہ کی پچھلی طرف واقع تھا۔ اس کی عقبی کھڑکیاں غالباً کسی گلی میں کھلتی تھیں۔ پاتونگ بر تن کچن میں رکھنے گئی تو میں موقع سے فائدہ اٹھا کر ایک کھڑکی کے قریب جا کھڑا ہوا۔ اس طرف گلی میں چھوٹی دکانوں پر مشتمل تنگ سا بازار تھا۔ بیشتر دکانوں پر ایسی چیزیں نظر آرہی تھیں جو کسی مزار پر نذرانے کے طور پر چڑھائی جاسکتی ہیں یا تحائف کے طور پر لے جائی جاسکتی ہیں۔ بدھ کے چھوٹے بڑے مختلف مجسمے  ہر دکان میں بھرے ہوئے تھے۔

اس تنگ  سے بازار میں خاصا رش تھا۔ مجھے وہاں کھڑے ہوئے دو منٹ سے زیادہ نہیں ہوئے تھے کہ پاتونگ نے قریب آکر میرا ہاتھ پکڑ لیا اور مجھے ڈائننگ ہال سے باہر لے آئی۔ اس مرتبہ وہ مجھے اپنے کمرے میں لے جانے کے بجائے ایک اور کمرے میں لے آئی اور یہاں میں مہاراج وانگ ونگ پائے کے ساتھ ایک پولیس آفیسر کو دیکھ کر چونکے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔ ایک لمحے کو تو میرے ذہن میں یہ خیال بھی آیا تھا کہ یہ بوڑھا کہیں مجھے پولیس کے حوالے تو نہیں کرنا چاہتا لیکن میرا یہ خدشہ بے بنیاد نکلا ۔  پاتونگ مجھے اس کمرے میں چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ مہاراج نے مجھے ایک کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور پولیس آفیسر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔

یہ انسپکٹر پھوکٹ ہے۔ قتل کیس کا انچارج۔ یہ شوچائی اور رانا  کے بارے میں جانا چاہتا ہے۔ وہ کون ہیں اور تمہیں کیوں قتل کرنا چاہتے ہیں۔ سب کچھ تفصیل سے بتاؤ۔

مجھے ایک بار پھر اپنے والدین کے قتل سے اب تک کے واقعات تفصیل سے بیان کرنا پڑے۔ میں نے سنگا پور کے انسپکٹر چیانگ شو کے بارے میں بھی بتایا کہ سنگا پور میں وہ اس کیس کو ڈیل کر رہا تھا۔

ہم لوگوں میں گفتگو انگریزی میں ہو رہی تھی۔ انسپکٹر پھوکٹ کی انگریزی زیادہ اچھی نہیں تھی۔ وہ اٹک اٹک کر بول رہا تھا۔ بیچ میں تھائی زبان کے الفاظ بھی بول جاتا تھا جس کی وضاحت مہاراج کو کرنی پڑتی۔

ہمارا یہ میٹنگ سیشن تقریباً دو گھنٹوں تک جاری رہا پھر مجھے بتایا گیا کہ اب مجھے اسپتال جانا ہوگا تاکہ میں آخری مرتبہ شمشیر  سنگھ کو دیکھ سکوں۔ مہاراج وانگ ونگ پائے نے دروازے کی طرف رخ کر کے کسی کو آواز دی۔ فوراً ایک بھکشو دروازہ کھول کر اندر آگیا اور دونوں ہاتھ باندھ کر اس کے سامنے جھک گیا۔ مہاراج نے اس سے کچھ کہا اور وہ باہر نکل گیا۔ تقریباً دس منٹ بعد انسپکٹر پھوکٹ تو خانقاہ کے سامنے والے دروازے سے چلا گیا اور مہاراج مجھے لے کر راہداریوں میں گھومتا ہوا سائیڈ اسٹریٹ کے ایک دروازے سے باہر آگیا۔ گلی میں ایک اسٹیشن و یگن کھڑی تھی۔ ایک بھکشو نے جلدی سے دروازہ کھول دیا اور ہم دونوں اندر بیٹھ گئے۔ وین کے شیشے تاریک تھے۔ نہ تو اندر سے باہر دیکھا جاسکتا تھا اور نہ باہر سے اندر ڈرائیور اور پچھلی سیٹوں کے درمیان بھی سیاہ رنگ کا ایک پردہ پڑا ہوا تھا۔

ہمارے بیٹھنے کے فوراہی بعد اسٹیشن ویگن حرکت میں آئی۔ اسٹیشن و یگن چند منٹ بعد ہی سویا پا روڈ پر واقع ایک اسپتال کی عمارت کے سامنے رک گئی۔ ہم جب ویگن سے اترے تو اسپتال کے مرکزی دروازے پر انسپکٹر پھوکٹ اپنے چند ماتحتوں کے ساتھ موجود تھا۔ ہر پولیس والے کے بیلٹ میں ریوالور لٹکا ہوا تھا

اور وہ سب بہت محتاط نظر آرہے تھے۔ ہم انسپکٹر کے ساتھ اسپتال کے  گیٹ میں داخل ہو گئے۔ راستے میں ملنے والا ہر شخص مہاراج وانگ ونگ پائے کو دیکھ کر جھک رہا تھا۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ لوگوں کے دلوں میں مہاراج کا کتنا احترام ہے۔

ہم اسپتال کی مختلف راہداریوں میں چلتے ہوئے مردہ خانے میں آگئے۔ بہت وسیع کمرا تھا۔ اندر داخل ہوتے ہی مجھے یوں لگا جیسے برف خانے میں آگیا ہوں۔ کمرے میں ہلکی سی دھند بھی تھی ، کمرے کی دیواروں کے ساتھ میز کی درازوں کی طرح  بڑے بڑے کیبنٹ بنے ہوئے تھے۔ ہر دراز پر نمبر بھی لکھا ہوا تھا۔ کمرے میں پہلے سے موجود ایک آدمی نے انسپکٹر پھوکٹ کا اشارہ پا کر ایک دراز کو باہر کھینچ لیا۔ مہاراج نے مجھے اشارہ کیا تو میں دراز کے قریب آگیا اور پھر چاچا شمشیر سنگھ کا چہرہ دیکھ کر میرے ہونٹوں سے کراہ سی خارج ہو گئی۔ میں اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکا تھا۔ میرا محسن میرا مربی جس نے قدم قدم پر مجھے سہارا دیا تھا میری حفاظت کی تھی۔ وہ میرے سامنے مردہ پڑا تھا۔ اس کا چہرہ بالکل سفید ہو رہا تھا۔ ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ تھی جیسے کہہ رہا ہو

 دیکھا۔ میں نے اپنی زندگی میں کسی دشمن کو تمہارے قریب نہیں آنے دیا۔ میں نے تمہارے باپ سے کیا ہوا وعدہ پورا کر دیا۔ رب را کھا۔

 میں سسکیاں بھرنے لگا۔ میری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے۔ یہ آنسو اس شخص کو خراج عقیدت پیش کر رہے تھے جس نے مجھے اپنے دشمنوں  سے بچا نے کے لیے اپنے دھرم سے بھی بغاوت کردی تھی۔

مہاراج نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے وہاں سے پیچھے ہٹا لیا۔ اٹینڈنٹ نے در از بند کردی اور ہم مردہ خانے سے باہر آگئے۔ کچھ جذبات کی شدت اور کچھ کمرے کی یخ بستگی کی وجہ سے میں اب بھی ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔ انسپکٹر پھوکٹ ہمیں لے کر ایک دفتر نما کمرے میں آگیا۔

شمشیر سنگھ اور تم غیر قانونی طور پر اس ملک میں داخل ہوئے تھے۔ ۔۔ انسپکٹر پھوکٹ میری طرف دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔ شمشیر سنگھ تو اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ اور تمہیں مہاراج نے اپنی پناہ میں لے لیا ہے لیکن تم اس بات کو ذہن نشین رکھو گے کہ لا اینڈ آرڈر کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرو گے۔ ہم اپنی تفتیش جاری رکھیں گے اور شمشیر سنگھ کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے اور۔۔۔ وہ چند لمحوں کو خاموش ہوا پھر بات جاری رکھتے ہوئے بولا ۔۔۔ شمشیر سنگھ سکھ تھا۔ یہاں سکھ بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ میں نے اس کی آخری رسومات کے لیے ان کی ویلفیئر سوسائٹی سے رابطہ کیا ہے۔  لیکن تم نے بتایا تھا کہ شمشیر سنگھ کا کوئی دوست بھی یہاں ہے۔ اس کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہو؟

 اس کا نام اتم سنگھ ہے۔۔۔ میں نے جواب دیا ۔۔۔ اس کی ٹیلرنگ اور ریڈی میڈ گارمنٹس کی بہت بڑی دکان ہے لیکن میں دکان کا پتا نہیں بتا سکوں گا۔

پتہ  بتانے کی ضرورت نہیں۔ میں سمجھ گیا۔ اتم سنگھ کو شہر کا شخص جانتا ہے جو اچھے کپڑے پہننا چاہتا ہے۔ ۔۔انسپکٹر پھوکٹ نے کہا اور پھر مہاراج کی طرف مڑ گیا ۔۔۔ آپ کو جو زحمت ہوئی اس کے لیے معذرت چاہتا ہوں مہاراج۔

 وہ مہاراج کے سامنے جھک گیا۔

ہم  انسپکٹر کے ساتھ اسپتال سے باہر آگئے اور اسٹیشن ویگن میں بیٹھ گئے ،  اورانسپکٹر پھوکٹ  اس کے ماتحت گیٹ کے پاس رک گئے تھے۔ اسٹیشن ویگن حرکت میں آگئی۔

خانقاہ سے اسپتال جانے میں صرف چند منٹ لگے تھے لیکن واپسی پر وین تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک چلتی رہی۔ میں نے ایک دو مرتبہ الجھی ہوئی نظروں سے مہاراج کی طرف دیکھا بھی تھا اور مہاراج نے ہر مرتبہ صرف مسکرانے پر ہی اکتفا کیا تھا اور بالآخر انٹیشن وین ایک جگہ رک گئی۔ میرا خیال تھا کہ مہاراج دروازه کھول کر نیچے اترے گا لیکن وہ اطمینان سے اپنی جگہ پر بیٹھا رہا۔ دس منٹ گزر گئے۔

میں کچھ بے چینی ہی محسوس کرنے لگا اور پھر کسی اور گاڑی کے رکنے کی آواز سنائی دی۔ چند سیکنڈ بعد اسٹیشن وین کا دروازہ کھلا۔ سامنے تین چار بھکشو کھڑے تھے۔ وہ سب مہاراج کو دیکھتے ہی جھک گئے۔ مہاراج نے تیز لہجے میں ان سے کچھ کہا اور پھر ایک بھکشو نے آگے بڑھ کر مجھے بازو سے پکڑا اور ویگن سے نیچے اتار لیا۔ چاروں طرف ویرا نہ تھا۔ دور دور تک کوئی آبادی تو کیا، کسی ذی روح کا نام ونشان تک نظر نہیں آرہا تھا۔ سڑک کی دوسری طرف بھی ایک چھوٹی بند وین کھڑی تھی۔ اس کی کھڑکیوں کے شیشے بھی سیاہ تھے۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ وین کے پچھلے حصے میں کوئی بیٹا ہوا تھا یا نہیں لیکن اسٹیئرنگ کے سامنے ایک خوف ناک شکل والا آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے جسم پر بھی بھکشوؤں جیسا گیروے رنگ کا لباس تھا۔ جن بھکشوؤں نے مجھے اسٹیشن ویگن سے اتارا تھا ان میں سے دو کی شکلیں تو بہت ہی خوف ناک تھیں۔ ان سب کے سر گنجے تھے۔ لگتا تھا جیسے کچھ دیر پہلے ہی سروں پر استرا پھروا کر آئے ہوں۔ دھوپ میں ان کے سرچمک رہے تھے۔یہ صورت حال دیکھ کر میرے دل پر خوف سا طاری ہونے لگا۔

میں خاموش کھڑا متوحش نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ مجھے ان بھکشوؤں کے حوالے کرتے ہوئے مہاراج وانگ ونگ پائے نے مجھے کچھ نہیں کہا تھا۔ ایک بھکشو اب بھی وین کے دروازے کے سامنے کھڑا بڑے مودبانہ انداز میں اس سے باتیں کر رہا تھا پھر وہ بھی پیچھے ہٹ گیا اور اسٹیشن ویگن کا دروازہ بند کر دیا۔ اسٹیشن وین حرکت میں آگئی اور یوٹرن لیتی ہوئی واپس چلی گئی ۔

ایک بھکشو نے ابھی تک مجھے بازو سے پکڑ رکھا تھا۔ اسے شاید خدشہ تھا کہ میں کہیں بھاگ نہ جاؤں لیکن میرا بھاگنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اس ویرانے میں کہاں جا سکتا تھا۔ دوسرے بھکشو نے وین کا پچھلا دروازہ کھول دیا اور مجھے آگے دھکیلتے ہوئے وہ سب وین میں بیٹھ گئے۔ وین حرکت میں آگئی اور یوٹرن لیتی ہوئی مخالف سمت میں روانہ ہو گئی۔

میرا خیال تھا ، ہم اس وقت شہر سے میلوں دور تھے اور کسی آبادی سے ہمارا فاصلہ مزید بڑھتا جا رہا تھا۔ میرے دل پر طاری خوف بڑھتا جا رہا تھا۔ میرے دل میں طرح طرح کے خیالات آرہے تھے۔ مہاراج نے مجھے ان کے حوالے کیوں کیا تھا اور یہ لوگ مجھے کہاں لے جا رہے تھے۔ ایک انجانا سا خوف اور وسوسے بڑھ رہے تھے لیکن پھر میں نے ان منفی خیالات کو ذہن سے جھٹک دیا۔ مہاراج وانگ ونگ پائے میرے ساتھ دھوکا نہیں کر سکتا۔ اس نے تو مجھے دشمنوں سے بچانے کا وعدہ کیا تھا۔ مجھے کسی دشمن کے حوالے کیسے کر سکتا تھا۔

وین تقریباً آدھا گھنٹا اسی سڑک پر چلتی رہی۔ اس دوران میں کسی گاڑی کی آواز سنائی نہیں دی تھی اور پھر وین دائیں طرف مڑگئی۔ یہ غالباًکچھی یا پتھریلی سڑک تھی۔ بہت بری طرح سے جھٹکے لگ رہے تھے۔ میرے سامنے والی سیٹ پر بیٹھے ہوئے دونوں بھکشو غالباً میرا دل بہلانے کے لیے ہنس ہنس کر مجھ سے باتیں کر رہے تھے لیکن  ہنسنے  سے ان کے چہرے کچھ اور خوف ناک ہو رہے تھے۔ ان کی کوئی بات میرے پلے نہیں پڑ ری تھی اور میں خاموش بیٹا سہمی ہوئی نظروں سے باری باری ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ بالآخر وین ایک جگہ رک گئی۔ ایک بھکشو نے مجھے بازو سے پکڑ کر نیچے اتارا۔ میرا خیال تھا کہ وہ پہلے کی طرح میرا بازو پکڑے رکھے گا لیکن اس نے مجھے چھوڑ دیا تھا۔ میں ان کے قریب کھڑا متوحش نظروں سے چاروں طرف دیکھنے لگا۔ جس جگہ وین رکی تھی وہ ایک چھوٹا سا میدان تھا اور اس سے تقریباً سو گز آگے ایک ٹیلے پر ایک خانقاہ نظر آرہی تھی۔ عمارت کی حالت دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ وہ عرصے سے ویران پڑی تھی۔ چاروں طرف تاحد نگاہ ویرانہ تھا۔ تیز ہوا سے جھاڑیوں کی سرسراہٹ کی آواز ایک عجیب سا تاثر پیدا کر رہی تھی۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
سمگلر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more
سمگلر

Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page