A Dance of Sparks–59–رقصِ آتش قسط نمبر

رقصِ آتش

رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے وہ ایک ایسی جگہ  پہنچ گیا  جہاں زندگی کی رنگینیاں اپنے عروج پر تھی۔  تھائی لینڈ جہاں کی رنگینیوں اور نائٹ لائف کے چرچے پوری دنیا میں دھوم مچاتے ہیں ۔وہاں زندگی کے رنگوں کے ساتھ اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔ اور لڑکیوں کے دل کی دھڑکن بن کے اُبھرا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

رقصِ آتش قسط نمبر- 59

جمنازیم میں شام چھ بجے سے رات دس بجے تک بڑا ہجوم رہتا۔ لگتا تھا جیسے شہر کے سارے نوجوان یہیں پر تربیت حاصل کرنا چاہتے ہوں اور یہ شاید مہاراج وانگ ونگ پائے کے نام کا اثر تھا۔ یہ شہر کا سب سے بڑا جمنازیم تھا۔ سیکڑوں ایسی مشینیں تھیں جن پر مختلف قسم کی ایکسر سائز کی جاتی تھیں اور نوجوانوں کو اپنی باری کے لیے دیر تک انتظار کرنا پڑتا تھا۔

ماسٹر ہو چن جمنازیم بند ہونے کے بعد مجھے پکڑ کر لے آتا اور کم سے کم ایک گھنٹے تک پنچنگ اور ککنگ کی پریکٹس کرواتا۔ ہوا میں معلق وزنی بیگ پر پنچنگ کرتے کرتے میرا جسم پسینے میں شرابور ہو جاتا۔ بازو شل ہو جاتے اور قدم لڑکھڑانے لگتے۔

پنچنگ  کی ٹریننگ کا سلسلہ قدرے مختلف اور بڑا کٹھن تھا۔ بیگ پر تین مختلف جگہوں پر دائرے بنے ہوئے تھے۔ مجھے ان دائروں پر پنچ مارنے تھے اور اپنی جگہ سے ہلنا بھی نہیں تھا۔ فرش پر بھی نشان لگے ہوئے تھے، اور مجھے اپنے پیر ان نشانات کی حدود میں ہی رکھنے  تھے۔ میں مکا مارتا کہیں تھا اور لگتا کہیں تھا اور اپنی جگہ سے بھی ہل جاتا تھا۔ میری پنچنگ کی یہ پریکٹس دراصل ایکوریٹ نشانے کے لیے ہی ہو رہی تھی۔

اس ٹریننگ میں، میں بری طرح تھک جاتا تھا اور جب میں سونے کے لیے لیٹتا تو فورا ہی آنکھیں بند ہو جاتیں۔ صبح پانچ بجے پھر جگا دیا جاتا۔

پھی پھی بھی ٹھیک ہو گئی تھی اور اس نے بھی کام شروع کر دیا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ ماسٹر پھو کے آدمی ان لوگوں کو تلاش کر رہے ہیں جنہوں نے ویرانے والی خانقاہ میں  ہم پر حملہ کیا تھا،  لیکن ابھی تک ان کا کچھ پتا نہیں چلا تھا۔ یہ تو بہرحال طے شدہ بات تھی کہ وہ حملہ مجھے ختم کرنے کے لیے کیا گیا تھا،  اور مہاراج وانگ ونگ پائے بہت ناراض تھا کہ وہ لوگ اب تک پکڑے کیوں نہیں گئےتھے۔

ویسے تو مجھے کوئی بھی لباس پہننے کی اجازت تھی لیکن ٹریننگ کے دوران میں نیکر پہنتا تھا اور جسم کے بالائی حصے پر کوئی کپڑا نہیں ہوتا تھا حالانکہ مجھے بنیان پہننے کی اجازت بھی نہیں ہوتی تھی۔ میرے سر پر اب بھی روزانہ باقاعدگی سے اُسترا پھیرا جاتا تھا اور بھویں بھی ہر چند روز بعد صاف کر دی جاتی تھیں۔ ٹریننگ میں شامل میرے ہم عمر لڑ کے بھی گنجے ہی تھے۔ یہ تو مجھے بعد میں بتایا گیا کہ ان گنجے لڑکوں کا تعلق کسی نہ کسی خانقاہ سے تھا جنہیں موئے تھائی کی ٹریننگ کے لیے یہاں بھیجا جاتا تھا۔

ایک رات کھانے کے بعد میں ٹہلتا  ہوا اسٹیڈیم والے حصے کی  طرف نکل گیا۔ اسٹیڈیم میں کسی جگہ  صرف ایک بتی  جل رہی تھی۔ روشنی صرف اس حصے میں تھی،  جبکہ باقی اسٹیڈیم تاریکی میں  ڈوبا ہوا تھا۔ اس اسٹیڈیم میں آمدو رفت کے لیے تین  گیٹ تھے۔ کوئی بھی گیٹ سات آٹھ فٹ سے زیادہ چوڑا نہیں تھا۔ ہرگیٹ  کے اندر دائیں بائیں چھوٹے چھوٹے کمرے بنے ہوئے تھے۔ جو  ڈریسنگ روم کہلاتے تھے۔

میں ایک گیٹ میں داخل ہو کر اسٹیڈیم کے وسط میں بنے ہوئے لکڑی کے تختوں کے چبوترے پر پہنچ گیا۔ چبوترا تین فٹ  اونچا تھا اور اس کے چاروں کناروں پر لکڑی کے پول تھے جن کے درمیان موٹے موٹے رسے بندھے ہوئے تھے۔ میں اس رنگ اور اسٹیڈیم کی سیٹوں کو دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ ایک دن میں بھی  یہاں کسی حریف سے مقابلہ کروں گا۔ ٹریننگ حاصل کرتے ہوئے اب  میرے دل میں بھی خواہش مچلتی تھی کہ میں موئے تھائی کا ماسٹربنوں۔

میں اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا کہ سامنے والے گیٹ کے اندر کی طرف ایک سائے کو متحرک دیکھ کر چونک گیا۔ اس طرف تاریکی تھی۔ میرا خیال تھا کہ وہ کارکنوں میں سے کوئی ہو گا لیکن بعد میں  مجھے اپنا یہ خیال بدلنا پڑا ۔ وہ یہاں کا آدمی ہر گز نہیں ہو سکتا تھا،  کیونکہ میں نے جیسے ہی اس کی طرف دیکھا وہ تاریکی میں چھپ گیا ۔

میں دل میں ہلکا سا خوف محسوس کرنے لگا۔ میرے ذہن میں اچانک ہی یہ خیال ابھر آیا کہ وہ رانا یا شوچائی کا کوئی آدمی ہو سکتا ہے۔ مجھے یقین تھا کہ وہ لوگ اب بھی میری تاک میں ہوں گے اور موقع  ملتے ہی حملہ کرنے کی کوشش کریں گے۔

 میں جس طرف جانا چاہتا تھا اس طرف بھی ایک گیٹ تھا،  لیکن میں ابھی چند قدم ہی آگے بڑھا تھا کہ وہ آدمی تاریکی سے نکل  کر سامنے آگیا۔ جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ اس وقت اسٹیڈیم  میں صرف ایک ہی بتی جل رہی تھی اور اس کی بہت مدہم   روشنی یہاں تک پہنچ رہی تھی۔ وہ شخص اب رنگ کے دوسری  طرف پہنچ گیا تھا۔ مدھم سی روشنی میں اس کے سفید دانت چک رہے تھے اور چہرہ بڑا خوف ناک لگ رہا تھا۔ وہ رنگ کے دوسری طرف گھومتا ہوا میری طرف آرہا تھا اور میں اپنے آپ کو اس نے دور رکھنے کے لیے رنگ کے ساتھ گھوم رہا تھا۔ اس نے مسلسل میری طرف بڑھتے ہوئے ایک جملہ کہا تو میں  کانپ اٹھا۔ اس کا مطلب تھا کہ یہاں اس سے  مجھے کوئی نہیں بچاسکے  گا۔ اُس کی بات کسی حد تک درست تھی۔ اگر میں حلق پھاڑ کر چیخنا بھی شروع کر دیتا تو شاید میری آواز اسٹیڈیم کے باہر کسی کے  کانوں تک نہ پہنچ سکتی۔ ویسے میں اس شخص کی ہمت پر داد دیئےبنا  بھی نہیں رہ سکا تھا۔ مہاراج وانگ ونگ پائے کا یہ جمنازیم شیر کی کچھا ر تھا، اور وہ شخص اس کچھار میں گھس آیا تھا۔ ہو سکتا ہے وہ کسی طرح چھپ کر اندر رہ گیا ہو لیکن اس کا یہاں سے بچ نکلنا آسان نہیں ہوگا۔

اُس شخص نے کالے رنگ کی پتلون اور سفید ٹی شرٹ پہن رکھی تھی،  اور اس سفید ٹی شرٹ کی وجہ سے ہی وہ میری نظروں میں تھا ، اور پھر اچانک ہی وہ دوڑ کر دوسری طرف آگیا۔ اب چبوترے کے ایک سرے پر وہ تھا اور دوسرے پر میں۔ اس کے ہاتھ میں چاقو دیکھ کر میں کانپ اٹھا اور پھر دوسرے ہی لمحے میں چیختے  ہوئے تماشائیوں کی نشستوں والی سیڑھیوں کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ سیڑھیاں لکڑی کے تختوں کی تھیں۔ میرے دوڑنے سے دھب دب کی آوازیں پیدا ہو رہی تھیں۔ وہ شخص بھی چیختا ہوا میرے پیچھے دوڑا۔ میں سیڑھیوں پر دوڑتے ہوئے حلق پھاڑ پھاڑ کر چیخ رہا تھا تاکہ کوئی تو میری آواز سن سکے۔

آخری سیڑھی پر پہنچ کر میں نے دوسری طرف جھانکا۔ اس طرف تقریباً پچاس فٹ نیچے اسٹیڈیم کے پچھلی طرف والی گلی تھی اور انفاق سے اس وقت گلی سنسان پڑی تھی لیکن میں چیختا رہا کہ شاید کوئی میری آواز سن لے وہ شخص مجھ سے پانچ چھ سیڑھیاں نیچے رک گیا اور میری طرف دیکھتے ہوئے دانت نکوسنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی وہ ایک ایک سیڑھی کر کے اوپر آتا رہا۔ میں نے چند لمحے اس کی طرف دیکھا اور پھر بیرونی منڈیر کے ساتھ ساتھ اس تختے پر بھاگنے لگا۔ بیرونی منڈیر تین فٹ سے زیادہ اونچی نہیں تھی اور مجھے یہ بھی ڈر تھا کہ میں کہیں باہر کی طرف نہ گر جاؤں۔

وہ شخص مجھ سے تین سیڑھیاں نیچے میرے متوازی دوڑ رہا تھا اور پھر مجھ سے ذرا آگے نکل کر وہ بھی اوپر آگیا۔ میں نے رک کر ایک لمحے کو اس کی طرف دیکھا اور پھر دوڑتا ہوا سیڑھیاں اترنے لگا۔ وہ شخص بھی میرے پیچھے تھا۔ جب میں نے محسوس کیا کہ وہ میرے سر پر پہنچ چکا ہے تو میں اچانک ہی نیچے بیٹھ گیا اور وہ شخص جیسے ہی قریب پہنچا، میں نے بڑی پھرتی سے ایک ٹانگ آگے پھیلا دی۔ وہ شخص میری ٹانگ میں الجھا۔ اس نے سنبھلنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکا اور سیڑھیوں پر لڑھکتا چلا گیا۔

میں موقع پاکر دوسری طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ وہ شخص کئی پڑھیاں نیچے جا کر سنبھلا تھا لیکن اسے غالباً اچھی خاصی چوٹیں لگی تھیں اور اب چاقو بھی اس کے ہاتھ میں نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ سیڑھیوں پر اس گیٹ کی طرف دوڑتا چلا گیا جہاں سے میں اندر داخل ہوا تھا اور اب وہ شخص میرا راستہ کاٹنے کی کوشش کر رہا تھا ،لیکن میں اس سے پہلے وہاں پہنچ گیا اور گیٹ کھول کر باہر نکل آیا ۔

باہر آتے ہی مجھے پتا چل گیا کہ اس شخص میں اتنی ہمت کیسے پیدا ہوگئی تھی کہ وہ اکیلا شیروں کی کچھار میں گھس آیا تھا۔ وہ اکیلا نہیں تھا۔ اس کے نصف درجن ساتھی اور تھے اور یہاں معرکہ گرم تھا۔ مجھے اپنے آدمیوں میں ماسٹر ہو چن بھی نظر آگیا جو ایک حریف سے بھڑا ہوا تھا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس نے اپنے حریف کے سر پر زور دار  کک لگائی۔ وہ شخص الٹ کر گرا۔ اس کا سردیوار سے ٹکرایا اور وہ چیختا ہوا ڈھیر ہو گیا۔

ماسٹر ہو چن نے مجھے دیکھ لیا تھا۔ وہ میری طرف دوڑا اور میرا ہاتھ پکڑ کر جمنازیم والے حصے کی طرف دوڑتا چلا گیا۔ مجھے ایک کمرے میں بند کر کے وہ واپس دوڑ گیا اور پھر میرے کمرے کا دروازہ تقریباً ایک گھنٹے بعد کھلا تھا۔ جمنازیم میں پولیس بھری ہوئی تھی۔ حملہ آوروں میں سے ایک آدمی مارا گیا تھا۔ اس کی گردن ٹوٹ گئی تھی اور ایک زخمی حالت میں پکڑا گیا تھا۔ یہ وہی آدمی تھا جس نے مجھے اسٹیڈیم میں گھیرنے کی کوشش کی تھی۔

جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا اس وقت ماسٹر پھو جمنازیم میں موجود نہیں تھا۔ سارا معاملہ ماسٹر ہو چن نے سنبھالا تھا۔ پولیس اپنی کارروائی میں مصروف تھی،  اور ماسٹر ہوچن اس زخمی کو ایک کمرے میں لے گیا تھا،  اس کے ساتھ دو شاگرد اور بھی تھے،  لیکن ان میں سے کسی کو ہاتھ پیر ہلانے کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی۔ وہ زخمی خود ہی فر فر بولنے لگا تھا۔

اس کا نام پھوکیٹ تھا اور وہ بازار کا تھرڈ ریٹ غنڈا تھا اور بلیک ٹائیگر نامی ایک بڑے غنڈے کے لیے کام کر رہا تھا۔ بلیک ٹائیگر نے اس کی خدمات صرف دو روز پہلے حاصل کی تھیں اور دیں ہزار بھات پر معاملہ طے ہوا تھا۔ اس کے ساتھ پانچ آدمی اور تھے۔ وہ لوگ با قاعدہ منصوبہ بنا کر یہاں آئے تھے۔ ان کی پلاننگ یہ تھی کہ مجھے اغوا کرنے کی کوشش کی جائے اور اگر اس کوشش میں کامیاب نہ ہو سکیں تو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ وہ لوگ دو دن سے جمنازیم میں آرہے تھے اور آج انہیں موقع مل گیا تھا۔ ان کے پاس چا قو اور خنجر وغیرہ تھے۔ پروگرام یہ تھا کہ پھوکیٹ مجھے گھیرنے کی کوشش کرے گا اور اگر کسی نے مداخلت کی تو اس کے ساتھی مزاحمت کریں گے۔ اتفاق سے میں گھومتا ہوا اسٹیڈیم میں آگیا تھا اور پھو کیٹ میرے پیچھے لگ گیا تھا جبکہ اس کے ساتھی اسٹیڈیم کے باہر جمنازیم کے دوسرے حصوں میں موجود تھے۔

 اس وقت میرا خیال تھا کہ میری چیخوں کی آواز کوئی نہیں سنے گا لیکن اسٹیڈیم کے باہر میری چیخیں سن لی گئی تھیں۔ ماسٹر ہو چن فورا ہی حرکت میں آگیا تھا۔ اسے یہ اندازہ نہیں ہو سکا تھا کہ میں کہاں پر ہوں۔ دو تین آدمی اِدھر اُدھر دوڑا دیے تھے اور پھر پھو کیٹ کے آدمیوں سے تصادم ہو گیا تھا۔ پھو کیٹ اور اس کے ساتھیوں کا خیال تھا کہ وہ لوگ مجھے وہاں سے لے جانے یا موت کے گھاٹ اتارنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اگر میں نہ چیختا تو شاید وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے لیکن میری چیخوں نے بازی پلٹ دی تھی۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

رومانوی مکمل کہانیاں

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کالج کی ٹیچر

کالج کی ٹیچر -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

میراعاشق بڈھا

میراعاشق بڈھا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

جنبی سے اندھیرے

جنبی سے اندھیرے -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

بھائی نے پکڑا اور

بھائی نے پکڑا اور -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کمسن نوکر پورا مرد

کمسن نوکر پورا مرد -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page