Divorced Girl -15- طلاق یافتہ لڑکی

طلاق یافتہ لڑکی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی مکمل  کم اقساط کی بہترین کہانی ۔۔طلاق یافتہ لڑکی۔۔  رومانس اور سسپنس کی فینٹیسی،  جنس کے کھیل اور جنسی جذبات کی عکاسی کرتی تحریر۔ ایک ایسی لڑکی کی کہانی جو کہ شادی شدہ کنواری تھی۔یعنی شادی کے بعد بھی کنواری ہی رہی ، آخر کیوں؟۔ اور جب اُس کوطلاق ہوئی تو  اُس کواپنی محبت ملی، اور محبت کے ساتھ جب سیکس ہوا  تو وہ اپنی لمٹ ہی کراس کرگئی ، اور ڈاکٹر کے بھی آگے لیٹ گئی۔ لیکن  اُس کی بہن اُس سے سبقت لے گئی اور وہ تڑپتی رہی اور سہتی رہی ۔ اُس کی محبت اور بہن اُس کے سامنے جنسی کھیل  کھیلتے رہے اور اُس کو تڑپاتے رہے۔ تو چلو چلتے ہیں کہانی کی طرف۔ کہانی کے روایت کے مطابق نام مقام چینج ہے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Divorced Girl -15- طلاق یافتہ لڑکی

پھر مائرہ نے باجی کے گرد لپٹا ھوا دپٹہ ایک ھاتھ سے گھما کر انکے ریشمی بدن سے الگ کر دیا اور باجی کے ننگے جسم کے ھر ایک حصے کو اپنے ھاتھ سے سہلانے لگی باجی کی چھاتیو‌ں کے نیچے ھاتھ رکھ کر انکو اوپر کی طرف جھٹکا دینے لگی.. جیسے ھی باجی کے مومے دو تین جھٹکے کھاتے وہ انکے مومو کو حسرت سے دیکھتی۔

“میری چسٹ باجی کی طرح کیسے ھو گی” مائرہ باجی کے مومے ھاتھ میں پکرے ھوے اپنے مومو کی طرف دیکھتے ھوے بولا… میں اسکی بات سنی انسنی کر کے باجی کی قمیز انکی گردن پر ڈالنے لگا اور مائرہ نے بھی یہ بات محسوس کرلی تھی کہ میں ابھی بھی پوری طرح اس کی طرف مایل نھی ھوا… وہ غصے سے میرے ساتھ باجی کو کپرے پھنانے لگی اور چپ چاپ کمرے سے باھر نکل گئ۔

مائرہ کے جانے کے بعد میں بھی سب کچھ نارمل کر کے کمرے سے باھر اگیا ازانیں ھو چکی تھی دن چرھنے کے قدیب تھا اور مجھے یقین تھا کہ امی نماز کے لے باھر اتی ھو گی میں اپنے کل کے پلین کو گھرای سے بنا کر چار پای پر لیٹ گیا… لیٹتے ساتھ ھی نیند کی اگوش میں ڈوب گیا کیوں کہ پجھلے 3 4 گھنٹوں کی تھکاوٹ نے بھت تھکا دیا تھا۔

مجھے لیٹے ابھی کچھ دیر ھی ھوی تھی کہ امی نے شفقت سے ھاتھ چھرے پر پھیرا اور مجھے جگا کر پوچھنے لگی کہ میں یھا کوں سو رھا ھوں.. مے نے امی کو اپنے پاس بٹھایا اور انکے سامنے چھرا کر کے بتانے لگا ک” رات کو باجی میرے باتھروم میں گی اور پاوں تلکنے کی وجہ سے بہت برا گر گی اپ سو رھی تھی اس لے جگانا مناسب نھی سمجھا مائرہ نے سب سمبھال لیا تھا باجی کو میرے ھی کمرے میں سلا کر وہ بھی سونے چلی گی اور میں بھی باھر لیٹ گیا.. امی زرا پریشان ھوی پر جب انکو پتہ چلا سب ٹھیک ھے تو وہ بھی مطمعن ھو گی۔

امی کے جانے کے بعد میں بھی سکون کی نیند سو گیا اور صبح بھابھی کی اواز پر اٹھا جو اج کسی خاص وجہ سے صبح صبح تیار ھو گی تھی۔

پوچھنے پر پتہ چلا کہ بھابھی کی امی کی تبیعت خراب ھے بھابھی ایک ھفتے ک لے اپنے گھر جا رھی ھیں۔

بھابھی پیلے رنگ کے فٹنگ والے جورے میں ملبوث اپنے کندھے کے ایک سایڈ پر دپٹہ لٹکایا ھلکا سا میک اپ کر کے لال ڈارک لپسٹک لگا کر کھلے بالوں میں دلکش دوشیزہ لگ رھی تھی۔

بھابھی دکھنے میں بھی بہت موٹی یا پتلی نھی ھے ایک نارمل فگر کی خوش شکل عورت ھے

بھابھی کو زیادا سجنے سورنے کا شوق نھی ھے پر جب بھی ھلکا سا تیار ھوتی ھے تو کسی بھی لن کی ملکہ با اسانی بن سکتی ھے۔

بھابھی کی خوبصورتی کی ایک خاص وجہ انکے چھرے کے کھڈے(Dimple)بھی تھے جب بھی وہ کھل کر ھنستی تھی تو َنکے چھرے پر بھت گھرے کھڈے بن جاتے تھے جو انکے حسن پر چار چاند لگا دیتے تھے۔

بھابھی نے مجھے جگا کر برے پیار سے کھا “اٹھ جایں نواب صاحب ناشتہ تیار ھے

میں بھی انکھیں ملتا باجی کے کسے ھوے بدن کا اچھی طرح معاینہ کر کے باتھروم جانے ک لے اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔

اپنے کمرے میں پھنچ کر دیکھا کہ تینوں ماں بیٹیاں ایک ساتھ بیٹھی باتیں کر رھی ھے

پھلے تو میں کافی ڈر گیا کیوںکہ میں نے امی سے جو جھوٹ بولا تھَ وہ میں نے دونوں مے سے کسی کو نھی بتایا تھَا.. مجھے دروازے پر کھرا دیکھ امی نے مجھے اندر بلا لیا اور بیڈ پر بیٹھنے کے لے کھا۔

میں امی کی بات مَانتا ھوا مائرہ کے ساتھ بیٹھ گیا۔

میر سامنے امی بیٹھی باجی کے سر پے ھاتھ پھیر رھی تھی جو کہ ابھی بھی بیڈ پر لیٹی ھوی بھتر لگ رھی تھی۔

سب ادھر ادھر کی باتیں کر رھے تھے اسی دوران امی میرا ناشتہ لینے باھر چلی گی تو انکے جانے کے فورن بعد میں نے باجی کی طرف دیکھا جو پھلے سے ھی مجھے دیکھ رھی تھی۔

میں نے پھر مائرہ کی طرف دیکھا اور اسکو رعب بھرے انداز میں کھا تم زرا باھر جاو مجھے باجی سے بات کرنی ھے وہ منہ بناتے ھوے باھر نکل گی اور میں فورن باجی کے قریب ھو کر انکے ھاتھ پر ھاتھ رکھ دیا.. باجی نے اپنا ھاتھ میرے ھاتھ سے نکال کر دسری طرف منہ کر لیا.. جس کا مطلب. میں سمجھا نھی تھا نہی میں نے باجی کی طرف دیکھتے ھوے انکو اواز دی پر وہ میری کسی بات کا جواب نھی دے رھی تھی۔

میں نے باجی کے چھرے کو ایک کوبے سے پکر کر اپنی طرف گھمایا اور کھا “پلز باجی مجسے بات کرے اپکا یہ رویہ نا قابل قبول ھے” باجی نے اپنی اواز کو دباتے ھوے مجھے قدر غصے سے کھا ‘”کیا بات کروں تمسے ھان؟ اج تمباری وجہ سے میں اپنی چھوٹی بھن سے نظرے ملانے کے قابل نھی رھی.. ساری رات میں اس نا بالغ بچی کے سامنے ننگی پری رھی جیسے کسی کوٹھے کی طوایف ھوں.. تمھاری وجہ سے میں نے صرف َایک سچ چھپانے ک لے سو جھوٹ بولے ھے..اور تم ابھی بھی میرے سامنے ڈھیٹوں کی طرح بیٹھے باتیں کر رے ھو.. اس سے تو بھتر تھا میں کسی بَاھر کے بندے سے اپنی پیاس بجھا لیتی کم سے کم ساری زندگی کے لے اپنے بھن بھاییوں کے سامنے شر مندہ تو نہ ھونا پرھتا۔

ابھی باجی اپنی بھراس نکال ھی رھی تھی کہ امی کمرے میں داخل ھو گی اور باجی نَارمل ھو گی۔

امی کے سامنے وہ ایسے ھی دکھا رھی تھی جیسے انکے پاوں میں چوٹ لگی ھے۔

امی نے میرے سامنے ناشتہ رکھا اور مجھسے مخَاطب ھو کر مجھے سختی سے حکم دیا کہ باجی کو ہسپتال لے کر جاوں اور ڈاکٹر سے چیک کرواوں۔

میں نے جلدی سے ناشتہ کیا اور فورن تیار ھو کر باجی کے پاس چلا گیا انکو ھسپتال لے جانے ک لے۔

باجی جانا تو نھی چاھتی تھی پر مجبوری تھی امی کی بات بھی نھی ٹال سکتی تھی.. باجی بھت مشکل سے ابھی بھی چل رھی تھی اور بھت زیادا تکلیف کے بعد موٹر سایکل پر میرےپیجھے بیٹھی اور ھم لوگ گھر سے روانہ ھو گے. ھم

ابھی کچھ دور ھی گے تھے کہ باجی نے مجسے پوچھا “ھم کھا جا رھے” میں نے بھی ڈھیٹ بن کر جواب دے دیا ڈاکٹر کے پاس۔

بَاجی نے بھت سخت مزاج میں مجھسے پھر پوجھا” مجھے صحی جواب دو ھم کھَا جا رھے ھے” میں نے پھر سے کھا” باجی اپکی تکلیف بھت زیادہ ھے ھمیں کسی ڈاکٹر کو دکھانا چاھے. باجی نے صاف جواب دے دیا کی انکو کسی ڈاکٹر کے پاس نھی جانا گھر چلے۔

میں باجی کے لاکھ منا کرنے کے بعد بھی اپنے علاقے سے کافی دور ایک بھت چھوٹے سے پرایویٹ ھسپتال لے ایا… باجی نے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے مجھے کچا چبا جاے گی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

طلاق یافتہ لڑکی ۔۔ کی اگلی  یا  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page