Gaji Khan–101– گاجی خان قسط نمبر

گاجی خان

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  یہ داستان صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹرمحنت مزدوری کرکے لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ یہ  کہانی بھی  آگے خونی اور سیکسی ہے تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گاجی خان قسط نمبر -101

کومل کو سمجھ ہی نہیں آیا جو ابھی اس نے دیکھا وہ خواب تھا یا اس کا وہم۔۔۔مگر جب وہ آگے چلنے لگی تو شیرانے دور سے ہی اشارہ کیا اس کے ہاتھ میں پکڑے ہاٹ پاٹ کی طرف دیکھا  اور نا میں گردن ہِلائی۔۔۔ تو کومل کو سمجھ ہی نہیں آیا کہ شیرا کو کیسے پتہ اس کے ہاتھ میں کیا ہے اور وہ منع کیسے کر رہا ہے یعنی جو اس نے دیکھا وہ حقیقت تھا یا پھر۔۔۔۔کومل وہیں سے واپس ہوگئی اور جلدی سے گوشت لیکر آئی اور جتنا بھی تھا سارا لے آئی۔ شیرا نے کومل کو کچھ بھی نا کہا اور بس گوشت کھانے لگا۔ کومل ڈر رہی تھی کہ کہیں وہ پھر سے اسے ہاتھ لگائےگا پر ایسا کچھ نہیں ہوا۔۔۔ کومل کو سمجھ نہیں آ رہا تھا یہ سب مگر اسےڈر ضرور لگ رہا تھا شیراکی حرکتیں دیکھ کر۔۔۔ اِس لیے اس نے فضا کو آواز دے کر اپنی جگہ بلایا اور خود نفیس کے کمرے میں چلی گئی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 بیگم جی ، ، ، ، یہ کیا ہو رہا ہے ؟ صاحب جی کے اوپر  ’
 جن  ہے ، ، ، ، ‘

کومل کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی نفیس نے جواب دیا جو زمین پر بیٹھی ہاتھ  گھٹنے پر رکھے کوئی پڑھ رہی تھی  اور کومل کو دروازے پر ہی بنا دیکھے اس نے جواب دے دیا تھا  بات پوری ہونے سے پہلے ہی۔۔۔

کومل تو وہیں خاموش کھڑی رہ گئی۔ نفیس کچھ دیر خاموش رہی اور تھوڑی تھوڑی ہلتے ہوئے وہ لگاتا انگلیوں  پر گنتی کرتی  پڑھتی رہی۔

کومل نفیس کو اچھے سے جانتی تھی اِس لیے وہ نہ آگے آئی نہ کچھ بولی۔۔۔ کچھ دیر بعد نفیس نے خود ہی اسے کہا۔

جاؤ اسے جا کر كھانا کھلاؤ ، ، ، جو بھی مانگے اسے دو ، ، ، ہم  شیرا کو کچھ نہیں ہونے دینگے۔ اور جب تک ہم نہ بلائیں کوئی یہاں نہ آئے ‘

نفیس شیرا کی سلامتی کے لیے جو  کچھ کر رہی تھی اس کے لیے اس کا شاید اکیلا رہنا لازمی تھا۔ کومل کو یقین تھا کہ نفیس  شیرا  پر سوار اِس جن کو ہٹا دے گی مگر یہ آیا کیسے ہے یہ پتہ لگانا ضروری تھا۔ فل الحال اس کی جو بھی ضرورتیں تھی اسے پُورا کرنا تھا اور کومل کو پتہ تھا کہ ‘ جن ‘ کن کن چیزوں کے  بھوکے ہوتے ہیں۔  اسی لیے وہ رسوئی میں گئی اور ایک بڑا برتن دودھ کا بھر لیا شیرا  یا یوں کہیں کہ ‘ جن ‘ کے لیے۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

فضاء کو جب کومل نے وہاں سے بھیج دیا تھا تو وہ کہیں اور نہ جا کر شازیہ کے پاس ہی آ گئی تھی۔

شازیہ کو کل سے غصہ تو تھا پر اس کے ساتھ جو فضاء کھیل کھیلتی تھی اسے اب اس کے اندر دبی خواہشیں سَر اٹھانے لگی تھیں۔ یوں تو شازیہ غصہ دکھاتی تھی فضاء  پر مگر کہیں نا کہیں اب اس کے اندر اب کسی مرد کی ضرورت سختی سے پیش آنے لگ گئی تھی۔

 فضاء کی کل رات جو شیرا نے ٹھکائی کی تھی اس سے وہ خود تو ٹھنڈی ہوگئی تھی مگر شازیہ پر اب اس کی نظر جیسے پڑ ہی نہیں رہی تھی۔ فضاء آج صبح سے 1-2 مرتبہ آئی ضرور تھی مگر اِس دوران شازیہ نے اس سے بات نہیں کی تھی اور نہ فضاء نے ہی زیادہ زور دیا تھا وجہ صاف تھی کہ وہ خود تھکی ہوئی تھی یا یوں کہو کہ  اس کے جسم میں کچھ درد ابھی بھی تھا خاص کر گانڈ چھید میں۔

اب بھی فضاء کمرے میں آئی اور شازیہ کو ایک کتاب پڑھتی دیکھ کر وہ چپ چاپ بیٹھ گئی زمین پر۔ شازیہ نے یوں ہی بیٹھے بیٹھے نگاہ اوپر کرکے دیکھا تو فضاء آنکھیں بند کیے بیٹھی تھی۔

 کیا بات ہے ، ، ، دیکھ رہی ہوں صبح سے تمہارے مزاج کچھ بدلے بدلے ہیں ، ، ، ، طبیعت تو ٹھیک ہے نا تمہاری ؟’

فضاء  یہ سن کر مسکرا دی اور شازیہ کے قریب ہوگئی۔

 میرے مزاج تو ٹھیک ہیں ، ، ، ، لگتا ہے آپ کے کچھ بدلے بدلے ہیں ، ، ، ، کہو میری جان رات میں کوئی کمی تو نہ رہ گئی ؟ ’

فضاء نے عادت کےمطابق شازیہ سے بات کی مگر اس کی آواز میں وہ بات نہ تھی جو ہوتی تھی اور چہرے پر بھی سکون تھا جیسے وہ نیند میں ہو۔

 جھوٹ بول رہی ہو تم ، ، ، ، ، سچ سچ بتاؤ کیا بات ہے ، ، ، ، تم ہم سے کچھ چھپا رہی ہو ‘

 نہیں تو ، ، ، ، میں کیا چھپاؤنگی، آخر اِس حویلی میں ایسا کیا ہی ہے جو میرے ساتھ ہو اور مجھے چھپانا پڑے ، ، ، ، ، لگتا ہے آپ کو اب کسی کی ضرورت لگنے لگی ہے ، ، ، ، کہیے تو بات کروں کسی سے ؟ ’

فضاء نے چھیڑتےہوئے جب یہ کہا تو شازیہ کتاب ایک طرف رکھ کر سیدھی ہو کر بیٹھ گئی اور فضا ءکو سرد نظروں سے دیکھا جس پر فضاء  کا مسکرانا بھی ایک دم بند ہو گیا۔

 کککھڑی ہوجاؤ ، ، ، ، ، ، ہم نے کہا کھڑی ہوجاؤ،،،،،، کپڑے اتارو،،،   ہم نے کہا  کپڑے  اتارو ‘

شازیہ کی بات پر فضاء کچھ سوال کرتی کچھ کہتی مگر شازیہ کے تیور کے آگے فضا ءسہم سی گئی اور کچھ کہنے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔ جب شازیہ نے خود ہاتھ آگے کرکے اس کی شلوار ایک دم سے کھینچ دی۔

فضاء کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ شازیہ کیوں ایسا کر رہی ہے۔ اس کے کچھ سمجھنے سے پہلے ہی جب شازیہ نے قمیض کو آگے سے اوپر اٹھا کر فضاء کی پھدی کو دیکھا تو اس نے  پھدی پر غور کیا۔ پھدی کے لب ایسے کھلے تھے جیسے ابھی ابھی بڑا سا ہتھیار اس میں آر پار ہوچکا ہو۔ اس نے فضاء کی طرف دیکھا اور پیچھے ہٹ کر اپنے بستر پر آرام سے بیٹھ گئی ۔

فضا ءنے جلدی سے اپنی شلوار اوپر کی اور شازیہ سے بات کرنے لگی تو شازیہ نے چہرہ دوسری طرف کر رکھا تھا جیسے اب وہ اس سے بات نہ کرنا چاہتی ہو۔

 اب کیا ہوا آپ کو ؟ ناراض کیوں ہو رہی ہیں ؟ بتائیے تو سہی ، ، ، ، بتائیے نا ، ، ، ، کیا  خطا ہو گئی مجھ سے ؟’

 بات مت کرو ہم سے ، ، ، ، بے شرم ، ، ، کس سے منہ کالا کروا کے آئی ہے ؟  جھوٹ بولنے کی سوچنا بھی مت ہم سے ، بچی نہیں ہوں میں ‘

فضا کو ایک بار تو سمجھ ہی نہ آیا اب وہ کیا جواب دے مگر جلد ہی وہ شازیہ کے پیر پکڑ کر بیٹھ گئی۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page