Gaji Khan–56– گاجی خان قسط نمبر

گاجی خان

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  یہ داستان صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹرمحنت مزدوری کرکے لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ یہ  کہانی بھی  آگے خونی اور سیکسی ہے تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گاجی خان قسط نمبر -56

جی حضور آپ نے بلایا ‘ اِس لڑکے کا نام اسلم تھا جسے سامی کہہ کر بلاتے تھے سب۔۔۔ آکا نے اسے پرچہ تھماتے ہوئے سختی سے کہا۔

 یہ سامان ٹھیک سے برابر تول کے بھر دے تھیلی میں اور ہاں جتنا لکھا ہے اسکا آدھا ہی ڈالنا۔۔۔ میں ذرا آتا ہوں ابھی تب تک تو دکان پر ہی رہو اور خبردار جو ادھر اُدھر گیا کہیں میرے آنے سے پہلے

  آکا اتنا کہہ کر گلی کی طرف سے ہی گیا پیچھے بجائے اندر سے جانے سے جیسے وہ اِس لڑکے سے چھپا رہا ہو جب کہ وہ لڑکا سب جانتا تھا کہ آکا کہاں گیا ہے اور کس لیے۔۔۔ اسی لیے ساامی نے ایک بار آکا کو پیچھے سے دیکھا اور جیسے ہی وہ گودام کا پچھلا دروازہ کھول کر اندر گھسا تو ساامی بھی تیزی سے دوڑ کر دکان کے اندر سے گودام میں گھس گیا۔ اسے پتہ تھا کہ کہاں سے نظارہ صاف نظر آئیگا اور اس کا انتظام بھی اس نے کر رکھا تھا۔۔۔ گندم کی بوریوں کے اوپر اس نے بیٹھ کر دیکھنے کا اپنا انتظام پہلے سے ہی پکا کر رکھا تھا۔۔۔ آکا کی عیاشی کے بارے میں اسے سب خبر تھی اور یہ بھی چوری چھپے سب دیکھتا تھا۔۔۔ جیسے ہی وہ اوپر چڑھ کر اندر بنے کمرے میں دیکھنے لگا تو شینا اپنے کپڑے اُتار چکی تھی۔

آکا نے بھی اپنی شلوار کھولی اور شینا کو لِٹا کر اسکے اوپر چڑھ گیا۔۔۔۔ شینا کسی لاش کی طرح پڑی تھی اور آکا اس پر چڑھ کر دھکے مارنے لگ گیا۔۔۔ اتنے میں دکان پر کسی نے سامی کو آواز لگائی تو وہ بھاگ کر دکان پر گیا۔

  سالے تجھے بھی ابھی آنا تھا ؟ تھوڑا رک کر نہیں آسکتا تھا ؟ ‘ 

سامی نے آتے ہی دکان پر آئے اِس لڑکے کو دیکھ کر غصے میں اسے کہا۔۔۔ ظاہر تھا کہ دونوں دوست تھے اور ہَم عمر بھی۔۔۔سامی کا یہ دوست مونٹی تھا جو گھر سے غریب تھا اور سامی اسکی مدد کرتا رہتا تھا آکا کی نظر سے بچ کر چوری راشن دے کر۔

‘ یار تونے ہی تو کہا ہے کہ جب آکا نہ ہو تبھی آیا کروں۔۔۔ وہ گھر پر آٹا ختم ہوگیا تھا تو تیرے پاس چلا آیا کل بتایا تو تھا میں نے۔۔۔۔ ابھی آکا دکان پر نہیں ہے تو اسی لیے آگیا کب سے میں چکر لگا رہا تھا

 اپنی ساری بات تفصیل سے بتا کر مونٹی خاموش ہوا تو سامی کا لہجہ بھی نرم پڑا اپنے دوست کی مجبوری پر۔

 معاف کردے یار ، وہ میں آکا کو ہی دیکھ رہا تھا اسی لیے تھوڑا غصے میں بول دیا۔۔۔ چل جلدی لا تیرا جھولا ، اس سے پہلے کہ آکا آئے تجھے جلدی سے سامان بھر دوں ‘ 

سامی نے جلدی سے مونٹی سے تھیلا لیا اور فٹافٹ سامان بھرنے لگا ۔

مگر سامی کی بات سن کر مونٹی کے کان کھڑے ہوگئے تھے۔

 آج کون آیا ہے گودام میں ؟ مجھے بھی دیکھنے دے یار ‘ 

مونٹی نے سامی سے کہا تو سامی تھوڑا ناراض ہوتا ہوا بولا۔

 سالے یہاں راشن لینے آیا ہے یا بُنڈ مروانے ، آکا نے دیکھ لیا تو تیرے ساتھ میری بھی گانڈ مار لے گا۔۔۔ اور پھر لیتے رہیو راشن ‘ 

سامی کی بات سن  کر مونٹی مایوس ہوگیا اور سامی جلدی سے راشن بھرنے لگا۔۔۔جلدی سے سامی نے سامان بھرا اور مونٹی کو چلتا کیا کیونکہ آکا کو زیادہ دیر تو لگتی نہیں تھی اور پھر اسے شینا کے لیے بھی راشن بھرنا تھا۔ سامی جلدی سے سامان بھرنے لگا مگر جیسا کہ آکا نے کہا تھا کہ آدھا سامان ہی بھرنا ہے۔۔۔ اسکے اُلٹ سامی نے آدھے سے زیادہ ہی بھرا۔ بس تھوڑا سا کم کرکے۔۔۔ کیونکہ وہ خود غربت کا مارا تھا اور اسے اچھا نہیں لگتا تھا یوں آکا کا کسی مظلوم کا فائدہ اٹھانا۔۔۔ سامی کے سامان بھرنے تک آکا واپس آ گیا جیسا کہ سامی کا اندازہ تھا۔ آکا جیسے بندے ہوس کے اندھے تھے، ہوتا کچھ نہیں بس ہوس ہر وقت آنكھوں میں ناچتی رہتی ہے۔۔۔ جلدی ہی واپس آ کر وہ اپنی جگہ بیٹھ گیا اور کچھ پل بعد شینا بھی واپس آگئی۔سامینے سامان کا تھیلا سیدھا شینا کو ہی تھمایا تاکہ آکا دیکھ نہ پائے کہ کتنا سامان بھرا ہے۔ آکا نے سامی کو گودام میں بھیج دیا اور شینا کو قریب بلایا۔

 اگلی بار جلدی ہی آنا شینا بیگم ، اتنے دن انتظار کرواؤگی تو میں راشن دینا بند کر دونگا اور پھر تُو گھر کیسے چلائیگی یہ تو اچھے سے جانتی ہے اور ہاں ، اگلی بار شام کو آنا ، اندھیرے میں کوئی آتا نہیں اور کھل کر مزہ کرینگے ‘ 

شینا کی گانڈ کو مسل کر آکا نے گندی ہنسی ہنستے ہوئے کہا تو شینا سر جھکائے بس ہاں میں اشارہ کیے چلی گئی۔

 یہ راشن تو کہاں سے لیکر آیا ہے ؟ پیسے تو تھے نہیں گھر پہ اور وہ حرامی انسان بنا پیسے کے تو ایک دانہ نہیں دیتا پھر اتنا سامان کیسے لے آیا ؟ کہیں تونے کچھ غلط تو نہیں کیا ؟ ‘ 

مونٹی گھر پر پہنچا تو اسکی بڑی بہن ہاتھ میں راشن کا تھیلا لیے آئے اپنے بھائی کو دیکھ کر بھڑک گئی۔۔۔ گھر کے حالت چاہے اچھے نہیں تھے مگر غربت میں بھی ان لوگوں کی خودداری قائم تھی۔۔۔ مونٹی کی بڑی بہن نغمہ جو کہ  18 سال کی تھی وہ خود سلائی کرکے گھر کا خرچ اٹھانے میں مدد کرتی اور ان دونوں کی امی کچھ گھروں میں کام کرکے مزدوری کما لیتی۔۔۔ نغمہ دیکھنے میں خوبصورت تھی پتلی ، گورا رنگ،  خوبصورت نین و نقش، نغمہ اور مونٹی کے والد کی موت ہوچکی تھی اور کچھ ہفتوں سے امی کی طبیعت بھی ناساز تھی۔۔۔ جس وجہ سے حالت اور بدتر تھے۔۔۔ مگر پھر بھی نغمہ نہیں چاہتی تھی کہ اسکا بھائی کوئی غلط کام کرے۔۔۔ چاہے مونٹی بھی کھیتوں میں مزدوری کرنے جانے لگا تھا مگر ابھی وہ چھوٹا تھا تو زیادہ کام اسے نہیں مل پاتا تھا۔۔۔ اپنی بڑی بہن کی باتوں کو  اگنور کرتے ہوئے مونٹی راشن کا تھیلا اندر لے جانے لگا تو نغمہ نے اسکے ہاتھ سے تھیلا چھین لیا۔

 یہ کیا کر رہی ہو باجی ؟ چھوڑو اسے، کل سے ٹھیک سے كھانا نصیب نہیں ہوا اور امی کی حالت جانتی ہو نہ تم ؟ حکیم صاحب نے کہا ہے انکا ٹھیک سے خیال رکھیں ورنہ وہ ابو کی طرح۔۔۔۔ ‘ 

مونٹی کی آنکھیں بھر آئی تھی اپنے الفاظ پورے کرنے سے پہلے اور یہ دیکھ کر نغمہ بھی نرم پڑ گئی اور آنکھ اسکی بھی بھر آئی۔

 بھول گیا ابو امی نے ہمیں کیا سبق دیا ہے ؟ زندگی میں کبھی کوئی ایسا کام نہیں کرنا کہ ہمیں کسی کے آگے نظریں جھکانی پڑے اور معاشرے کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے۔۔۔پھر تونے ایسا کیوں کیا ؟

‘ میں نے کچھ غلط نہیں کیا باجی، میرے لیے میری امی دُنیا سے زیادہ ضروری ہے۔۔۔ اگر اسکے لیے مجھے  کوئی سزا بھی دیگا تو وہ مجھے منظور ہے مگر میں اپنی امی کو ایسے مرنے نہیں دے سکتا پھر چاہے مجھے چوری کرنی پڑے یا ڈاکہ ڈالنا پڑے۔۔۔ ویسے بھی میں نے کوئی چوری نہیں کی ہے۔سامی نے یہ راشن دیا ہے مجھے ، اس آکا سے مانگنے نہیں گیا تھا میں ‘ 

اپنے بھائی کی بات سن کر نغمہ دِل میں اس پر فخر کر رہی تھی مگر جو اسکا بھائی کرکے آیا تھا وہ سمجھ گئی تھی۔

  مگر یہ غلط ہے میرے بھائی تو سمجھتا کیوں نہیں ؟ تو اپنے ساتھ اپنے دوست کو بھی قصور وار بنا رہا ہے  اگر آکا کو پتہ چل گیا تو وہ نہ اسے چھوڑیگانہ ہم لوگوں کو۔۔۔ اور جو بدنامی ہوگی وہ الگ۔۔۔ کیا تو ابو کے نام کو رسوا کرنا چاہتا ہے ؟ ‘ 

نغمہ نے بھری آنکھوں سے اپنے بھائی کو سمجھایا تو مونٹی ہنستا ہوا بولا۔

 نام ، نام کا کیا کرینگے جب جسموں میں جان ہی باقی نہ رہی ؟ کیا آپ امی کو پھر سے زندہ کر پاؤگی ؟ مجھے سب منظور ہے میرے ساتھ جو بھی ہو، مگر میں امی اور آپکو کچھ ہونے نہیں دے سکتا۔۔۔ اب مہربانی کرکے یہ اندر لے جائیے اور امی کے لیے كھانا پکائیے۔ بِنا کھانے کے تو دوا بھی اثر نہیں کرتی۔اس کا قصوروار میں ہوں۔۔۔ توسزا بھی میں ہی بھگتونگا۔۔۔ امی ابو سے بڑا کون ہوتا ہے جو ہمیں پیدا کرتے ہیں اگر ان کے لیے ہی ہم کچھ نہ کر پائیں تو کیا فائدہ ایسی زندگی کا ؟ اگر امی کی بہتری کے لیے میں نے جو کیا وہ غلط ہے تو میں ایسیغلطیاں بار بار کرونگا

 اپنے چھوٹے بھائی کی باتوں پر لاجواب ہوتی نغمہ روتے ہوئی اپنے بھائی کو گلے سے لگا کر رسوئی کی طرف چل پڑی۔ نغمہ كھانا بنانے میں لگ گئی تو مونٹی اپنی امی کے پاس جا کر بیٹھ گیا جو بستر پر بیماری کی حالت میں پڑی تھی۔

 تو غلط نہیں ہے میرے بھائی ، مگر یہ دُنیا ان باتوں کو نہیں سمجھتی۔ کسی دن اس شیطان کو پتہ چل گیا تو سب کچھ برباد ہو جائیگا

  اپنے دِل میں یہ سب کہتی نغمہ روتی ہوئی كھانا بنانے میں لگ گئی اور چولھا جلا دیا۔

  سلام ، ، ، آپ سے اِجازت لینی تھی، بھائی جان کی موت کے بعد سے بچیوں  کی  سبق بند ہے۔۔۔ کیا ہم وہ پھر سے شروع کرسکتے ہیں ؟ ‘ 

شازیہ اپنی امی فریال کے کمرے میں اسکے سامنے ادب سے نظریں نیچے کیے کھڑی تھی اِجازت مانگتی ہوئی۔ چہرے سے ہمیشہ افسردہ نظر آنے والی شازیہ کی زندگی میں جیسے باقی کچھ تھا ہی نہیں۔ اور اب جس بات کی اجازت وہ مانگنے آئی تھی ایک یہ ہی کام تھا جس میں وہ خود کو بہلا لیتی تھی۔۔۔ پاس کے غریب گھروں کی بچیوں  پڑھانا۔

کیونکہ عام طور پر بچیوں  کو پڑھائی سے محروم رکھا جاتا تھا اور  سکولوں میں بھی بس لڑکوں کو ہی تعلیم ملتی تھی۔۔۔ ایسے میں غریب لوگ تو بچیوں کو پڑھانا بھی جیسے مذہب کے خلاف ہی سمجھتے تھے مگر شازیہ یہ کام لوگوں کی خدمت سمجھ کر کرتی تھی۔۔۔ اور آج تک اِس کام میں شازیہ کی سب سے زیادہ حوصلہ افزائی اقبال ہی کرتا آیا تھا۔۔۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ اب رفعت اور زینت بھی اپنی پھوپھی کا ساتھ دینے لگی تھی۔ مگر اب اقبال کے بعد اسے اِس بات پر شعبہ تھا کہ فریال اس کے لیے شاید اب اِجازَت نہ دے۔۔۔اس وقت ان دونوں کے علاوہ اور کوئی موجود نہیں تھا یہاں پر۔ فریال اپنی بیٹی کو دیکھ کر افسردہ تو تھی ہی کیونکہ وہ اپنی اِس پھول سی بچی کو چاہ کر بھی خوشیاں نہیں دے پائی تھی۔۔۔۔شادی تو کروائی مگر افسوس کہ شازیہ کے شوہر کی کچھ ہی عرصےبعد موت ہوگئی اور وہ ماں تک نہیں بن پائی۔۔۔ تب سے لیکر آج تک شازیہ نے خود کو جیسے غموں کے اندھیروں میں کہی چُھپا سا لیا تھا۔ شازیہ کے چہرے پر ہنسی اب کبھی نظر نہیں آتی تھی جبکہشادی سے پہلے وہ اِس حویلی کی لاڈلی تھی جس پر بڑا بھائی اقبال دِل کھول کر پیار لُٹاتا تھا۔ سب کی چہیتی تھی شازیہ اور اپنی دونوں بھتیجیوں کی تو سہیلی مگر اب وہ شازیہ کہیں دفن سی ہوچکی تھی۔۔۔ فریال نے شازیہ کیشادیپھر سے کہیں کرنے کی بات بھی کی تو شازیہ نے سِرے سے خارج کر دیا تھا اِس بات کو۔۔۔ مگر ایک ماں ہونے کے ناتے فریال شازیہ کے بارے میں سوچ کر ہمیشہ اندر غمگین رہتی تھی۔۔۔ آج بھی شازیہ جس طرح سے اِجازت مانگ رہی تھی اسے دیکھ کر کہیں سے بھی نہیں لگ رہا تھا کہ وہ اپنی ماں سے اِجازت مانگنے آئی ہے۔۔۔ بلکہ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اِس حویلی کی مالکن سے اِجازت مانگ رہی ہے۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

رومانوی مکمل کہانیاں

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کالج کی ٹیچر

کالج کی ٹیچر -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

میراعاشق بڈھا

میراعاشق بڈھا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

جنبی سے اندھیرے

جنبی سے اندھیرے -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

بھائی نے پکڑا اور

بھائی نے پکڑا اور -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کمسن نوکر پورا مرد

کمسن نوکر پورا مرد -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page