Gaji Khan–57– گاجی خان قسط نمبر

گاجی خان

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  یہ داستان صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹرمحنت مزدوری کرکے لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ یہ  کہانی بھی  آگے خونی اور سیکسی ہے تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گاجی خان قسط نمبر -57

اپنی امی سے اتنا ناراض ہو کہ نظر ملا کر بات بھی نہیں کرسکتی ؟ یا پھر اب ہمیں تم اِس قابل نہیں سمجھتی کہ ہمیں امی کہہ سکو ؟ کیا ہم نے اپنے سب بچوں کو کھو دیا ہے ؟ پہلے وسیم پھر اقبال اور اب تم دونوں بہنیں بھی تکلف کرنے لگی ہو ہمارے ساتھ۔ آخر ہم سے ایسا کیا گناہ ہوگیا ہے جو اِس طرح ہمیں سزا دی جا رہی ہے ؟ ‘ 

فریال بھی اندر سے بھری بیٹھی تھی۔ ایک تو اقبال کی موت اور اب شیرا کی نظراندازی اوپر سے اپنی دونوں بیٹیوں کی بےرخی۔۔۔ اکیلا پن اب اندر ہی اندر کھانے لگا تھا فریال کو۔ہمیشہ مضبوط نظر آنے والی حویلی کی حکمران اب ایک عام انسان سی ٹوٹ کر کمزور ہوچکی تھی۔۔۔ تھی تو وہ آخر ایک انسان ہی جسے اپنی کی چاہتا رہتی تھی سدا چاہے فرض بہت زیادہ تھے اور اب وہ خود کو بالکل اکیلا پا رہی تھی۔ اپنی امی کی بات سن کر شازیہ نے فریال کی طرف دیکھا تو فریال اپنی آنكھوں میں آئے آنسوؤں پونچھ رہی تھی۔ یہ دیکھ کر شازیہ فریال کے قریب آئی اور اسکے گلے لگ گئی۔

 ایسا مت کہو امی ، ، ، ایسا مت کہو۔ بھلا میں آپ سے خفا ہوسکتی ہوں ؟ میں تو اپنی تقدیر پر افسوس زدہ ہوں کہتقدیر نے مجھے کیسی قسمت دی ہے۔۔۔ نہ ابو کو ٹھیک سے دیکھ پائی نہ شوہر کا ساتھ نصیب ہوا اور اب بھائی جان بھی چل بسے۔۔۔ اب تو زندگی ہی بوجھ سی لگنے لگی ہے مجھے ‘ 

شازیہ فریال کے گلے سے لگی اپنے دِل کی بات کہہ رہی تھی جو فریال پہلے سے ہی جانتی تھی۔۔۔ فریال نے شازیہ کو خود سے الگ کیا اور اسکی آنکھوں کی نمی اپنے ہاتھوں سے صاف کی۔

‘ کب تک خود کو یوں سزا دیتی رہوگی میری بچی ؟ اقبال بھی تو یہ ہی چاہتا تھا کہ تم پھر سے شادی کرکے اپنی زندگی آباد کر لو۔۔۔مگر تم ہو کہ اسے اپنا نصیب مان بیٹھی ہو۔۔۔آخر کب تک یوں تڑپتی رہوگی ؟ مجھ سے تمہارا یہ اُداس چہرہ دیکھا نہیں جاتا۔۔۔ اکیلا پن کیا ہوتا ہے بھلا مجھ سے بہتر اور کون سمجھےگا ‘

‘ نہیں امی ، میں یوں ہی اپنی زندگی گزار لونگی مگر اب مجھ سے اور برداشت نہیں ہوگا پھر سے ٹوٹنا۔۔۔ کیا آپ چاہتی ہیں کہ آپکی یہ بیٹی ہمیشہ کے لیے آپ سے دور ہو جائے ؟ ‘ 

شازیہ کے اتنا کہتے ہی فریال نے اسکا منہ بند کر دیا۔۔۔ اور انکار میں سر ہلاتے ہوئے بولی۔

 کیا تم سب مجھے جیتے جی مارنا چاہتے ہو ؟ زندگی عذاب بن کر ہی رہ گئی ہے میری۔۔۔ اسے اب نارگ مت بناؤ۔  تمہیں مجھ سے اجازت چاہیے ناں، جس کام کے لیے تمہارے بھائی نے تمہیں کھلی اِجازت دے رکھی تھی اسکے لیے مجھ سے اِجازت لینے کی ضرورت نہیں۔۔۔ تم جب چاہے پھر سے بچیوں کو پڑھانا شروع کرسکتی ہو ‘ 

شازیہ کو اِجازت تو دے دی تھی فریال نے مگر شازیہ جیسے اور بھی کچھ کہنا چاہتی تھی اِس لیے وہیں کھڑی سوچنے لگی کہ وہ بات کرے یا نہ کرے۔

 کیا بات ہے ؟ کچھ اور بھی کہنا ہے تم کو ؟ ‘

 جی امی ، ، ، ، وہ ، ، ، شیرا اِس طرف کیوں نہیں آ رہا ؟ اسکو بلوایا بھی تھا مگر وہ نہیں آیا۔۔۔ کیا کوئی بات ہوئی ہے ؟ ‘ 

آخرکار شازیہ نے ججھک کے ساتھ اپنی امی سے سوال کر ہی لیا جو وہ پوچھنے سے ڈر رہی تھی۔۔۔ اور یہ سوال صرف شازیہ کا نہیں تھا۔ بلکہ باہر ہی زینت بھی کھڑی تھی جو شازیہ کے ساتھ آئی تھی مگر اندر نہیں آئی اپنی دادی کے سامنے۔۔۔ زینت نے ہی روشی کے ہاتھ پیغام بھجوایا تھا کہ وہ اِس طرف آجائیں مگر وہ نہیں آیا۔۔۔ زینت خود اس طرف جانا چاہتی تھی مگر اسکی بھی اجازت نہیں تھی تو آخر اپنی اِس پھوپھی کو ہی بھیجا تھا اب اس نے وجہ جاننے کے لیے۔۔۔ فریال کو معلوم تھا کہ شیرا ناراض ہے اسے بالی والے مسئلے کو لیکر مگر فریال نے ظاہر نہیں کیا اور بہانہ بنا دیا۔

 شیرا کی تعلیم شروع کی گئی ہے جو تعلیم اسے وہاں اقبال نے نہیں دِلائی وہ اسے یہیں ملے گی اب۔۔۔ کچھ دن وہ شاید اِس طرف نہ آئے۔۔۔ کسی کو چِنتا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ کوئی ضروری کام ہو تو بتاؤ ہم خود اسے بُلوا لینگے ‘ 

یہ بات شازیہ کے ساتھ باہر کھڑی زینت نے بھی سُنی اور افسردہ ہوگئی۔

 جی شکریہ امی ، ، ، کوئی ضروری مسئلہ تو نہیں تھا بس ، ، ، اس میں بھائی جان کے ساتھ ابو کا بھی عکس دکھائی دیتا ہے تو ، ، ، ، اسے دیکھنے کو دِل کرتا ہے۔ آپ جیسا ٹھیک سمجھے ویسا کریں۔۔۔ اِجازت دیجیئے ‘ 

جھک کر سلام ادا کرتے ہوئے شازیہ چل دی فریال سے جواب پا کر۔۔۔ اور باہر نکلتے ہی زینت مل گئی جو منہ لٹکائے کھڑی تھی۔۔۔جیسے ہی شازیہ نے اسے دیکھا تو زینت نے ناراضگی سے بچوں کی طرح روٹھنے کا دکھاوا کیا۔

 اب تم کیوں ناراض ہو رہی ہو ؟ سُن لیا ناں۔۔۔ شیرا کی پڑھائی شروع ہوگئی ہے۔ آ جائیگا جب وقت ہوگا اسکے پاس ‘ 

شازیہ نے زینت کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا تو وہ ناراضگی سے بولی۔

  یہاں پڑھائی کی کیا ضرورت تھی ان کو جب وہ پہلے ہی اتنی بڑی یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ ہیں ؟ اور آپ کہہ نہیں سکتی تھی دادی سے کہ وہ بھائی کو بُلا دیں آج ہی ؟ جائیے میں آپ سے بات نہیں کرتی ‘ 

زینت شازیہ سے ناراض ہو کر اپنے کمرے میں چلی گئی تو شازیہ بھی اسکے پیچھے پیچھے اسکے پاس چلی گئی۔

 بستر پر الٹی پڑی زینت کے پاس شازیہ آکر بیٹھ گئی۔۔۔ چہرے پر زلفیں بکھر گئی تھی جنہیں پیچھے ہٹایا تو زینت کی آنکھوں سے آنسوں گرتے نظر آئے۔ جسے دیکھ کر شازیہ نے جلدی سے زینت کو اپنی طرف پلٹا اور اس کی آنسوں صاف کرتے ہوئے بولی۔

 یہ کیا ، ، ، ، اتنی سی بات پر میری چھوٹی پری رونے لگ گئی۔۔۔ تمہارا بھائی کہیں دور تو نہیں ہے ، اور پھر یہ سب ضروری ہے تبھی تو وہ سب سمجھ سکھے گا ناں۔۔۔  ورنہ بھائی جان کی طرح وہ کیسے سنبھالے گا سب کچھ۔۔۔ کیا تم چاہتی ہو کہ تمہارے بھائی کو لوگ کہیں کہ وہ قابل نہیں ہے؟ کیا یہ تُہمت برداشت ہوگی پھر تم سے؟ ‘ 

شازیہ کی بات پر زینت نے نا  میں سر ہلایا تو شازیہ پھر سے بولی۔

 تو پھر صبر رکھو ، اور تب تک ہم پھر سے بچیوں کو پڑھانا شروع کرتے ہیں۔ اس سے تمہارا دِل بھی بہل جائیگا اور پھر شیرا کو بھی اچھا لگے گا کہ اسکی یہ چھوٹی بہن کتنا اچھا کام کر رہی ہے

 شازیہ نے جب زینت کو پیار سے یہ بات سمجھائی تو زینت جلدی سے اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔

 تو چلیے ، ، ، جلدی سے پیغام بھجوا دیجیئے بستی والوں کے گھر کہ۔۔۔ کل سے سب کو سبق پڑھائی جائینگی۔ میں جا کر صاف صفائی کا کام کرواتی ہوں۔ بھائی کو کل ہی ہم اُدھر بولوا لینگے تاکہ وہ بھی دیکھ سکیں کہ انکی بہن ابو کا نام کیسے روشن کر رہی ہے ‘ 

زینت تیزی کے ساتھ وہاں سے نکلی اور روحی کو اپنے ساتھ اس طرف لے گئی جدھر بچیوں کو پڑھانے کے لیے الگ سےانتظامات کئے گئے تھے حویلی کی پچھلی طرف۔۔۔ 4 کمرے الگ سے یہاں اقبال نے تعمیر کروا دیئے تھے غریب بچیوں کو مفت میں تعلیم دینے کے لیے اپنی چھوٹی بہن کی خواہش پر۔۔۔ جہاں شازیہ کے ساتھ رفعت اور زینت بھی اکثر بچیوں کو سبق سکھاتی تھی۔ ضروری چیزوں کے ساتھ کتابی تعلیم بھی۔ شازیہ زینت کے اِس طرح خوش ہو کر جانے پر مسکرا دی اور رفعت کے پاس چلی گئی جو کتابوں میں ڈوبی اپنی پڑھائی جو کتنے دنوں سے رُکی تھی اسے شروع کر چکی تھی۔

 خان صاحب ، ، ، ، اب اقبال صاحب بھی نہیں رہے تو ان کے بعد (مرحوم ظفر گاجی (اقبال کے ابو اور شیرا کے دادا صاحب اورگاجی خاندان کے راہنما نواب بختیار گاجی خان (گاجی سلطنت کے پہلے نواب) صاحب کی برسیتقریب پر اِس بار چادر کی رسم پھر آپ کو ہی تو نبھانی پڑےگی ‘ 

کھالو خان اپنا رتبہ بڑھانے  کے لیے اور خود کو وارث ثابت کرنے کے لیے اب عاملوںکے پاس جانے لگے تھے۔ سیاسی لوگوں کے ساتھ تو تعلق تھا ہی مگر گاجی خاندان کا وارث بننے کے لیے اب بدلتے دور میں طاقت کے ساتھ علاقے کے بڑے بڑے عامل حضرات اہم کردار ادا کرنے والے تھے۔۔۔ اب وہ دور نہیں تھا کہ فیصلے تلواروں سے ہوتے۔۔۔ ملک آزاد ہونے کے بعد سے اب سب بدل چکا تھا۔ ایسے ہی ایک عامل صاحب کے دربار کے میں سالانہ تقریب کے موقعے پر کھالو خان حصہ لینے آیا تھا اپنے لوگوں کے ساتھ جو خود ہی یہ باتیں چھیڑ کر کھالو خان کو وارث بتانے میں لگ جاتے تھے۔۔۔ یہ بات کرنے والا بھی کھالو خان کا ہی پیروکار تھا۔۔۔ الگ الگ درباروں سے آئے عامل صاحبان کی جماعت یہاں الگ سے بیٹھی تھی جرگے ہال میں جہاں حقہ گڑگڑاتے سب عامل صاحبان زمین پر پڑے سفید پوش گدوں پر اپنے شاگردوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ ضروری مسئلوں پر بات کرتے ہوئے۔ بزرگوں کے پاؤں کندھے دباتے ان کے شاگرد کان کھولے سب سن رہے تھے مگر کوئی بھی اِس بات پر کچھ نہیں بول رہا تھا۔

کھالو خان کا اپنا رتبہ تھا جسکی وجہ سے کوئی اسکے خلاف اب بولنے سے کتراتے تھے  گاجی خاندان کا آخری آخری وارث ختم ہونے پر۔

‘ اگر ہم نے غلط نہیں سنا ہے تو گاجی خاندان کا آخری چراغ ابھی موجود ہے۔۔۔ اقبال صاحب کا بیٹا، سُنا ہے وہ اب تک لاہور میں ہی تھا جو اب لوٹ آیا ہے ‘ 

یہ بھی ایک عامل صاحب تھے۔۔۔ جو اقبال صاحب اور گاجی خاندان کو اچھے سے جانتے تھے مگر اس كے تدفین کے وقت موجود نہ ہو پائے تھے۔۔۔مگر یہاں کھالو خان کے سامنے یہ بات کہنے پر کھالو خان کی آنکھیں غصے سے بھر گئی مگر وہ کچھ بھی غلط بولنا نہیں چاہتا تھا ، کہیں اسکا کھل کر کوئی اسکے خلاف نہ کچھ بول دے۔

 وہ لڑکا گاجی خاندان کا وارث نہیں ہے جناب ، کیا آپکو معلوم نہیں ہے کہ اسکی ماں کو خود فریال بیگم نے قبول نہیں کیا تھا؟؟؟ اور پھر اقبال شاہی خاندان سے تھے اور وہ عورت پتہ نہیں کس خون کی پیدائش۔۔۔ ایسے جوڑ سے پیدا ہوئی اولاد شاہی خاندان کا وارث کیسے بن سکتا ہے ؟ گاجی خاندان کا اصولاً وارث ہے اب کھالو خان صاحب ہی ہیں۔۔۔ یہ ظفر خان صاحب کے چچیرے بھائی ہیں یہ سب کو پتہ ہے۔ ایسے میں انکا حق یقینی ہے۔۔۔ اس میں کسی کو شک و شعبہ نہیں ہونا چاہیے۔۔۔پھر بھی اگر آپکو کوئی اعتراض ہے تو آپ کہہ سکتے ہیں یہیں سب کے سامنے۔۔۔ ہم تو کھالو خان صاحب کو گاجی خاندان کا وارث مانتے ہیں اور اِس بار برسی تقریب کی رونمائی اور چادر یہ ہی چڑھائیں گے ‘ 

اِس شخص کے ساتھ ہی وہاں موجودکھالو خان کے پیادوں نے ایک آواز میں نعرہ بلند کر دیا ‘

 وارثِ گاجی خان، کھالو خان، کھالوخان

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

رومانوی مکمل کہانیاں

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کالج کی ٹیچر

کالج کی ٹیچر -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

میراعاشق بڈھا

میراعاشق بڈھا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

جنبی سے اندھیرے

جنبی سے اندھیرے -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

بھائی نے پکڑا اور

بھائی نے پکڑا اور -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کمسن نوکر پورا مرد

کمسن نوکر پورا مرد -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page