Gaji Khan–74– گاجی خان قسط نمبر

گاجی خان

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  یہ داستان صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹرمحنت مزدوری کرکے لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ یہ  کہانی بھی  آگے خونی اور سیکسی ہے تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گاجی خان قسط نمبر -74

میں کسی قسم کا جھگڑا نہیں چاہتا تم لوگوں سے۔۔۔ بہتری اسی میں ہے کہ تم لوگ چپ چاپ یہاں سے چلے جاؤ

شیرا نے اس تیسرے بچے ہوئے لڑکے کو دیکھ کر کہا جس کو چوہدری نے کہا تھا دوسرے والے اور وہ شیرا کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

تیری اتنی ہمت کہ تو میرے دوستوں پر ہاتھ اٹھائے۔ (تو زندہ نہیں جاندا آج) تو آج زندہ نہیں جائیگا یہاں سے

اتنا کہہ کر وہ تیسرا لڑکا بھی شیرا پر حملہ کرنے آگے بڑھا تو شیرا نے اس کے قریب آنے سے پہلے ہی پاؤں اٹھا کر سیدھا اس کے منہ پر دے مارا اور وہ زمین پر گر گیا۔۔۔ مگر وہ پھر سے اٹھا اور دوبارہ سے شیرا پر حملہ کرنے آگے بڑھا تو اِس بار شیرا نے اس کا ہاتھ پکڑکر اسے  ایسا گھمایا کہ وہ زمین پر پھر سے گرا مگر شیرا نے اس کا ہاتھ نہیں چھوڑا بلکہ اس کے ہاتھ گھوما کر اس کی پیٹھ پر لگا دیا اور وہ درد میں چیخ پڑا۔

چھوڑ چھوڑ مجھے بہن چود ، ، تیری ماں کی . . . . . . آں ، ، ، سالے تو پچتائے گا آہ ہ ’

شیرا نے اپنا ایک گھٹنا اس کی کمر پر رکھا اور اسے اور درد سے چیخنے پر مجبور کر دیا۔۔۔ اس کے دونوں ساتھی یہ سب دیکھ تو رہے تھے، مگر شیرا کے پاس آنے کی بھی ہمت نہ ہو رہی تھی کسی کی۔

میں نے کہا تھا چپ چاپ چلے جاؤ مگر لگتا ہے تمہارے ابو نے تمہیں پرورش ٹھیک سے نہیں دی ہے۔ مظلوموں  پر ظلم کرنے والے کو تو کوئی بھی معاف نہیں کرتا پھر تم چاہے کسی چوہدری کی اولاد ہو یا کسی بادشاہ کی۔۔۔ آئندہ اگر پھر کبھی کسی مظلوم پر ظلم کرنے کا سوچا تو یاد رکھنا حشر اس سے بھی برا ہوگا۔

شیرا نے اِسے چھوڑ کر زمین سے اٹھنے کے لیے بھی سہارا دیا۔۔۔ وہ غصے سے شیرا کو دیکھ تو رہا تھا مگر اپنی اوقات پتہ چل گئی تھی تو پیچھے ہٹ گیا اور اس کے ساتھی بھی اس کے ساتھ ہوگیا۔

تینوں چھوڑونگا نہیں، ، ، ، تو نے چوہدری بلاول کے بیٹے پہ ہاتھ اٹھایا ہے۔۔۔ دیکھ تیرا کیا حال کرتا ہوں۔
شیرا نے اس کے تیور دیکھ کر اپنا قدم آگے بڑھایا ہی تھا کہ تینوں بھاگ گئے۔ اب کہیں شیرا نے گھوم کر اس چھوٹے بچے کو دیکھا جو ان تینوں کو بھاگتے دیکھ کر خوش ہو رہا تھا اپنے آنسوں صاف کرتا ہوا۔۔۔ شیرا نے قریب جاکر اس کی حالت دیکھی اور اس کا چہرہ صاف کیا۔

کیا نام ہے تمہارا ؟ اور یہ لوگ کون تھے جو تمہیں پریشان کر رہے تھے ؟
شیرا نے اس معصوم سی شکل والے بچے کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اسے اپنے ساتھ لگا کر چلنے لگا۔۔۔شیرا کے ہاتھ کو پکڑ کر چُومتے ہوئے اس بچے نے شکریہ کہا اور شیرا کو جواب دینے لگا۔


آپ کا بہت بہت شکریہ بھائی جان میرا نام منتظر ہے اور آپ نے جن لوگوں کو مارا وہ میرے گاؤں کے ہی ہیں۔۔۔ جو آپ کو دھمکی دے رہا تھا وہ چوہدری بلاول کا بیٹا ہے کاشف۔ بڑا ہی کمینہ انسان ہے۔۔۔ اس کے ابو گاؤں کے چوہدری ہیں تو اِس لیے سب پر رعب جھاڑتا ہے۔۔۔ اس کے ساتھ جو لڑکے تھے وہ اس کے دوست ہیں ایک نام ساحر ہے اور دوسرے کا نام اجمل ہے۔۔۔ آپ ابھی یہاں سے چلے جاؤ ورنہ وہ کاشف اپنے لوگوں کو لیکر آئیگا ابھی آپ سے جھگڑا کرنے۔ میں نہیں چاہتا کہ آپ کے ساتھ کچھ بُرا ہو

شیرا کو ان لڑکوں کے بارے میں بتا کر منتظر نے فکرمند ہوتے ہوئے شیرا کو جانے کو کہا مگر شیرا نے اس کے کندھے کو تھپ  تھپاتے ہوئے اسے بےفکر رہنے کو کہا۔

تم اس کی چِنتا مت کرو ، آنے دو جسے آنا ہے۔۔۔ مگر مجھے یہ بتاؤ تمہارا کیا مسئلہ ہے ان لوگوں کے ساتھ ؟ تم تو ان کے ہم عمر بھی نہیں ہو اور نہ ہی تم ایسے نظر آتے ہو کہ کوئی شرارت کی ہو ان کے ساتھ۔۔۔ پھر بات کیا ہے اور وہ تمہاری امی کے بارے میں۔۔۔ مسئلہ کیا ہے ؟

شیرا نے پھر سے وجہ پوچھی جس پر وہ لڑکا نظریں جھکا کر کھڑا ہو گیا۔ شیرا نے اس کی امی کا ذکر سنا تھا ان لڑکوں کی باتوں میں مگر پوچھتے پوچھتے شیرا رک گیا کیوںکہ منتظر کی آنکھوں سے آنسوں بہہ چلے تھے پھر سے۔

میرا ان لوگوں کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں ہے بھائی جان اور نہ ہی میں ان لوگوں کے منہ لگتا ہوں۔۔۔ وہ لوگ بہت گندے ہیں جو میری امی کے بارے میں اُلٹا سیدھا بولتے ہیں۔ میرے ابو کام کرنے باہر گئے ہوئے ہیں ناں ورنہ وہ ان بدمعاشوں کی اچھے سے خبر لیتے
شیرا نے منتظر کی آنكھوں سے بہتے آنسوں پھر سے صاف کیے اور  اسے  اپنے ساتھ لگا لیا۔۔۔ شیرا نے زیادہ کچھ نہیں سنا تھا مگر اتنا ضرور سنا تھا کہ کاشف منتظر سے اس کی امی کے سکول ٹیچر کے ساتھ ناجائز  تعلقات کے بارے میں بات کہہ رہا تھا اور منتظر کو کہہ رہا تھا کہ اس کی امی ایک رنڈی ہے۔۔۔ مگر منتظر جیسے معصوم لڑکے کے ساتھ اس طرح  بات کرنا شیرا کو ٹھیک نہیں لگا۔

جانے دو ان کمینوں کو ، چلو میں تمہیں تمہارے گھر تک چھوڑ دیتا ہوں
نہیں بھائی جان ، آپ رہنے دو۔ کہیں وہ لوگ پھر سے آگئے تو وہ آپ پر حملہ کر دینگے

میں نے کہا ناں تم چِنتا مت کرو میں دیکھ لونگا سب کو۔۔۔ چلو تمہیں گھر چھوڑ دیتا ہوں

شیرا منتظر کے کندھے پر ہاتھ
رکھے اس کے ساتھ اس کے گھر کی طرف چل دیا۔۔۔ شام کا وقت ہو رہا تھا اور سورج کی روشنی کم ہو رہی تھی۔۔۔ لوگ کھیتوں سے واپس لوٹ رہے تھے۔ ہر طرف نظر داوڑاتا ہوا شیرا منتظر کے ساتھ اس کے گھر تک آگیا۔۔۔ گارے  اور گوبر سے  سجی دیواریں جوکہ بہت ہی اونچی تھی اور لکڑی کا دروازہ جو پُرانے دور کا ہی تھا جرجر حالت میں تھا۔ منتظر نے آگے ہو کر دروازے کا کنڈہ کھٹکھٹایا۔

یہ ہی میرا گھر ہے بھائی جان ، آپ میرے ساتھ اندر چلیے۔۔۔ امی جان ناراض ہونگی مجھ پر کہ میں بنا بتائے چلا گیا ان سے۔۔۔ آپ انہیں بتا دینا کہ میں آپ کے ساتھ تھا

اپنی حالت ٹھیک کرکے منتظر شیرا کو اس کے حق میں گواہی دینے کو کہہ رہا تھا۔۔۔ اس کی بات سن کر شیرا کو اس کی سوچ پر ناز ہوا کہ وہ معصوم سا بچہ اپنی امی کے سامنے ظاہر نہیں ہونے دینا چاہتا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا۔۔۔ اس کی پرورش بےشک اچھی کی تھی اس کے گھر والوں نے۔۔۔ مگر شیرا کو ابھی رکنا مناسب نہ لگا۔

میں پھر کبھی آؤنگا چھوٹے بھائی، آج وقت کچھ زیادہ ہوگیا ہے تو مجھے بھی واپس جانا چاہیے۔ ورنہ میرے گھر والے بھی مجھے ڈانٹ دینگے کیونکہ میں بھی بتا کر نہیں آیا تھا۔

آپ تو اتنے بڑے ہو آپ کو کون ڈانٹے گا ؟ آپ بس ایک بار امی سے مل لیجیے

منتظر نے پھر ایک بار التجا کی مگر شیرا کو واپس جانے کی بھی جلدی تھی۔۔۔  کہاں وہ نہر دیکھنے نکلا تھا مگر وقت کا اندازہ نہ تھا کہ کتنا لگے گا اوپر سے اِس فساد میں وقت زیادہ نکل گیا۔

وعدہ کرتا ہوں اگلی بار ضرور آؤنگا اور تمہاری امی سے بھی ملوں گا۔ تم میرا سلام کہنا ان کو مگر آج مجھے جانے دو

منتظر پھر سے کچھ کہتا اس سے پہلے ہی شیرا تیز قدموں سے وہاں سے نکل گیا۔۔۔ ادھر اس کی امی نے دروازہ کھولا اور اپنے بیٹے کو کسی کو دیکھتا پاکر اس نے بھی باہر نکل کر دیکھا تو شیرا کی پیٹھ ہی نظر آئی۔

کون تھا وہ ؟ اور باہر سے کیوں چلا گیا ؟ اور تم تھے کہاں اتنی دیر سے ؟ مجھے کتنی فکر ہو رہی تھی پتہ بھی ہے تم کو ؟ تمہیں معلوم ہے ناں میں گھر میں اکیلی ہوتی ہوں اور تم اتنی دیر تک باہر گھومتے رہتے ہو
منتظر نے اپنی امی کو دیکھا تو وہ ناراضگی سے اسے دیکھ رہی تھی۔

منتظر کی امی کا نام ماہیما تھا جو بےحد جوان اور خوبصورت تھی اور بےحد ہی اچھی عورت تھی جس نے اپنے بیٹے کو تربیت بھی اتنی ہی اچھی دی تھی۔۔۔۔ اپنے شوہر کے یہاں نہ ہوتے ہوئے بھی وہ اپنے بیٹے کو اچھا انسان بنانے میں کوئی کمی نہیں رکھ رہی تھی۔۔۔ مگر اس کی خوبصورتی کی وجہ سے ہی وہ کئی لوگوں کی نظر میں تھی جس کا نمونہ شیرا کے سامنے پیش آیا تھا ان تِین لڑکوں کی شکل میں جو منتظر سے جھگڑا کر رہے تھے۔

وہ کیا ہے امی ، میں تو وقت سے آجاتا مگر وہ بھائی جان مل گئے تھے۔ ان کو راستہ نہیں معلوم تھا تو وہ مجھ سے راستہ پوچھ رہے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ دیر ہو رہی ہے تو مجھے یہاں تک چھوڑنے آگئے۔ اندر آنے کو کہا بھی میں نے مگر وہ مانے نہیں۔۔۔ کہہ رہے تھے اگلی بار ضرور آؤنگا
ہیں کون وہ۔۔۔ جو تم سے راستہ پوچھ رہے تھے ؟ ایسے ہی ہر کسی سے باتیں مت کرنے لگ جایا کرو۔ اور تم کب سے اتنے بڑے ہوگئے کہ دوسروں کو راستہ دکھانے لگ گئے  ’
نام تو میں نے پوچھا نہیں مگر وہ انسان بہت اچھے ہیں۔۔۔ اگلی بار وہ آئینگے تو آپ سے ضروری ملواؤنگا۔ اور میں اتنا بھی چھوٹا نہیں کہ راستے بھی نہ پتہ ہوں اپنے گاؤں کے۔ آپ ہی تو کہتی ہیں ہمیں سب کی مدد کرنی چاہیے اور اب خود ناراض ہو رہی ہیں۔

دونوں ماں بیٹا اندر آگئے تھے اب دروازہ بند کرکے اور ماہیما منتظر کی باتیں سن کر اسے کہتے کہتے رک گئی۔

چل جلدی ہاتھ منہ دھو لے میں سالن بنا رہی ہوں پھر روٹی بھی بنانی ہے۔ پتہ نہیں کہاں کہاں گھومتا رہتا ہے۔۔۔ ٹیچر صاحب کہہ رہے تھے کہ تعلیم میں اچھا ہے مگر دوسروں کی مدد کرتا ہے نقل کرنے میں جو اچھی بات نہیں ہے۔ ایسا پھر سے کروگے تو وہ سزا بھی دینگے

ماہیما نے جب ٹیچر صاحب کا ذکر کیا تو منتظر ہاتھ دھوتا دھوتا رک گیا۔

امی ، ابو کب آ رہے ہیں واپس ؟ آپ ان کو خط لکھئے ناں کہ اب وہ واپس آجائیں۔۔۔ کتنی دیر ہوگئی ان کو دیکھے ہوئے

ماہیما منتظر کی بات سن کر اپنے شوہر کو یاد کرنے لگ گئی۔ چہرے پر آئی شکن اس کے درد کو بیان کرنے کو کافی تھی۔

پتہ نہیں اور کتنا عرصہ ہم ماں بیٹے کو اکیلے رہنا ہوگا۔۔۔ آخری خط میں بھی کہہ رہے تھے کہ عید پر آجائینگے اگر چھٹی مل گئی تو۔ کمبخت یہ غربت کسی کے حصے نہ آئے۔
اپنی آنكھوں میں آیا پانی صاف کرتے ہوئے ماہیما اپنے کام میں لگ گئی اور منتظر بھی اپنی امی کو آنکھیں صاف کرتے دیکھ کر چھپ ہوگیا۔

کہاں تھے آپ ؟ ہم نے کومل کو بلانے بھیجا تھا مگر آپ حویلی میں کہیں نہیں تھے

رات کا كھانا کھانے کے لیے شیرا سب کے درمیان موجود تھا اور یہ سوال فریال پوچھ رہی تھی شیرا سے۔

کومل جب شیرا کو بلانے گئی تھی تب اسے شیرا کہیں نہیں ملا اور نہ کسی کو اس کے بارے میں خبر تھی۔ شیرا تو حویلی میں تھا ہی نہیں۔

وہ ہم۔۔۔۔۔۔۔۔

بھائی اکیلے میں خنجر چلا رہے ہونگے ، ہم نے دیکھا تھا آج یہ بالی چچا کے ساتھ ان سے وہی سیکھ رہے تھے۔۔۔ میں نے سہی کہا ناں بھائی جان

شیرا کو دیکھ کر ہی زینت نے اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ جواب دینے کے لیے سوچ رہے ہیں اِس لیے خود ہی اپنی طرف سے معقول جواب دے دیا۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
سمگلر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more
سمگلر

Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page