Gaji Khan–78– گاجی خان قسط نمبر

گاجی خان

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  یہ داستان صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹرمحنت مزدوری کرکے لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ یہ  کہانی بھی  آگے خونی اور سیکسی ہے تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گاجی خان قسط نمبر -78

شیرا نے اس کے ہاتھ سے کتاب لے کر کھولا تو وہ ہاتھ سے لکھی ہوئی تھی جیسے اس میں کوئی ضروری باتیںیا پیغام لکھ رکھا تھا اس نے۔۔۔ جو وہ شیرا کو دینا چاہتا تھا۔

میں تو کبھی ان سے ملا ہی نہیں پھر یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے ہی کیوں دینا چاہتے تھے ؟

شیرا نے کتاب بند کرکے سوال پوچھا جو اس کے ذہن میں سب سے پہلے آیا۔

حضور یہ تو میں نہیں جانتا نہ انہوں نے بتایا ، بس اتنا ہی کہہ رہے تھے کہ اقبال ، ، ، ، ، صاحب جی کبھی سمجھ نہیں پائے اسے مگر شاید آپ سمجھ سکیں ۔

یہ بات تو ایک راز کی طرح ہی تھی جسے سن کر شیرا کے ساتھ ساتھ بالی کی آنکھیں بھی کھل گئی۔

کوئی ایسا راز جو اقبال صاحب سے میاں نواز نے نہیں کہا اور شیرا سے وہ کہنا چاہتے تھے مگر کہہ نہیں پائے اور اب اس راز سے بھری کتاب شیرا کے ہاتھوں میں تھی۔۔۔ شیرا اور بالی نے ایک دوسرے کو دیکھا’ دونوں کی نظروں میں سوال ہی تھے۔۔۔ پھر بالی نے شیرا سے وہ کتاب لیکر اپنی کمر سے کس کے باندھ لی اور اپنے خادم سے شاہی چادر لیکر میاں نواز کی تابوت  پر ڈال دی۔

چند سیکنڈ بعد کچھ لوگ ایک ساتھ تابوت کے پاس آگئے اور اٹھانے لگے۔

پھر میاں نواز کا تابوت اٹھایا گیا اور بالی نے تابوت کے آگے ہوکر چل دیا تو شیرا بھی دوسری طرف بالی کے ساتھ چل دیا۔

دیکھا دیکھی ہر کوئی میاں نواز کے تابوت کو کندھا دینے لگے۔۔۔ مگر اس میں بھی سب شیرا سے ہی تعارف کرنے کا موقع دیکھ رہے تھے۔

مردہ جسم جوکہ  تابوت میں بند تھا حویلی سے باہر نکلا تو اور بھی لوگ باہر آپہنچے تھے مگر سب کی نظریں میاں نواز کی بجائے حویلی کے وارث کو دیکھنے میں لگی تھی۔

حویلی سے کوئییہاں آیا ہے یہ بات آگ کی طرح پورے گاؤں میں پھیل چکی تھی۔

شیرا کو گھیرے میں لیے بالی اور باقی سب باڈی گارڈ آگے آگے چل رہے تھے تو وہیں لوگوں کی نظر شیرا کے دیدار میں لگی تھی۔

حویلی سے کچھ ہی دور ایک زمین کا ٹکڑا تھا جہاں تابوت کو دفن کرنے کا انتظام کیا گیا تھا۔

حویلی سے یہاں  تک  ایک بڑا ہجوم  تابوت کے ساتھ ساتھ چلا آیا اور آخر میں مردہ جسم دفن کرنے کا وقت بھی آگیا۔ چند سیکنڈ بعد تابوت کو دفنانے کیلئے اتارا گیا اور وہاں سب معزز شخصیت نے شیرا کے ہاتھوں ہی پہلے مٹی ڈالوائی  اور یوں میاں نواز کے مردہ جسم دفن ہوگئے۔

لوگوں کا ہجوم  اب شیرا کو دیکھنے اس سے ملنے میں لگ گیا جس سے شیرا کو بچانے میں اسلحہ سے لیس باڈی گارڈ کے ساتھ ساتھ بالی کو بھی مشقت کرنی پڑ رہی تھی۔۔۔ اسی دوران ایک معزز صاحب جو اسی گاؤں کے تھے، نے شیرا کو بھیڑ سے علیحدہ کرنے کے لیے اسے اپنے ساتھ آنے کو کہا۔۔۔ باڈی گارڈ نے دیوار کی طرح سب کو روکا شیرا کے پیچھے جانے سے اور۔۔۔۔۔۔ وہیں اس صاحب کے ساتھ چل رہے شیرا کا راستہ ایک پیڑ کے پیچھے  چُھپے بزرگ نے روک لیا۔

سفید کپڑے پہنے پورے جسم کو چادر سے ڈھکے سر پر بڑی ٹوپی رکھے سفید بالوں والا یہ انسان اشک بھری آنکھوں سے شیرا کو بڑی حیرانی سے دیکھ رہا تھا۔

اگلے ہی پل گھٹنوں پر بیٹھ اس نے شیرا کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ماتھے سے لگایا اور چوم کر پھر سے اپنی آنکھوں پر لگایا۔

تو یہ سچ تھا ، آپ واقعی میں لوٹ آئے ، اپنے خادم کا سلام قبول آئے ، اپنے خادم کا سلام قبول کیجیے میرے حضور

شیرا حیرانی سے کبھی اس بزرگ کو تو کبھی اس صاحب کو جس نے شیرا کو اپنے ساتھ آنے کو کہا تھا۔۔۔دیکھتا۔

وہ صاحب بھی حیران تھے شاید وہ بھی اِس شخص کو نہیں جانتے تھے۔ شیرا نے اپنا ہاتھ چھڑا کر اس بزرگ کو اٹھایا۔

یہ آپ کیا کر رہے ہیں جناب، اٹھیئے، آپ شاید مجھے کوئی اور سمجھ رہے ہیں۔۔۔ اٹھیئے آپ

شیرا نے اس بزرگ کو سہارا دے کر اٹھایا تو وہ ہاتھ جوڑے شیرا کو غور سے دیکھے جا رہا تھا جیسے بہت وقت بعد مل رہا ہو۔

اپنے مانور کو نہیں پہچان رہے لالے دی جان؟ میاں نواز کی آنکھیں تو ترستی رہ گئی ایک بار کو تیرے دیدار کیلئے۔۔۔۔ اب کیا مجھے بھی مرحوم رکھے گا حق سے؟؟؟

دوستی تو سارے رشتوں سے بڑی ہوتی ہے جس میں کسی کا کوئی رتبہ نہیں دیکھا جاتا۔۔۔۔ دیکھ تیری دید کے انتظار میں ایک اور رخصت ہوگیا۔

شیرا کو تو جیسییہ باتیں سمجھ ہی نہیں آرہی تھی۔ اُس سے کچھ کہتے بن رہا تھا نہ وہ بزرگ کچھ صاف بتا رہا تھا۔

لگتا ہے اپنی حقیت ہی اب تک تم جان نہیں پائے شیرا،  معاف کرنا مجھے اب جانا ہوگا۔ جس روز خود کو جاننے کی تمنا جاگ اٹھے۔۔۔ مجھے تلاش کر لینا۔ میں کہیں دور نہیں تم سے،  میرا پتہ ٹھکانا سب تم جانتے ہو۔

شیرا کے کچھ کہنے سے پہلے وہ بزرگ فورتی سے چار قدم دور کھڑے محفوظ گھوڑے پر سوار ہوکر گرد کا غبار اڑاتا ہوا تیزی سے نکل گیا۔ اتنے میں بالی شیرا کے پاس آپہنچا

ہمیں چلنا چاہئیے صاحب جی، بیگم صاحبہ نے کہا تھا کہ وقت رہتے واپس لوٹ آنا حویلی میں۔ ہمیں بہت وقت ہو چلا ہے۔ کون تھے وہ  جناب۔

بالی نے آتے ہی شیرا کو چلنے کو کہا مگر شیرا کی نظر دور جارہے اُس گھوڑ سوار پر تھی جو تیزی کے ساتھ گرد و غبار اُڑاتا نظروں سے اجھل ہوتا جا رہا تھا

مانور ،  بس اتنا ہی بتایا انہوں نے، وہ شاید مجھے دادا جان سمجھ رہے تھے

شیرا کا جواب سن کر بالی حیران ہوگیا وہ کبھی شیرا کو دیکھتا تو کبھی مانور کو۔۔۔۔جو اب نظر آنا بھی بند ہو چلا تھا صرف دور گرد و غبار سے ہی پتہ چل رہا تھا۔

کیا ؟؟؟ مانور صاحب؟؟؟

وہ رُکا کیوں نہیں؟؟؟ و و وہ کہاں گئے ہیں؟ کچھ کہا نہیں کیا ؟  کب ملیں گے ؟  کہاں ملیں گے؟

اُنہوں کہا کہ وہ آس پاس ہی ہیں اور میں اُن کا ٹھکانہ جانتا ہوں، مگر مجھے تو اُن کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم پھر انہوں نے ایسا کیوں کہا۔

کاش کہ۔۔۔ میں ساتھ ہوتا تو ان کو جانے ہی نہیں دیتا’۔ پتہ نہیں کہاں ملیں گے اب وہ، بہت ضروری تھا ان سے بات کرنا اور یہ جاننا کہ وہ سب اچانک کیوں غائب ہوگئے۔ چلئے اب واپس چلتے ہیں، قسمت نے چاہا تو ضرور ملیں گے۔۔۔ بالی شیرا کو ساتھ لیے چل پڑا،  ان کے پاس کھڑے گاؤں کے اُس معزز شخص کو بھی کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ماجرا ہے۔ مگر شیرا کو بالی کی باتوں سے ضرور لگنے لگا کہ کچھ تو راز ہے جو آپ لوگ اچانک سے دور ہو گئے۔

اس کے الفاظ شیرا کے زہن میں گھوم رہے تھے۔

دوستی سارے رشتوں سے بڑی ہے یہ الفاظ اس بزرگ مانور نہ کہے مگر یہ الفاظ تو شیراکے دادا جان کے،،، یقیناً کہ ان کے درمیان دوستی بہت گہری رہی ہوگی۔

پھر ان لوگوں کا اچانک سے حویلی سے دور ہوجانا جب ان کے خاندان کو ضروت تھی ان کی۔ اس بات میں کچھ تو گہرا راز تھا جسے کوئی نہیں جانتا۔

خیر شیرا بالی کے ساتھ پھر سے واپس حویلی کی طرف چل پڑا  اور دن ڈھلنے سے پہلے ان کا قافلہ واپس حویلی لوٹ چکا تھا۔

آتے ہی شیرا کو کومل نے فریال کا پیغام دے دیا ان سے ملنے کا کچھ دیر آرام کرنے کے بعد۔ اس سے پہلے بالی کو بھی حاضر ہونا تھا فریال کے حضور میں۔

 ‘ ابا جان وہ میاں نواز مر گیا، آج اسے دفن کر دیا گیا۔ سُنا ہے حویلی سے وہاں اقبال کا بدذات بیٹا اور حویلی کا وفادار کُتا بالی گئے تھے۔

کھالو خان آرام سے لیٹا ہوا تھا جب اکرم نے آکر اسے یہ خبر دی۔

آج کل کھالو خان اور اکرم دونوں ہی لوگوں کے ساتھ ساتھ سیاسی شخصیتوں میں اپنا رتبہ بڑھانے میں لگے ہوئے تھے۔

کھالو خان کل ہی کراچی سے واپس لوٹے تھے اور آج وہ آرام فرما رہے تھے۔ مگر اکرم نے جو خبر دی وہ کافی تھی اس کے چین وسکون بھگانے کے لیے۔

میاں نواز ؟؟؟ تم نوازی کی بات کر رہے ہو؟

یہ خاص نام اسی شخص کا تھا جس کے بارے میں اکرم بتا رہا تھا اور تصدیق کرنے کے لیے کھالو خان نے یہ نام لیا تو اکرم نے سر ہاں میں ہلایا

اس نے تو مرنا ہی تھا، افسوس کے میرے تاج پوشی دیکھنے سے پہلے مارا گیا’۔ بہت کُتی چیز تھا حرامی کہیں کا، اچھا ہوا خود ہی مر گیا۔

کیا فریال نہیں گئی  تھی وہاں پر؟ اس کے شوہر کے ساتھ تو بہت گہرا تعلق تھا میاں نواز کا پھر وہ کیوں نہیں گئی؟

کیا اور بھی کوئی وہاں آیا تھا؟

اکرم نے جیسی پوری بات بتائی نہیں تھی اور اپنے ابو کے سوال پر اس نے اگلی بات بھی سامنے رکھ دی

جی ابو، پتہ چلا ہے کہ مانور کو بھی وہاں دیکھا گیا ہے۔ اور وہ اقبال کے بیٹے سے اکیلے میں ملا بھی تھا’۔

اکرم کی بات سُن کر کھالو خان ایسے کھڑا ہوا جیسے کسی نے اس پر تیزاب ڈال دیا ہو۔۔۔ غصہ صاف نظر آ رہا تھا کھالو خان کے چہرے پر نام سن کر۔

کیا؟ مانور وہیں آیا تھا؟ اس کا مطلب وہ بات جھوٹی تھی کہ وہ مرچکا ہے۔ اچھی بات ہے، اب تو اسے اپنے ہاتھ سے ہی مارونگا، بہت پرانا حساب باقی ہے اس کے ساتھ۔

یہ سب کس نے بتایا؟ اور اقبال کے بیٹے سے اس نے کیا کہا؟ کس طرف گیا ہے وہ؟

مجھے اس کے بارے میں ہر خبر چاہیے۔ مانور زندہ ہے تو سلیم جاوید بھی کہیں نہ کہیں ضرور چھپ کر رہ رہا ہوگا۔ جلدی سے ان سب کے بارے میں معلوم کرو۔

 ‘جی ابو، میں پتہ لگا رہا ہوں، ابھی تک اتنی ہی معلومات ہاتھ لگی ہے۔ مجھے ضروری لگا تو آپ کو بتانے چلا آیا۔ میرے لوگ پتہ لگانے میں لگے ہیں۔ ویسےیہ دونوں وہی ہیں ناں جنہوں نے اس انگریز کا ساتھ دیا تھا اقبال کے باپ کے خلاف جا کر؟

اکرم نے بِنا نام لیے سوال پوچھا پر جس کے بارے میں بات کی گئی وہ کوئی عام انسان نہیں تھا اور ظاہر ہے وہ غیر مذہب تھا۔

 ‘ہاں، میاں نواز بھی ان کے ساتھ شامل تھا پر اس نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا’۔

کسی زمانے میںیہ میرے سب سے بڑے دشمن تھے جب یہ آفتاب کے ساتھ تھے۔ بہت مشکل سے ان کو الگ کیا تھا میں نے حویلی سے۔۔۔ تب کہیں جاکر یہاں تک پہنچ سکے ہیں۔

مگر مانور کا واپس لوٹ آنا خطرہ بھی ہوسکتا ہے ہمارے لیے۔ وہ انگریز آج بھی زندہ ہے جو کسی کے شکنجے میں نہیں آرہا آگر مانور یا سلیم جاوید ہاتھ آیا تو میں اس انگریز کو سب کے سامنے لاکر اس کا سر قلم کرکے حویلی پر ٹانگ دونگا ۔ بہت گہرا زخم دیا تھا اس حرامزادے نے

میں اب بھی بھولا نہیں ہوں ابو جان جب اس نے اکیلے ہی آپ کے خاص دوست اور چاچا جان کی گردن کاٹ دی تھی سب کے سامنے۔

کمبخت باغی بن کر کہیں چھپ گیا آج تک پتہ نہیں چلا۔ مگر آپ کے ہاتھوں وہ زندہ کیسے بچ گیا؟

پتا نہیں، مجھے لگا تھا وہ مر گیا ہوگا جب تلوار اس کو آر پار کردی تھی۔ سر کاٹ دیتے اگر اُس دن مانور اور سلیم جاوید اُسے اپنے ساتھ بچا نہ لے جاتے۔ اُس کی موت تو لکھوا لیا تھا میں نے انگریز سرکار سے بھی مگر وہ ہاتھ میں نہیں آیا۔ تم بس نظر رکھو اور پتہ لگاؤ۔ وہ ضرور ہم سے ملنے کی کوشش کریں گے۔

جی ابو، میں نے نظر رکھے ہوئے ہیں’۔ میں نکل رہا ہوں میاں نواز کے ڈیرے (گھر) کی طرف۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

رومانوی مکمل کہانیاں

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کالج کی ٹیچر

کالج کی ٹیچر -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

میراعاشق بڈھا

میراعاشق بڈھا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

جنبی سے اندھیرے

جنبی سے اندھیرے -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

بھائی نے پکڑا اور

بھائی نے پکڑا اور -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کمسن نوکر پورا مرد

کمسن نوکر پورا مرد -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page