Gaji Khan–80– گاجی خان قسط نمبر

گاجی خان

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  یہ داستان صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹرمحنت مزدوری کرکے لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ یہ  کہانی بھی  آگے خونی اور سیکسی ہے تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گاجی خان قسط نمبر -80

’ زیادہ تو نہیں جانتا بیٹے مگر ابو کہتے تھے کہ وہ کسی زمانے میں بڑے صاحب جی کے عزیز دوست تھے۔ اور بعد میں وہ باغی ہوگئے ، آج کے وقت میں ان کا نام  باغیوں  میں شمار ہے۔ قاعدوں کو نہ ماننے کی وجہ سے ان کو نکال دیا تھا صاحب جی نے اور وہ باغی ہوگئے اپنے ہی دوست کے خلاف۔۔۔ اس کے بعد انہوں نے کئی قتل کیے اور آج بھی ان کے سر پر انعام ہے۔ سلطنت کی سرحدوں کے باہر ان کا علاقہ ہے جہاں وہ اور ان کے ساتھی کسی نہ کسی کا سر قلم کر دیتے ہیں اور پھر جنگ ہوتی رہتی ہے۔ اب تو سرکار نے اپنا ٹیم لگایا ہوا ہے ان کے پیچھے۔۔۔ مگر تم نے یہ نام کہاں سے سُنا ؟ ’

شیرا  بالی کا جواب سن کر پریشان ہوگیا۔۔۔ خواب میں اس کے دادا نے کمالی کا نام دوستوں میں شمار کیا تھا اور یہاں بالی اُسے باغی بتا رہا تھا جسے خود شیرا کے دادا جان نے نکال دیا تھا۔

‘ کیایہ بات سچ ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ سچائی کچھ اور ہو اور بتایا کچھ اور گیا ہو ؟’

ایسا بھلا کون کرے گا بیٹے، جو سچ ہے وہ تو یہی ہے۔۔۔ کمالی سنگھ ایک سکھ ہے جسے باغی قرار دیا گیا ہے نہ صرف اپنے بزرگوں نے، یہاں تک کہ سرکار اور تمہارے دادا جان نے بھی۔۔۔ مگر تم نے بتایا نہیں کہ تم نے یہ نام کہاں سنا؟

’ وہ کل جو  بابا مانور صاحب ملے انہوں نے نام لیا تھا یہ۔۔۔ اس کے علاوہ سلیم جاوید  کا بھی نام لیا تھا۔

ہمممم ، چھوڑو اس کے بارے میں اور چلو آج شمشیر کی آزمائش کرتے ہیں۔

اس کے بعد بالی نے شیرا کو تلوار بازی سکھانی شروع کر دی۔۔۔ مگر شیرا کے ذہن میںیہ نام بار بار آ رہا تھا اور اس کا دِل کہہ رہا تھا کہ کچھ تو غلط ہے۔۔۔۔۔۔ ورنہ اس کے دادا جان کمالی کا نام نہیں لیتے۔

‘ امی جان آپ سیالکوٹ جا رہی ہیں آپی کو ساتھ لیکر ؟ ‘

زینت کو جب یہ خبر ملی کہ رفعت سیالکوٹ جانے والی ہے تو وہ سیدھا اپنی امی کے پاس پہنچی۔

’ رفعت کے امتحان ہونے والے ہیں پتہ ہے ناں ؟ اسی لیے سیالکوٹ جانا ہے وہاں یونیورسٹی میں امتحان ہونگے۔ اور ہمارے ساتھ تم بھی چل رہی ہو۔ کل یا پرسوں میں تمہاری بڑی  پھوپھی آجائینگی۔۔۔ تمہارے پھوپھا کے ساتھ ہمیں لینے۔

اِس لیے تم بھی اپنا ضروری سامان ابھی سے سمیٹ لو بعد میںیہ نہیں کہنا کہ یہ رہ گیایا وہ رہ گیا۔ ’

‘ آنٹی آرہی ہے لینے ہمیں ؟ پھر تو ہم بھائی کو بھی ساتھ لیکر چلیں گے وہ تو نہیں گئے ہیں کبھی  سیالکوٹ۔ آنٹی  بھی کتنی خوش ہونگی جب بھائی ان کے  گھر پہلی بار قدم رکھیں گے۔۔۔ ہم بھائی کے ساتھ پورا سیالکوٹ گھومیں گے۔ بھائی کو بہت اچھا لگے گا۔

زینت خوش ہورہی تھی کہ شیرا بھائی بھی ان کے ساتھ  جا رہا ہے۔ پہلی دفعہ وہ اِس حویلی سے دور کھلی فضا میں سب کے ساتھ ہوگا تو اسے اچھا لگے گا۔۔۔ یہ سب دِل میں سوچتے ہوئے زینت مسکرا رہی تھی مگر سونم نے اس کی ساری خوشی پر پانی پھیر دی اگلی بات کہہ کر۔

‘ شیرا کہیں نہیں جا رہا، امتحان رفعت کے ہیں اسی لیے اس کا جانا ضروری ہے ورنہ ایسے ماحول میں باہر جانا سہی نہیں۔۔۔ امی جان نہیں چاہتی کہ شیرا کو کسی طرح کے خطرے میں ڈالا جائے  ‘

مگر امی جان اِس طرح بھائی کو اگر دادی جان قید کرکے رکھیں گے تو ان کے دِل پر کیا گزرے گی۔۔۔ وہ پہلے ہی خفا ہیں کہ انہیں کہیں بھی مرضی سے آنے جانے کی اِجازت نہیں ہے جیسے وہ کوئی مجرم ہو۔

کیا ڈر کی وجہ سے بھائی کو ایسے ہی ہمیشہ حویلی کی چار دیواروں میں قید رکھا جائیگا ؟ ’

’یہ تم کیسی باتیں کر رہی ہو زینت، امی جان اس کی دشمن ہیں کیا جو وہ جان بوجھ کر ایسا کریں گی ؟ کچھ بھی کہنے سے پہلے تھوڑا  عقل سے کام لیا کرو۔۔۔ جو کچھ بھی وہ کر رہی ہیں شیرا کے اچھے کیلئے ہی کر رہی ہیں۔

تمہیں ہمارے ساتھ چلنا ہے اِس بات کا خیال رکھو اور امی جان کے حکم پر سوال مت اٹھایا کرو۔

زینت سونم کی صاف صاف تاکید سن کر پاؤں پٹکتی ہوئی واپس لوٹ گئی۔۔۔ ایک پل میں پیدا ہوئے ارمان پل میں ہی مٹی میں مل گئے زینت کے۔۔۔۔ اور اس کے دِل میں اپنی دادی جان کے لیے ناراضگی اور بڑھ گئی۔

’  ہم پر یہ الزام ہے کہ ہم خلافِ وفا ہو گئے۔

رنج شمار ہے سانسوں میں جدائی کا کسی نے نہ سمجھا۔

ہاں ہم باغی تھے باغی ہیں اور باغی کہلائیں گے ،

دوستی کی راہ میں ہم مجرم مذہب ہوگئے۔

شیرا بالی کے جانے کے بعد سے کتاب لیکر بیٹھ گیا اور اس میں لکھی باتوں کو پڑھ کر اسے سمجھ آ رہا تھا کہ میاں نواز ، مانور ، سلیمجاوید اس کے دادا جان کے کتنے عزیز تھے۔ اس میں وہ تمام ضروری قصے لکھے تھے جن کا تعلق صاحب جی کے ساتھ تھا۔ چاہے بچپن کے قصے ہو، جوانی کے قصے، بچپن کے قصے ہو شادییا کسی کی موت۔۔۔ ہر ضروری پَل میںیہ دوست شامل تھے ایک دوسرے کے ساتھ۔۔۔کمالی سنگھ کا بھی ذکر شمار تھا اس میں پرجوانی کے دوڑ میں۔

فریال نے کھانے کے وقت شیرا کے سامنے ہی رفعت، سونم اور زینت کے سیالکوٹ جانے کا ذکر کیا تھا۔

جہاں شیرا نے رفعت کو ایک نظر دیکھنے کی کوشش کی مگر ہمیشہ کی طرح رفعت کینگاہیں نیچی تھی۔ رفعت جیسے شیرا کو جان بوجھ کر  اندیکھا کرتی تھی مگر شیرا کے دِل میں ہی دیکھنے کی خواہش تھی ہمیشہ۔۔۔ چاہے وہ خود کو کتنا بھی سمجھاتا تھا مگر پھر بھی اس کی نظریں رفعت پر ضرور اٹھتی تھی۔

کچھ بُرا سا ضرور محسوس کیا شیرا نے خود کو کیونکہ زینت سے اس کی جو بات چیت ہوتی تھی اب وہ بھی بند ہونے والی تھی زینت کے چلے جانے سے۔۔۔۔

آج شیرا نے زینت کے رکنے کے اشارے پر بھی نہ رکنے کا فیصلہ کیا اور واپس لوٹ کر میاں نواز  کییہ کتاب ہاتھوں میں لیے انہیں پھر سے پڑھنے بیٹھ گیا۔ اب جا کر جس صفحے پر اس کی نظر ٹھہری شاید اس کے آگے کچھ ایسی بات سامنے آنے والی تھی جو کہ سب سے اہم تھی۔

’ وہ حویلی جو ہمارے لیے سب کچھ تھی اس کا دیدار کیے ہوئے عرصہ ہوگیا۔۔۔ جہاں بچپن گزرا اور جوانی دیکھی، جو ہماری دوستی کی ایک جنت تھی اب اس کے پاس بھی جانا گوارہ نہیں مجھ کو۔

اس حویلی میں مجھے میرےیار کا خون ہی دکھائی دیتا ہے جو کہتا ہے میں گنہگار ہوں۔۔۔ اس کی روح بھی مجھے گالی دیتی ہوگی کہ میں نے اس کے ساتھ انصاف نہ کیا۔

جناب  آفتاب خان صاحب جی کی موت ایک سازش تھی جس پر سے ہم سب مل کر بھی پردہ نہ اٹھا سکے۔۔۔ اٹھاتے بھی کیسے جب کسی کو گمان تک نہ تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ یہ حقیقت کچھ عرصے بعد سامنے آئی جب حکیم صاحب نے اپنی موت کے آخری پلوں میںیہ بات کہی کہ صاحب جی کی موت وقتی نہیں تھی۔ ان کو خطرناک زہر دیا گیا تھا اور یہ زہر آہستہ آہستہ اپنا کام کر رہا تھا۔

یعنی انہیں لمبے عرصے سے زہر دیا جارہا تھا۔۔۔ پہلے جسے بیماری مانا جا رہا تھا اصل میں وہ زہر تھا جس پر حکیم صاحب کو بھیتوجہ نہیں دینے دی گئی۔۔۔ افسوس کہ وہ نام نہیں بتا پائے اس غدار کا ورنہ اپنے ہاتھوں سے اس کا سَر قلم کر دیتا۔

اقبال سے میں نے ذکر کیا تھا مگر وہ بھی پہچان نہیں پایا۔۔۔ کسی کنیز کا کام نہیں تھا یہ اور جس پر مجھے شک تھا اس پر بھی اقبال کچھ سننا نہیں چاہتا تھا۔۔۔ مگر یہ بات حقیقت ہے کہ زہر کسی ایسی عورت نے دیا جو بےحد قریب تھی۔

اور ایسی صرف دو ہی عورتیں تھیں جن پر ہمیں شک تھا۔ نفیس بیگم ہمارے استاد کی بیٹی ہے اور فریال بیگم شاہ جی کی خاتون۔۔۔ دونوں کے ہی خلاف اقبال کچھ سننا نہیں چاہتا تھا۔۔۔ ان دونوں کے علاوہ کسی اور کا ہاتھ ہونے کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔

اسی لیے مجبور ہو کر حویلی سے ہمیں دور ہونا پڑا۔

ہمارے محبوب دوست کے قاتل کے ساتھ ہم نہیں رہ سکتے اور دور ہو جانے پر ہمیں مجرم بنا دیا گیا۔

ایک ایک کرکے ہماری سارے دیئے بجھتے چلے گئے اور ہم کچھ نہ کرسکے۔۔۔ اقبال یہ بات سمجھتا ہے کہ وسیم اور فیروز کی موت سازش ہے مگر اس کی تمام کوششوں کے باوجود بھی کچھ سامنے نہیں آیا۔

اقبال بھی حادثے کا شکار ہوگیا جو حادثہ نہیں ہے، حویلی کے تمام روشن چراغ بجھا دیئے گئے اور اب آخری روشنی تم ہو میرے عزیز۔

سنا ہے کہ تم ہمارے عزیز دوست کی ہو بہو صورت لیکر پیدا ہوئے ہو۔ تقدیر سے التجا ہے کہ میرا دم نکلے تو تیرے دیدار کے بعد اور جو میت اٹھے تو تمہارے سامنے۔ کم سے کم میری نظریں میرےیار کو ایک بار دیکھ سکیں اور یہ سکون رہے کہ اپنے یار کو آخری سفر پر دیکھ لیا۔

میرے عزیز ، تم وہ غلطی نہ کرنا جو تمہارے ابو نے کی تھی۔

غدار حویلی کے اندر ہی ہے اور اسے تم نے سب کے سامنے لانا ہے اس سے پہلے کے بہت دیر ہو جائے۔

اب آخری چراغ تم ہو جسے بجھانے کی کوشش ضرور کی جائے گی۔

گاجی کان خاندان کا نام و نشان مٹانے کی سازش کرنے والوں کو ان کے انجام تک تمہیں پہنچانا ہے۔

اپنے دادا جان، اپنے ابو، اپنے چاچا اور سب عزیزوں کی موت کا بدلہ لینے کے لیے۔ ٭٭٭٭٭٭٭ تمہیں راستہ دکھائے  او میرے عزیز میرےمحبوب آفتاب خان  (گاجی کان) خاندان سلامت  رہے۔

آخری صفحوں پر لکھییہ باتیں پڑھ کر شیرا اندر تک ہِل گیا۔

اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسا سچ اس کے سامنے آئیگا۔

نفیس اور فریال کا نام پڑھ کر شیرا کو یقین نہیں ہو رہا تھا۔ مگر جو کچھ بھی اس میں لکھا تھا وہ جھوٹ تو نہیں ہوسکتا۔ ایک مرتا ہوا آدمی کبھی جھوٹ نہیں بولتا اور وہ بھی جو اتنا عزیز رہا ہو۔ شیرا کے ماتھے پر پسینہ نکلنے لگا اور اس کا چہرہ سرخ پڑ گیا تھا۔۔۔ نفیسپر تو ایک بار شک کیا بھی جاسکتا تھا مگر فریال، ، ، ، فریال کے بارے میں ایسا کچھ سوچنا بھی غلط ہوتا۔ شیرا کے اندر بےچینی بڑھنے لگی۔

اس کے ذہن میں بالی سے سُنی اور اقبال کی ڈائری میں پڑھی باتیں گھومنے لگی۔

شیرا جلدی سے اٹھا اور اقبال کے کمرے کے پیچھے بنی اس کی خاص جگہ گیا جہاں اقبال کی ڈائری  داستاویزات اور تصویریں پڑی تھی۔ اقبال نے اس کے چھوٹے بھائی وسیم کی موت اور شازیہ کے شوہر فیروز کی موت کے بارے میں جو لکھا تھا اسے پھر سے پڑھنے لگا۔۔۔ شیرا کا ذہن اب ہر موت کو ایکسازش مان کر ایک کے ساتھ دوسرے کو جوڑ کر دیکھنے لگا۔

میاں نواز کے مطابق شیرا کے دادا کی موت زہر دینے سے ہوئی تھی مگر باقی سب موتیں باہر ہی ہوئی تھی جس میں کوئی نہ کوئی شامل تو رہا ہوگا۔

اقبال کی تفتیش کسی نتیجے پر کبھی نہیں پہنچی سوائے اِس بات کے۔۔۔ کہ وہ اِتِفاق نہیں رکھتا تھا ان سب  اموات کی وجہ کے ساتھ۔

شروع کہاں سے کیا جائے یہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا اور سیدھا کسی سے پوچھنے کا مطلب تھا اس مجرم کو پہلے سے ہی آگاہ کر دینا۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

رومانوی مکمل کہانیاں

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کالج کی ٹیچر

کالج کی ٹیچر -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

میراعاشق بڈھا

میراعاشق بڈھا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

جنبی سے اندھیرے

جنبی سے اندھیرے -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

بھائی نے پکڑا اور

بھائی نے پکڑا اور -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کمسن نوکر پورا مرد

کمسن نوکر پورا مرد -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page