Gaji Khan–86– گاجی خان قسط نمبر

گاجی خان

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  یہ داستان صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹرمحنت مزدوری کرکے لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ یہ  کہانی بھی  آگے خونی اور سیکسی ہے تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گاجی خان قسط نمبر -86

تو لوگ سچ ہی کہہ رہے تھے آپ کے بارے میں۔۔۔۔ آپ دوسرے مردوں کے ساتھ۔ ناجائز  تعلقات  رکھتی ہیں۔۔۔ مجھے تو آپ کی باتیں سن کر لگا تھا آپ ایک پاکیزہ عورت ہیں مگر افسوس وہ سب دکھاوا تھا۔  مجھے تو منتظر پر ترس آرہا ہے کہ جب اسے پتہ چلے گا اس کی امی اتنی گِری ہوئی عورت ہے تو اس کے دِل پر کیا گزرے گی۔۔۔ اپنے شوہر کی عزت کی تو آپ نے پرواہ نہیں کی مگر کم سے کم اپنے اس معصوم سے بچے کی تو پرواہ کر لیتی۔

شرم آ رہی ہے مجھے تم پر اور اِس بات پر کہ میں نے آپ کے ہاتھوں سے پانی پیا ہے۔

ماہیما کو ذلیل کرتے ہوئے شیرا تیز قدموں سے باہر نکلنے چلا مگر ابھی وہ دروازے تک ہی پہنچا تھا کہ اس کے پیروں کو ماہیما نے پکڑ لیا۔

 شیرا نے اپنا پاؤں کھینچا مگر  ماہیما اس کے ساتھ ہی کھنچتی چلی گئی اور وہ زمین پر بری طرح گرتی لپٹتی چلی گئی۔

 پہلے آپ رک تو جاؤ۔۔۔ میری بات تو سنو۔۔۔ بس ایک بار میری بات سن لو۔۔۔ تم جو سمجھ رہے ہو ایسا نہیں ہے۔۔۔ تمہیں تمہاری ماں کا واسطہ میری بات سنو۔۔۔ تمہیں تمہارے باپ کا واسطہ ، ، ،

شیرا غصے میں تھا اور کسی بھی قیمت پر وہ رکنا نہیں چاہتا تھا مگر جب ماہیما نے شیرا کو اس کی امی کا واسطہ دیا تو شیرا دہلیز پر ہی رک گیا۔ شیرا کو رکتے دیکھ کر  ماہیما جلدی سے اٹھی اور دروازہ بند کر دیا۔

شیرا ماہیما کو ایسا کرتا دیکھ کر اور غصے میں آ گیا اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا ماہیما روتے ہوئے گھٹنوں پر بیٹھ گئی اور شیرا کے آگے اپنا دامن پھیلا دیا۔

 ایک بار۔۔۔ صرف ایک بار میری سچائی سن لو۔۔۔ پھر جو چاہے سزا دے دینا مجھے سب منظور ہوگی۔’

ماہیما کی اشکوں بھری آنکھیں اور یوں فریاد کرتے دیکھ کر شیرا نے اپنا غصہ قابو کیا اور ماہیما سے تھوڑا پیچھے ہٹ گیا اس کی طرف پیٹھ کرکے۔

  کہو ، کیا کہنا چاہتی ہو تم اپنی صفائی میں ‘

ماہیما جلدی سے اٹھی اور شیرا کا ہاتھ پکڑ کر اسے اندر کی طرف لے جانے لگی۔۔۔ شیرا نے اس سے ہاتھ چھڑا لیا غصے سے۔

آپ پلیز اندر چلو۔۔۔۔ اگر کسی نے ہماری بات سن لی تو میں برباد ہو جاؤں گی۔

شیرا کو اس کی بات سمجھ آئی تو وہ اس کے کمرے کی طرف اس کے پیچھے پیچھے آگیا۔ ماہیما نے شیرا کو بیٹھنے کو کہا تو وہ چپ چاپ بیٹھ گیا مگر وہ ماہیما سے نظر نہیں ملا رہا تھا غصے کی وجہ سے۔ ماہیما بھی شرمندگی میں نظریں جھکائے تھی۔

 کہو اب جو بھی کہنا ہے
مجھے پتہ ہے تم میری بات پر یقین نہیں کروگے مگر میں منتظر کی قسم کھا کر کہتی ہوں جو بھی کہونگی سچ کہونگی۔۔۔ ایک عورت کے لیے اس کے شوہر اور اولاد سے بڑھ کر کچھ بھی میں نے نہیں رکھتا اور میں نے جو بھی کیا اپنی اولاد کے لیے کیا ہے

ماہیما کی یہ بات سن کر شیرا کی نظر اِس دفعہ ماہیما کے چہرے پر گئی جہاں جس میں زمانے بھر کا درد چھپا تھا۔

ماہیما نے شیرا کی طرف نہیں دیکھا۔ مگر وہ نہ چاہتے ہوئے بھی دِل پر پتھر رکھے اپنی ساری درد بھری کہانی شیرا کے سامنے رکھنے لگی۔
یہ بات تب کی ہے جب حویلی والے صاحب جی فوت ہوئے تھے۔ منتظر کی اچانک سے صحت خراب ہوگئی تھی۔۔۔ منتظر کے ابو تو تم جانتے ہی ہو کہ یہاں نہیں ہوتے ، بس ایک منتظر ہی میرے جینے کی وجہ ہے۔ وہ ایک دم سے بیمار پڑا اور پھر اس کی حالت دن با دن خراب ہوتی چلی گئی۔

حکیم صاحب نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیئے تھے۔ انہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔۔۔ تب میں اسے ماسٹر صاحب کے پاس لےکر گئی۔ کیونکہ کسی نے کہا تھا کہ منتظر پر کوئی آتما وغیرہ کا ہوا ہے اور ماسٹر کے متعلق سنا تھا کہ وہ عامل بھی ہے۔۔۔ تب ماسٹر صاحب نے جب منتظر کو دیکھا تو انہوں نے بھی یہ ہی کہا کہ اس پر کوئی آتما کا سایہ ہوا ہے۔ اس کے بعد ماسٹر صاحب نے اس کا علاج شروع کیا۔ وہ روز گھر پر آتے تھے دن کے وقت اور  اپنا عمل کرتے اس کے ساتھ ساتھ اور کئی طرح کے  تجربے  بھی کیے انہوں نے۔۔۔ تب منتظر کی حالت ٹھیک ہوتے ہوتے پھر سے خراب ہونے لگی۔ ماسٹر صاحب نے پھر کہا کہ منتظر پر جو  آتما سوار ہوا ہے وہ خطرناک ہے جو منتظر کی جان لیے بنا اسے نہیں چھوڑیگی۔ میں ماسٹر صاحب کے پیروں میں گر گئی اور ان سے اپنے بچے کی جان کی بھیک مانگنے لگی۔۔۔ ماسٹر صاحب نے کہا کہ کسی نے منتظر کو کچھ کھلا دیا ہے اس کی جان لینے کے لیے۔ اِس لیے جو آتما کا سایہ اس پر ہے وہ اس کی جان لیے بنا نہیں جائیگا۔ میں نے ماسٹر صاحب کے آگے بہت فریاد کی مگر انہوں نے کہا کہ اِس سائے کو بس  حویلی کی بیگم صاحبہ (فریال) جی ہی ہٹا سکتے ہیں ان کے سوا کسی میں اتنی قابلیت نہیں ہے اور اگر انہوں نے کوشش کی تو منتظر کو کچھ بھی ہوسکتا ہے یا پھر خود ان کی جان جاسکتی ہے۔

میں تو اپنے بچے کو اِس طرح مرتے دیکھ کر پل پل مر رہی تھی۔

ماسٹر صاحب میرے بار بار منت کرنے پر راضی ہوگئے منتظر پر وہ عمل کرنے کے لیے جس سے وہ ٹھیک ہوسکتا تھا۔ ماسٹر صاحب نے مجھے کہا کہ جب وہ یہ عمل کرینگے اس وقت کوئی اور  آس پاس نہیں ہونا چاہیے ورنہ عمل ٹوٹ جائیگا۔ اِس لیے وہ رات کو ہمارے گھر آئے جس وقت کوئی اور نہ آسکے۔ عمل کرتے وقت منتظر بری طرح سے تڑپ رہا تھا ، ، ماسٹر صاحب کچھ منتر جیسے پڑھتے ہوئے منتظر کی حالت دیکھ کر بولے کہ منتظر پر جو بُری آتما ہے وہ باہر نکلنے والی ہے اِس لیے ہمیں اپنے اپنے لباس اترنے ہونگے ورنہ وہ ہم پر سوار ہوسکتی ہے۔ میرے سامنے ہی انہوں نے اپنے کپڑے اُتار دیئے اور ننگے ہوگئے مگر میں کیسے کسی غیر مرد کے سامنے کپڑے اتارتی۔  میں ایسا نہیں کرنا چاہتی تھی مگر ماسٹر صاحب نے کہا کہ اگر میں نے ایسا نہ کیا تو عمل ٹوٹ جائیگا اور منتظر کو کوئی نہیں بچاسکے گا۔۔۔ اپنے بچے کی خاطر میں نے اپنے کپڑے اُتار دیئے اور ماسٹر صاحب کے سامنے ننگی ہوگئی۔ اپنی زندگی میں اپنے شوہر کے علاوہ پہلی بار میں نے کسی اور کے سامنے اس دن میں بےلباس ہوئی۔۔۔ شرم سے میں نے آنکھیں بند کر لی تھی مگر منتظر لگاتار تڑپ رہا تھا۔ اسے کوئی ہوش نہیں تھی۔۔۔ ماسٹر صاحب نے پھر اس آتما سے بات کی جو منتظر پر سوار تھی۔۔۔ منتظر بے ہوشی کی حالت میں تھا مگر ماسٹر صاحب پھر بھی بات کر رہے تھے جو مجھے سنائی نہیں دے رہی بس ماسٹر صاحب کی آواز ہی  سونائی دے رہی تھی۔ پھر چند سیکنڈ بعد ماسٹر صاحب نے جو کہا اسے سن کر میرے پاؤں کے نیچے سے زمین ہی نکل گئی۔

ماسٹر صاحب نے کہا کہ وہ آتما اِس شرط پر منتظر کو چھوڑے گی کہ وہ آتما ماسٹر صاحب پر سوار ہو کر تیرے ساتھ ، ، ،  یعنی تیرے ساتھ وہ سب کرنا چاہتی ہے جو ایک مرد عورت کے ساتھ کرتا ہے۔

‘ میں نے انہیں صاف منع کر دیا کہ میں ایسا نہیں کرسکتی۔ میرے انکار کرتے ہی منتظر بری طرح تڑپنے لگا۔

ماسٹر صاحب نے کہا کہ اگر میں نے اس آتما کی بات نہیں مانی تو منتظر کی جان ابھی نکل جائے گی۔ میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں بچا تھا میری آنکھوں کے سامنے میرا بچہ مر رہا تھا۔ میں بھلا کیسے اسے کچھ ہونے دیتی ؟ ؟ ؟ میں نے تب وہ ہی کیا جو مجھے سہی لگا۔ میں خود گِر سکتی تھی مگر اپنے بچے کو مرنے نہیں دے سکتی تھی۔ میں نے ماسٹر صاحب کی بات مان لی۔

ماسٹر صاحب نے اس آتما کو اپنے اوپر سوار کروایا اور اس رات میرے جسم کو گندا کیا۔ میرا دِل کہہ رہا تھا کہ ماسٹر صاحب جھوٹ بول رہے ہیں مگر منتظر کے تڑپتے جسم کو دیکھ کر میں ان کی بات ماننے کو مجبور تھی۔ اس رات کے بعد منتظر تو ٹھیک ہوگیا مگر ماسٹر صاحب نے اس کے بعد کئی بار عمل کا بہانہ کرکے میرے ساتھ وہ سب کئی دفعہ کیا۔۔۔ میں انکار کرتی تو کہہ دیتے کہ وہ روح پھر سے لوٹ آئیگی اور منتظر کو کوئی نہیں بچا پائیگا۔ اِس طرح ماسٹر صاحب کی بات ماننے کے علاوہ میرے  پاس اور کوئی راستہ نہیں بچا اور ماسٹر صاحب نے مجھے اپنا کھلونا بنا لیا۔۔۔ میں انہیں انکار نہیں کرسکتی ورنہ میرے بچے کی جان جاسکتی ہے۔ میں اپنے شوہر کی مجرم ہوں میں جانتی ہوں اور میں خودکشی کر لونگی منتظر کے ابو کے واپس آتے ہی مگر تب تک میں اپنے بچے کو کس کے سہارے چھوڑ کر جاؤں ؟ ؟ ؟

میں معافی کے لائق ہوں یا نہیں ہوں مگر میں نے جو کیا اپنے بچے کے لیے کیا ہے۔۔۔۔ بس یہ ہی تھی میری ساری سچائی۔ اب تمہیں جو ٹھیک لگے تم کرو ، ، ، چاہو تو سب کو یہ بات بتا کر مجھے رسوا کرو جس کے بعد میرے پاس موت کے سوا کوئی اور راستہ نہیں بچے گا۔

ماہیما اپنی ساری کہانی سنانے کے بعد پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

ماہیما زمین پر بیٹھی سرجھکائے بس روئے جارہی تھی مگر شیرا کی آنکھوں سے بھی اشکوں کی دھار نکل آئی تھی۔۔۔ ماہیما کو اس نے ایک پل میں کتنا غلط سمجھ لیا تھا مگر اب اس کی سچائی سن کر اسے افسوس ہو رہا تھا۔ ماہیما نے جو بھی کیا مجبوری میں کیا اپنے بچے کو بچانے کی لیے وہ غلط نہیں تھی اپنی جگہ اور خودکشی والی بات سے صاف ظاہر تھا کہ وہ کتنی وفادار ہے اپنے شوہر کے لیے مگر ماسٹر جیسے انسان نے اس کا فائدہ اٹھایا تھا اس کے اکلوتے بیٹے کی جان کا حوالہ دے کر۔۔۔ ظاہر طور پر یہ جو کچھ بھی ہوا وہ ایک سازش تھی شیرا کی نظر میں جس کے لیے کوئی اور نہیں بس ماسٹر ہی ذمہ دار تھا۔۔۔ اس نے ہی یہ سارا کھیل کھیلا تھا۔ شیرا کچھ دیر خاموش رہا اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اب کیا کہے۔۔۔ وہ خود بھی شرمندہ تھا اپنے کہے الفاظوں کے لیے اور ماسٹر جیسے انسان کے لیے بھی وہ خود کو ہی قصور وار مان رہا تھا کیونکہ یہ سب ان کی سلطنت ان کی سرپرستی میں ہوا تھا۔۔۔ ماسٹر بھی تو حویلی کی طرف سے ہی یہاں لگایا گیا تھا۔ اگر اقبال کی فوتگی نہ ہوئی ہوتی تو شاید یہ سب نہ ہوا ہوتا۔

شیرا ماہیما سے کچھ کہہ تو نہ پایا مگر اپنے ذہن میں وہ ہر پہلو کو سوچ رہا تھا۔ کچھ پل کی خاموشی کے بعد شیرا اپنی جگہ سے اٹھا اور بنا کچھ کہے وہاں سے چلا گیا۔

 ماہیما کو تو اس کے جانے کا پتہ بھی تب چلا جب باہر والے دروازے کے بند ہونے کی آواز آئی جو شیرا جاتے وقت بند کرکے گیا تھا۔

 ماہیما دروازے کی آواز سن کر اور زور سے رونے لگی۔ وہ اپنی قسمت پر تو رہی تھی۔ اسے لگا کہ شیرا نے شاید اسے معاف نہیں کیا اور کہیں وہ یہ بات لوگوں کو نہ بتا دے جس سے وہ سب کے سامنے رُسوا ہوگی۔

ماہیما نے سوچ لیا کہ اگر شیرا نے لوگوں کو یہ بات بتا دی تو وہ زہر کھا کر جان دے دے گی۔

دوسری طرف شیرا غصے اور درد سے بھرا ہوا واپس حویلی کی طرف جارہا تھا۔۔۔۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

رومانوی مکمل کہانیاں

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کالج کی ٹیچر

کالج کی ٹیچر -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

میراعاشق بڈھا

میراعاشق بڈھا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

جنبی سے اندھیرے

جنبی سے اندھیرے -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

بھائی نے پکڑا اور

بھائی نے پکڑا اور -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کمسن نوکر پورا مرد

کمسن نوکر پورا مرد -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page