Gaji Khan–90– گاجی خان قسط نمبر

گاجی خان

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  یہ داستان صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹرمحنت مزدوری کرکے لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ یہ  کہانی بھی  آگے خونی اور سیکسی ہے تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گاجی خان قسط نمبر -90

چوہدری تو اتنے میں ہی خوش ہوگیا کہ بالی یہ بات یہیں ختم کررہا ہے اور اس نے بالی کا ہاتھ چوم لیا۔

  بالکل ایسا ہی ہوگا بالی بھائی۔۔۔

میں یہاں سب سے بھی درخواست کرونگا کہ وہ یہ بات حویلی نہ جانے دیں۔۔۔ میں آج ہی اس کے بِیوی بچوں کو یہاں سے بھجوا دیتا ہوں مگر آپ اس کا کیا کرینگے ؟ اس کی بیگم کو کیا جواب دوں میں ؟

 ان سے کہہ دینا کے ایک دو دن میں یہ ان کے پاس پہنچ جائینگے فکر نہ کریں وہ۔۔۔ اور آپ سے التجا ہے کہ اپنے فرض ٹھیک سے ادا کریں۔ صاحب جی کے چلے جانے سے یہ نہ سمجھیں کہ اب کوئی پوچھنے والا نہیں۔۔۔ حویلی آج بھی رہنما ہے  لوگوں کی۔’

بالی اپنی آخری بات کہہ کر اس عورت کو بھی با پردہ اپنے  آدمیوں کے گھیرے میں ماسٹر کے ساتھ یہاں سے لے گیا۔۔۔ باہر کھڑے لوگ بس ماسٹر کو آدھا ننگا بری حالت میں بالی کے  آدمیوں کے گھیرے میں جاتے دیکھ سکے۔۔۔ دبی زُبان میں ایک دوسرے سے ہر کوئی بات کر رہا تھا۔ آس پڑوس کی عورتیں تو منہ پر ہاتھ رکھے لعنت ڈال رہی تھیں ماسٹر پر اور مرد بھی جیسے حیران تھے مگر بالی کے سامنے کسی کے منہ سے آواز نہیں نکلی۔

بےشک یہ اس کے ٹوٹنے کا ڈر تھا مگر عزت کے ساتھ۔

یہ سب دیکھنے والوں میں نصیب بھی شامل تھا جو گھر سے یہاں آیا تو تھا پڑھنے کے لیے مگر ماسٹر صاحب کی حالت اور یہ سب نظارہ دیکھنے کے بعد وہ دوڑا دوڑا کر گھر گیا جہاں اس کی امی ماہیما گُم سم سی بیٹھی تھی مگر اپنے بیٹے کو اتنی جلدی واپس آیا دیکھ کر وہ حیرانی سے اس سے پوچھنے لگی۔

‘نصیب ، تم اتنی جلدی واپس کیسے آگئے ؟ ماسٹر صاحب ناراض ہونگے’

 امی ماسٹر صاحب کو حویلی والے بالی صاحب اور ان کے لوگ مارتے ہوئے لیکر جا رہے ہیں۔۔۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ماسٹر صاحب کے منہ سے خون نکل رہا تھا اور انہوں نے کپڑے بھی نہیں پہنے ہوئے تھے۔

یہ سب سن کر ماہیما بھی حیران ہوگئی اور وہ نصیب کو پکڑ کر سوال کرنے لگی۔

 یہ کیا کہہ رہے ہو تم ؟ ماسٹر صاحب کو بالی صاحب نے مارا ؟ تو سچ کہہ رہا ہے ؟ کہیں تم نے کسی اور کو تو نہیں دیکھا؟ تم بالی صاحب کو جانتے بھی ہو؟’

 انہیں کون نہیں جانتا امی۔۔۔ میں نے انہیں دیکھا ہے پہلے بھی۔۔۔ اور چوہدری صاحب بھی تو تھے وہاں جو ان کے ہاتھ جوڑ رہے تھے۔

امی بالی صاحب نے ماسٹر صاحب کو کیوں مارا ؟ وہ تو ہمیں پڑھاتے ہیں۔۔۔ اب ہمیں تعلیم کون دیگا ؟’

نصیب اتنے یقین سے کہہ رہا تھا تو ماہیما کو بھی یقین کرنا ہی پڑا اور اب اس کی آنکھوں میں خوشی کے مارے نمی اُتر آئی۔۔۔ اس نے نصیب کو گلے سے لگا لیا اور کچھ پل روتی ہی رہی۔

‘ ٭٭٭٭٭ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں وہ سب کا انصاف کرتا ہے۔۔۔ تو فکر مت کر۔۔۔ تیری تعلیم کے لیے میں بات کرتی ہوں پاس والے گاؤں میں۔۔۔ تو گھر پہ بیٹھ میں ابھی آئی

ماہیما جیسے ساری بات جان لینا چاہتی تھی کہ آخر ماسٹر کو سزا کیسے ملی اور کس جرم میں۔ ماہیما نصیب کو گھر رہنے کو بول کر جلدی سے سکول  کی طرف جانے لگی تو راستے میں ہی اسے اپنے  آس پڑوس  والی عورتیں مل گئی جو اسی بارے میں بات کرتی ہوئی آرہی تھی۔
 
باجی۔۔۔ آپ لوگ کہاں سے آ رہے ہیں ‘

تجھے پتہ نہیں چلا ؟ ماسٹر کو بالی صاحب نے پکڑ لیا ہے کسی عورت کے ساتھ۔۔۔ اب وہ انہیں اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ اچھا ہوا جو حویلی والوں نے اسے پکڑ لیا۔ نظر بڑی گندی تھی اس کی۔۔۔ کوئی بھی عورت اس کے پاس جاتی تھی تو نظریں اس کے جسم پر  لگائے رکھتا تھا ذلیل انسان۔۔۔ تجھے تو پتہ ہی ہوگا اس کی نظر کیسی ہے۔ نصیب کیلئے بھی تو آتا تھا ناااا وہ آپ کے گھر ؟’

ماجرہ جان کر  ماہیما  کو سکون بھی ملا اور سوال بھی اس کے ذہن میں کئی آئے مگر اِس عورت کی آخری بات جیسے دبی زُبان میں  ماہیما کے  اوپر ہی سوال تھی۔

 آپ سہی کہہ رہی ہو باجی۔ بڑی گندی نظر تھی اِس کی۔۔۔ میں تو  ہر بار اپنے مسیحا کے ہاتھ  جوڑتی  تھی کہ وہ نجات دلائے اس بیغیرت انسان سے۔ بہانے بہانے سے چلا آتا تھا اور چوہدری صاحب نے بھی اسے کُھلی آزادی دے رکھی تھی۔ خیر  اب آگے کوئی اچھا انسان ہی آئے اس سکول میں۔

ماہیما نے زیادہ بات کرنا ٹھیک نہیں سمجھا اور جلدی سے واپس لوٹ گئی گھر مگر اس کی پیٹھ پیچھے بھی یہ عورتیں اس کے بارے ہی بات کرتی رہی جس کی  ماہیما  نے پرواہ نہیں کی اور خوش ہوتے ہوئے گھر جاکر دوپٹہ سر سے گرا کر شکریہ ادا کیا اپنے مسیحا کی۔

بالی آج حویلی نہیں آیا تھا  اور ناشتے کے بعد سے شیرا  کا وقت کٹ نہیں رہا تھا حویلی کے اندر ۔ اسی لیے اس نے باہر جانے کی سوچی اور موقع ملتے ہی  وُہی حفیہ راستے سے باہر نکل گیا ۔

کل کے واقعے کے بعد اس کا دِل منتظر کی طرف جانے کا بھی نہیں کر رہا تھا اسی لیے اس نے آج کسی اور جگہ  کی طرف جانے کی سوچی۔

سَر کے اوپر سورج تپش دے رہا تھا  اِس وجہ سے پسینے سے اس کے کپڑے گیلے ہونے لگے تھے چلتے چلتے مگر آج کوئی نئی جگہ دیکھنے کا سوچ  کروہ آگے بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ حویلی سے کافی دور نکل آیا تھا  وہ ، اسی لیے پکے راستے پر چلنے میں اسے کوئی تکلیف نہیں ہوا  اور چلتے چلتے وہ کافی دور نکل آیا ۔۔۔مگر گرمی نے حالت خراب کر دی تھی۔ بالی کے کہے مطابق شیرا اب ایک خنجر اپنے ساتھ ضرور رکھتا تھا حفاظت کے لیے مگر چھپا کر ۔

گرمی نے جب حالت خراب کر دی تو کچھ دیر آرام کرنے کا سوچ کر وہ کھیتوں میں لگے ایک بڑے  سےپیڑ کے نیچے کچھ دیر آرام کرنے کے لیے ٹھہر گیا ۔یہاں سے نزدیک ہی ایک اور گاؤں تھا  جو تھوڑے فاصلے پر ہی تھا۔ گرمی میں اِس بڑے پیڑ کے سائے میں اسے سکون ملا تو آنکھیں بند کیے وہ لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر بعد ہی اس کو ایک آواز نے جگا  دیا۔

 اوئے ، ، ، کون ہیں تو ؟ اِتھے کی کر رہا  اس ویلے؟ چل نکل ساڈے کھیت تو باہر

شیرا  جو چہرے پر بازو  رکھے آرام سے لیٹا ہوا تھا اِس زنانہ آواز کا سن کر ایک دم سے اٹھ بیٹھا  تو خود اسے آواز دینے والی بھی حیران ہو گئی۔

 شیرا کی  کشش اور شخصیت ہی ایسی تھی کہ اسےکوئی دیکھ کرنظریں ایک بار تو ٹھہر ہی جاتی تھی اور یہی اس لڑکی کے ساتھ بھی ہوا جو ہاتھ میں فصل کاٹنے والا  اوزار(درانتی) لیے ہوئی تھی۔

جی ۔۔۔ ، معاف کیجیے ۔۔۔ مجھے نہیں پتہ تھا یہ کھیت آپ کا ہے ۔۔۔ گرمی بہت لگ رہی تھی تو اِس پیڑ کے سائے میں کچھ دیر آرام کرنے کے لیے ٹھہر گیا

جواب دیتے ہوئے شیرا کھڑا ہوا اور اپنے کپڑوں پر لگی گھاس اور مٹی ہٹانے لگا۔ جبکہ وہ لڑکی شیرا کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھے جا رہی تھی۔

 نام نہیں بتایا تم نے اپنا “

 اس لڑکی نے پھر سے نام پوچھا  تو  شیرا  نے اس کی طرف دیکھا ،  یہ ایک جوان لڑکی تھی جو گہرے رنگ کا شلوار قمیض پہنے ہوئی تھی اور دوپٹہ سر پر لیا ہوا تھا ، پسینے سے اس کے بھی کپڑے گیلے تھے اور ہاتھ میں پکڑی درانتی بتا رہی تھی کہ وہ کھیتوں میں کام کرتی ہوئی آئی ہے۔  سینہ بھی اچھی خاصی تھا مگر کوئی موٹاپا نہیں اور رنگ بھی ہلکا سا  سانولہ مگر زیادہ نہیں اور وہ بھی شاید کھیتوں میں کام کرنے کی وجہ سے تھا ۔

شیرا  کو یوں خود کو گھورتا  ہوا دیکھ کراس لڑکی نے ہاتھ میں پکڑی درانتی آگے کر کے شیرا کو غصے سے اِس  بار  پوچھا۔

دیکھو میں نے تمہیں دیکھا ہے، ، ، سیدھا سیدھا  بول کون ہے تو اور میرے کھیت میں کی کر  رہا، نہیں تو میں تیری گردن  کاٹ  دونگی۔’

شیرا اس لڑکی کے تیور دیکھ کرہڑبڑا گیا اور جلدی سے جواب دیا۔

 او  جی  رکو  رکو ، ، ، میرا  نام  شیرا ہے جی ، ، ، اور میں سچ میں گرمی کی وجہ سے یہاں تھوڑی دیر آرام کرنے کے لیے رک گیا تھا ، ، ، ، میں بس جا رہا  ہوں جی  ، ، ، آپ غصہ نہ کرو ۔  ویسے آپ اپنا  نام بتائیں گی ؟

شیرا نے یہاں سے پکے راستے کی طرف بڑھتےہوئے جب اس لڑکی کا نام پوچھا   تو اس نے درانتی اوپر اٹھا لی اور مارنے والے انداز میں شیرا کو غصے سے دیکھتے ہوئے جواب دیا۔

‘جاتے ہو یا بتاؤں تمہیں۔۔۔بڑا آیا میرا نام پوچھنے  والا۔’

شیرا جلدی سے پکے راستے پردوڑ آیا ،

چاہتا  تو وہ بھی جواب دے سکتا تھا اور وہ لڑکی شیرا کے سامنے چاہے ایک منٹ بھی نہ ٹک پاتی مگر وہ اپنی جگہ سہی تھی بھلے ہی اس کا غصہ زیادہ ہی تھا مگر شیرا بلاوجہ بات بڑھانا نہیں چاہتا تھا۔

شیرا نے جاتے جاتے پھر سے مڑ کر اس لڑکی کو دیکھا جو شیرا کو ہی دیکھے جا  رہی تھی اور نظر ملتے ہی پھر سے اس نے درانتی اٹھا کر ڈرانے کی کوشش کی تو شیرا مسکرا دیا۔ اس کی یہ حرکت دیکھ کر۔

اِس چھوٹے سے حادثے پر ہنستا ہوا وہ آگے بڑھتا گیا اور گاؤں میں پہنچ گیا۔

یہ گاؤں کافی بڑا تھا  آس پاس کے گاؤں سے اور یہاں کئی دوکانیں بھی تھیں۔

شیرا بازار میں دوکانیں دیکھتا ہوا جا  رہا تھا کہ چوراہے میں لگے بڑے سے پیڑ کے نیچے کچھ لوگ بیٹھے ہوئے  دیکھے تو انہی کے پاس چلا گیا جو الگ الگ ٹولیاں بنا کر کچھ کھیل رہے تھے اور حقہ گڑگڑا رہے تھے۔ شیرا چپ چاپ ان کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا  اور ان کا کھیل دیکھنے لگا۔

لے بھی آہ بن گئی تیرھی (13) ہوں آجو ’
تاش کے اِس کھیل میں  4-4 لوگ ٹولی بنا کے کھیل رہے تھے جس میں آمنے سامنے والے  2-2 کی جوڑی رہتی تھی ۔ تقریباً  60 سال کے آس پاس رہا ہوگا یہ انسان جس کی  داڑھی مونچھ میں زیادہ تر  بال سفید تھے اور پاؤں میں پرانی سی جوتے پہنے جو خراب حالت میں تھی۔  کپڑے بھی کچھ میلے تھے اور سر پہ دوپٹےسے بندھی ہوئی دستار تھی جو نام کی ہی سرخ تھی مگر میلی زیادہ  لگ رہی تھی۔

 زمین پر پھیلے کچھ تاش کے پتے ایک ہی پتے سے اکٹھی کر کے اس نے تھوڑا  زور سے مارتے ہوئے جیسے اشارہ کیا تھا اپنے ساتھی کو آنکھوں ہی آنکھوں میں۔

چچا  لگدا تینوں زیادہ ہی جلدی اے ، ، ، لے بیگم میری داسی حکم دی تے برہی وی پکی گئی
اس کے ساتھ بیٹھے آدمی نےجو 2 پتے جو بچ گئے تھے انہیں اٹھا لیا۔ایک ہی پتے سے اور اپنے پاس زمین پر رکھ لیا۔ یہ دیکھ کر اس کے سامنے بیٹھا ایک آدمی بھی خوش ہو کر تھکا لگانے لگا جبکہ پہلے والا بزرگ اپنے ساتھی کو دیکھ رہا  تھا  امید سے۔

‘تم میری طرف کیوں نہیں دیکھتے؟’
پہلے والے بزرگ نے اپنے ساتھی کو کہا مگر اس نے مایوس سا چہرہ بنا لیا اور ایک پتہ زمین پر پھینک دیا۔ اب چوتھےبندے کی باری تھی جس نے پہلے والے بزرگ کے اکٹھے لیے ہوئے پتے ایک ہی پتے سے اٹھا لیے۔

او  چچا  تو  وی لگدا دھوپ چھ ہی وال چیٹے کیتے نے ، ، ، عہدے کول کچھ ہوندا تےپہلا  نا  بنا  لیندا ، ، ، بادشاہ تے ادھر سی ، ، ، آہ چک”

 اس کے ساتھ ہی پہلے والے بزرگ نے اپنے ہاتھ میں پکڑے آخری 2 پتے بھی زمین پر پھینک دیئے اور ہار مان لی۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

رومانوی مکمل کہانیاں

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کالج کی ٹیچر

کالج کی ٹیچر -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

میراعاشق بڈھا

میراعاشق بڈھا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

جنبی سے اندھیرے

جنبی سے اندھیرے -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

بھائی نے پکڑا اور

بھائی نے پکڑا اور -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کمسن نوکر پورا مرد

کمسن نوکر پورا مرد -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page