Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

گاجی خان

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  یہ داستان صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹرمحنت مزدوری کرکے لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ یہ  کہانی بھی  آگے خونی اور سیکسی ہے تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گاجی خان قسط نمبر -98

کیا بات ہے جناب ، کل رات سے آپ کچھ فکرمند ہیں ، ایک تو آپ کی طبیعت پہلے سے ہی ناساز ہے اور ایسے میں یوں آپ فکرمند رہینگے تو پریشانی ہو جائے گی ۔آپ نے صبح سے اب تک کچھ بھی نہیں لیا اور یہ دودھ بھی ویسے کا ویسا ہی رکھا ہے۔ آخر وجہ کیا ہے ؟ کوئی مسلہ ہے تو حکم فرمائیں ، ہر حال میں حل ہوگی ‘ 

بزرگ عامل غلام  عادل صاحب فقیر سی شخصیت  جن کا ہر لمحہ عبادت کے لیے ہی تھا  وہ رات بھر سو  نہ سکے اور صبح سے ان کے چہرے پر شکن اور بھی زیادہ بڑھتی جا رہی تھی۔ عمردراز ہونے کی وجہ سےاتنی دیر بیٹھنا تک مناسب نہ تھا  اور یہ تو آج بیٹھ بھی نہیں رہے تھے بس اپنے حجرے  میں ادھر اُدھر چلتے ہوئے من ہی من کچھ پڑھ رہے تھے۔ جانے کس کے لیے اپنے مسیحاسے فریاد کر رہے تھے۔ ان کا یہ سب سے خاص خادم یا شاگرد جو کہ ایک نوجوان تھا وہ اپنے استادصاحب کو ایسے دیکھ کر پریشان تھا۔   پہلے بھی وہ ایک بار اندر آیا تھا صبح کے وقت دودھ دینے  عامل صاحب کو۔۔۔ مگر جب وہ دوبارہ آیا تو دودھ ویسے ہی کا  ویسےپڑا تھا ۔ اوپر سے طبیعت بھی ناساز تھی پچھلے کچھ وقت سے اِس لیے اسے عامل صاحب کی فکر تھی۔ مگر عامل صاحب پر تو اِس بات کا اثر تھا ہی نہیں۔

 مسلہ بہت بڑا ہےبہارپٹھان ، ، بہت بڑا ،، ، ، ہمارے عزیز کے خاندان کے چراغ پر کسی کی بری نظر پڑ گئی ہے ، ، ، ، سمجھ نہیں آ رہی کہ آخر یہ کون کر رہا ہے جو ایک ایک کر کے ہر چراغ بجھتا جا رہا ہے۔  اس کے بدلے مجھ پر سختی ہوجائے مگر اسے مزید بخش دی جائے ، ، ، ، اے مالک کیا تجھ تک میری  فریاد نہیں آ رہی یا ہم گناہگار ہی اتنے ہیں کہ اب ہماری کوئی فریاد قبول ہی نہیں ہوتی۔؟ ‘

عامل صاحب ہاتھ کو اوپر اٹھائے فریاد کرتے ہوئے کو ایسے الفاظ بولتے سن کر۔۔۔ان کا شاگرد سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ آخر وہ کون ہے جس کے لیے آج استاد صاحب اپنے مسیحا سے فریادکر رہے ہیں جو کہ کبھی بھی ایسا نہیں کرتے تھے۔

 میرےاستاد، میرے مرشد، میرے سربراہ،  رحم کیجیے جناب ، ، رحم ، ، ، آپ خود کو یوں تکلیف نہ دیں اور مسلہ کیا ہے،  مجھے بتائیں ، میں جان دے کر بھی آپ کا حکم پُورا کرونگا، یہ بہار پٹھان  کا وعدہ ہے ‘

 بات تمہارے یا کسی اور کے بس کی نہیں ہے بہار پٹھان ، جب  طلسمی طاقتوں سے سامنا ہو تو  اپنا مالک  ہی مددگار ہو سکتا ہے۔ مجھے اسی پر یقین ہے کہ  وہ مدد کرے گا ۔ بس ڈر ہے کہ یہ چراغ آخِری ہے اور اس کے بجھنے کا مطلب ہوگا ایک دور  کا ختم ہو جانا‘

 حضور ، میں سمجھا نہیں ، ، ، آپ کس کے بارے میں بات کر رہے ہیں ؟ ’

 اسی کے بارے ، جو ابھی تک خود کو ہی نہیں جانتا اور دُنیا اسے مٹانے میں لگ گئی ہے۔ ہمیں آج ہی جانا ہوگا ، ، ، اگر دیر ہو گئی تو ہم اپنے دوست کو کیا منہ دکھائیں گے ، تم چلنے کا انتظام کرو ہم آج ہی  نکلیں گے، ، ،

 اخووننن اخووننن اخونننن ، ،

،خو اخوننن اخوون اخوننننن ’

ایک دم سے قدم لڑکھرا گئے تھے  عامل صاحب کے کھانسی کے ساتھ اور وہ گرنے لگے تھے تو بہار پٹھان نے آگے آ کر انہیں تھام لیا اور بستر پر لٹایا۔

 معافی چاہتا ہوں حضور ، پر آپ کی طبیعت بہت ہی ناساز ہے ، ، ، ایسے میں آپ کو کسی بھی حالت میں نہ حکیم صاحب کہیں جانے دینگے اور نہ ہم آپ کو جانے دینگے۔ آپ نے جو بھی کہنا یا کرنا ہے وہ آپ مجھے یا اپنے کسی بھی شاگرد سے کہہ سکتے ہیں مگر آپ کو ہم نہیں جانے دینگے ‘ بہار پٹھان نے صاف صاف عامل صاحب کو منع کر دیا تھا ،

یہ حکم کی نافرمانی تو تھی مگر عامل صاحب جانتے تھے کہ بہار پٹھان ان کی کتنی پرواہ کرتا ہے اور آخر بہار پٹھان کا اور تھا ہی کون ان کے سوا۔ عامل صاحب نے بار بار بہار پٹھان کو جانے کی ضد کی مگر بہارنہیں مان رہا تھا اس کے بدلے اس نے حکیم صاحب کو بولوا لیا، جب عامل صاحب کی کھانسی رک نہیں رہی تھی۔

حکیم صاحب نے بھی آکر نبض دیکھی اور بہار پٹھان کی بات سنی تو انہوں نے بھی عامل صاحب کو صاف منع کر دیا اور کہا کہ ایسے میں کوئی بھی سفر ان کی جان لے سکتا ہے۔ عامل صاحب نے جب دیکھا کہ سب ایک طرف ہیں اور انہیں جانے نہیں دینگے تو انہوں نے سب کو اپنے سے دور کر کے بہار پٹھان کو پاس بلایا اکیلے میں۔

 بہار ، تم سب ہمیں جانے نہیں دے رہے جوکہ ہمارے لیے سخت ضروری ہے ورنہ ہمارے ایک عزیز کے خاندان کا چراغ بجھ جائیگا، ‘

عامل صاحب کی بات پوری ہونے سے پہلے بہارنےعامل صاحب کا ہاتھ چُوما  اور بولا۔

 میں سمجھ رہا ہوں آپ کس کے بارے میں بات کر رہے ہیں صاحب جی ، ، ، یہ وہ ہی لڑکا ہے جسے اپنے پاس بٹھایا تھا جب سیالکوٹ ہم گئے تھے۔

وہ گاجی خاندان میں ؟ آپ حکم کیجیے مجھے کیا کرنا ہے ‘

بہار پٹھان  کا سہی اندازہ دیکھ کر عامل صاحب مسکرا دیئے اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔

 اسی لیے تو تم سب سے الگ ہو اور مجھے اتنے عزیز ہو ، میرے دِل کی بات جان لیتے ہو۔  ہاں اسی کو لیکر میں فکرمند ہوں ، ، ، تمہیں آج ہی جانا ہو گا کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ اس پر کسی نے بہت بَڑی  بلا چھوڑ دی ہے جو اسے اپنے ساتھ لے جائے گی ، ، ، ، ، مگر اس کا سامنا تم نہیں کرسکتے تم میں سے کوئی بھی نہیں کر سکتا شاید ، ، ، اسی لیے ہمارا جانا بے حد ضروری تھا ۔  

بہرحال ، ، اگر میں جا نہیں سکتا تو کیا دعا بھی نہیں کرسکتا ؟  تم آج ہی جاؤ اور حویلی میں جانے سے پہلے سیالکوٹ میں ایک عامل صاحب ہیں،  راستہ باز نام ہے اس کا۔ سیالکوٹ میں کسی سے بھی پوچھ لینا وہ تمہیں پتہ بتا دینگے۔ عرصے سے ان سے ملنا نہیں ہوا کچھ مسئلے رہے ہیں ہمارے بیچ علم کو لیکر مگر اب وقت ہی ایسا ہے کہ ان کی مدد لینی پڑےگی۔ انہیں بتانا کہ میں نے عرض کی ہے اور بنا  وقت گنوائے وہ فوراً تمہارے ساتھ جائیں اور شیرا  کو ایک نظر دیکھیں۔  اے کاش کہ ایسا  نہ ہو مگر ہمیں ڈر ہے کہ اس پر کسی نے کالا جادو کیا ہے اور ہر حال میں ہمیں اسے  بچانا ہے۔

  یہ لو ، ، ، میری  کتاب اپنے ساتھ رکھنا تم ، ، ، ہوسکتا ہے تمہیں وہاں تک پہنچنے ہی نہ دے وہ۔۔۔ جاؤ میرے بچے ، ، ، اب تم ہی امید ہو میری ‘

یہ سب سن کر بہار پٹھان حیران ہوا مگر اپنے  عامل صاحب پر یقین کے امتحان کا وقت تھا یہ اِس لیے۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page