Garam Anunty ki Chudai–گرم آنٹی کی چُدائی مکمل

رومانوی مکمل کہانیاں

گرم آنٹی کی چُدائی (مست گانڈ)

کہانیوں کی دُنیا کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔

مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔
ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔

گرم آنٹی کی چُدائی (مست گانڈ)

گرم آنٹی کی چُدائی (مست گانڈ)

دوستو اگر آپ اسلام آباد رہتے ہیں تو یقیناً آپ جانتے ہوں گے کی آٗئی ایٹ سیکٹر میں واقع علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ایک ویران جگہ پر واقع ہے خاص کر سردیوں کی رات کے وقت یہ جگہ کافی ویران ہوتی تھی جس وقت کی یہ بات ہے اُس وقت  یونیورسٹی کے سامنے درختوں کا کافی گھنا سلسلہ تھا یہ ایک ایسی ہی سردیوں کہ رات تھی اور میں اپنی موٹر سائیکل پر اسی روڈ سے گزر رہا تھا کہ مجھے دُور سے بایک کے پاس  ایک شخص  کھڑا نظر آیا جو مجھے رُکنے کا اشارہ کر رہا تھا اُس کے ساتھ ایک  خوبصورت عورت بھی کھڑی تھی تھوڑا تھوڑا  اندھیرا  ہو نے کی وجہ سے میں ان کو ٹھیک سے پہچان نہ سکا لیکن جیسے ہی میری بایک ان کی قریب پہنچی تو میں نے ان کو پہچان لیا یہ ہمارے محلے دار مسٹر اور مسز سلامت تھے اس کی بیوی خوبصورت خاتون تھی اور محلے دار ہونے کی  وجہ سے میری  ان سے میری اچھی خاصی سلام دعا تھی چنانچہ جیسے ہی میں ان کے پاس رُکا انہوں نے مجھے دیکھ کر اطمینان کی سانس لی اور بولے شکر ہے کہ تم مل گئے. ورنہ ہم کافی دیر سے کھڑے تھے ایک تو یہا ں پر ٹریفک بھی کافی کم ہے دوسرا جو ایک آدھا یہا ں سے گزرا بھی تو اس نے رُکنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی تو میں نے ان سے پوچھا انکل معاملہ کیا ہے تو وہ بولے معاملہ کیا ہونا ہے یار بایک خراب ہو گیا ہے اور پھر  کہنے لگے یار اگر تم موٹر سائیکل کے بارے کچھ جانتے ہو تو کچھ کر دو میں نے تو کافی مغز مارا ہے پر کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ چکر کیا ہے  موٹر سائیکل کے بارے میرا بھی علم بس  واجبی سا تھا پر پھر بھی میں بایک سے نیچے اُترا اور اُسے سٹارٹ کرنے کی پوری کوشش کی پر کامیاب نہ ہوسکا تب میں نے  اپنی ہار مان لی اور ان سے کہا کہ سوری سر جی یہ میرے بس سے باہر ہے آپ ایسا کریں میری بایک لے جایئں میں آپ کی بایک  ٹھیک کروا کے لے آؤں گا

سلامت صاحب نے رسمی سا انکار کیا لیکن چونکہ اُن کے ساتھ ان کی بیوی بھی تھی  اور خوبصورت بیوی کے ساتھ یوں خوار ہونا کوئی پسند نہیں کرتا اس لیئے  میرے اصرار پر انہوں نے میری بائیک لے لی اور اسے سٹارٹ کر کے بیوی سمیت بیٹھ کر  چلے گئے لیکن کچھ  ہی دُور گئے ہوں گے کہ میری بائیک بھی پھٹ پھٹ کر کے رُک گئی انکل نے اُسے سٹارٹ کرنے کی بڑی کوشش کی لیکن بے سود اسی اثناء میں بھی ان کے بائیک سمیت  وھاں پہنچ گیا اور وہاں جا کر رُک گیا اور پوچھنے لگا کہ کیا ہوا  تو وہ تھوڑا جُھنجھلا کر بولے یار آج کا دن بڑا منحوس ہے  ہر کام   ہی اُلٹا ہو رہا ہے دیکھو نا تمہاری بائیک   اچھا خاصی چل رہی تھی پر جیسے میرے پاس آئی  یہ  چلتے چلتے  اچانک رُک گئی اور اب چلنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ یہ  سُن کر  میں نے اُن سے اپنی بائیک لی اور تین چار ککیں  ماریں تو وہ سٹارٹ ہو گئی اور میں نے دوبارہ  بائیک ان کے حوالے کرتے ہوئیےکہا کہ پلیز آپ لوگ  جاؤ وہ جلدی سے بائیک  پر بیٹھے اور روانہ ہو گئے لیکن ابھی تھوڑی ہی دور گئے ہوں  گے کہ بائیک پھر رُک گئی سلامت صاحب نے دوبارہ ککیں مارنا شروع کیں پر وہ سٹارٹ نہ ہوئی اتنی دیر میں  میں پھر  ان کا بائیک لیئے  وہاں پُہنچ گیا تو دیکھا کہ  سلامت صاحب دونوں ہاتھ اپنی کمر پر رکھے بڑے غصے سے  میری بائیک کی طرف دیکھ رہے تھے اور ان کی خوبصورت بیوی خاموش کھڑی تماشا دیکھ رہی تھی اور ساتھ ساتھ مُنہ ہی مُنہ میں کچھ بُڑبُڑا بھی رہے تھے جیسے ہی میں ان کے پاس پُہنچا انہوں نے بڑی بے بسی سے میری طرف دیکھا اور بولے یار آج واقعی ہی بڑا منحوس دن ہے دیکھو نا تم کک مارتے ہو تو یہ سالا سٹارٹ ہو جاتا ہے اور میری ککوں سے بھی اس کو کچھ  بھی نہیں ہوتا یہ سُن کر میں نے ایک دفعہ پھر اُن سے بایک لیا اور دو تین ککوں سے ہی سٹارٹ کر لیا اور دوبارہ ان سے کہا کہ بیٹھیں پلیز اس سے پہلے کہ وہ بائیک پر بیٹھتے اُن کی بیوی فوراً بولی جی نہیں میں ان کے ساتھ نہیں جاؤں گی شاہ آپ پلیز  مجھےگھر تک چھوڑ آؤ  اس سے قبل کہ میں کچھ کہتا سلامت صاحب فوراً بولے  ٹھیک ہے شاہ  آپ ہی عاصمہ جی  کو گھر چھوڑ آؤ اور ویسے بھی مجھ سے آپ کا بائیک نہیں چل رھا میرا بائیک میرے حوالے کر دیں میں اسے ٹھیک  کروا کے گھر لے آؤں گا۔

میں نے تھوڑی ہیچر میچر  پر وہ نہ مانے اور پھر ان کے پُر زور اصرار میں  اپنے  بائیک پر بیٹھ گیااور اس کے ساتھ ہی میرے پیچھے عاصمہ  بیٹھ گئیں۔

اس سے قبل کہ کہانی آگے چلے میں آپ سے عاصمہ جی کا تعارُف کرواتا چلوں عاصمہ  ایک پنتیس چھتیس سال کی خوبصورت دراز قد  کی کشمیری عورت تھی اس کی بڑی بڑی  آنکھیں اور موٹے موٹے ممے تھے پر اُس کے بدن کی سب سے دلکش اور خاص بات عاصمہ جی کی گانڈ تھی موٹی تو اس عمر میں تقریباً سب ہی لیڈیز کی گانڈ ہو جاتی ہے پر عاصمہ کی گانڈ لاکھوں  خوبصورت میں ایک تھی جس نے بھی ان کی گانڈ دیکھی وہ دل پکڑ کر بیٹھ گیا چلتے ہوئےخاص کر وہ ایسے مٹک مٹک کر چلتی کہ  کہ  نا پوچھ یار  ہماری مُحلے کے تقریباً سارے ہی لوگ ان کی دلکش خوبصورت گانڈ کے عاشق تھے اور یہ میری بڑی خوش قسمتی تھی کہ آج یہ   خاتون میری پرانی پھٹ پھٹی پر میرے پیچھے  بیٹھی تھی گو کہ اس خوبصورت خاتون کا نام عاصمہ  ہی تھا مگر ان کا میاں چونکہ ان کو عاصمہ جی کہتا تھا اس لیئے سارا محلہ  ان کو عاصمہ جی کے نام سے یاد کرتا تھاجب میں اوپن  یونیورسٹی سے تھوڑا سا آگے گیا تو اچانک مجھے پیچھےسے عاصمہ جی کی آواز سنائی  دی ایک منٹ  ایک  منٹ رکو پلیز میں نے فوراً بریک لگا دی اور اس خوبصورت خاتون سے پوچھا خیریت تو وہ تھوڑا سا  شرما کر اور جھجھک کر بولی  وہ بڑے زور کا سُو سُو پیشاب آیا ہے میں نے بڑی دیر سے روکا ہوا تھا پر اب یہ  کام میری  برداشت سے باہر ہو گیا ہے  تم رکو میں بس ابھی آٗئی انہوں نے یہ کہا اور جلدی سے  یونیورسٹی کے سامنے   اندھیرے میں گھنے درختوں  کی طرف  غائب ہو گئی اور میں بائیک پر ہی بیٹھا  اس کا انتظار کرنے لگا بمشکل ایک آدھ  منٹ ہی گزرا ہو گا کہ مجھے عاصمہ جی کی چیخ سنائی  دی   اُوئ ئ ماں  سانپ  سانپ شاہ جلدی آؤ مجھے سانپ نے کاٹ لیا ہے یہ سُن کر  میرے تو  حواس  ہی گُم ہو گئے اور میں بھاگتا ہوا درختوں کی طرف چلا گیا پر اندھیرا ہونے کی وجہ سے مجھے وہاں کچھ دکھائی  نہ دیاچنانچہ  میں جلدی سے واپس گیا اور ہیڈ لائٹ فُل پہ کر کے بائیک جائے حادثہ  کی طرف لے گیا جیسے ہی میرا بائیک عاصمہ جی کے قریب پہنچا تو میں نے ہیڈ لائٹ کی روشنی میں  دیکھا کہ ان کے چہرے کا رنگ اُڑا  ہوا    تھا اور   وہ بڑی خوف زدہ نظروں سے  میری طرف دیکھ رہی تھی مجھے دیکھ کر انہوں نے   اپنی پیٹھ کی طرف اشارہ کیا اور  بولی  شاہ مجھے  یہاں پر سانپ نے  کاٹا ہے اور میں فوراً اُن کی پیٹھ پر  دیکھنے کے لیئے جھکا وہ اپنا منہ دوسری طرف کر کے پوری  خوبصورت گانڈ میری طرف کرکے کھڑی تھی لو جی میری تو عید ہو گئی کہ اب میرے سامنے ایک بہت ہی بڑی زبردست  خوبصورت موٹی  نرم اور گوری گانڈ تھی جس کا میں اچھی طرح جائزہ لے رہا تھا   

میں  ان کی گانڈ کو دیکھ کر  پاگل ہوا جا رہا تھا اور بڑی مشکل سے خود پر کنٹرول کر رہا تھا گانڈ کا اچھی طرح جائزہ لینے کے بعد  کیا دیکھتا ہوں کہ اُن کی موٹی  خوبصورت گانڈ کی موری کے بالکل  ساتھ ایک بڑا سا چیونٹا  چپکا ہوا تھا جس کی وجہ سے ان کی گانڈ کا وہ حصہ خاصہ  سُرخ ہو چکا تھا جیسے ہی میری نطر اُس بڑے سے چیونٹے پر پڑی میں نے شُکر کا سانس لیا  اور عاصمہ جی سے بولا کہ آپ کو سانپ نے نہیں بلکہ  ایک بڑے سے چیونٹے نے کاٹا ہے   مجھے بڑی شدید   جلن ہو رہی ہے عاصمہ جی نے  کہا۔ میں نے اس جگہ کو دوبارہ دیکھا جہاں  ابھی تک چیونٹا چپکا ہوا تھا میں نے میں نے چیونٹے کو دو انگلیوں کی مدد سے وہاں سے ہٹایا اور متاثرہ جگہ پر تھوڑا  مساج کیا اور پھر اس کی گانڈ سہلانے لگا  اسکے بعد میں نے  مرا  ہوا چیونٹا ان کو دکھا کر بولا سانپ شانپ کوئی نہیں  تھا عاصمہ جی بلکہ  آپ کے وہاں  ایک بڑے سے چیونٹے نے کاٹا تھا اور یہ رہا وہ چیونٹا اور ان کو چیونٹا دکھا دیا جسے دیکھ کر وہ  تھوڑی سی  نارمل  ہوگئی اور بولی جلدی سے یہاں سے نکلو شاہ کہ مجھے بڑا ڈر لگ رہا ہے پھر وہ جلدی سے  میرے ساتھ  بائیک پر بیٹھ گئی اور ہم  ان کے گھر کی طرف چل پڑے مرا  ہوا  چیونٹا دیکھ  وہ کافی حد تک  نارمل ہوگئی تھی  اور  پھر  راستے بھر میں وہ مجھ سے سانپ بچھو وغیرہ کی باتیں کرتی رہی پر میرے دھیان میں ان کی  خوبصورت موٹی  گانڈ خاص کر بڑی سی موری آتی رہی اس طرح باتوں باتوں میں کب ان کا گھر آیا پتہ ہی نہیں چلا – جیسے ہی ھم ان کے گھر کے قریب پہنچے تو میں نے عاصہ جی کو بائیک سے اتارا اور جانے کی اجازت لی تو وہ کہنے لگی بنا چائے کے تم   کیسے تم جا سکتے ہو  اس لیئے اپنی بائیک کو لاک کرو اور میرے ساتھ گھر چلو اورخود  گھر کا تالا  کھولنے لگی میں نے بھی بائیک کو لاک کیا اور پھر ان کے گھر داخل ہو گیا وہ مجھے ساتھ لے کر ڈرائینگ  روم میں لے گئی وہاں مجھے ایک صوفے پر بیٹھنے کو کہا تو میں نے ان سے پوچھا کہ عاصمہ جی گھر کے باقی لوگ کہاں ہیں  تو وہ کہنے لگی سب لوگ ایف سکس میں برکت صاحب کے بھتیجے کی شادی پر گئے ہوئے  ہیں اور مزید  کچھ دن وہاں ہی رکیں گے میں اور برکت صاحب  بھی صبح سے وہاں ہی تھے پھر کہنے لگی تم بیٹھو میں ابھی چائے لے کر آتی ہوں اور وہ کچن میں چاۓ بنانے چلی گئی کوئی  پندرہ بیس  منٹ کے بعد جب وہ واپس آئی تو ان  کے ہاتھ میں ایک بڑی سی  ٹرے تھی جس میں دو کپ چائےکے ساتھ دو تین  پلیٹیں اور بھی تھیں جو بسکٹ اور دیگر  لوازمات سے بھری  ہوئی تھیں یہ دیکھ کر میں نے کہا عاصمہ جی  آپ نے تو بڑا تکلف کر دیا تو وہ بولی ارے تکلف کیسا اسی بہانے تم کچھ دیر بیٹھو گے تو سہی  نہ پھر انہوں  نے تپائی  پر ٹرے رکھی اور میرے سامنے بیٹھ  گئی اور ہم چاۓ کے ساتھ ساتھ دوبارہ  سانپ بچھو وغیرہ کے کاٹنے  اور اسی حادثے کے بارے میں  باتیں بھی کرنے لگے تب باتوں باتوں میں میں نے اُن سے کہا یقین کریں عاصمہ جی آپ کی دلدوز چیخ نے تو میری جان ہی نکال دی تھی شکر ہے کہ وہاں سانپ نہیں تھا ورنہ بڑی مشکل ہو جاتی اور میں نے پھر سے  اپنی بات دہراتے ہوے کہا کہ عاصمہ جی آپ کی اُس چیخ نے تو میرا پورے دو  کلو خون خشک کر دیا تھا میری بات سُن کر عاصمہ جی تھوڑی سے کھسیانی ہوگئی اور بولی  آئی ایم سوری شاہ   جی  پر بعد میں آپ نے میری چیخ کا پورا فائدہ بھی اُٹھایا تھا

اور  خوبصورت  مُسکراہٹ کے ساتھ  میری جانب دیکھنے لگی  یہ سُن کر  میں نے  قدرے  حیرانی سے  ان سے پوچھا  کہ عاصمہ جی میں نے کون سا فائدہ اُٹھایا تھا    تو اُنہوں نے تُرنت ہی جواب دیا اور کہنے لگی زیادہ سمارٹ بننے کی کوئی  ضرورت نہیں ہے مسٹر شاہ  تم اچھی طرح سے جانتے ہو کہ میں کس فائدے کی بات کر رہی ہوں اور تب اچانک مجھے یاد آیا کہ میں نے سانپ کا کاٹا  چیک کرتے وقت  کافی دیر تک اس کی گانڈ کو سہلاتا رہا تھا وہ لمحہ یاد کر کے میں نے بڑی شرمندگی محسوس کی اور پھر  فوراً ہی اُن سے اپنی  اس حرکت کی معافی مانگ لی اور بولا اس بات کے لیئے ویری ویری  سوری عاصمہ جی میری معافی کی بات سن کر وہ بولی  زیادہ جذباتی ہونے کی  ضرورت نہیں  اٹس اوکے  اور مسکُرا دی

جب عاصمہ جی نے اٹس او کے  کہا تو یہ سُن  کر میری پینٹ میں تھوڑی ہلچل مچی اور لنڈ صاحب نے ہلکا  سا سر اٹھا کر مجھ سے کہا   خوبصورت میڈم کی بات سمجھ سالے  لیکن میں لنڈ کے بتانے سے پہلے ہی کافی کچھ سمجھ چکا تھا اور بات کی تہہ تک  جانے سے پہلے کچھ باتوں کی وضاحت ضروری تھی چنانچہ یہ سوچ کر میں نے اپنے چہرے پر تھوڑی تشویش ظاہر کی اور بولا   یہ سلامت صاحب ابھی تک نہیں پہنچے تو وہ بولی اصل میں انہوں نے رات گئے گھر آنا ہے کہ شادی کے سلسلہ میں کافی کام اُن کے ذمہ تھے  اُن کی یہ بات سُن کر میں کافی حد تک  مطمئن ہو گیا تھا سو اب میں نے دانہ پھیکنے کا ارادہ کر لیا اور بولا   عاصمہ جی کیا ابھی بھی آپ کو درد ہو رہا ہے  وہ فوراً میری بات کو سمجھ  گئی اور بولی نہیں شاہ جی درد تو نہیں البتہ جلن بڑی سخت  ہو رہی ہے

یہ سننا تھا کہ اس جگہ کوئی اونمنٹ  لگالیں وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر دوسرے کمرے سے ٹیوب لے آئی اور  میرے سامنے آ کھڑی ہوئی ان کو دیکھ کر میں بھی اُٹھ کر عین  اُن کے  سامنے کھڑا ہو گیا اور ہم کچھ دیر ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں  ڈال کر دیکھتے رہے  کچھ دیر بعد وہ   ہلکی سی  آواز میں  بولی  ہاں تو شاہ تم کیا کہہ رہے تھے تو میں نے  جواب دیا کہ میں کہ رہا تھا کہ آپ کے وہاں اونمنٹ لگالیں تو وہ ٹیوب میرے ہاتھ میں دے کر بولی لگادو   میں  جی کڑا کر کے اپنا ایک  ہاتھ ان کی بڑی سی  خوبصورت گانڈ پر لے گیا اور شلوار کے اوپر سے ہی اس پر ہلکاسا ہاتھ  پھیردیا پھر میرا ہاتھ تھوڑا اور آکے بڑھا اور میرا ہاتھ ان کی  پھولدار خوبصورت قمیض کے اندر چلا گیا وہ کچھ نہ بولی بس چپ چاپ  میرے طرف دیکھتی رہی پھر میرا  ھاتھ   آہستہ آہستہ رینگتا ہوا ان کی قمیض کے اندر چلا کیا اور پھر میں نے جلد ہی محسوس کر لیا کہ عاصمہ جی کی  سکسی بیلٹ والی خوبصورت شلوار میں آزار بند  نہیں

بلکہ الاسٹک ہے تب میں ان کے اور قریب گیا اور بڑے ہی پیار سے ان کی شلوار کھینچ نیچے کر دی اور اب  میرا ہاتھ ان کی ننگی خوبصورت گانڈ   پر تھا   میں تھوڑا گھوم کر ان کے پیچھےکی طرف چلا گیا اور اس  سُرخ جگہ  جہاں  چیونٹے نے کاٹا تھا وہاں پر  ٹیوب لگادی اور بولا  عاصمہ جی یہاں اب بھی  جلن ہو رہی ہے  تو وہ سرگوشی میں بولی بے شک  چیونٹے نے یہاں ہی کاٹا تھا پر جلن یہاں نہیں بلکہ تھوڑا آگے ہو رہی ہے یہ سن کر میں بولا مطلب؟ تو اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی چوت پر رکھ لیا اور بولی یہاں ہورہی  بےوقوف انسان  

اب میں سمجھ گیا اور نیچے بیٹھ کر اپنے ہونٹ اس کی چوت پر رکھ دیے  اس نے خود ہی اپنی ٹانگیں کھول کر دونوں ہاتھ  صوفے پر رکھ دیئےاور میں نے  اپنی زبان نکال کر ان کی خوبصورت چوت پر رکھ دی اور بولا  یہاں جلن ہو رہی ہے تو وہ بولی  ہاں شاہ  یہ سن کر میں نے اپنی زبان ان کی  خوبصورت چوت میں ڈال دی اور اسے چاٹنے لگا اور عاصمہ جی نے ایک تیز سسکی لی  آہ  ہہ ام م م  ان کی چوت کافی گرم اور گیلی تھی چنانچہ میں نے زبان ان کی گیلی چوت میں داخل کی اور اسے  چاٹنے لگا  ان کی چوت کا گرم پانی مجھے اپنی  زبان پر بڑا اچھا لگ رہا تھا اور چوت کی دیواریں اندر سے بڑی چکنی اور گرم تھیں اور میں بڑے مزے سے اپنی زبان ان کی چوت میں ان آؤٹ کر رہا تھا کافی دیر بعد اچانک وہ خود سے چوت کو میرے منہ پر رگڑنے لگی  اور پھر کچھ ہی دیر بعد ان کے جسم نے جھٹکے کھائے اور ان کی چوت نے اپنا سارا  گرم گرم پانی میرے منہ پر چھوڑ دیا  عاصمہ جی کی چوت کا پہلا پانی میرے منہ میں آگیا تھا کچھ دیر تک تو عاصمہ جی یوں ہی  اپنی چوت میرے منہ کے ساتھ رگڑتی رہی پھر انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ صوفے سے ہٹا لیئے  اور سیدھی کھڑی ہوگئی اسکے ساتھ  ہی وہ میری طرف مُڑی اور مجھے بازؤں سے پکڑ کر کھڑا کر دیا اور پھر اس گرم عورت نے ایک عجیب کام کیا وہ یہ کہ انہوں  میرے منہ پر لگی  منی کو اپنی زبان سے چاٹنا شروع کر دیا  ان کی زبان کسی وائیپر کی طرح میرے منہ پر چلتی رہی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے جو تھوڑی بہت منی میرے منہ پر لگی رہ گئی تھی ان کی  زبان نے وہ سب صاف کر دی اور پھر انہوں نے اپنی زبان میرے منہ میں ڈال دی اور اب میں ان کی نمکین زبان چوسنے لگا  زبان چوسنے کے ساتھ ساتھ میرا ایک ہاتھ ان کے خوبصورت موٹے ممے پر بھی چلا گیا اور میں  بڑے پیار سے  ان کو  دبانے لگا انہوں نے  بھی پینٹ کے اوپر سے ہی میرا لنڈ پکڑا اور  اسے دبانے لگی پھر انہوں نے اپنا منہ میرے منہ سے ہٹایا اور بولی شاہ اپنے کپڑے اُتارو اس کے ساتھ ہی انہوں  نے  اپنی قمیض بھی اتار دی  خوبصورت شلوار تو پہلے سے ہی اتری ہوئی تھی اب ان کے جسم پر صرف خوبصورت  کالی برا ہی رہ گئی تھی اس کے بعد  انہوں نے وہ بھی اتار دی اب وہ میرے سامنے  بلکل ننگی ہوگئی تھی میں ان کو ننگا دیکھنے میں اتنا مگن تھا کہ میں  اپنے کپڑے ا تارنا بھول ہی گیا

وہ تو عاصمہ جی اگر یاد نا دلاتی تو میں ابھی بھی ویسے کا ویسا ہی کھڑا رہتا جونہی عاصمہ جی نے اپنی برا اُتار کر میری طرف دیکھا تھوڑا حیران ہو کر بولی  ہشاہ تم نے ابھی تک کپڑے نہیں اتارے ہوۓ  ان کی یہ بات سن کر میں نے بجلی کی سی تیزی سے اپنے سارے کپڑے اتار دیئے اور ننگا ہوکر ان کے سامنے کھڑا ہو گیا ان کی نظریں مسلسل میرے لنڈ پہ لگی ہوئی تھی جونہی میں پورا ننگا ہو کر ان کی طرف بڑھا تو وہ بڑی ستائشی  نظروں سے میرے لنڈ کو دیکھ رہی تھی فوراً آگے بڑھی اور میرے لنڈ کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر بولی شاہ تمہارا لنڈ بڑا زبردست ہے  اور ھنس پڑی  پھر وہ نیچے صوفے پر بیٹھ گئی  اور لنڈ پر کس کر کے بولی سچ میں تمھارا لنڈ بڑے  کمال  کا ہےاور پھر  ٹوپے پر کس دینے کے لیئے جیسے ہی جھکی میرے لنڈ سے منی کا ایک  موٹا سا قطرہ  نکلا جسے انہوں نے نیچے گرنے سے پہلے ہی اپنے  منہ میں لے لیا اور  بولی  تمہاری منی بڑی نمکین اور  مزے کی ہے  پھر اُس نے میرا لنڈ اپنے منہ میں ڈال لیا اور مست ہو کر چوسنے لگی وہ میرا لنڈ چوس رہی تھی اور اچانک میری نظر عاصمہ جی کی  خوبصورت موٹی گانڈ پر پڑ گئی تو میں نے  کہا عاصمہ جی  مجھے سرسُوں کا تیل تو لا دیںتو انہوں نے لنڈ سے منہ سے ہٹا کر مجھ سے پوچھا  تیل  اُس کا کیا کرو گے  تو میں نے کہا کہ مجھے آپ کی خوبصورت گانڈ  مارنے کے لیئے تیل  کی ضرورت ہو گی  تو وہ  بڑے لاڈ سے بولی   شاہ  تم نے تو میری  گانڈ کو بہت اچھی طرح سے دیکھا ہے  اس کے لیئے تیل  کی کوئی  ضرورت نہیں پڑے گی بس میرے گانڈ پر تھوک دینا  کام  چل جاۓ گا تب میں نے اُن سے کہا تو آپ گھوڑی بن جائیں میں آپ کی گانڈ مارنا چاہتا ہوں تو وہ بولی  یار   پہلے تھوڑا سا لنڈ تو چوسنے دو پھر جو مرضی ہے کر لینا اور دوبارہ لنڈ  اپنے منہ میں لے کر چوسنے لگی پھر کچھ دیر تک وہ میرے لنڈ کو چوستی رہی پھر اٹھی اور صوفے پر دونوں ہاتھ ٹکا دیئے اور خوبصورت گانڈ  میری طرف کر کے بولی تمھارا لنڈ میں نے چوپا لگا لگا  کر گیلا کر دیا ہے اب تم میری گانڈ پر تھوک لگا کر اسے اچھی طرح چکنا کر لو اور پھر اپنا لنڈ ڈال کر ہلکے ہلکے دھکے لگانا جب تمھارا لن میری گرم گانڈ  میں  پوری  طرح ایڈجسٹ ہوجائےتو بے شک زور زور سے دھکے مار لینا اب میں اپنا منہ ان کی خوبصورت گانڈ کے بالکل قریب لے گیا اور اک بڑا سا تھوک کا گولا ان کی گانڈ کی چنٹوں پر پھینکا وہ بولی ہاں ٹھیک ہے اب یہ تھوک میرے چنٹوں کے اندر اور باہر اچھی طرح مل دو اور میری چنٹوں پر تھوڑا سا مساج بھی کر دواور پھرمیں نے انگلی کی مدد سے پہلے تو اچھی طرح ان کی چنٹوں پر مساج کیا پھر تھوڑا سا تھوک اور پھینک کر  اسے اچھی طرح  ان کی گانڈ کے اندر اور باہر  مل دیاپھر میں نے عاصمہ جی کی سرگوشی سنی وہ کہہ رہی تھی یس س   شاہ اب میری خوب گانڈ   مار لو  ڈال دو اپنا لنڈ اور  میری گانڈ مار لو اور پھر بولی ایک منٹ روکو پلیز اور پھر اپنے منہ سے بہت سارا تھوک نکال کر میرے لن پر پھر سے مل دیا اور خاص کر میرے موٹے ٹوپے پر اچھی طرح مساج کیا اور بولی  اب کرو اور میں نے اپنا ٹوپا ان کی گانڈ کی چنٹوں پر رکھا اور ھلکا سا  دھکا مارا بہت ہلکا  تھوک سے تر ٹوپا  ان کی گیلی گانڈ میں  تھوڑا سا اندر چلا  گیا اور عاصمہ نے ایک آہ بھری آہ اُف فف اور میں نے ایک گرم   سلکی اور بہت نرم گانڈ کا رنگ اپنے ٹوپے کے گرد کسا ہوا محسوس کیا   ان کی گانڈ بڑی  گرم اور مست تھی سو میرے لنڈ کہ سواد آگیا اور میں نے اور گھسا مارا اور میرا  لنڈ جڑ تک ان کی گانڈ میں اُتر گیاپورا لنڈ گانڈ میں جاتے ہی عاصمہ نے چیخ   ماری اور بولی  اف  شاہ تیرا لنڈ ہے کہ مزہ کا ٹرک  یار مجھے بڑا مزہ آرہا ہے  اب  اور زیادہ  زور دار پٹائی کر نا  میری گانڈ کی اور میں  نے ان کی گانڈ کا زور دار پٹائی کرنی شروع کر دی اور اب کمرہ تھپ تھپ تھپ اور عاصمہ جی کی  مست خوبصورت سسکیوں سے گونجنا شروع ہو گیا  میں کافی عرصہ بعد کوئی خوبصورت گانڈ چود رہا تھا میں صرف خوبصورت سکسی گانڈ چودنے کا شوقین ہوں ہر ایک کی گانڈ مجھے پسند نہیں آتی اور اب میرے سامنے مست کر دینے والی خوبصورت جوان عورت کی گانڈ  تھی عاصمہ بڑی ہی مست لیڈی تھی میرے ہر اسٹروک کا بھر پور جواب دیتی تھی جس سے مجھے اور بھی جوش چڑھ جاتا اور میں پہلے سے بھی زیادہ  زور سے ٹھوکریں مارنا شروع کر دیتا  اب میں نے  دیکھا کہ میرے دھکوں سے عاصمہ کی سانس چڑھ گئی تھی اور وہ تیزی سے سانس لے رہی تھی پھر اچانک انہوں نے اپنا ھاتھ پیچھے کی طرف کیا اور بولی  ایک  منٹ  ایک منٹ رکو پلیز  اور خود تھوڑا آگے ہوگئی جس سے میرا لنڈ ان کی گانڈ سے باہر آ گیا تھااور میں نے دیکھا کہ میرے طاقتور دھکوں  کی وجہ سے ان کی پوری  گانڈ سُرخ ہوگئی تھی تب میں نے ان سے پوچھا کہ کیا ہوا تو وہ کہنے لگی پانی  پانی  اور میں نے سامنے پڑے جگ سے ایک گلاس پانی بھر کر دیا تو وہ ایک ہی سانس میں سارا پانی پی گئی اور بولی   ایک اور دے دو پلیز اور میں نے دوسرا گلاس بھی دیا تو وہ پی کر عاصمہ جی نے میری طرف دیکھا اور ایک بھر پور  خوبصورت سمائل پاس کی اور بولی کیا جم کر گانڈ ماری ہے تم نےیہ سُن کر میں نے ان سے کہا کہ عاصمہ جی گانڈ ہوتی ہی جم کر مارنے کے لئے ہے  آپ کی خوبصورت گانڈ تھی اس لیئے چودنے کا مزہ بھی آّیا ہے اور امید ہے کہ میرے لنڈ نے بھی آپ کو خوب انجوائے کرایا ہو گا اوہ کہنے لگی واقعی تمہارے لنڈ کی کیا بات ہے  میں نے اس خوبصورت عورت سے کہااب آپ دوبارہ سے گھوڑی بن جاؤ کہ مجھے اپ کی گانڈ ابھی اور بھی مارنی ہے تو وہ کہنے لگی  بس  گانڈ نہیں تم اب میری چوت کی آگ بجھاؤ  تو میں نے ان کی بات کاٹ کر جواب دیا  لیکن عاصمہ جی مجھے تو آپ کی گانڈ میں بڑا مزہ آرہا تھا تو وہ کہنے لگی مزہ تو مجھ کو بھی بڑا آرہا تھا پر کیا کروں ڈئیر  یہاں کی آگ اب میرے بس سے باہر ہوتی جا رہی ہے میں نے پوچھا عاصمہ جی ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں اگر اجازت ہو تو کہنے لگی شاہ جو مرضی پوچھ سکتے ہو تم سے کوئی پردہ نہیں رہا میں نے پوچھا پہلے کتنی مرتبہ اپنی یہ خوبصورت گانڈ چدا چکی ہو کہنے لگی چند ایک  بار شادی سے پہلے میرا ایک دوست ہوا کرتا تھا اس کا لنڈ بھی جب تک میری گانڈ کا دیدار نہٰیں کر لیتا تھا اس کو چین نہٰیں آتا تھا شادی کے بعد بھی ایک ہمارا کرایہ دار تھا  اس نے بھی میری گانڈ چودی تھی اس لیئے ہی تو میں نے آپ سے گانڈ چدائی کی ایک دم حامی بھر لی تھی مجھے اس کی چدائی کا تجربہ جو تھا۔

اب تو میرا آنا جانا لگا رہتا تھا مگر چند ماہ بعد وہ لاہور شفٹ ہو گئے اب کبھی میرا چکر لگے تو ملاقات ہو جاتی ہے اور ہم ایک دوسرے کی آگ بجھاتے ہیں۔ 

 

ختم شد

مزید کہانیوں کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
سمگلر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more
سمگلر

Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page