Keeper of the house-01-گھر کا رکھوالا

گھر کا رکھوالا

گھر کا رکھوالا ایک ایسے نوجوان  کی کہانی ہےجس کے ماں باپ کو دھوکے سے مار دیا گیا،  اس کے پورے خاندان کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا اور۔۔۔اس کے بچپن میں ہی، اس کے اپنے خاندان کے افراد نے  ہی اس پر ظلم وستم کیا،  اور بہت رلایا۔۔۔اورچھوڑ دیا اسے بچپن میں ہی ماں باپ کے  پیار کو ترسنے کےلئے۔۔۔

تب اس کے دادا جی نے اس کی انگلی پکڑی اپنے درد کو چھپا کر اسے اس لائق بنانے کےلئے خود سے سالوں دور کر دیا جہاں اسے اِس کا پیار ملتا ہے  اور اُس پیار نے بھی اسے اس کی  غریبی کی وجہ سے ٹکرا  دیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

قسط نمبر 01

مندا وا۔۔۔۔۔

 ایک چھوٹا  سا  سرسبزوشاداب شہر جہاں رہتا ہے رحیل کا خاندان۔۔۔

راحیل Raheel/ ہیرو اف دی سٹوری۔  عمر:- 15 سال

بہت ہی خوبصورت نیلی آنکھیں دودھ کی طرح سفید رنگ چوڑی چھاتی اپنی عمر  کے حساب سے 2 سال بڑا ہی نظر آتا ہے۔

فیملی تعارف:

 سربراہ :

رانا  اشفاق (Rana Ishfaq) راحیل کے دادا جی عمر:۔۔۔70

پرسنیلٹی ایسی کہ۔۔۔ دیکھنے والے دیکھتے رہ جائیں اپنی پرسنیلٹی کے لحاظ سے اپنی عمر سے بالکل میچ نہیں کرتا،  ہر وقت قمر پہ لٹکتا 30 بور گولڈن کلر کا  پسٹل اور چہرے پہ نوک دار مونچھیں جو اس کی پرسنلٹی کو چار چاند لگاتے ہیں اوپر سے  آس پاس  کے 56 گاؤں کے سرپنچ بھی ہیں۔ جب بھی کبھی کسی پنچایت میں جاتے ہیں تو گاؤں والوں کی نظریں احترام سے جھک جاتی ہیں۔ کوئی بھی ان کے آگے اونچی آواز میں نہیں بولتا یہ عزت رتبہ رعب دبدبہ ان کی اپنی محنت اور نیک نیتی کا نتیجہ تھی۔ یہ اپنے پوتے یعنی راحیل سے بہت زیادہ پیار کرتے ہیں، راحیل ہی ان کےلئے سب کچھ ہے۔

راحیل کی دادی :

بلقیس (Balqis)

(بلکل کسی ملکہ کی طرح رعب اور دبدبہ بس یہ ڈرتی ہے تو  صرف  رحیل کےدادا جی سے)

 ان کے دو بیٹے ہیں۔

راحیل کا چاچا :

رانامشتاق (RanaMushtaq)

راحیل کی چاچی :

 پروین (Parveen)

ان کے ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے۔

بیٹا :

شکیل  (Shakeel)

بیٹی :

سُنبل (Sumbal)

راحیل کے چھوٹے چاچا:

رانا اشتیاق (Rana Ishtiaq)

( یہ بھی ایک حادثے میں گزر  گئے)

راحیل کی چھوٹی چاچی  :

اروی (Arvi)

 ان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے

 1:- سینا (Seena) (راحیل سے بہت پیار کرتی ہے اور خیال رکھتی ہے)

2:- حِنا (Heena) (یہ بھی دل کی بہت اچھی ہے  راحیل کے ساتھ بہت لگاؤ ہے انہیں بھی)

3:-تیمور(Taimoor)

( یہ ابھی چھوٹا سا ہے شائد ایک سال کا بہت ہی کیوٹ ہے)

 اب سٹوری ہیرو کی زبانی۔۔۔ میرا نام راحیل جو آپ کو پہلے ہی پتہ  چل چکاہے۔ میں بچپن سے ہی بنا ماں باپ کے  رہا ہوں،  ماں باپ کے بارے میں پوچھنے پر بس یہی کہا جاتا ہےکہ وہ ایک ایکسیڈنٹ میں مارے گئے ہیں، جب تین سال کا تھا تو دادا جی مجھے یہاں لے آئے ۔

 بڑے چاچا :

پروین میں کھیتوں میں جارہا ہوں اور جاتے ہوئے کھانے والی میز کے پاس آکر۔ ارے یہ کیا  ؟ کھانا نہیں لگایا 7 بج گئے ہیں بابو جی کے اُٹھنے کا ٹائم ہو گیا ہے۔

چاچی پروین : 

آپ اور آپ کے بابو جی  منہ سے کوئی لفظ نکلا ہی نہیں اور بس وہ کام اسی وقت پورا ہونا چاہیے۔۔۔ منہ بناتے  ہوئے۔

اگر اتنی ہی جلدی ہے تو کوئی نوکرانی رکھ لو۔ کھیتوں میں تو نوکروں کی لائن لگی ہوئی ہے بس گھر میں ہی سب  کام ہم سے کروانے ہوتے ہیں۔

 چاچا :

ارے ارے بس بھی کرو کتنا سناؤ گی  اوپر والے کی  بندی،  جاتے جاتے طعنے مار جاتے ہیں پتہ نہیں بابو جی نے بھی تم میں کیا دیکھ کر میرے  سےشادی کروا دی۔اتنا ہی کہہ کر گھر سے بھاگ جاتے ہیں ۔

چاچی چاچا  کی بات سن کر غصہ ہوجاتی ہے اور غصے میں کچھ بولنے کے لیے منہ کھولنے ہی لگتی ہے کہ دیکھتی ہے چاچا حویلی کا گیٹ کراس کر چکے ہوتے ہیں اور پھر دل ہی دل میں۔۔۔ کہاں جاؤ گے بھاگ کر شام کو گھر ہی آنا  ہے واپس پھر دیکھوں گی آپ کو بھی۔

اور پھر کچھ یاد آنے پہ ارے یہ حرام خور راحیل کہاں رہ گیا منحوس کہیں کا اتنی دیر میں۔۔۔

راحیل :

چاچی میں آگیا۔ بس میرے منہ سے اتنا ہی نکلا تھاکہ ایک زور دار تھپڑ آکر چہرے پر پڑھتا ہے۔

چاچی نے تھپڑ مار کر۔۔۔

چاچی:

کہاں مر گیا تھا حرام خور جاؤ جاکر شکیل اور سُنبل کو بلا کر  لاؤ اوپر سے اور من ہی من میں پتہ نہیں یہ کیوں نہیں مر گیا اس دن آکسیڈنٹ میں منحوس کہیں کا۔

میں چاچی کی بات سن کر رونے لگا  اور روتے روتے ان دونوں کو جگانے  گیااوپر والے  کمرے میں۔۔۔ بھائی اٹھو  چاچی  بلا رہی ہے ۔

شکیل لیٹے لیٹے ہی ایک لات مارتا ہے حرام خور صبح صبح نیند خراب کردی اور ماں بھی صبح صبح اسے ہی کیوں اٹھانے بھیج دیتی ہے اور اٹھ کر واشروم میں گھس جاتا ہے۔

میں پیچھے گرا اور کہنی پہ چوٹ لگنے کی وجہ سے منہ سےکراہ نکل گئی  اہ ہہہہہہہ ماں۔۔۔۔

پر کوئی ہو  تو سنے میرا درد۔۔۔  پچھلے  بارہ سال سے یہ درد سہن کر رہا ہوں اور پھر اٹھ کر سُنبل کے کمرے میں گیا اور وہاں بھی یہی ہوتا ہے۔

 سُنبل :

حرام خور صبح صبح نیند خراب کرنے آجاتا  ہےپتہ نہیں کب جان چھوٹے گی اس منحوس سے۔

میں روتے ہوئے نیچے آیا اور خود پہ کنٹرول کرکے خود کو چپ کروانے کی کوششیں کرتا رہا تاکہ دادا دادی نہ دیکھ لیں اور چھوٹی چاچی کے کمرے میں آکر تیمور کو جھولا جھلانے لگا اور سوچوں میں کھو گیا۔

 کیا میں بھی ایسے ہی جھولا جھول پایا ہوں گا؟   کیا مجھے بھی میری ماں نے گود میں اٹھایا ہوگا؟ کیا میں بھی اپنے پاپا کے کاندھوں پہ بیٹھ کے گھوما ہوں گا؟

یہ سب سوچ کر میرے صبر کا بندھ ٹوٹ پڑگیا  اور آنکھوں سے آنسوں بہنے لگے۔

 مجھے اپنی قسمت پہ دکھ ہونے لگا دادا جی کے علاوہ مجھے کوئی پیار نہیں کرتا تھا کیا میں اتنا ہی برا تھا؟ کیا میرے ماں باپ اتنے ہی بُرے تھے؟  جو ان کی ایک بھی تصویر حویلی میں موجود نہیں ہے۔

اور تو اور مجھے تو ان کی شکل بھی یاد نہیں ہے میں وہاں سے اٹھ کر چھت پر چلا گیا اور کونے میں بیٹھ کر رونے لگا ۔

 یہ میری پچھلے کئی سالوں کی روٹین تھی اکیلے بیٹھ کر رونا  ماں باپ کو یاد کرنا۔

دادی جی کھانے کا پوچھ لیتی تھی لیکن ان کے پیار میں بھی وہ چاہت نظر نہیں آتی تھی جو ہونی چاہیے تھی شائد وہ بھی دادا جی کے ڈر سے پیار کرنے پر مجبور تھی۔ یا  یوں کہیں کہ مجبوری تھی۔

بڑے چاچا اورچاچی کو کوئی مطلب نہ تھا مجھ سے یعنی بالکل پرواہ نہیں  کرتی تھی۔ اورچھوٹی چاچی نہ نفرت کرتی تھی  نہ  پیار کرتی تھی۔ بس یہی میری زندگی تھی روز کی۔

 مگر راحیل کو نہیں پتہ تھا کہ اتنے دکھ میں اس کے کچھ پل خوشی كے بھی آنے والے تھے جلدی  ہی ۔۔۔۔

 ناشتے کے وقت گھر کا ہر شخص موجود ہوتا ہے جو اس وقت حویلی میں موجود ہو۔ صرف گھر کی بہوؤں ہی نہیں بیٹھ سکتی تھیں۔

 دادا جی:-

بلقیس سب موجود ہیں میرا پوتا راحیل کہاں ہے؟

 دادا جی کے منہ سے یہ سب سنتے ہی دادی کی حالت خراب ہو گئی اور وہ ترچھی نگاہوں سے اپنی دونوں بہوؤں کو دیکھنے لگی۔

  دادا جی:-

میں نے کچھ پوچھا ہے؟

  دادی:-

وہ یہیں ہیں، وہ یہیں ہے بلواتی ہوں میں۔ پروین جا کے بلاؤ  راحیل کو ابھی کے ابھی اور اپنی آنکھ دکھاتی ہے پروین اور اروی کو۔

جسے دیکھ کر دونوں کی حالت پتلی ہو گئی اور وہ فوراً راحیل کو ڈھونڈنے جاتی ہیں۔

  بڑی چاچی:-

پتہ نہیں کہاں مرجاتا ہے منحوس اور یہ بوڑھا اور بڑھیا کھا جاتے ہیں مجھے اور بڑبڑاتے ہوئے چھت پر پہنچ جاتی ہے اور راحیل کو کونے میں بیٹھا دیکھتی ہے تو کہتی ہے دیکھو تو مہاراج کو۔۔۔ سب کا جینا حرام کر رکھا ہے اور خود یہاں بیٹھا ہے آرام فرما رہا ہے اور چیختے ہوئے کہتی ہے چل نیچے۔۔۔

 مجھے پتہ تھا کہ مجھے نیچے کیا کہنا ہے کیونکہ یہ میرا روز کا تھا اگر میں نے غلط کہہ دیا  تو مجھے اور سزا سہنا پڑے گی اس لیے میں چپ چاپ اپنا حلیہ ٹھیک کر کےچلا نیچے اور دادا جی کے پاس بیٹھ  گیا  ناشتہ کے لیے۔

دادا جی:-

بیٹا کہاں تھا آپ کو پتہ ہے نا اب ہم آپ کے ساتھ ہی ناشتہ کرتے ہیں۔

 راحیل:-

معاف کریں دادا جی میں اوپر چھت پر تھا اور وقت کا پتہ ہی نہیں لگا۔

 (اب یہاں یہ بتا دوں کہ راحیل بہت ذہین ہے اور اکیلا سب سہنے سے اور اس ماحول میں سزا برداشت کر کے سمجھدار ہو گیا ہے اس عمر میں۔۔۔ کیونکہ اس کی ایک غلطی بہت بھاری پڑتی ہے اس کے خود پہ۔)

  دادی:-

بیٹا راحیل ناشتہ کرو۔

 راحیل:-

جی دادی اور ناشتہ کرنے لگ جاتا ہے اور دل میں سوچتا ہے بس پورا دن کا یہی ایک پل سکون سے گزرتا ہے یا سینا کے ساتھ کھیلتے ہوئے کیونکہ دادا جی گھر ہوتے ہیں تب ہی میں سینا کے ساتھ کھیل سکتا ہوں پر یہ بات چھوٹی چاچی کو پسند نہیں ہے پر وہ دادا جی کی وجہ سے مجھے کچھ نہیں کہہ پاتی ہے۔

 دادا جی:-

بیٹا راحیل آج ہم آپ کو گاؤں کی سیر کرائیں گے آپ چلو گے نا  ہمارے ساتھ ؟

 راحیل:-

جی دادا جی ضرور چلیں گے آپ کے ساتھ ہمیں بھی گاؤں دیکھنا ہے اور ناشتہ ختم کر کے میں تیار ہونے چلا جاتا ہوں میں نہا دھو کے تیار ہو کے میں سینا کے پاس جاتا ہوں وہ ابھی چار سال کی ہے اس کو کھلاتا ہوں لاڈ کرتا ہوں اور اس کا گال پہ کس کرتا ہوں اور وہ بھی میری دیکھا دیکھی ایک کس گال پہ کرتی ہے بہت پیاری ہے اور کیوٹ ہے اسے پیار سے میں شہزادی بلاتا ہوں۔

 اور دو  خونخوار آنکھیں دیکھ رہی تھیں یہ سب اس وقت۔۔۔۔

 

ــــــــــــــــ  جاری ہے  ـــــــــــــــ

گھر کا رکھوالا کی اگلی قسط بہت جلد

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
سمگلر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more
سمگلر

Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page