گھر کا رکھوالا ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہےجس کے ماں باپ کو دھوکے سے مار دیا گیا، اس کے پورے خاندان کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا اور۔۔۔اس کے بچپن میں ہی، اس کے اپنے خاندان کے افراد نے ہی اس پر ظلم وستم کیا، اور بہت رلایا۔۔۔اورچھوڑ دیا اسے بچپن میں ہی ماں باپ کے پیار کو ترسنے کےلئے۔۔۔
گھر کا رکھوالا ۔ جب اس کے دادا جی نے اس کی انگلی پکڑی اپنے درد کو چھپا کر اسے اس لائق بنانے کےلئے خود سے سالوں دور کر دیا جہاں اسے اِس کا پیار ملتا ہے اور اُس پیار نے بھی اسے اس کی غریبی کی وجہ سے ٹکرا دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
-
میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا
April 17, 2025 -
کالج کی ٹیچر
April 17, 2025 -
میراعاشق بڈھا
April 17, 2025 -
جنبی سے اندھیرے
April 17, 2025 -
بھائی نے پکڑا اور
April 17, 2025 -
کمسن نوکر پورا مرد
April 17, 2025
قسط نمبر 03
میں سو رہا تھا اور الارم بجا مجھے پانچ بج کردس منٹ پر اٹھنا پڑتا ہے۔
بھائی اور باجی کو اٹھانا ہوتا ہے جو مجھے اپنا بھی نہیں سمجھتے۔۔۔ میں چلا گیا دونوں کو اٹھانے اور میری شروعات تو وہی پہلی لات کھانے سے اور پھر تھپڑ کھانے سے ہی ہوتی ہے آج بھی وہی ہوا اور مجھے ملا درد، نفرت اور آنسو جو میری تقدیر بن گئے ہیں پچھلے ایک سال سے۔۔۔
صرف اتوار کو چھوڑ کر باقی ہرروز یہی ہوتا ہے میرے ساتھ۔۔۔ میرے پاس سوائے آنسو کے اور کچھ نہیں ہے باہر نکالنے کے لیے۔۔۔یہی دکھ ہے ایک آٹھ سال کے بچے کا، جو کسی کو نہ دکھا سکتا ہے اور نہ جتا سکتا ہے۔ یہ سب دادا جی کو نہیں پتہ ہے کیونکہ وہ صبح 5 بجے چلے جاتے ہیں سیر پر اور میں نے انہیں کبھی بتایا نہیں ڈر کر کہ کہیں اور برا نہ شروع ہو میرے ساتھ۔
شکیل اور سُنبل نیچے آرہے تھے۔
بڑی چاچی:-
آؤ میرے لال آؤ بیٹھو آج تمہاری پسند کے آلو کے پراٹھے بنائے ہیں بس بابا جی آجائیں۔
شکیل:-
ماں اس منحوس کو کیوں بھیجتی ہوں اٹھانے کے لیے ہر روز۔ پورا دن بے کار چلا جاتا ہے اس سے اچھا تو نوکر رکھ لو اور اسے گھر سے باہر نکالو، پتہ نہیں اسے کیوں روک رکھا ہے۔۔۔ نہ باپ کا پتہ ہے نہ ماں کا نہ اس کے ماں باپ کی کوئی تصویر ہے گھر میں۔۔۔
بڑی چاچی:-
پتہ نہیں بیٹا تیرے دادا اور دادی جانے۔۔۔ کہتے ہیں ایک دن ہمارے پریوار کی بنیاد بنائے گا اور نام روشن کرے گا۔
بڑے چاچا:( شکیل سے)
دادا جی کہتے ہیں میرے چھوٹے بھائی کا بیٹا ہے پر میں نے تو بھائی کے علاؤہ کسی کو دیکھا نہیں کب اس نے شادی کی اور کون لڑکی تھی پتہ نہیں۔ ہاں گھر سے تو وہ اٹھارہ سال کی عمر میں چلا گیا تھا تب تو وہ کنوارہ تھا۔
راحیل(دل میں) :-
یہ چاچا کیا بول رہے ہیں دادا جی تو کہتے ہیں کہ تیرے پاپا ممی تجھے ہسپتال لے کے گئے تھے تب ایکسیڈنٹ ہوا تھا پر یہ چاچا اور چاچی کیا بول رہے ہیں۔ کیونکہ یہ سب راحیل نے دادا جی کے منہ سے اپنے دوست سے بات کرتے ہوئے سنا تھا اپنے ماں باپ کے بارے میں۔
چھوٹی چاچی:-
کہاں گم ہو گیا ہے رے تو جا بیٹھ جا کرسی پر ناشتہ کے لیے نہیں تو بابا ہمیں سنائیں گے۔
بس ایسے ہی طعنے مارتے ہوئے کوئی حرامی کہتا تو کوئی حرام خور تو کوئی منحوس وغیرہ وغیرہ۔
میں بس سنتا رہتا تھا اور اوپر والے سے ناراضگی دکھاتا تھا پر اوپر والے نے بھی آنکھیں بند رکھی تھی میری قسمت پر۔۔۔
دادا جی باہر سے آتے ہوئے صبح بخیر راحیل بیٹا۔
راحیل:-
صبح بخیر دادا جی اور اپنی سوچ سے باہر آیا۔
تھوڑا سکون ملتا ہے دادا جی کو جب دیکھتا ہوں وہ پاس ہوتے ہیں تومیں سب پریشانیاں بھول جاتا ہوں۔۔۔ ایک بچے کا سہارا ماں باپ ہوتے ہیں، تو وہ تو ہے نہیں اس لیے دادا جی ہی میرا سب کچھ ہیں میری ماں بھی اور میرا باپ بھی۔
دادا جی:-
بیٹا آج آپ کا داخلہ ہوگا سکول میں آپ شکیل اور سُنبل کے ساتھ اب سے کار میں جائیں گے اور خانی کو بول دو ایک گاڑی ہمیشہ ان کی کار کے ساتھ رہے گی سکول سے واپس آنے تک۔۔۔
بڑے چاچا، بڑی چاچی، چھوٹی چاچی اور دادی جو موجود تھی وہاں۔ آج سب کی آنکھیں بڑی ہو گئی تھیں خانی کے نام سے۔
خانزدہ عرف خانی:-
تعارف:-
خانزدہ ایک یتیم ہے جسے دادا جی پندرہ سال کی عمر میں اپنے ساتھ میں لائے تھے دادا جی کا خاص ہے اسے اور وفاداری کی مثال ہے۔
دادا جی کی طرف اٹھنے والی انگلی یا گولی پہلے اس سے ہو کے جاتی ہے یہ بولتا نہیں صرف کھولتا ہے اور جس کو کھولتا ہے وہ دوبارہ نہیں بولتا ہے۔
سب حیرانی سے دادا جی کو دیکھ رہے تھے کیونکہ آج تک شکیل اور سُنبل کے ساتھ سکیورٹی کے حساب سے کوئی نہیں گیا تھا تو اس منحوس نکمے یتیم کے ساتھ کیوں ؟
میں نے کہا دادا جی میں آپ سے کچھ مانگ سکتا ہوں؟
میرے بولنے سے سب سوچ سے باہر آئے۔
دادا جی:-
بیٹا آپ کو کب سے مانگنے کی ضرورت پڑگئی۔ سب آپ کا ہی تو ہے اورسب دھیان سے راحیل کو دیکھنے لگے اور سنجیدہ ہو کے کہا۔ مانگو۔
راحیل:-
دادا جی میں عام طالب علم بن کے جاؤں گا جیسے ایک عام طالب علم سکول جاتا ہے کوئی خاص سہولیات نہیں چاہیے نہ گاڑی نہ کچھ اور۔۔۔ بس ایک سکول بس میں ایک عام طالب علم بن کر۔
دادی بلقیس:-
یہ کیسی بات کر رہے ہو راحیل آپ کو پتہ ہے آپ رانا اشفاق خان کے پوتے ہو لوگ کیا کہیں گے کہ چھپن گاؤں پر راج کرنے والا انسان کا پوتا ایسے آرہا ہے سکول ۔عزت گر جائے گی ہماری۔
بڑے چاچا اور بڑی چاچی چھوٹی چاچی سبھی نے سنایا مطلب فلاسفی جھاڑی عزت درجات رتبہ وغیرہ وغیرہ
دادا جی کب سے سب کی سن رہے تھے وہ بولے خاموش ہوجاؤ سبھی۔
راحیل عام بن کے کیوں جانا چاہتا ہے آپ بتائیں گے مجھے۔ اگر آپ نے جواب صحیح دیا تو ضرور جیسے آپ کہیں گے ویسے ہوگا ورنہ نہیں اور غور سے راحیل کو دیکھنے لگے۔
میں خود سوچ رہا تھا اور دادا جی کے پوچھنے پہ میں نے بس اتنا ہی کہا۔
“ریسپیکٹ/عزت“
دادا جی مسکرائے اور انہوں نے ہاں کہہ دیا۔
کسی کو بھی یہ بات سمجھ نہ آئے پر دادا جی سمجھ گئے تھے کہ عزت پریوار سے ملے وہ آپ کی نہیں ہے عزت وہ ہے جو آپ نے کمائی ہے۔اس سے آپ کی پہچان بنتی ہے وہی آپ کو آگے پہنچاتی ہے دنیا کے درمیان آپ کا نام بناتی ہے اور وہ بنتی ہے یا ملتی ہے آپ کے کاموں سے اور یہیں سے شروعات ہوئی۔
راحیل رکھوالا اس گھر کا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دور کہیں ایک خوبصورت جگہ سری نگر جو کہ سرسبز وشاداب اور دریا سے گھری ہوئی ہے، سکون ہے، وہاں موسم خوشگوار رہتا ہے، وہاں ایک بہت بڑی حویلی ہے جس کی خوبصورتی بہت ہی اعلیٰ ہوا کرتی تھی۔ جسے پورے علاقے میں جانا جاتا ہے اب وہ ویران لگتی ہے گھر میں کافی لوگ ہیں پر سب ڈرے ہوئے رہتے ہیں، پل پل اپنی موت کی گھڑیاں گن رہے ہیں دوسری طرف پورا شہر اور علاقہ بےسکون ہے ڈر کے سائے میں اور وہاں راج کرتا ہے انسان کے روپ میں شیطان اور اس کا پریوار جنہوں نے پورے علاقے کو غلام بنا رکھا ہے اور بند کر رکھا ہے اس پریوار کو گھر کے اندر جن کے مرنے کے کچھ سال باقی ہیں۔
کہتے ہیں 7 سال پہلے سب ٹھیک تھا پھر کیا ہوا کچھ پتہ نہیں پر سب بہت دکھ میں اور ظلم میں جی رہے ہیں یا یوں کہوں کہ پل پل مر رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اب چلتے ہیں راحیل کی طرف۔۔۔
صبح کے 5:30 پر اٹھنا، ذلیل ہونا یہ اصول ہے میرا۔ صبح کے وقت ناشتہ کرتے وقت آرام سے نکلنا پھر حویلی میں کام کرنا پانی دینا، گارڈن میں پانی دینا اور صاف صفائی کرنا جو کہ میرے لیے بہت ہی دکھی تھا پر پرواہ کسے تھی۔ ایسے ہی دوپہر ہوئی پورا دن بڑی اور چھوٹی چاچی مجھے گھر کی صفائی اور گھر کا کام کرواتی رہی۔
چھوٹی چاچی:- جا فرش پر پوچا مار دے وہاں پر گندا ہو گیا ہے میں صاف کرنے گیا اور نیچے بیٹھ کر صاف کر رہا تھا کہ پیچھے میز سے پیٹھ ٹکرا گئی اور اس پر رکھا ہوا برتن گر گیا اور بس پھر کیا تھا۔۔۔ آپ خود ہی دیکھ لو کیا ہوتا ہے میرے ساتھ۔
چھوٹی چاچی:- حرام خور منحوس کہیں کے برتن توڑ دیا تو کھا جا سب کو اپنے ماں باپ کو کھا گیا یہاں آکر میرے شوہر کو کھا گیا، رک تجھے میں بتاتی ہوں
تڑاک تڑاک ۔۔۔
5تھپڑ پڑے مجھے بڑے چاچا اور چاچی خوش ہو رہے تھے دادی نے دیکھا پر بولی کچھ نہیں۔
چھوٹی چاچی:-
آج بھوکا رہے گا تو پتہ لگے گا اور مجھے گھسیٹ کر میرے کمرے میں لے گئی اور باہر سے بند کر دیا۔
میں اندر جاکر فرش پر گرا اور رونے لگا کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ میری ایک غلطی مجھ پر بہت بھاری پڑتی ہے پر ہوں تو میں بھی ایک انسان، ایک بچہ ہی ہوں جس سے غلطی ہو ہی جاتی ہے میں گلے میں پہنے لاکٹ کو دیکھ کر منہ سے آنسو کے ساتھ لفظ نکلا “ماں ” وہ اپنے ماں اور بابا نے پہنایا تھا نا یہ لاکٹ۔
آپ مجھے کیوں نہیں لے کر گئی ساتھ میں۔ کیوں چھوڑ گئی اس دنیا میں۔ دیکھو آپ کے بیٹے کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور اسی طرح میں لیٹا ہوا فرش پر ماں باپ کو یاد کر رہا تھا۔ ماں میں آپ سے کبھی بات نہیں کروں گا آپ گندی ہوں آپ مجھے اپنے ساتھ نہیں لے کر گئی کیا آپ مجھ سے پیار نہیں کرتی تھی اور پھر میں لیٹ گیا۔
سینا:-
بھئیا…. بھئیا جاگو نا دیکھو میں لڈو لائی ہوں آپ کے لیے آپ نے دوپہر کو کھایا نہیں نا۔۔ میں ممی کو الو بنا کر لائی ہوں آپ کھاؤ نا۔
وہ چھوٹی ہے پر اسے بھی پتہ ہے کہ لگنے پر درد ہوتا ہے اس کے چھوٹے ہاتھ جو پیچھے چھپے ہوئے تھے ان میں سے لڈو نکالے مجھے دیئے اور گلے لگ گئی میرے۔
میں نے اس کی طرف پیار بھری نظروں سے دیکھا اور گال پر ہاتھ سہلایا اور ایک لڈو لے کر کھا لیا اور کہا۔
کسی کو پتہ لگ گیا تو سینا تمہیں مجھ سے دور کر دیں گے اور تجھے بھی ماریں گے میں جلدی سے بولا ابھی چلی جاؤ۔ وہ پھر چپکے سے چلی گئی۔
شام کو بڑی چاچی نے دروازہ کھولا ان کے ساتھ شکیل اور سُنبل سبھی تھے جو ہنس رہے تھے۔
بڑی چاچی:-
یاد رکھنا اگر منہ کھولا نیچے دادا جی کے پاس تو زہر دے کر مار دوں گی سمجھا۔
میں ڈر گیا تھا کیونکہ مجھے جینا تھا، جینا ہے اپنے وجود کے لیے میں چپ رہا اور ان کی ہاں میں ہاں ملاتا رہا جو انہوں نے کہا میں نےویسے ہی کیا۔۔۔شام کا کھانا کھایا اور سوگیا اپنے کمرے میں۔ آج میں کسی کے پاس نہیں گیا سوال تو بہت ہیں میرے پاس جن کے جواب بڑے ہو کے ڈھونڈنے ہیں مجھے اس لیے ان سوالوں کو دفنا کے میں نیند کی گہرائیوں میں چلا گیا۔
صبح کا وقت تھا ساڑھے پانچ پہ اٹھا اور ایک لات کے ساتھ شروعات ہوئی، میری وہی ذلیل ہونا تھپڑ کھانا وغیرہ
آج دادا جی جلدی آگئے اور کمرے میں چلے گئے، میں نے انہیں دیکھا اور ان کے پاس چلا گیا اور گودی میں سر رکھ کر سو گیا۔
دادا جی:-
بیٹا راحیل کیا ہوا ؟
میں نے کہا کچھ نہیں دادا جی بس آپ جلدی آگئے تو آپ کی گود میں سونے کا دل تھا تو آگیا۔
دادا جی (دل میں) :-
بیٹا مجھے پتہ ہے کہ تو کیا سوچتا ہے اور کیا ہوتا ہے تیرے ساتھ بس کچھ وقت اور ہے ابھی تجھے بہت ہمت والا بننا ہے۔
آپ کا آج داخلہ کروانا ہے نا آپ تیار ہو جائیں۔
راحیل:-
جی دادا جی کہہ کے اوپر کمرے میں چلا گیا اور تیار ہونے لگا میں نے ٹی شرٹ اور پینٹ پہنی تھی اور نیچے آگیا اور دادا جی کے پاس چلا گیا ۔
دادا جی ہم تیار ہیں چلیں۔
دادا جی نے دھیان سے میری طرف دیکھا اور دل میں کہا بالکل اپنے باپ پر گیا ہے سمجھداری میں اپنی ماں پہ گیا ہے کاش وہ دونوں زندہ ہوتے تو دیکھ پاتے کہ آج ان کا بچہ شہر کے سب سے بڑے سکول میں پڑھنے جا رہا ہے۔ جو بہو کا خواب تھا اور بولتے ہیں بیٹا راحیل آپ ناشتہ کر لو پھر ہم چلیں گے۔
شکیل اور سُنبل تو جل بھن گئے تھے اور چاچا چاچی اور چھوٹی چاچی بھی جل بھن گئی تھیں دل میں سب اوپر اوپر سے مبارکباد دے رہے تھے۔ مگر دل میں سب غصے سے جل رہے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
گھر کا رکھوالا کی اگلی قسط بہت جلد

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

کالج کی ٹیچر

میراعاشق بڈھا

جنبی سے اندھیرے

بھائی نے پکڑا اور
