گھر کا رکھوالا ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہےجس کے ماں باپ کو دھوکے سے مار دیا گیا، اس کے پورے خاندان کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا اور۔۔۔اس کے بچپن میں ہی، اس کے اپنے خاندان کے افراد نے ہی اس پر ظلم وستم کیا، اور بہت رلایا۔۔۔اورچھوڑ دیا اسے بچپن میں ہی ماں باپ کے پیار کو ترسنے کےلئے۔۔۔
گھر کا رکھوالا ۔ جب اس کے دادا جی نے اس کی انگلی پکڑی اپنے درد کو چھپا کر اسے اس لائق بنانے کےلئے خود سے سالوں دور کر دیا جہاں اسے اِس کا پیار ملتا ہے اور اُس پیار نے بھی اسے اس کی غریبی کی وجہ سے ٹکرا دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
-
-
-
Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر
May 28, 2025 -
Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر
May 28, 2025 -
Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر
May 28, 2025 -
Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر
May 28, 2025
قسط نمبر 05
راحیل بڑا ہوکر اا سال کا ہو چکا ہے۔ اور اس وقت وہ دادا جی کے ساتھ باہر فقیروں کے پاس کھانا تقسیم کررہا ہے۔
راحیل :-
اوپر والے سے کہتا ہے اپنی ماں باپ کو تو نہیں دیکھا کبھی اوران کی کمی میرے دادا جی نے پوری کی ہے۔۔۔ اب مجھے اتنی طاقت دینا کہ میرے اپنوں پر آنے والا کسی بھی قسم کا دکھ درد کو دور کرسکوں اور اس لائق بن سکوں کہ دادا جی کو مجھ پر فخر ہو میں اپنا ایک وجود بنا سکوں خود کی پہچان بنا سکوں ۔
لیکن کیا میرا کوئی اپنا اور بھی ہے ؟
اگرہے تو وہ کہاں ہے؟
کیا وہ مجھ سے پیار کرتا ہے؟
اگر کرتا ہے تو ان سے ملنا ہے مجھے بس یہی مانگنا ہے آپ سے اس بچے کی یہ پکار پوری کر دو ۔
دادا جی:-
بیٹا دل سے اپنی خواہش مانگ لی ہو تو چلیں۔۔۔
راحیل:-
جی دادا جی
اور ہم سب نے وہیں پر کھانا کھلایا سب کو۔۔۔مطلب وہاں دادا جی نے سب کے لیے دعوت کا اہتمام کیا تھا اور ہم خود کیلئے بھی کھانا لے کر گھر کی طرف چل دیئے۔
اگلی صبح میں اٹھا اور سکول چلا گیا یہی شیڈول تھا میرا۔۔۔ اتوار تو آپ سب جانتے ہیں چاچا جی نے جو منصوبہ کیا تھا اسے چاچی نے کینسل کروا دیا خانزدہ کا ٹریلر دیکھ کے اور دوسری منصوبہ بندی کرنے لگے تینوں مل کے باقی سب عام رہا پھر ایسے ہی وقت گزرتا گیا شہر ترقی کرتا رہا ۔۔۔دادا جی نے حویلی میں اور حفاظتی اقدامات کیے اس دوران چھوٹے موٹے حادثات بھی ہوتے رہے۔
پانچ سال کے بعد۔۔۔۔۔
میں اس وقت ساتویں جماعت میں ہوں سُنبل نویں جماعت میں اور شکیل گیارہویں میں۔۔۔ آج سکول کا نیا سال شروع ہونے والا ہے۔
اوئے یہ تو میں بتانا بھول ہی گیا ہوں۔ ابھی میرا قد چار فٹ ہے، رنگ گورا ہے دبلا پتلا ہوں لیکن ایک چیز میرے بارے میں کہ اب میں بہت سخت لڑکا بن چکا ہوں۔
ہنسوں مت یار۔۔۔۔۔۔
گھر کا ماحول آپ سبھی لوگوں کو تو پتہ ہی ہے عورتوں کی عزت بڑوں کا ادب وغیرہ وغیرہ دادا جی کا پوتا ہوں ۔۔۔ہاہاہا
تو اسی لیے میں سخت لڑکا ہوں۔ میری جماعت میں 30 لڑکے اور 20 لڑکیاں ہیں اب یہ پتہ نہیں ہے۔ مجھے یہ گھورتی کیوں رہتی ہیں۔
اوہہہ میں بتانا تو بھول ہی گیا کہ میں کلاس کا ٹاپر ہوں۔
ایک بار اچھے سے پڑھ لوں تو پھر بھولتا نہیں ہوں، میرے دوست ہیں لیکن اچھا دوست کوئی بھی نہیں ہیں۔
میز پر ڈسٹر ٹھوکنے کی آواز آئی ٹھک ٹھک طالب علم خاموش ہو جاؤ کسی نے شور کیا تو مرغا بنا دوں گا۔
راحیل(دھیرے سے):-
افف یہ استاد تو جنس بدل دیتا ہے لڑکیاں مرغی سے مرغا بنیں گی۔
ٹیچر:-
میرا نام صابر ہے اور میں آپکا نیا کلاس ٹیچر ہوں ۔تو آپ سب باری باری کھڑے ہو کر اپنا تعارف کروائیں۔
سب سٹوڈنٹس نے تعارف دینا شروع کیا اور میں نے بھی دیا اور صرف راحیل نام لیا اور بیٹھ گیا۔
ٹیچر:-
اپنے والد کا نام بتاؤ
میں خاموش رہا کچھ نہیں بولا۔
ٹیچر:-
میں نے کہا اپنے والد کا نام بتاؤ
میں خاموش رہا کیونکہ ایسا کبھی کبھی ہوتا تھا جب نیا ٹیچر کلاس میں آجاتا تھا اور پھر کچھ نہ بولنے پر تھوڑی دیر میں بٹھا دیتا تھا لیکن اس ٹیچر کو اچھی خاصی کجھلی تھی پچھواڑے میں۔
ٹیچر:
لاوارث ہے کیا جو باپ کا نام نہیں پتا ہے۔
استاد نےایک بار پھر وہی بات دہرا دی۔
لاوارث ہے کیا؟ اگر لاوارث ہے تو تیرا داخلہ یہاں پر کس نے کروایا ہے ؟
اور سر مسکرانے لگا، باقی سٹوڈنٹس بھی ہنسنے لگے۔
میں خاموش رہا مگر میری یہ خاموشی اس ٹیچر کو نہیں پتہ تھا کہ اس کے لیے کتنی بھاری پڑنے والی ہے۔
میری آنکھوں میں آنسو اور چہرے پر دکھ تھا اور اچانک میں چِلا کے۔۔۔
لاوارث
لاوارث
لاوارث
تو بنے گا اس جنم میں نہیں ہر جنم میں لاوارث۔
مم ،،مم ،،میرا نام رررانا راحیل ہے ۔
اور تیرے لیے میں اب جلاد ہوں، آج سے تیری روح بھٹکے گی اور تیرے جسم کو کہے گی آسمان کے اڑتے پرندے آج اور اس پل سے تو ختم اور تیری موت اتنی درد ناک ہوگی کہ تجھے کوئی پہچان نہیں پائے گا
” یہ میرے الفاظ ہیں رانا راحیل کے الفاظ۔
غصّہ کے مارے میرے سر میں درد ہونے لگا تھا اور میں بے ہوش ہو جاتا ہوں۔
ان دو گھنٹوں کے دوران جب میں بے ہوش تھا کیا ہواکال پر۔۔۔۔
ٹیچر:-
میں نے کوشش کی تھی پتہ کرنے کی کہ وہ اس کی ہی اولاد ہے یا نہیں یا اشفاق کے پریوار سے ہے بھی یا نہیں مگر رجسٹر میں کچھ نہیں لکھا ہے۔ اوراس کے بعد کلاس کی ساری بات بتاتا ہے ۔سوائے راحیل کی دھمکی والی بات کی۔۔۔
کال کے دوران سامنے سے مادر چود تو نے سب گڑبڑ کر دیا ہے۔ نکل وہاں سے جلدی سے اب سب ستیاناس ہو جائے گا تیری وجہ سے سب ختم ہوگیا، بھاگ مادرچود وہاں سے۔
ان دو گھنٹوں میں میرے بے ہوش ہونے کے بعد ٹیچر نے کسی سے بات کی اور دوسری طرف پرنسپل کی طرف جو ہوا۔
جب پرنسپل کو پتہ لگا تو اس کی گانڈ ہی پھٹ گئی۔۔۔ اسے اپنی موت صاف نظر آرہی تھی۔ پرنسپل نے صابر سے کہا مسٹر صابر آپ نے اسے مجبور کیوں کیا؟ میں نے آپ کو کہا بھی تھا کہ کلاس میں کسی بھی بچے کو ذاتی معلومات کے لیے کوئی مجبور نہیں کرے گا۔ آپ پہلے ہی شہر سے باہر کے ہیں، میں نے آپ کو صرف رانا زبیر کے کہنے پر نوکری دی تھی،آپ ابھی کے ابھی استعفیٰ دیں اور چلے جائیں۔
مجھے سکول کے میڈیکل کے کمرے میں ڈاکٹر نے چیک کیا اور ایک انجیکشن لگا کر کہا ، یہ ذہنی دباؤ کا شکار ہے اور غصّہ میں سب نکلا ہے یہ بہت خطرناک ہے، اس کے لیے اور سبھی کے لیے جن سے اسے نفرت ہے مطلب آپ ایسا سمجھ لیجئے ایک بم فٹ ہے دماغ میں جو جب بھی پھٹے گا تو بدلے میں خطرناک غصّہ نکلے گا اور پھر کیا ہوگا میں نہیں جانتا یہ صرف میرا اندازہ ہے مجھے امید ہے میں غلط ہو جاؤں اتنی سی عمر میں اتنا غصّہ دراصل ڈاکٹر نے کلاس کی کیمرہ ریکارڈنگ دیکھی تھی اس لیے وہ اتنا سمجھ پایا تفصیل میں۔
پرنسپل کے آفس میں:-
پرنسپل ادھر ادھر چکر کاٹ رہا تھا اور اس کی پھٹی پڑی تھی اسے پتہ ہے اس کی ذرا سی لاپرواہی سے اب اسے کوئی نہیں بچا سکتا ڈر کے مارے اب تک اس نے فون تک نہیں کیا تھا رانا صاحب کو۔۔۔
وقت 1 بجے
میڈیکل کا کمرہ:-
مجھے ہوش آیا تو میں نے خود کو بیڈ پر لیٹا پایا۔ باہر بچوں کی ہلکی ہلکی آواز آرہی تھی میں نے ادھر ادھر گھڑی ڈھونڈی جو مل گئی۔ گھڑی میں ابھی ایک بجے تھے۔ مطلب ابھی سکول میں ہوں اور چھٹی ہوئی نہیں ہے پھر میں کچھ سوچنے لگا۔
تھوڑی دیر میں ڈاکٹر انکل آئے
کیسے ہو راحیل بیٹا ۔
راحیل:-
میں ٹھیک ہوں انکل
ڈاکٹر:-
یہ تو بہت اچھی بات ہے اب آپ کو تھوڑی دیر آرام کرنا ہے پھر سیدھا سکول بس سے گھر چلے جانا ہے اور ہاں بیٹا اتنا غصہ ٹھیک نہیں ہے آپ ابھی چھوٹے ہو دھیان رکھا کرو اور صرف پڑھائی پہ دھیان دو ۔
راحیل:-
اوکے ڈاکٹر انکل اور پھر ایک شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ انکل ایک کال کرلوں گھر پر دادا جی کو آج ان کے ساتھ جانے کا دل ہے۔
ڈاکٹر:-
کچھ دیر بعد تو آپ چلے ہی جاؤ گے گھر پر آپ کا دل ہے تو یہ لو فون۔
راحیل:-
پھر سے شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ کال لگائی، ہیلو میں راحیل بول رہا ہوں سکول آجائیں میڈیکل کے کمرے میں۔ فون بند کر دیتا ہوں۔
ڈاکٹر:-
بیٹا اپنے دادا جی کو سلام کچھ کیا نہیں اور سیدھا آنے کو بول دیا۔
راحیل:-
شکریہ کال کے لیے اور میں چپ ہوگیا شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ
ڈاکٹر سوچنے لگا کہ کیوں اتنا مسکرا رہا ہے ڈاکٹر نے نیند کی گولی دینے کی کوشش کی لیکن میں نے منع کردیا کہ میں ٹھیک ہوں ڈاکٹر کو لگ گیا تھا کچھ تو غلط ہے وہ مجھے جانچنے لگا۔
تھوڑی دیر بعد چپڑاسی آکے بولا آپ کو کوئی لینے آیا ہے۔ میں بائے ڈاکٹر انکل اور چپڑاسی کے ساتھ چلا گیا۔
سامنے والا شخص:
بیٹا آپ ٹھیک تو ہو نا۔۔ دکھاؤ مجھے وہ مجھے اچھے سے دیکھنے لگا ۔
راحیل (سامنے والے شخص سے) :-
ہمارے پاس ایک گھنٹہ پندرہ منٹ ہیں مجھے ایک استاد صابر چاہیے، آج ہی نیا ٹیچر آیا ہے میں آپ کا پرنسپل کے آفس میں انتظار کروں گا۔
سامنے والا شخص:-
پر بیٹا۔۔۔
راحیل:-
مجھے چاہیے ہیں اور میری آنکھوں میں غصّہ اور میرا جسم غصّے میں کانپتا دیکھ کروہ بولے اوکے مل جائے گا۔
راحیل:-
میں آفس میں بیٹھا ہوں اسے لے کر آؤ۔
میں نے دادا جی کو فون نہیں لگایا تھا میں نے لگایا تھا خانزدہ چاچا کو فون۔۔۔ کیونکہ مجھے خود اس ٹیچر کو سزا دینی تھی اپنے ہاتھوں سے میں پرنسپل کے سامنے آنکھیں بند کرکے بیٹھا تھا بس آنکھیں کھلتی تو صرف گھڑی دیکھنے کے لیے۔
وقت گزر رہا تھا دس منٹ بیس منٹ چالیس منٹ ایک گھنٹہ اور دروازہ کھولا صابر آ کے گرا میرے قدموں میں کیونکہ صابر کی تصویر میں نے پرنسپل کے موبائل سے خانزدہ چاچا کو بھیج دی تھی اور خانزدہ چاچا نے سبھی آدمیوں کو بھیج دیا تھا اس لیے جلدی مل گیا۔
راحیل:-
آؤ صابر بابو بہت شوق ہے نا تعارف لینے کا آج ہم آپ کا تعارف لیں گے اور آپ دیں گے۔ میں بولا پرنسپل سے سر ایسا کوئی کمرہ جہاں آواز دور تک نہ جائے تو پہلے پرنسپل نے کہا نہیں۔۔۔ پھر خانزدہ چاچا نے گھورا تو بولے سکول کے پچھلی طرف میں ایک بیسمنٹ ہے جو فرنیچر وغیرہ رکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے وہ ٹھیک ہے تو ہم اسے پچھلی طرف کے بیسمنٹ میں لے آئے اور اب باری میری تھی۔
راحیل:-
تو صابر بابو بہت تعارف لینا تھا نا تم نے۔ تو اب تم دو پہلے نام کہاں سے ہو اور یہاں استاد کیوں بنے؟
صابر:-
خاموش رہا۔۔۔
راحیل:-
خانزدہ چاچا وہ میں نے ایک فلم دیکھی تھی جس میں ایجنٹ کسی کی انگلیاں کاٹ کاٹ کے معلومات نکالتے ہیں زرا کرنا ایسے۔۔۔
چھوڑو آپ رہنے دو آپ کو تو صرف کھولنا آتا ہے آدمی کو لاؤ کٹر مجھے دو۔میری باتیں سن کر صابر کے جسم میں سنسناہٹ شروع ہوگئی وہ کچھ بولنا چاہتا تھا لیکن اس کے منہ میں میری رومال پھنسی ہوئی تھی،،، میں نے کٹر سے اس کی چھوٹی انگلی کاٹی وہ چلانے لگا اور تڑپنے لگا میں ہنس رہا تھا میں نے پھر اس کی دوسری انگلی بھی کاٹ دی اور پھر صابر اچھلنے لگا ،
آہہہہہہہہہہہ گرررررررر ہممم
میں کچھ دیر رکا اور پرنسپل کی طرف دیکھا تو اس کی حالت ایسی تھی کہ جیسے اسے ہی صابر کی جگہ بٹھا رکھا ہو
میں مسکرا کر سر سے۔۔۔ سوال میں نہیں خانزدہ چاچا پوچھیں گے سر۔۔۔ فی الحال شو کا مزہ لو اور یہ سن کر پھٹی پرنسپل کی گانڈ۔۔۔
میں نے مڑ کر ادھر ادھر دیکھا اور پھر ایک ہتھوڑا اٹھایا اور کھڑا ہوگیا۔ صابر کے سامنے اور اس کا گھٹنا دیکھنے لگا ۔میں بولا مسکراہٹ کے ساتھ پہلے پریکٹس کرلوں پھر ماروں گا گھٹنے پر اور مڑ کر رک گیا واپس پلٹا اور بولا مجھے کونسا گولڈ میڈل لینا ہے، پریکٹس تجھ پر کر لیتا ہوں، آگے کام آئے گی اور مڑ کر گھما کر ہتھوڑا دیا صابر کے گھٹنے پر اور صابر چلایا اور کان پھاڑ اور زور زور سے گردن ہلانے لگا ۔
میں سمجھ گیا کہ اب بولے گا ۔میں اس کے سامنے بیٹھ گیا اور بولا تو صابر بابو تعارف اب شروع ہوگا غلط بتایا یادسے بھی تو دوبارہ شروع کریں گے اوکے۔
اور ہاں چلانا مت۔۔۔۔ اور پیچھے پرنسپل تھر تھر کانپ رہا تھا صابر کے منہ سے رومال ہٹاتے ہی وہ بولا۔
صص صابر۔۔۔۔مممیرا نام صابر ہے۔
میں سکھر سندھ سے ہوں۔میں وہاں اغوا کاری کا کام اور جاسوسی کا کام کرتا ہوں۔
خانزدہ چاچا :
مادرچود کس نے بھیجا ہے تجھے یہاں؟
صابر۔۔چپ۔
راحیل:-
منہ بند کرکے آپ کا وقت ختم ہوا اب دوسرا راؤنڈ شروع صابر بابو۔۔۔ آپکا منہ کاٹنے لگا ہوں کچھ سوچ کر میں رک گیا اور بولا مزہ نہیں آئے گا تو میں نے اس کے دونوں ہاتھ کے انگھوٹھے کاٹ دیئے۔
اور میں ہنس کر بولا ہاں یہ صحیح ہےاب اور دوبارہ ہتھوڑا اٹھایا اور اس کے دوسرے گھٹنے پر مارا۔
صابر نے پاؤں ہلا کر نشانہ چکا دیا میں ہنسا اور بولا کیا بات ہے اور پھر مارا ہتھوڑا گھٹنے پر دوبارہ سے اب کی بار زور سے لگا اور اس کا پیشاب نکل گیا۔
خانزدہ چاچا:
بس بہت ہوا راحیل
میں مسکرا کر ابھی تو شروع کیا ہے چاچا۔
خانزدہ چاچا:
بس بہت ہوا راحیل مطلب بہت ہوا ۔
راحیل:
ٹھیک ہے جیسا آپ چاہو اور پلٹ گیا اور خانزدہ چاچا کے ٹارچر سے صابر نے بتایا کہ اسے شاکر جو ہمارے علاقے سے سو کلومیٹر کی دوری پر دوسرے شہر سے ہے اس نے بلایا تھا ایک سے آٹھویں کلاس تک کے بچوں کے باپ کے نام اور گاؤں کا پتہ کرنے کے لیے۔۔۔
اور یہ سبھی جانکاری لے کر پھر خانزدہ نے صابر کو مار کے گاڑھ دیا۔ پرنسپل کو پتہ تھا کہ اسے چپ ہی رہنا ہے اگلا نمبر اس کا اور شاکر کا ہی ہے۔
شام کے وقت حویلی میں دادا جی چکر کاٹ رہے تھے اور بے حد ہی غصے میں تھے ان کے سامنے راحیل بیٹھا تھا اور پاس خانزدہ نظریں نیچے کر کے بیٹھا تھا۔
راحیل :
پتہ نہیں میرے اندر آج کون سا بھوت آگیا تھا جو جوش میں کیا سےکیا کر دیا۔
اب دادا جی پتہ نہیں کیا کریں گے بڑا آیا تھا ایجنٹ بننے والا۔
دادا جی:
خانزدہ آپ سے یہ امید نہ تھی ہمیں کہ آپ نے راحیل کو یہ سب کرنے دیا۔
خانزدہ چاچا :
بابو جی میں تو بس۔۔۔۔
دادا جی:-
راحیل آج سے آپ صرف امتحان دینے سکول جائیں گے آپ کی ساری پڑھائی اب گھر میں ہوگی اور کل صبح پانچ بجے آپ مجھے باہر ملیں گے اور ہاں یہ آپ کے لیے میری پہلی اور آخری وارننگ ہے۔ آپ کو بولا تھا نا کہ آپ صرف پڑھائی کریں گے کوئی کچھ بھی کہے، نہیں بولیں گے اور آ کے ہمیں بتائیں گے، آپ کی ماں چاہتی تھی آپ اس سکول سے پڑھیں پر آپ نے ان کا خواب توڑ دیا اور ان کی خواہش آپ کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی کیا؟
راحیل:-
دادا جی معاف کر دیجیے دوبارہ ایسا نہیں ہوگا میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں دوبارہ کسی سے لڑائی نہیں کروں گا ۔
دادا جی:-
تو ٹھیک ہے آپ وعدہ دو کہ آپ جب تک جینے مرنے کا سوال نہ اٹھے آپ لڑائی نہیں کرو گے اور آپ کی سزا ہے آپ اگلے تین سال تک سکول صرف امتحان دینے جائیں گے
راحیل:-
منہ لٹکا کے جی دادا جی۔
دادا جی:-
آپ اپنے کمرے میں جائیں۔
راحیل:-
جی دادا جی
راحیل کے جانے کے بعد دادا جی نے خانزدہ سے کچھ بات کی اور خانزدہ بھی چلا گیا کھیت وغیرہ دیکھنے۔
کمرے میں دادا جی اکیلے چکر کاٹ رہے تھے اور بڑبڑا رہے تھے ایسا نہیں ہونا چاہیے راحیل کو سب کی نظروں سے بچا کے رہنا ہے جیسے خانزدہ نے بتایا ہے اگر اس کا غصہ ویسا ہی ہے تو یہ اپنے باپ والی غلطی کرے گا اور سب برباد ہو جائے گا اور ان چھپے ہوئے دشمنوں کی نظر میں آ جائے گا۔ نہیں نہیں ایسا نہیں ہونے دوں گا میں ابھی۔۔۔ اس کا یہ سب کرنے کی عمر نہیں ہوئی ہے اور وہ فوراً خانزدہ کو کال لگاتے ہیں اور چلے جاتے ہیں اپنے استاد کے پاس راحیل کے لیے۔
مارشل آرٹس سکول
دادا جی:-
کیسے ہیں ماسٹر
ماسٹر:-
میں ٹھیک ہوں تم اچانک یہاں؟
سب ٹھیک ہے نا آج تمہارے چہرے پر پریشانی کی جھلک صاف دکھائی دے رہی ہے۔
دادا جی:-
ہاں ماسٹر میں اپنے پوتے کے لیے پریشان ہوں اس کا غصّہ اس عمر میں اپنے والد عقیل پر گیا ہے جو اس کے لیے اچھا نہیں ہے۔
ماسٹر :(مسکرا کر)
کیا عقیل نے تمہارا راستہ چھوڑا تھا تو اس کا بیٹے سے ایسی امید کیوں نہ ہو اس کا باپ کیا تھا یہ تو تمہیں پتہ ہے پر اتنا سوچنا ک یوں؟
دادا جی:-
ماسٹر دشمن بہت زیادہ ہیں اور چاہنے والے بھی بہت ہیں۔ بہت سے اپنے اس کے انتظار میں ہیں ۔۔۔مگر میں نہیں چاہتا وہ کسی کی بھی نظر میں آئے۔ میں نے پوری دنیا سے چھپا کر رکھا ہے اسے، کتنے ہی اپنے بچھڑ گئے تھے اس حملے میں آپ کو پتہ ہی ہے جو ابھی تک ملے بھی نہیں ہیں۔
ماسٹر:
پریشانی کی بات نہیں، اسے تیار کرو اب، راحیل کو تم بڑے ماسٹر جی کے پاس بھیجو، ہم پرسوں جا رہے ہیں اسے ساتھ لے جائیں گے۔
دادا جی:-
جیسے آپ کی مرضی ماسٹر۔۔۔ میں بس اسے سب خطروں سے دور رکھنا چاہتا ہوں۔
ماسٹر:( مسکرا کر)
صدا خوش رہو جاؤ تیاری کرو جانے کی حویلی میں۔
بڑے چاچا اور بڑی چاچی:
بہت اڑ لیا تو نے اب تیرے دن وہیں شروع ہونے والے ہیں سمجھا۔
چھوٹی چاچی:
منحوس تو دور ہی ٹھیک تھا اب پھر گھر میں تیری شکل دیکھنی پڑے گی
چاچی یہ سب سینا اور حِنا کے سامنے نہیں کہتی تھی کیونکہ وہ دونوں ہر بات دادا جی کو بتا دیتی تھی تو چاچی کی بھی پھٹتی تھی پہلے کئی بار ان دونوں نے ان کی شکایت کر دی تھی۔
میں منہ لٹکائے ہوئے ان کی باتیں سن رہا تھا اور جب برداشت نہ ہوا تو اپنے کمرے میں چلا گیا اور سوچنے لگا کہ اتنی بڑی غلطی کر دی کیا میں نے کہ اب سکول نہیں جا سکتا روز؟
” مہربانی کریں دادا جی میں دوبارہ نہیں کروں گا” ایسا بولنا چاہیئے تھا دادا جی کو۔
میں اپنی سوچوں میں گم ہو گیا۔
دادا جی نے پیچھے سے پرنسپل کو دھمکی دی تھی کہ ایک اور غلطی اور تیرا پریوار ختم انہوں نے اسے زندہ اس لیے چھوڑا تھا کہ شاکر کو شک نہ ہو اور وہ تجسس میں ہی رہے مطلب جس کے لیے وہ کام کرتا ہے اس کے لیے کرتا رہے تاکہ وقت آنے پہ اس دشمن کو پکڑا جاسکے اسے یہی لگا کہ صابر ڈر کے مارے کہیں بھاگ گیا ہے۔
تھوڑی دیر بعد راحیل کے کمرے کا دروازہ کھلا اور سینا بھاگتے ہوئے آئی اور اس کے اوپر چڑھ گئی اور اسے چومنے لگی اور پھر گدگدی کرنے لگی۔
راحیل:-
بس کر بہت تنگ کرتی ہے تو سینا ہاہاہاہا-
سینا:
میں تنگ نہیں کرتی ہوں رکو ذرا اور پھر سے گدگدی شروع کر دی
راحیل:
اچھا اچھا میری غلطی ہے معاف کر دو۔
سینا:-
بھائی آپ دکھی مت رہا کرو ہنستے رہا کرو بس آپ ہنستے ہوئے اچھے لگتے ہو۔ بھائی آپ کبھی مجھ سے دور مت جانا اتنے میں حِنا بھی آگئی اچھا بچو دونوں ایک ساتھ ہو گئے اور مجھے بھلا دیا۔
راحیل:-
نہیں بھولا ہوں آجا اور وہ بھی آ گئی اور دونوں ایک ساتھ ملی ۔
حنا:
آج ہم دونوں آپ کے ساتھ سوئیں گے۔ ایک ایک کر کے اچھا نہیں لگتا بھائی آج ہم تینوں ساتھ رہیں گے۔
راحیل:
اچھا اچھا کھانا کھا کے آ جانا چلو کھانا کھاتے ہیں ہم نیچے آگئے سب کھانے کی میز پر بیٹھ گئے کھانا کھاتے وقت دادا جی بولے۔
دادا جی:-
بیٹا راحیل آپ کو اب ہمارے بڑے ماسٹر جی کے یہاں آگے کچھ سال گزارنے ہوں گے۔
راحیل:-
آنکھیں بڑی کرکے اور حیرانی کے ساتھ پر دادا جی کیوں اور کہاں جانا ہے کچھ بھی ہو ہم نے آپ سے دور نہیں ہونا ہے؟
دادا جی:-
کہاں جانا ہے یہ تو ہم نہیں بتا سکتے ہیں کیونکہ ان کا سکول یہاں پر نہیں ہے اور آپ ہماری خواہش پوری نہیں کریں گے کیا؟؟؟
ہم دل سے چاہتے ہیں کہ آپ بڑے ماسٹر کے پاس جائیں اور کچھ سال ان سے سیکھیں ہمیں بہت خوشی ہو گی۔
میں نے سینا اور حِنا کی طرف دیکھا جو بھیگی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہی تھیں۔ جیسے کسی نے ان کی روح مانگ لی ہو۔ جبکہ کچھ لوگوں کے چہرے پہ خوشی تھیں۔ تو کچھ چہروں پہ دکھ جس میں میں خود بھی تھا۔
ہم نے کھانا کھایا پھر دادا جی نے کافی باتیں بتائیں اور سمجھایا مجھے۔۔۔ اور میں چلا گیا سونے۔۔۔ رات کو سوتے وقت ہم بھائی بہنیں بہت روئے ۔
سینا اور حِنا:
آپ ہمیں بھولنا مت بھائی
راحیل:
نہیں بھولوں گا اور میرا انتظار کرنا میں وہاں سے کال کروں گا ایسے ہی خوب ساری باتیں کی اور ہم سو گئے ایک دوسرے سے لپٹ کر۔
دو راتیں نکل گئیں تھیں ان دو راتوں میں ہم بھائی بہن ساتھ ہی سوئے اور پورا دن بھی ساتھ ہی رہے۔ کسی نے بھی پریشان نہیں کیا۔
اور پھر چھوٹے ماسٹر آگئے مجھے لینے انہوں نے سب کو پیار دیا اور میرے پاس آئے اور میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولے چلیں بیٹا ہمیں بہت دور جانا ہے۔
ــــــــــــــــ جاری ہے ـــــــــــــــ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
گھر کا رکھوالا کی اگلی قسط بہت جلد

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر
