گھر کا رکھوالا ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہےجس کے ماں باپ کو دھوکے سے مار دیا گیا، اس کے پورے خاندان کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا اور۔۔۔اس کے بچپن میں ہی، اس کے اپنے خاندان کے افراد نے ہی اس پر ظلم وستم کیا، اور بہت رلایا۔۔۔اورچھوڑ دیا اسے بچپن میں ہی ماں باپ کے پیار کو ترسنے کےلئے۔۔۔
گھر کا رکھوالا ۔ جب اس کے دادا جی نے اس کی انگلی پکڑی اپنے درد کو چھپا کر اسے اس لائق بنانے کےلئے خود سے سالوں دور کر دیا جہاں اسے اِس کا پیار ملتا ہے اور اُس پیار نے بھی اسے اس کی غریبی کی وجہ سے ٹکرا دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
-
میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا
April 17, 2025 -
کالج کی ٹیچر
April 17, 2025 -
میراعاشق بڈھا
April 17, 2025 -
جنبی سے اندھیرے
April 17, 2025 -
بھائی نے پکڑا اور
April 17, 2025 -
کمسن نوکر پورا مرد
April 17, 2025
قسط نمبر 09
خالد: رو مت، بس پہنچ گئے ہیں۔ وہ دیکھ، ان پیڑوں کے بعد ہماری منزل ہے، آج مزے کر لے تیری تو کل سے ساری ہڈیاں بولنےلگے گی، ، ہاہاہا۔
15 منٹ بعد
میں: بھائی، کیا جگہ ہے، دل خوش ہو گیا یار۔
اصل میں وہاں کا منظر ایسا تھا کہ دونوں طرف پہاڑ تھے اور درمیان میں ایک بڑی سی جھیل تھی۔ یہ سب ہاسٹل کی زمین، مطلب پراپرٹی میں آتا ہے۔ وہاں میرا دل سکون میں آ گیا اور تھکاوٹ دور ہو گئی تھی۔ ہم وہاں کنارے پر بیٹھ گئے اور سامنے کا منظر دیکھنے لگے۔ دوسری طرف وہاں کچھ اسکول کی لڑکیوں کا گروپ بھی گھومنے آیا ہوا تھا۔
ہماری طرف دیکھ کراُ نہیں پتہ نہیں کیا پاگل پن کے دورے پڑے، ان میں سے ایک بولی، یہ بھکاری کہاں سے آ گئے، ہمارا سارا مزہ خراب کر دیا۔
ہم دونوں کو ان کی باتیں بری لگیں۔ خالد تو خاموش رہا کیونکہ وہ یتیم تھا، تو اسے غربت کا پتا تھا، لیکن مجھے معلوم تھا کہ میرے دادا جی کے پاس بہت پیسہ ہے اور احترام کا کیڑا تو میرے اندر پہلے سے ہی پل رہا تھا۔ میں کچھ بولنے والا تھا کہ
خالد: رہنے دے، راحیل، امیر گھر کی بگڑی ہوئی اولاد ہیں، ان لوگوں کو انسان کی نہیں، پیسے کی قدر ہوتی ہے، چھوڑ بھائی، ہم دوسری طرف چلتے ہیں۔
میں: (دل میں) شاید خالد مجھے نارمل فیملی سے سمجھتا ہے، مجھے بھی ایسا ہی رہنا ہوگا اس کے ساتھ تاکہ یہ مجھے ان کی طرح نہ سمجھ لے۔
میں : چل، بھائی
پھر ہم دونوں وہاں سے کھڑے ہو کر تھوڑی دور چلے گئے۔
اسکول کی لڑکی 1: دیکھا نا، کیسے بھگایا لڑکوں کو، لڑکیاں دیکھتے ہی چلے آتے ہیں یہ لڑکے، اور کپڑے دیکھو، کیسے گندے پسینے سے بھرے ہوئے تھے۔
لڑکی 2: نہیں یار، کسی پر ایسے کمنٹس کرنا غلط ہے، جب تک وہ کوئی غلط حرکت نہ کرے اور انہوں نے کوئی ایسی حرکت نہیں کی، تم نے یوں ہی ان غریبوں کو سُنا دی۔
لڑکی 1: نصیحت کا پٹارہ مت کھول یار، ان کے ساتھ ایسا ہی کرنا چاہیے۔
باقی لڑکیاں بھی: ہاں، صحیح کیا شازیہ نے۔
یہ کہہ کر وہ لڑکیاں وہاں سے واپس چل دی۔ تو میڈم کا نام شازیہ ہے۔
اُن کے جانے کے بعد ہم دونوں نے جھیل میں نہایا اور واپس ہاسٹل آئے، اور کھانا کھا کر سو گئے کیونکہ کل اسکول جانا تھا۔
اگلی صبح میں اور خالد اُٹھے، اُستاد جی کے پاس پہنچے اور استاد جی کے حکم پر یوگا کے نام پر پورے جسم کی ہڈیاں اور پٹھے ڈھیلے کر دیے۔ ہم واپس آئے اور میری چال دیکھ کر خالد پورے راستے زور زور سے ہنستا رہا اور میری حالت بدتر ہوتی رہی۔ ہم تیار ہوئے اور ہاسٹل سے باہر نکلے اسکول جانے کے لیے۔
خالد: بھائی، دائیں طرف سے چلنا ہے۔
میں: کیا کہا، دائیں طرف؟ مطلب تو کہہ رہا ہے کہ رائٹ سائڈ سے؟ کیا پاگل ہو گیا ہے؟ اُس طرف تو پہاڑ ہے۔ کیا ہمیں چھلانگ لگا کر مرنا ہے؟
خالد: ہاں ہاں، بھائی، ویسے بھی ہمیں ایک گھنٹہ مل گیا تھا، وہ بڑے لڑکے ہیں، انہیں تو آدھا گھنٹہ ملتا ہے، اب سوچ لے، وقت ختم ہونے والا ہے، 8 بجے اسکول لگے گا، 7:55 ہو گئے ہیں چل، اور بھائی سامنے سے 15 کلومیٹر کا راستہ ہے، بتاؤ کیا کرنا ہے؟
یہ کہہ کر وہ ہنسنے لگا۔
میں تو کچھ بولنے کے قابل ہی نہیں رہا تھا، میری تو پہلے ہی حالت خراب تھی ، کھڑے کھڑے چکر آ رہے تھے، مطلب پاؤں اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے، میرا مطلب ہے کہ میری تو ایسے بج چکی تھی کہ میں تو اب انکار کی پوزیشن میں ہی نہیں تھا۔
خالد: چل بھائی
اس نے میرا ہاتھ پکڑا اورہم پیدل ہی چلتے چلے گئے، میں دل ہی دل میں اوپر والے کو یاد کر رہا تھا، ایسا نہیں تھا کہ صرف ہم ہی وہا ں پیدل چلنے والے تھے،بلکہ جب ہم نے 4 کلومیٹر کا سفر پہاڑوں میں مکمل کیا، تب بڑےلڑکے دوڑتے ہوئے آئے اور دوڑتے ہوئے ہی ہمیں کراس کر گئے، اور تبصرے کرتے گئے کہ دم نہیں ہے تو یہاں آتے کیوں ہو، گھر پر ممی پاپا کی گود میں رہو یہاں وقت اور پیسہ ضائع کرنے آجاتے ہو۔
میری تو چونسٹھ پر لگی اُن کی باتیں میرا غصہ سے چہرہ لال ہوگیا ، میں کچھ جواب کہنےکا ارادہ ہی کر رہاتھا ، کہ خالد نے روک لیا اور کہا
بھائی، ان کا روز کا کام ہے، ایک ہفتہ گزر جانے دو ، پھر تیرے لیےیہ سب نارمل ہو جائے گا۔
میں تھکا ہارا، 1 گھنٹہ اور 15 منٹ میں اسکول پہنچا۔ پسینے پسینے ہو رہا تھا، میں نے منہ دھویا اور رومال سے منہ پونچھ کر کلاس روم میں پہنچ گیا۔
میں خالد کے ساتھ بیٹھا، اور جب کلاس میں ادھر اُدھر نظریں اُٹھا کر دیکھا تو زیادہ لڑکیاں تھیں، مطلب 40 کی اسٹرینتھ میں 22 لڑکیاں اور 17 لڑکے تھے۔ ابھی میں کلاس روم دیکھ ہی رہا تھاکہ ایک لڑکی کی انٹری ہوئی اور اُسے دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔
میرے منہ سے نکلا:اس کو بھی یہاں، اسی کلاس میں آنا تھا۔
اُسی وقت ٹیچربھی آگئیں اور سب کا تعارف لینے لگی۔
جب شازیہ کی باری آئی، تو اس نے کہا
“My Name is Shazia Malik, D/O Asif Malik, Place of Belonging – KPK Hobbies – Listening to music, and my percentage in 5th class was 97%.”
اب میری باری تھی، تو میں نے سادہ تعارف دیا
“My Name is Raheel Rana, and my percentage in 5th class is 99%.”
شازیہ کی تو جل گئی، ہاہا۔
ٹیچر نے بھی باقی کچھ نہیں پوچھا، لیکن میں یہ بات بھول گیا کہ شازیہ مجھے غصے سے دیکھ رہی تھی۔ کلاس اسی طرح چلتی رہی، پھر بعد میں، شوز کا ناپ بھی دے دیا۔ وقفے کے دوران، جب ہم دونوں لنچ کر رہے تھے، تو ہماری میز ٹوکن والی تھی، مطلب جو اسکالر یا ٹیسٹ پاس کر کے آئے ہوں یا ہاسٹل والوں کی ہوتی تھی۔ ہمارے پیچھے شازیہ، اپنی بہن یا دوست، جو بھی تھی، اپنے گروپ کے ساتھ بیٹھی تھی۔
اس نے ہماری طرف دیکھا اور کہا:اسکولرشپ کا پیپر پاس کر کے آ جاتے ہیں، بھکاری کہیں کے، نہ کوئی حیثیت، نہ کوئی اوقات ۔
میری آنکھوں میں غصے سے خون اتر آیا کیونکہ بات حیثیت کی تھی۔
میرا غصےایسا شوٹ کر گیا کہ ہاتھ میں جو کانچ کا گلاس تھا وہ میرے ہاتھ کی گرفت میں دب کر ٹوٹ گیا۔ اور جب اس کی باتیں برداشت سے باہر ہونے لگی تو میں نے پلٹ کے پیچھے دیکھا شازیہ کی پیٹھ میری طرف تھی، اور وہ بولے جا رہی تھی جسے سن سن کے میرا جسم غصے کے مارے کانپنے لگ گیا تھا۔ میں اپنےآپ پر بہت مشکل سے قابو کررہا تھا۔خو د پر کنٹرول کر رہا تھا کہ پرسکون رہوں اور جب غصہ پھٹنے والا ہوا تب خالد نے جلدی سے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا
خالد: راحیل مہربانی کرو پرسکون رہو بھائی غصّہ مت کر۔
میں : ہاتھ چھوڑ میرا آج میں اسے سبق سکھا کے رہوں گا۔
خالد: بھائی دو منٹ بات سن لے بیٹھ کے پھر جو چاہے وہ کر لینا
میں اس کی بات سن کے بیٹھ گیا اور بولا: ہاں بول کیا کہنا چاہتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
گھر کا رکھوالا کی اگلی قسط بہت جلد
پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں
-
Keeper of the house-109-گھر کا رکھوالا
April 10, 2025 -
Keeper of the house-108-گھر کا رکھوالا
April 10, 2025 -
Keeper of the house-107-گھر کا رکھوالا
April 10, 2025 -
Keeper of the house-106-گھر کا رکھوالا
April 10, 2025 -
Keeper of the house-105-گھر کا رکھوالا
April 10, 2025 -
Keeper of the house-104-گھر کا رکھوالا
April 10, 2025

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

کالج کی ٹیچر

میراعاشق بڈھا

جنبی سے اندھیرے

بھائی نے پکڑا اور
