Keeper of the house-110-گھر کا رکھوالا

گھر کا رکھوالا

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی نئی سلسلہ وار کہانی ۔۔گھر کا رکھوالا۔ ۔ رومانس ایکشن اور سسپنس سے بھرپور کہانی۔

گھر کا رکھوالا۔ایک ایسے نوجوان  کی کہانی ہےجس کے ماں باپ کو دھوکے سے مار دیا گیا،  اس کے پورے خاندان کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا اور۔۔اور اُس کو مارنے کے لیئے اُسے ڈھونڈھنے لگے ۔۔ دادا جی نے اس کی انگلی پکڑی  اور اُس کو سہارا دیا ۔۔لیکن اُس کے اس کے بچپن میں ہی، اس کے اپنے خاندان کے افراد نے  ہی اس پر ظلم وستم کیا،  اور بہت رلایا۔۔۔اورچھوڑ دیا اسے ماں باپ کے  پیار کو ترسنے کےلئے۔۔

گھر کا رکھوالا  کو  جب اس کے دادا جی نے اپنے درد کو چھپا کر اسے اس لائق بنانے کےلئے کہ وہ اپنا نام واپس لے سکے اُس کو خود سے سالوں دور کر دیا ۔ لیکن وہاں بھی قدم قدم پر اُس کو نفرت اور حقارت کے ساتھ ساتھ موت کے ہرکاروں سے بھی لڑنا پڑا۔۔اور وہاں سے وہ ایک طوفان کی طرح اُبھرا ۔ جہاں اسے اِس کا پیار ملا۔۔لیکن اُس پیار نے بھی اسے اسے ٹکرا  دیا۔ کیوں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

چلو چلتے ہیں کہانی کی طرف   

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کا رکھوالا قسط نمبر - 110

صبح جب میں اٹھا تو باہر بہت شور ہورہاتھا۔۔ باہر نکل کر دیکھا تو کچھ لڑکے لڑکیاں چیخ چیخ کر بتا رہے تھے کہ دو لوگ ننگے پڑے ہیں اور بہت بری حالت میں ہیں۔

میں۔۔۔ بری حالات ۔۔ہاہاہاہاہاہاہا۔۔گانڈ یں پھٹ گئی ہیں تو بُری حالت توہوگی ۔

اتنا شور شرابے کی آواز سن کر کنول اور کومل بھی باہر آگئے۔۔میں نے ان کے کانوں میں کچھ کہا اور دونوں نے اثبات میں سر ہلایا۔

کومل۔۔۔ میں جانتی تھی کہ میرا بھائی کبھی غلط نہیں ہو سکتا، مجھے اپنے بھائی پر فخر ہے۔۔ یہ اچھی بات ہے کہ اس بے وقوف  اور بے ہودہ لڑکی سے تمہاری جان چھٹ گئی ۔۔چڑیل کہیں کی ۔

میں۔۔۔ وہ بھی غلط نہیں۔۔ اس نے وہی دیکھا جو اسے دکھایا گیا، اس نے مجھ پر اعتبار نہیں کیا، میں نے  غلطی کی  لیکن یہ میری مجبوری تھی۔۔خیر  جانے دو، آج کے بعداس کا  کوئی ذکر نہیں ہو گا۔

کنول۔۔۔ یہ ہر گز نہیں ہوگا ۔۔۔اور ہم  دونوں کو ایک ساتھ گلے لگا لیا ۔

خالد۔۔۔چڑیل تو تم ہو۔۔کسی اور کو کیوں چڑیل کہہ رہی ہو۔۔اور تم دونوں ۔۔اچھاچھوڑو۔۔ کنول تمہارے لیے سرپرائز ہے، تم دیکھو گی۔

کنول۔۔۔ آپ نے پہلے ہی میرا میموری کارڈ دے کر  مجھے ان کمینوں سے بچا کر سرپرائز دیا ہے۔۔ لیکن پھر بھی میں ضرور دیکھوں گیا کہ اب کیا سرپرائز دے رہے ہو۔

ہم نے بھیڑ کا پیچھا کیا۔۔ 50 میٹر کے فاصلے پر 2 لوگ ننگے اور بے ہوش پڑے ہوئے تھے۔۔ خالد کے چہرے پر مسکراہٹ  آگئی اور کنول کے چہرے پر بھی ۔۔میں نے کومل کی آنکھوں پر ہاتھ رکھا۔

کومل۔۔۔ بھائی میں بھی دیکھنا چاہتی ہوں یہ کون ہے۔

میں۔۔۔ نہیں ہرگز نہیں۔۔ گندی چیزیں  نہیں دیکھا کرتے ۔بعد میں  سب  پتہ چل جائے گا کہ یہ کون ہے، اب اُدھر دیکھنے کی ضرورت نہیں۔۔اور ویسے بھی  میں نے تمہیں کل اپنے ساتھ نہیں سُلایا تھا ۔۔ آجا  میں تمہیں گلے سے لگاوں۔

وہ ہنسنے لگی اور جلدی سے میرے گلے لگ گئی۔

پھر نتاشہ میڈم اور کچھ سٹاف نے آ کر انہیں سیدھا کیا تو سب چونک گئے کہ یہ کیا ہے، یہ آفتاب  اور جاوید ہیں۔۔ شازیہ ،روشنی اور کرن چونک گئیں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے، یہ رات  2 بجے تک تو بلکل ٹھیک تھے ۔پھر اب یہ  کیا ہوا۔

شازیہ غصے سے میری طرف آئی اور زور سے بولی۔

شازیہ۔۔۔ تم نے یہ سب کیاہے نا ۔۔تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہ سب کرنے کی ۔ میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی پولیس سے کہہ کر جیل میں ڈالوادوں گی۔

میں ۔۔۔ معاف کرنا ، کیا میں آپ کو جانتا ہوں؟۔۔ کیا میں آپ کو جانتا ہوں  کہ آپ کون ہو ؟ اور دوسری بات یہ کہ آپ کو مجھ سے اس طرح بات کرنے کی ہمت کیسے ہوئی؟

تب کومل بڑھک گئی

کومل ۔۔۔ اپنی زبان سنبھال کر بات کریں۔۔سمجھی   زیادہ بولنے کی ضرورت نہیں ہے ۔اور یہ لوگ  آخری بار تمہارے  ساتھ ہی تھے۔ تمہاری باہوں میں ۔۔۔ پھر کومل چلا کر  بولی ۔۔۔نتاشہ میم آخری بار میں نے اور کنول نے ان 3 لڑکیوں کے ساتھ ان کو صحیح سلامت دیکھا ہے ۔۔اور یہ  ہم  پر الزام لگا رہے ہیں،بُلائیں پولیس کو سب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔

میں خاموش رہا اور جب کومل چپ ہوئی تو شازیہ کے کان میں بولا۔۔۔میڈم  کچھ بھی کہنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لیا کرو، جو بھی کہو گی وہ اپنے اوپر آئے گا، آخری مرتبہ یہ تمہارے ساتھ ہی تھا۔۔اور میں یہ آخری بار کہہ رہا ہوں، میں تمہیں  نہیں جانتا ہوں اس لیئےتم، میرے آس پاس بھی نہیں بھٹکنا۔۔ اب جا کر اپنے بوائے فرینڈ کو سنبھالو۔۔ جتنا تم بولو گی ، اتنا ہی خود پھنسو گی، سمجھی میڈم۔

شازیہ ہکی بکی سی رہ گئی  مجھے دیکھ کر کہ میں  اتنا کیسے بدل گیا۔۔

نتاشہ میڈم نے پرنسپل کو بلایا اور سب کچھ بتا دیا۔

پرنسپل ۔۔۔ فوری طور پر پولیس کو اطلاع دیں اور ان دونوں کو ہسپتال پہنچاؤ۔

پھر دونوں کو ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹر ان کی پچھواڑے  کی حالت دیکھ کر خوفزدہ ہو کر رپورٹ بنانے لگا۔

یہاں ہم کیمپ میں ہی  تھے ،اور سب ان دونوں کے بارے میں ہی باتیں کر رہے تھے،  تبھی پولیس آئی اور سب سے پوچھ تاچھ کرنے  لگی۔۔ اور مزے کی بات کہ  وہی انسپکٹر آیا جس سے صبح لڑائی کی تھی، اس نے میری طرف دیکھا اور ایک کمینی مسکراہٹ اُس کے ہونٹوں پر آگئی اور میری طرف بڑھ کر ٹیڑھے لہجے میں کہا۔

 

انسپکٹر شاہد۔۔۔ تو ہماری پھر ملاقات سے ہوئی اور یہ واقعہ بھی تمہارے  قریب پیش آیا۔ کیا بات ہے ، آتے ساتھ ہی  شروع کر دیا، اس دن بھی تم کچھ کر کے ہی بھاگ رہے تھے۔

میں۔۔۔ اچھا اس بات پر خوشیاں مناؤں یا روؤں ۔ انسپکٹر صاحب اپنی حد میں رہ کر مجھ سے بات کرو۔

انسپکٹر شاہد۔۔۔حدمیں؟۔۔ جب میں تمہیں جیل میں ڈالوں گا تو دیکھو گے کہ کس کی حد کہاں ہے، جب تمہیں پولیس کے ڈنڈوں  کا سامنا کرنا پڑے گا۔

خالد۔۔۔ انسپکٹر اپنی اوقات میں رہو۔۔ سمجھے۔۔ایسا نہ ہو کہ کہیں تمہاری  وردی ہی نہ رہے ،  اور اتنے لوگوں کے سامنے ہمیں دھمکا  رہے ہو۔ تمہارے پچھواڑے میں اتنا دم بھی  ہے۔۔تو کر کے  دکھاؤ یا تم صرف بھونکنے والے کتے ہو۔

کانسٹیبل غصے میں آگیا اور مجھے مارنے کے لیے آگے آیا تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر توڑ دیا۔

انسپکٹر شاہد نے میری طرف پستول تان لی ، لیکن  میں  مسکرا رہا تھا۔

خالد۔۔۔ تم بس 10 منٹ انتظار کرو، اگر تم ہمارے  سامنے گھٹنے ٹیگ  کر معافی مانگتے ہوئے نظر نہ آیا تو میرا نام بھی خالد سُلطان  نہیں،  میں تمہارا غرور تمہارے پچھواڑے میں ڈال دوں گا۔۔پستول تان کر تم نے سب سے بڑی غلطی کر دی۔

تبھی  دوسرا کانسٹیبل انسپکٹر شاہد کے کان میں بولا۔۔۔یہ  اتنا بول  رہا ہے ، کہیں یہ اُس  مشہور ایکسپورٹ امپورٹ کنگ کیپٹن اجمل سلطان  کا بیٹا تو نہیں ہے، اگر ایسا ہوا تو مشکل میں پڑ جائیں گے  سر آپ ۔

خالد۔۔۔ جو کرنا ہے کر لو، 10 منٹ  ہے تمہارے پاس اس کے بعد دست  لگیں گے،  اور تم نے جو ہمیں دھمکایا ہے، میں اپنے وکیل کو بتاؤں گا اور تمہاری پوری زندگی جہنم بنا دوں گا، جب تم اس وردی میں نہیں رہو گےاور جیل ہوگے تو میں تمھارا کیا حشر کروں گا تم سوچ بھی نہیں پاؤ گے۔ہم  کسی کے ساتھ الجھتے  نہیں ، اور اگر کوئی ہم سے الجھے  گا تو چھوڑوں گا بھی نہیں ۔

میں ۔۔۔ٹھنڈا ہوجا بھائی ۔۔ انسپکٹر صاحب اس دن میں رننگ کر رہا تھا، اور تم  نے میرے ساتھ بدتمیزی کی، جو آپ جیسے عہدے پر فائز شخص کو زیب نہیں دیتی، اور آج بھی آپ ایسا ہی کر رہے ہیں صرف اس لیے کہ آپ کی انا کو ٹھیس پہنچی ہے۔یا کسی اور کا غصہ مجھ پر نکال رہے تھے۔

10منٹ بعد

موبائل کی آواز آئی شاہد نے نمبر دیکھا اور پھر خالد کی طرف دیکھا۔

خالد کے چہرے پر ایک تنزیہ  سی مسکراہٹ تھی

کومل۔۔۔ اب مزید کالیں آئیں گی اور آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ آپ کا کیا بنے گا۔ویسے شکر منا  کہ نسرین جلال  میڈم کو ابھی نہیں پتہ چلا۔  وہ ابھی ہے نہیں ،  ورنہ گولی آپ کےسرمیں ہوتی ۔

انسپکٹر شاہد۔۔۔میں نے ایمانداری  سے  نوکری ہے ہمیشہ،  سینئر کے سامنے جھکنا پڑتا ہے لیکن میں کسی سے نہیں ڈرتا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 گھر کا رکھوالا کی اگلی قسط بہت جلد

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موڈ ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page