Keeper of the house-113-گھر کا رکھوالا

گھر کا رکھوالا

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی نئی سلسلہ وار کہانی ۔۔گھر کا رکھوالا۔ ۔ رومانس ایکشن اور سسپنس سے بھرپور کہانی۔

گھر کا رکھوالا۔ایک ایسے نوجوان  کی کہانی ہےجس کے ماں باپ کو دھوکے سے مار دیا گیا،  اس کے پورے خاندان کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا اور۔۔اور اُس کو مارنے کے لیئے اُسے ڈھونڈھنے لگے ۔۔ دادا جی نے اس کی انگلی پکڑی  اور اُس کو سہارا دیا ۔۔لیکن اُس کے اس کے بچپن میں ہی، اس کے اپنے خاندان کے افراد نے  ہی اس پر ظلم وستم کیا،  اور بہت رلایا۔۔۔اورچھوڑ دیا اسے ماں باپ کے  پیار کو ترسنے کےلئے۔۔

گھر کا رکھوالا  کو  جب اس کے دادا جی نے اپنے درد کو چھپا کر اسے اس لائق بنانے کےلئے کہ وہ اپنا نام واپس لے سکے اُس کو خود سے سالوں دور کر دیا ۔ لیکن وہاں بھی قدم قدم پر اُس کو نفرت اور حقارت کے ساتھ ساتھ موت کے ہرکاروں سے بھی لڑنا پڑا۔۔اور وہاں سے وہ ایک طوفان کی طرح اُبھرا ۔ جہاں اسے اِس کا پیار ملا۔۔لیکن اُس پیار نے بھی اسے اسے ٹکرا  دیا۔ کیوں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

چلو چلتے ہیں کہانی کی طرف   

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کا رکھوالا قسط نمبر - 113

ہمارے اسکول میں ہمارے فائنل پیپرز شروع ہو چکے تھے  اور بہت اچھے جا رہے تھے۔

میں امتحان دینے کے بعد باہر بیٹھا سب کا انتظار کر رہا تھا،  اور اپنے ہی خیالوں میں گم تھا

کومل ۔۔۔ بھائی، دن میں سپنے دیکھ رہے ہو؟۔۔ویسے  میں آپ کو ایک بات بتاؤں ،میں آپ کا پیچھا چھوڑنے والی نہیں ، میں نے پاپا کو اچھے سے بتا دیا ہے ، میرا داخلہ آپے کے ساتھ ہی ہوگا اور میں آپ کے ساتھ ہی اسکول میں  پڑھائی جاری رکھوں گی۔۔

میں۔۔۔ ابھی نہیں، پہلے مجھے میرے بہت سے سوالوں کے جواب معلوم کرنے ہیں ، پھراُس کے بعد ۔ ٹھیک ہے۔

میری بات سُن کر  کومل نے منہ پھولادیا۔

میں اس کی منتیں کرنے لگ گیا کہ میری مجبوری ہے اپنی مجبوری کا رونا رونے لگ گیا ۔لیکن مجال ہے کہ اُس کے چہرے پر بال برابر فرق آیا ہو۔ اور میرے سب کہنے کو ان سُنا کررہی تھی۔

پھر جب میں نے اس کواپنے  سامنے کیا ۔ تو اس کی آنکھیں آنسو ں سے بھری ہوئی تھی۔

میں اُسے  گلے لگانے کے بعد۔۔۔ میری بات سمجھ لو۔۔ میں بھی تمہیں اپنے آپ سے دور نہیں رکھنا چاہتا لیکن۔۔۔

کومل میری بات کاٹتے ہوئے روتے ہوئے بولی۔۔۔ تمہیں پتہ ہے  کہ میں بچپن سے ہی اکیلی رہتی آئی ہوں، میرا کوئی بھائی نہیں ہے، میں نے تمہیں سگے بھائی سے بھی بڑھ کر چاہا ہے اور اب تم ہی مجھ سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہو۔

میں نے اُسے کس کر اپنے ساتھ لگا لیا اور کہا

میں۔۔۔ پاگل تم نے نے سوچا بھی کیسے کہ میں تم سے  پیچھا چھڑانا  چاہتا ہوں۔۔چلو ٹھیک ہے ٹھیک ہے ، میں پوری کوشش کروں گا، کہ ہم اکھٹے ہی ایک ہی کالج میں داخلہ لیں گے ۔۔لیکن بس اب تو رونا مت، مجھے بہت دُکھ ہوتا ہے تمہیں روتا دیکھ کر۔

شازیہ ہم سے تھوڑی دوری پر یہ سب کچھ دور سے دیکھ رہی تھی ۔۔اور دل میں کہہ رہی تھی کہ تمہار گھمنڈ تو  اس وقت ٹوٹ جائے گا،  جب میرے پاپا  تمہیں پورے سکول کے سامنے ذلیل کریں گے۔

٭٭٭٭٭

ادھر دوسری طرف الگ ہنگامہ

راکا۔۔۔انسپکٹر اب تو تمہیں  جلد ہی معطل کردیا جائے گا، میرا تیرا بھی بہت سا  حساب کتاب باقی ہے وہ بھی اب میں ختم کروں گا۔ تم نے میرا بہت سامان پکڑا تھانا، اب  دیکھتا   ہوں کہ تمہیں کون بچائے گا۔

انسپکٹر شاہد ۔۔۔ اوپر والا  جانتا ہے کہ میں نے کبھی کسی کو ناجائز نقصان نہیں پہنچایا۔ مارنے اور بچانے والا بھی وہی ہے ۔۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا اور آج بھی کہتا ہوں کہ میں اپنی ذمہ داری پوری کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا۔

راکا ۔۔۔ بس یہ بتاؤ کہ تم نے میرا کروڑوں روپے کا اسلحہ کہاں چھپا رکھا ہے، ورنہ جس دن تمہاری وردی اتری، اور تم معطل ہو جاؤ گے۔ اورتمہارے جو کیس چل رہے ہیں وہ بند ہو جائیں گے۔۔ اس کے بعد تم  میرے شکنجے میں آؤ گے۔۔اب سوچ لو کیا کرنا ہے۔

پھر وہ چلا گیا اور انسپکٹر شاہد کو خود پر غصہ آنے لگا کہ وہ اپنے غصے پر قابو کیوں نہیں کرپا تا۔۔ لیکن اب کیا کیا جا سکتا تھا، اس نے غلطی کر کے خود ہی اپنے لیئے کھڈا  کھودا  تھا۔اصل میں  شاہد راکا کے سامنے تو اُس کی جی حضوری کرتا تھا لیکن پیٹ پیچھے مخبری کرکے اس کا مال  پکڑواتا تھا ، جس کی راکا  کو تھوڑی بہت بھنک  مل چکی تھی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

پندرہ دن کے بعد خالدکے  گھرمیں

خالد۔۔۔تو مجھے  اپنے ساتھ لے کر جائے گا، یہ سمجھ لو، ورنہ تمہاری گانڈ پھاڑ دوں گا۔

میں۔۔۔ بھائی، دادا جی نہیں مانیں گے،  اور میں  نے تجھ سے کہا ہے کہ مجھے  کچھ وقت دو میں کچھ نہ کچھ کرتا ہوں۔

خالد۔۔۔ تو چوتیا تو دادا جی کو منا لے ، تو کس لیے ہے، میں نے تم سے کہہ دیا، پھر کچھ مت کہنا، کہ تم نے کانڈ کردیا ہے۔

میں۔۔۔ ٹھندا ہوجا میری جان، پہلے مجھے سوچنے دو،  میں وعدہ کرتا ہوں دوست، ہم ساتھ ساتھ رہیں گے۔

امتحانات ختم ہو چکے تھے اور کل چھٹی کرکے سب اپنے اپنے گھر جا رہے تھے،  میں بھی سوچ رہا تھا کہ کیسے جانا ہے، میں نے انکل  کو بتایا ،تو  انہوں نے مجھے کہا کہ کل سکول سے گھر آنا، پھر ہم کچھ انتظام کر لیں گے، لیکن بڑے اُستاد جی  سے پوچھ کرآنا۔

میں کل رات سے کومل کے ساتھ خالد کے گھر ٹھہرا ہوا تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭

ادھر دارالحکومت سے ہمارے اسکول  کے لیے 10 کاروں کا قافلہ نکل چکا تھا۔جس میں  ایک رولس رائس کار تھی، باقی سب ایس یو وی تھیں جن میں شازیہ  کے والد آصف ملک  کی حفاظت کے لیے تربیت یافتہ باڈی گارڈز تھے۔ کیونکہ وہ دارالحکومت میں  اسٹیل گنگ کے نام سے جانے جاتے تھے ۔ آج پہلی بار وہ خود اپنی بیٹی کو لینے جا رہا تھا۔

٭٭٭٭٭٭

اُسی  وقت ادھر  ہاسٹل میں شازیہ  اپنے کمرے میں لیٹی تھی تبھی کنول اس کے پاس  آئی۔

کنول۔۔۔ شازیہ مجھے تجھ سے کچھ کام ہے۔

شازیہ۔۔۔ ہاں بتاؤ، میں  اب تم بھی تیری دوست ہوں، تم بے شک نہ مانو۔ ۔

کنول۔۔۔کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جو ہم دیکھتے ہیں وہ سچ نہیں ہوتا۔۔اور اُس وقت  ہم جو بھی فیصلہ سوچے سمجھے بغیر لیتے ہیں اس پر ہمیں بعد میں بہت پچھتاوا ہوتا ہے لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے ۔

شازیہ۔۔۔ پہیلیوں میں بات مت کر ،  صاف صاف بتا۔

کنول۔۔۔ میں راحیل  کی بات کر رہی ہوں

شازیہ۔۔۔ اس دھوکے باز کا نام مت لو

کنول ۔۔۔ ٹھیک ہے نہیں لونگی،  لیکن ایک بات ذہن میں رکھو شازیہ ، مجھے امید ہے کہ ایک دن تمہیں پتہ چل جائے گا، اس کے بعد تم راحیل کے نام کو اپنے دماغ سے نہیں نکال پاؤ گی۔۔اچھا شب بخیر ۔۔ہر چمکتی  چیز سونا نہیں ہوتی ۔

لیکن کہا جاتا ہے کہ غصہ انسان کو ہمیشہ سچائی سے دور رکھتا ہے اور آج بھی وہی ہوا، شازیہ اپنی محبت کھو بیٹھی

٭٭٭٭٭٭٭

وہیں میں  بھی بستر پر لیٹا کروٹیں لیتا ہوا شازیہ کے ہی بارے میں سوچ رہا تھا۔ میں نے اس کے ساتھ اتنا وقت گزارا، وہ لمحات میری زندگی کے یادگار لمحات ہیں یا تھے۔ شازیہ میری  محبت تھی۔یہ الگ بات ہے  کہ میں اپنا  غم اور دُکھ باہر نہیں نکال سکتا تھا۔۔ لیکن اب میں  بھی سوچ رہا تھا کہ میری  محبت اتنی کمزور نہیں  ہوسکتی ہے۔ اسے بس ایک بار موقع دینا چاہیے تھا۔

پھر کچھ دیر سوچنے کے بعد

میں دل ہی دل میں۔۔۔اس نے مجھے دھوکے باز کہا ہے تو اسے احساس تو ہونا چاہیے کہ حقیقت کیا ہے۔ ورنہ میں کسی کی نفرت کے احساس کے ساتھ میں زندہ   نہیں رہ سکوں گا۔  ہاں اسے یہ ضرور پتہ  ہونا چاہئے ،کہ میں کوئی  سڑک چاپ نہیں ہوں ، جسے صرف اس کے پیسے اور جسم سے پیار تھا۔  کل میں اس کے جانے سے پہلے اسے سچ بتاؤں گا۔بس ایک بار موقع دیا ہوتا۔

ایسے ہی سوچتے سوچتے میں سو گیا۔۔کیونکہ  کل مجھے  اپنے گھر بھی جانا تھا ۔جہاں  مجھے اپنی بہنوں سے ملنا تھا، اپنے دادا جی سے ملنا تھا۔

٭٭٭٭٭٭

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 گھر کا رکھوالا کی اگلی قسط بہت جلد

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موڈ ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page