Keeper of the house-120-گھر کا رکھوالا

گھر کا رکھوالا

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی نئی سلسلہ وار کہانی ۔۔گھر کا رکھوالا۔ ۔ رومانس ایکشن اور سسپنس سے بھرپور کہانی۔

گھر کا رکھوالا۔ایک ایسے نوجوان  کی کہانی ہےجس کے ماں باپ کو دھوکے سے مار دیا گیا،  اس کے پورے خاندان کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا اور۔۔اور اُس کو مارنے کے لیئے اُسے ڈھونڈھنے لگے ۔۔ دادا جی نے اس کی انگلی پکڑی  اور اُس کو سہارا دیا ۔۔لیکن اُس کے اس کے بچپن میں ہی، اس کے اپنے خاندان کے افراد نے  ہی اس پر ظلم وستم کیا،  اور بہت رلایا۔۔۔اورچھوڑ دیا اسے ماں باپ کے  پیار کو ترسنے کےلئے۔۔

گھر کا رکھوالا  کو  جب اس کے دادا جی نے اپنے درد کو چھپا کر اسے اس لائق بنانے کےلئے کہ وہ اپنا نام واپس لے سکے اُس کو خود سے سالوں دور کر دیا ۔ لیکن وہاں بھی قدم قدم پر اُس کو نفرت اور حقارت کے ساتھ ساتھ موت کے ہرکاروں سے بھی لڑنا پڑا۔۔اور وہاں سے وہ ایک طوفان کی طرح اُبھرا ۔ جہاں اسے اِس کا پیار ملا۔۔لیکن اُس پیار نے بھی اسے اسے ٹکرا  دیا۔ کیوں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

چلو چلتے ہیں کہانی کی طرف   

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کا رکھوالا قسط نمبر - 120

خانی۔۔۔  بھرخوددار سنبھل کے دیسی اکھاڑہ ہے۔

دادا جی ۔۔۔  خانی بچہ سمجھ  کے مت لڑنا۔۔ دیکھا دو زرا  دیسی پہلوانی۔۔ ہمیں  بھی تو پتا لگے کے 5 سال کیا کیا ہے راحیل نے۔

کومل ۔۔۔  اوہ۔۔مت کریں ایسا  دادا جی۔۔ بھائی یوں  اٹھا کے پھینکیں گے کہ  چاچا کی ساری ہڈیاں  ہل جائیں گی۔۔ چاہیں تو شرط لگا لیں ، میں نے تو دیکھا ہے کہ وہ کیا کر سکتے ہیں۔

ہم دونوں  ایک دوسرے کے سامنے  کھڑے تھے ،  اچانک خانی چچا نی نے جھک کر میری کمر کو پکڑا اور مجھے پیچھے اٹھاکر پھینک  دیا ، میں ہکا بکا رہ گیا خانی چاچا میں تو بہت پھرتی تھی ، میں دوبارا کھڑا ہوا اور مسکرانے لگا۔پھر چاچا اور میں نے ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ پھنسائے اور ایک دوسرے کو پیچھے کی طرف دھکیلنے لگے۔پھر میں پھرتی سے  جھکا اور خانی چاچا کو پیٹھ پہ اٹھا کے اگے کی طرف پھنک دیا،  وہ  نیچے گرے ، تو ایک بار تو انہیں شاک لگا لیکن پھر وہ میری طرح ہی مجھے دیکھتے ہوئے مسکرانے لگے۔ اور میری اور وہ میرا سر اپنے ہاتھوں میں جیسے ہی دبوچنے لگے۔ تو میں نے تیزی سے جھک کر اُن کی کمر کو پکڑا اور پانے سر کے اوپر سے پیچھے کی طرف اچھال دیا۔اس دفعہ میں نے تھوڑی طاقت زیادہ لگائی تھی جس کی وجہ سے خانی چاچا کچھ دور جا کر کمر کے بل گرے اور اُن کی کمر اُکھڑگئی۔

میں۔۔۔ آپ ٹھیک  تو ہیں چاچا،  معاف کرنامجھ سے زیادہ زور لگ گیا۔

خانی چاچا  کھڑے ہوکر۔۔۔  بہت اچھے راحیل ، مزہ  آگیا،  بہت دنوں  بعد کوئی برابر کا ملا

کومل۔۔۔  چاچا بات بدلو مت ۔۔یوں  بولو کے بھائی نے ہرا دیا۔۔کہا تھا نا تارے دیکھاد یں گے

خانی چاچا۔۔۔ ہا ہا ہا۔۔ٹھیک ہے ۔۔آپ صحیح ہو ہم ہار مانتے ہیں۔

سب ہنسے لگے

ٹھوڑی دیر بعد کومل تو دادا جی کے ساتھ گاوں  گھومنے چلی گئی جہاں  سب لوگ اس کی آو بھگت کرنے میں لگ گئے ،  پورا  دن گھوم پھر کے گھر آئی  تو سامنے  شکیل اور سنبل کھڑے تھے ، دادا جی تو  اندر چلے گئے

شکیل تنز کرتے ہوئے ۔۔۔ منحوس کے ساتھ رہنے والے کو سنبل  کیا کہیں گے۔

سنبل ۔۔۔  کیا بھائی اسے اُسے بھی  منحوس ہی  کہیں گے

شکیل ۔۔۔  پتا نہیں وہ  جسکواپنے  ماں باپ کا اتا پتا نہیں، وہ اپنے جیسی ہی  کسی کو اٹھا کر لے آیا  ہوگا

سنبل۔۔۔  اور نہیں تو کیا۔۔پتا نہیں جیسے ہمارا گھر تو کوئی یتیم خانہ ہو۔۔ جس کو دیکھو منہ اٹھا کے آجاتے ہیں

کومل بس اُنہیں  گھور کے دیکھتی رہی ۔۔پھر بولی

 

کومل۔۔۔  راحیل جیسا بھائی اگر منحوس ہے تو مجھے یہی بھائی ہمیشہ  چاہیئے۔۔اور رہی بات یتیم ہونے   کی تو تم جیسوں  کے ہونے سے اچھا ہے کہ وہ یتیم ہی رہے ۔۔ ویسے میرے رہتے تمہارے جیسوں  کی جرات ہی کیا۔۔ اور اب میری بات ۔۔میں نے سنا ہے تم دونوں کسی کالج میں پڑھتے ہو۔

 پھر دونوں کے پاس گئی اور دھیرے سے بولی ۔۔۔میرے پاپا وہاں کے  کمشنر ہیں ،  ایک بار اٹھاوا کے پچواڑہ بندر کے پچواڑے کی طرح لال کروادوں گی اس لیئے اپنی حد میں رہو۔ اور مجھ سے دور رہنا سمجھے ۔۔اور راحیل میرے پاپا  کے لیے بیٹے سے بھی بڑھ کر ہے تو سوچ سمجھ کے ہی  الجھنا۔۔کہیں لینے کے دینے ہی نہ پڑجائیں۔

سنبل ۔۔۔ تو کچھ زیادہ  نہیں  بول رہی

کومل ۔۔۔ میں  جو بولتی ہوں وہ کرکے دیکھاتی ہو ۔۔اور کہو تو کر کے دکھاؤں۔۔ آپکا یہ نازک بدن جھیل نہیں پائے گا مار۔۔ اور چاہ کر بھی آپ کسی کو بتا نہیں پاوگے کہ  کس نے کیا ہے یہ سب تیرے ساتھ اور کیونکہ میں  تو نادان بچی ہوں ۔

شکیل۔۔۔ دیکھ لونگا توجھے بہت اکڑ ہے۔

کومل ۔۔۔کہتے ہیں  نا کہ  لاتوں  کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے ، ٹھیک ہے میں پاپا کو بول دیتی ہوں۔

 اور پھر فون نکال کر نمبر ٹائپ  کرنے لگی۔۔تو شکیل اورسنبل نکل لیے پتلی گلی سے۔

کومل ۔۔۔ بڑے آئے مجھے ڈرائیں گے۔

میں اوپر سے کھڑا دیکھ رہا تھا اور سنبل اور شکیل کا چہرا دیکھ کر میں سمجھ گیا تھا۔۔کہ  انکو کرارا جواب دیا ہے کومل نے ۔۔میرے چہرے پر بھی مسکان آگئی

٭٭٭٭٭٭٭

گاوں  سے باہر

 

ایک شخص ۔۔۔شاکر  صاحب ایک لڑکی دیکھی رانا صاحب کے ساتھ

شاکر۔۔۔ تو کہنا کیا چاہتا ہے۔

وہ شخص۔۔۔ ایک لڑکا اور آیا تھا،  اُس کو  نہیں دیکھا  ابھی تک ، مطلب کچھ تو گڑبڑ ہے

شاکر۔۔۔ بھوسڑی کے کوئی خاص بات ہو تو وہ بتانا،  ورنہ گانڈ میں لنڈ ڈال دونگا فون رکھ۔

٭٭٭٭٭٭٭

دو دن کے بعد کومل کو پھر سے مستی چھڑ گئی۔

کومل ۔۔۔بھائی ہمیں  گھومنا ہے، میں نے  سنا ہےکہ یہاں بہت اچھی اچھی جگہیں ہیں۔

میں۔۔۔ٹھیک ہیں  چلتے ہیں ویسے پورا علاقہ تو میں نے بھی نہیں دیکھا

کومل ۔۔۔تو ٹھیک ہےکب چلناہے ۔۔آپ خالد اور کنول  کو بھی بلا لو نا۔

میں ۔۔۔  دیکھ کنول  ابھی ٹینشن سے باہر نکلی ہے اسے تھوڑا اپنی  فیملی کے ساتھ رہنے دے اسکے پاس میرا نمبر ہے، وہ خودرابطہ  کرےگی،  اور خالد کی زمہ داری ابھی زیادہ بڑھ گئی ہے ،  اُسے اب سکول اور بزنس دونوں سنبھالنے ہیں۔

کومل ۔۔۔تو ٹھیک ہے،  ہم دونوں  ہی  ٹھیک ہیں۔

شام کو

میں ۔۔۔  دادا جی ہم گھومنے جا سکتے ہیں

دادا جی۔۔۔ ہاں کوئی بات نہیں لیکن  خانی کو ساتھ لیکے جانا پڑے گا

کومل۔۔۔  یہ تو خوشی کی بات ہے

میں ۔۔۔ ٹھیک ہے دادا جی ،  ہم کل صبح  چلیں گے

رات میں

دادا جی۔۔۔  خانی خیال  رکھنا خطرہ  ہو تو جو چاہو کرنا

خانی۔۔۔ جی بابوجی

ہم دونوں میرے کمرے  میں تھے اور میں کومل کو اپنے بچپن کی اچھی باتیں  بتا رہا تھا

اُدھر بڑے چاچا کے کمرے میں بڑی چاچی اور چاچا آپس میں لگے ہوئے تھے۔

بڑی چاچی ۔۔۔  وہ  اب کل گھومنے  جائے گا اس  وقت کوئی حادثہ بنا کر اس کو مروا دو۔

بڑے چاچا۔۔۔بیوقوف مت بنو۔۔ تھوڑا صبر اور کرلو جب اتنے دن صبر کیا تو تھوڑا اور کرلو۔۔ سب مل جائے گا اب سوجاؤ۔

بڑی چاچی ۔۔۔اُس منحوس کو نہیں مارنا ۔۔تو میری پھدی کو تو مار کر ٹھنڈا کر ۔اس کمینے کو دیکھ دیکھ کر مجھے آگ لگ جاتی ہے اور ساری میری پھدی میں آگ اکھٹی ہوجاتی ہے ۔

چاچا نے اپنی شلوار نیچے کی اور اپنا لوڑا بڑی چاچی  کے ہاتھ میں دے دیا

چ بڑی چاچی نے لوڑا سہلانا شروع کردیا .اور ساتھ چاچا  کی رانیں چومنے لگیں

چاچا  کا لوڑا تن کے کھڑا ہوگیا، بڑی چاچی نے آؤ دیکھا نا تاو چاچا  کو چت لٹا کر ان کے پیٹ پر اس طرح گھوڑی بن گئیں کہ ان کی گانڈ چاچا  کے منہ پر آگئی اور خود وہ ان کا لوڑا چوسنے لگیں،  اب توچاچا کو بھی مزہ آنے لگا ۔

چاچا نے دونوں ہاتھ آگے گھما کر بڑی چاچی کے موٹے موٹے مموں کو  مسلنا شروع کردیا اور ساتھ ان کے کولہے چومنے لگے ۔

بڑی چاچی   کی سسکاریوں سے کمرہ گونج رہا تھا اچانک انہوں نے جھٹکا لیا اور اُن کی پھدی پانی چھوڑنے لگی ۔۔ بڑی چاچی کی پھدی میں واقعی آگ لگی ہوئی تھی ۔جو تھوڑی دیر کی چوسائی میں ہی  جھڑگئی۔ ۔۔۔چاچا نے فورا ان کی چوت چاٹنی شروع کردی بڑی چاچی  مزے کی شدت سے اچھل رہی تھیں چاچا ان کی منی کے آخری قطرے تک چوت چاٹتے رہے،  ان کا لوڑا فل ٹائٹ تھا،  جب بڑی چاچی فارغ ہوگئیں توچاچا نے انہیں چت لٹا دیا اور ان کے اوپر آگئے اور بڑی چاچی کے ہونٹوں کو چومنے لگے ، بڑی چاچی پھر گرم ہونے لگیں ۔۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 گھر کا رکھوالا کی اگلی قسط بہت جلد

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موڈ ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page