Keeper of the house-122-گھر کا رکھوالا

گھر کا رکھوالا

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی نئی سلسلہ وار کہانی ۔۔گھر کا رکھوالا۔ ۔ رومانس ایکشن اور سسپنس سے بھرپور کہانی۔

گھر کا رکھوالا۔ایک ایسے نوجوان  کی کہانی ہےجس کے ماں باپ کو دھوکے سے مار دیا گیا،  اس کے پورے خاندان کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا اور۔۔اور اُس کو مارنے کے لیئے اُسے ڈھونڈھنے لگے ۔۔ دادا جی نے اس کی انگلی پکڑی  اور اُس کو سہارا دیا ۔۔لیکن اُس کے اس کے بچپن میں ہی، اس کے اپنے خاندان کے افراد نے  ہی اس پر ظلم وستم کیا،  اور بہت رلایا۔۔۔اورچھوڑ دیا اسے ماں باپ کے  پیار کو ترسنے کےلئے۔۔

گھر کا رکھوالا  کو  جب اس کے دادا جی نے اپنے درد کو چھپا کر اسے اس لائق بنانے کےلئے کہ وہ اپنا نام واپس لے سکے اُس کو خود سے سالوں دور کر دیا ۔ لیکن وہاں بھی قدم قدم پر اُس کو نفرت اور حقارت کے ساتھ ساتھ موت کے ہرکاروں سے بھی لڑنا پڑا۔۔اور وہاں سے وہ ایک طوفان کی طرح اُبھرا ۔ جہاں اسے اِس کا پیار ملا۔۔لیکن اُس پیار نے بھی اسے اسے ٹکرا  دیا۔ کیوں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

چلو چلتے ہیں کہانی کی طرف   

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کا رکھوالا قسط نمبر - 122

وہ  لوگ۔۔۔ہمیں نہیں پتہ

پھر خانی چاچا سب کو مارنے لگے لیکن  کسی نے منہ  نہیں کھولا۔۔ میں کب سے یہ سب دیکھ رہا تھا

میں۔۔۔ دادا جی ایک کوشش میں کروں

دادا جی نے ہاں  میں گردن ہلائی،  میں ان سب کے پاس گیا سب کو پانی پلایا تاکہ سب کو ہوش آئے،  جب سب کی آنکھیں پوری طرح سے  کھل گئی تو ایک آدمی کو پکڑا اور بولا

میں ۔۔۔اس اپنے بندے کو سب  غور  سے دیکھنا اور اس سے سبق  لے لینا، میں  صرف ایک بار پوچھوں گا۔۔جواب نہیں دیا تو بلکل ایسا ہی  کروں گا۔

پھر میں نے اس آدمی کی آنکھ میں انگھوٹھا ڈال کے اُ س کی آنکھ پھوڑ دی۔ وہ آدمی پورا زور لگا کے درد سے چلا تا رہا تھا ۔پھر سب کو دیکھا  میں  نے اور چاکو ہاتھ میں  لیکر اس کی انگلیاں  کاٹنے لگا۔ وہ  درد سے چلارہا تھا اور تڑپ رہا تھا۔میں  نے اُس کے ایک ہاتھ اور ایک پیر کی انگلیاں کاٹ دی،  پھر دوسرے  ہاتھ اور پیر  کی بھی کاٹ دی۔۔ وہ  چلا رہا تھا،  میں پھر اس کی زبان  بھی کاٹ دی۔۔ اور پلٹ کے کہا۔

میں ۔۔۔ اب دیکھو یہ میرا ٹارچر کا طریقہ ہے ایسے ہی میں تم سب  کے ساتھ کرونگا۔۔ پھر تھوڑا علاج  کر کے کسی بیاں باں   میں چھوڑ دونگا۔۔ جہاں چیل اور گِدھ نوچ کے زندہ  کھائیں گے،  یا ہو سکتا ہو کوئی لکڑ بھگابھی تمہی زندہ کھاجائے۔۔ سرف ایک سوال ہے ۔۔ صرف نام بتاؤ نام۔۔میرے 3 گننے  سے پہلے ۔۔پھر میں نے گنتی شروع کی 1۔۔۔۔۔۔۔۔۔2

تبھی ان میں  سے ایک بولا ۔۔۔ بھائی یہ ہمارا لیڈر ہے یہ اُ س سے بات کرتا ہے۔۔ اِسے  سب پتہ ہے۔۔ آپ اس  سے  پوچھو ہم صرف  اس کے کہنے  پر کام کرتے ہیں۔۔ ہمیں جانے دو بھائی ہمیں  معاف کردو۔

میں۔۔۔زبر دست ۔۔مان گیا میں اس کو ۔۔ اتنا درد اورخوف دیکھنے کے بعد بھی اس نے منہ  نہیں کھولا ۔۔بہت پکا ہے تو۔۔ تم نے جہنم کا  نام سنا ہوگا ، لیکن دیکھا نہیں ہوگا کہ وہاں  کیسے تڑپتے ہیں۔۔ آج تمہیں  دیکھاتا ہوں ۔۔پھرتم زندگی بھر کبھی غلط  کام نہیں کروگے۔۔چاچا اس کو زرا کھڑا  کرے باندھو ، اور کچھ چوہے لاؤ

خانی چاچا ایک پنجرا لے کے آیا جس میں موٹے اور بھوکے  چوہے تھے۔

میں ہنسنے لگا ۔۔پیچھے  دادا جی بھی  مسکرا رہے تھے یہ دیکھ کرکہ  ڈر نام کی چیز تو مجھ میں ہے ہی نہیں۔

دادا جی ۔۔۔تمہارے پاپا تو اتنی دیر میں ان کو کاٹ پیٹ کر رکھ دیتے ۔۔اُس میں  صبر نہیں تھا۔۔لیکن  تم میں صبر بہت ہے ۔

میں نے مسکر ا کر اُن چوہوں  کو بالٹی میں  ڈالا اور اُس  بالٹی کو اس کے پیٹ پر  باندھ  دیا۔

وہ بھوکے  چوہے اس کے پیٹ  پر دھیرے دھیرے کُترنے لگے،  جس سے وہ  درد سے بلبلانے  لگا

میں۔۔۔مزا نہیں آرہا چاچا ۔۔زرا 2 کھیل ٹھوک کر اس کے پیروں کو زمین کے ساتھ فکس کرو اچھے سے۔۔ تاکہ یہ ہل نہ سکے پھر تھوڑا مزہ آئے گا۔

سب چلاتے ہوئے  بولے ۔۔۔یہ  جلاد ہے یہ

حویلی کی حفاظت کے گارڈز بھی خوف اور حیرت  سے مجھے دیکھ رہے تھے  اور میں ہنس رہا تھا

میں۔۔۔ اب مزہ آیا نہ چاچا

میں  پھر بولا۔۔۔ چاچا اس  طرح اس کو  درد تھوڑا کم  ہورہا ہے ۔۔زرا تھوڑی سی آگ جلا کے دینا

پھر خانی چاچا نے چھوٹی مشل جیسی جلا کے مجھے دی،  میں نے وو بالٹی کے پیچھے لگائی اور گرمی سے چوہے بلبلاتے ہوئے اس کے پیٹ  کو کاٹنے لگے اور چِلاتے ہوئے بولا

بتاتا ہوں۔۔ بتاتا ہوں۔۔ انہیں ہٹاؤ۔۔ میں بتاتا ہوں۔۔

لیکن  میں نہیں رکا۔۔ دس منٹ بعد جب بالٹی ہٹائی  تب چوہوں کو بھی تھوڑا سکون ملا، اور اُنہیں واپس پنجرے میں ڈال دیا۔۔اس کے پیٹ   کی آنتڑیاں نظرآنے  لگی تھی۔

لیڈر دھیرے دھیرے بول رہا تھا۔۔۔ شاکر ۔۔شاکر۔۔وڈیرہ شاکر ۔۔

میں ۔۔۔ زور سے بول

لیڈر ۔۔۔شاکر ۔۔وڈیرہ شاکر۔۔

میں ۔۔۔ اب یہ کون آگیا۔۔جو جوبھی ہے ۔۔اب جب آ گیا ہے تو ٹھیک ہے ۔

میں۔۔۔ چاچا ان سب  نے نہ جانے کتنے خون اور لوٹ مار کی ہونگی۔۔ ان کی آنکھیں، ہاتھ پیر کی انگلیاں اور زبان کاٹ کے پھر انکوبعد میں  چھوڑ دو ۔۔بچ گئے تو قسمت ورنہ  لکڑبھگے ، چیل گِدھ ہمیں دُعائیں دیں گے۔

دادا جی۔۔۔۔وڈیرہ شاکر  کا ہم نے کیا بگاڑا ہے۔

میں ۔۔۔ ہم نے اس کا نہ سہی ، لیکن اُس نے تو کوشش کر ہی لی ۔۔چاچا جی اس کے بارے میں معلوم کرو ۔۔ اس کے دن پھر گئے ہے۔۔ضرور کسی غدار  نے ان کو معلومات  دی ہوگی ۔۔گاؤں کے باہرآدمی بھیجو جو بھی جان پہچان کا نہ ہو اُٹھا کر لے آو ۔۔ہم بھی تھوڑی سی خبریں اُسے بھیجیں گے۔۔گھات  لگا کے حملا کرنا اسے تو آیا نہیں۔۔ ہم بتائیں  گے اسےحملا کیا ہوتا ہے ۔۔وڈیرہ شاکر بہت جلد ہماری ملاقات ہوگی۔۔ تمہاراوقت  اب شروع ہوتا ہے۔۔۔ ٹک ٹوک ۔۔ٹک ٹوک

اگلے دن کومل مجھے جگانے آئی تب میری نیند کھلی۔
کومل— بھائی، آپ کی آنکھیں لال کیوں ہیں؟
اور میرے چہرے کو دیکھنے لگی۔
میں— رات کو نیند ٹوٹ گئی تھی اس لیے، اور تم نہیں گئی داد
ا جی کے ساتھ پنچایت میں۔
کومل— اسی لیے تو آئی ہوں، آپ کو بھی آنا ہے۔ پورے علاقے کے لیئے اہم فیصلے ہونگے ، تو پنچائت کی بھی سنی جائے گی۔
میں— یار، تُو ہے نا، بہت بدل گئی ہے، مطلب اب سیاست میں بھی گھسے گی؟ ٹھیک ہے، تُو چل، میں آ جاؤں گا پنچایت میں۔
ان کے جانے کے بعد میں تیار ہوا اور میری بائیک آ گئی تھی، اس پر بیٹھ کے چل دیا۔
میں دھیرے دھیرے گاؤں گھومتا ہوا جا رہا تھا، کیونکہ بڑی پنچایت چالیس کلومیٹر دور تھی، جو میری بائیک کے لیے نارمل تھی۔ میں گاؤں کی حالت دیکھتے ہوئے جا رہا تھا۔
ایک گھر کے باہر ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی اور رو رہی تھی۔
میں نے تھوڑی دور بائیک روک کر دھیان سے دیکھا تو مجھے پتہ چل گیا کہ اس کے ساتھ مار پیٹ بھی ہوئی ہے۔
میں بائیک سے  اُتر گیا اور اُس کےپاس اُس کے گھر کی طرف چل پڑا، باہر درخت کے نیچے کچھ بزرگ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔
میں نے انہیں دیکھا اور انہوں نے مجھے۔
میں ان سب کو اگنور کر کے اُس عورت کے پاس گیا۔
میں—  ماں جی، آپ باہر کیوں بیٹھی ہیں اور رو کیوں رہی ہیں؟
عورت— نے مجھے دیکھا تو کھڑی ہو گئی اور بولی۔۔۔چھوٹے رانا ، آپ۔۔کوئی بات نہیں ویسے ہی بس آنسو نکل رہے ہیں۔

میں— آپ کے بیٹے جیسا ہوں، آپ سچ بتائیں، ورنہ سمجھوں گا کہ میں نے آپ کو ماں سمجھا اور آپ نے مجھے پرایا کر دیا۔
عورت— نہیں چھوٹے رانا، آپ ہمارے مائی باپ  ہو۔ دراصل، میں بیٹی کو آگے پڑھانا چاہتی ہوں، مگر میرے شوہر اور میرے سسر اُس کی شادی کرنا چاہتے ہیں۔ میری بیٹی بہت ہوشیار ہے، اور اُس کے 12ویں میں 80 فیصد نمبر آئے ہیں، اور وہ اپنے زندگی میں آگے کچھ بننا چاہتی ہے۔
میں— ہم تو یہ بات ہیں، اور اس لیے آپ کے ساتھ یہ مار پیٹ کی گئی۔
عورت نیچے گردن کر کے بیٹھ گئی، اور ہاں میں نے سر ہلایا۔
میں— آپ کے شوہر کا کیا نام ہے اور کہاں ہیں وہ؟
عورت— جی، شاہد نام ہے ان کا، وہ اور میرے سسر جی پنچایت میں گئے ہیں۔ گھر پر میں، میری بیٹی اور ساس اندر ہیں۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 گھر کا رکھوالا کی اگلی قسط بہت جلد

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موڈ ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page