Keeper of the house-125-گھر کا رکھوالا

گھر کا رکھوالا

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی نئی سلسلہ وار کہانی ۔۔گھر کا رکھوالا۔ ۔ رومانس ایکشن اور سسپنس سے بھرپور کہانی۔

گھر کا رکھوالا۔ایک ایسے نوجوان  کی کہانی ہےجس کے ماں باپ کو دھوکے سے مار دیا گیا،  اس کے پورے خاندان کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا اور۔۔اور اُس کو مارنے کے لیئے اُسے ڈھونڈھنے لگے ۔۔ دادا جی نے اس کی انگلی پکڑی  اور اُس کو سہارا دیا ۔۔لیکن اُس کے اس کے بچپن میں ہی، اس کے اپنے خاندان کے افراد نے  ہی اس پر ظلم وستم کیا،  اور بہت رلایا۔۔۔اورچھوڑ دیا اسے ماں باپ کے  پیار کو ترسنے کےلئے۔۔

گھر کا رکھوالا  کو  جب اس کے دادا جی نے اپنے درد کو چھپا کر اسے اس لائق بنانے کےلئے کہ وہ اپنا نام واپس لے سکے اُس کو خود سے سالوں دور کر دیا ۔ لیکن وہاں بھی قدم قدم پر اُس کو نفرت اور حقارت کے ساتھ ساتھ موت کے ہرکاروں سے بھی لڑنا پڑا۔۔اور وہاں سے وہ ایک طوفان کی طرح اُبھرا ۔ جہاں اسے اِس کا پیار ملا۔۔لیکن اُس پیار نے بھی اسے اسے ٹکرا  دیا۔ کیوں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

چلو چلتے ہیں کہانی کی طرف   

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کا رکھوالا قسط نمبر - 125

ایسے ہی سب کی باتیں ہوتی رہی ، پھر ایس پی صاحبہ چلی گئیں۔کومل اور دادا جی میلے کی تیاریوں کو دیکھنے چلے گئے، میں حویلی سے بائیک نکال کے باہر گھومنے نکل گیا۔۔ میں گھومتے گھومتے ایک گاؤں میں پہنچا، وہاں کافی بھیڑ لگی تھی اور گاؤں کا لالہ کھڑا تھا۔۔ میں نے ماجرہ سمجھنے کی کوشش کی تو سمجھ میں آیا کہ ایک خاندان نے کھیتی کے لیے لالہ سے پیسے ادھار لیے تھے اور لالہ وقت سے پہلے ہی، سود کے ساتھ جبری وصول کر رہا تھا۔

لالہ— سود تو دینا ہی پڑے گانظیر ۔۔ورنہ۔۔ ہا ہا ہا۔۔تجھے پتہ  ہی ہے

رامو ۔۔۔ لالا جی، ابھی تو بیج بھی نہیں بوئے ہیں۔ آمدنی تو فصل بیچنے کے بعد ہی ہوگی نا۔ تب آپ کو پورا پیسہ لوٹا دیں گے۔ بیٹی کی شادی کی تھی، تو سارا پیسہ وہیں لگا دیا۔

لالا۔۔۔  ارے مجھے کیا کرنا ہے۔۔ (پھر رامو کی چھوٹی بیٹی کی طرف دیکھ کر دھیرے سے) ہاں، اگر اسے ایک رات میرے پاس بھیج دے تو میں تیرا سارا قرض معاف کر دوں گا۔

رامو  نے غصے میں  لالا کی گردن پکڑ لی۔

تب لالا کے لٹھ بردار  جو کھڑے تھے، رامو کو مارنے لگے۔

میں۔۔۔ لالا، میں نے یہ سب صرف فلموں میں دیکھا تھا، آج حقیقت میں بھی دیکھ لیا۔ تم جیسے لوگ واقعی معاشرے کا  کلنک ہو۔

لالا (غصے میں)۔۔۔  چھوکرے۔۔ شہری لگتا ہے۔۔ نکل جا ورنہ ہڈّی پسلی تڑوا کے پھینکوا دوں گا، سمجھا؟

 

میں۔۔۔  شاید تُو نے پہچانا نہیں۔ کوئی بات نہیں۔ جو تُو کرنے کی سوچ رہا ہے، وہی میں کرنے کی سوچ رہا ہوں۔

میں پھر لالا کے پاس جا کر بولا۔۔۔  شروع کریں۔

لالا۔۔۔ مارو  ۔۔رے۔۔ اس ہوشیار چند کو۔

پھر جیسے ہی لٹھ بردار نے مارنے کی کوشش کی، میں نے اس کی لاٹھی پکڑی اور اپنی طرف کھینچ کر اس کے جبڑے پر زور سے مارا۔ اس کا جبڑا پورا کھل گیا اور وہ نیچے لیٹ کر بلبلانے لگا۔ پھر دوسرے نے لاٹھی گھمائی، تو میں جھک گیا۔ دوبارہ میرے سر پر مارنے کی کوشش کی تو میں نے اس کی لاٹھی پکڑ لی اور اس کی ٹانگوں کے بیج انڈو ں  پر ایک لات ماری۔ بیچارے کی دونوں گولیاں پھٹ گئیں۔

میں۔۔۔ لالا، یہ سب بچے ہیں میرے آگے۔

پھر لالا کے گال پر ایک زور دار تھپڑ مارا۔ لالا کو چاند تارے سب نظر آنے لگے۔

پھر لالا کو اپنی بائیک سے باندھا اور گاؤں کے بیچ میں گھسیٹ کر لے گیا، جہاں سارا گاؤں کھڑا تھا۔

میں۔۔۔ میرا نام راحیل رانا  ہے اور میں رانا اشفاق جی کا پوتا ہوں۔

سب لوگ کھسر پھسر کرنے لگے کیونکہ سب نے مجھے سج دھج میں دیکھا تھا۔ آج عام کپڑوں میں دیکھ کر پہچان نہیں پائے۔ پھر سب نے اپنے ہاتھ جوڑ لیے۔

میں۔۔۔ اس لالا کو یہاں لٹکا  کر جا رہا ہوں۔ آج سے اس کا حقہ پانی بند ہے۔ اسے کوئی بھی کھولنے آئے، تو پہلے حویلی آ کر مجھ سے ملنا ہوگا۔ اور آپ سب اگر اس کی زور زبردستی کے شکار ہوئے ہیں، تو اپنا حساب بنا کر حویلی کل صبح لے آئیں۔ اور دھیان رکھنا، میں نے جو کہا وہ پورا ہونا چاہیے، ورنہ آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں، یہ ایسے ہی لٹکا رہنا چاہیے۔

پھر میں چار گھنٹے ہر گاؤں میں جا جا کر گھوم پھر کے واپس حویلی آگیا۔

حویلی میں  دادا جی کے پاس بیٹھ کر۔

 

میں۔۔۔ دادا جی، آپ کے ہوتے ہوئے بھی آپ سے بہت کچھ چھپا ہوا ہے۔ کہیں کوئی لڑکی گھر میں ظلم سہہ رہی ہے، تو کہیں کوئی لالا گاؤں والوں کا خون چوس رہا ہے۔

دادا جی(گمبھیر ہوتے ہوئے)۔۔۔ اگر ایسی بات ہے، تو کوئی حل  بتاؤ۔

میں۔۔۔ ہر گاؤں میں ایک باکس لگوائیں اور اس کی چابی خانی چاچا کے پاس رہے گی۔ سب اس میں اپنا نام لکھ کر پنی شکایت ڈالیں  گے۔ آپ انہیں سلجھا دینا۔ یہاں کے جو ایم ایل اے ہیں، انہیں ساتھ لیجیے یا جس پارٹی کو آپ سپورٹ کرتے ہیں، اسے ساتھ لیجیے۔ اور ایک علاقے کے انسپکٹر کو ساتھ رکھیے۔ فیصلہ ہاتھوں ہاتھ کیجیے۔ آپ کا رتبہ اور بڑھے گا۔ سب کچھ جائز طریقے سے ہوگا، جو آگے ہماری پکڑ اور مضبوط بنائے گا۔ 

دادا جی۔۔۔ واہ بیٹا، ایک مہینہ ہوا نہیں  آئے ہو۔۔اور  اس میں بھی صرف بھلائی ہی بانٹ رہے ہو۔ 

میں۔۔۔ دادا جی، اپنے شہر، اپنے گاؤں ہیں، تو سب کا دکھ اپنا دکھ ہے۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ڈونگرپور گاؤں کے وڈیرہ شاکر  کی حویلی

وڈیرہ شاکر۔۔۔ تو اب کی بار تو نے  اس خانی کو دھول چٹانی ہے ۔۔ میرا نام نیچے نہیں ہونا چاہیے

وڈیرے شاکر کا بیٹا ۔ وڈیرہ ناصر۔۔۔نہ بابا نہ ۔۔ میری باڈی کے آگے خانی  نہ ٹک پاؤے گو۔۔اُسکی  ساری ہڈیاں توڑ دوں گا

وڈیرہ شاکر۔۔۔ شاباش! شاباش! اور ہاں،اپنے 100 آدمیوں کو بھی ساتھ  لے کر چلنا ہے جو ڈھلوانی زمینوں کے قریب چھپ کر رہیں گے۔ وہاں رانا اشفاق کا پوتا آئے گا، اسے اٹھانا ہے۔ اگر وہ عقیل رانا  کی اولاد ہوا، تو ہم کروڑوں میں کھیلیں گے

ناصر۔۔۔اتنا پیسہ کون دے گا؟

وڈیرہ شاکر۔۔۔ پتا نہیں کون ہے، لیکن  بہت سالوں سے اس کے پیچھے پڑا  ہوا ہے۔ کہتا ہے،رانا عقیل  کے وارث تک کو ختم کر دوں گا۔۔صرف اتنا ہی بولتا ہے۔ اور صحیح اطلاع دینے کے50کروڑ کی بات کی ہے۔۔ جب بھی پکّی اطلاع ہو کہ وہ رانا عقیل  کا بیٹا ہے، تو فون کرنے کو بولا ہے۔ خود تو فون کیے ہوئے کئی سال ہو گئے ہیں اسے۔

ناصر۔۔۔ دنگل پرسوں ہی تو ہے۔۔  ٹھیک ہے، میں تیاری کرتا ہوں لیکن 100 آدمیوں کی کیا ضرورت ہے اس اکیلے کو اٹھانے کے لیے؟ ویسے آپ نے دیکھا بھی ہے کیا اسے؟

وڈیرہ شاکر۔۔۔ دیکھا تو نہیں،لیکن ڈھلوانی زمینوں  کے پاس  وہ اکیلا ہی ہوگا۔۔ اور اپنے آدمی وہاں  پر موجود ہونگے،جو بھی  اسے دیکھے گا تو ہمیں فون سے اشارہ دے دے گا، بس۔۔ پھر اٹھا لیں گے۔۔ اور دشمن کو کمزور نہیں سمجھنا چاہیے۔۔آس پاس کے اور اپنے گاؤں کے سب سے شاندار لتھیّوں (پہلوانوں) کو تیار کرو۔۔ جب بھی موقع ملے گا، ہم اسے اٹھا لیں گے۔

اور پھر دونوں زور سے ہنسنے لگے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ادھر حویلی میں

میں: خانی چاچا ایک کام کرنا۔ گاؤں کے اپنے بھروسے والے لوگوں کو بول دو کہ گاؤں ڈھلوان والی زمینوں  کے آس پاس رہیں ، اور میرے اشارے پر گھیرنے کو تیار رہیں۔ بس مجھے وڈیرہ شاکر زندہ چاہیے۔ طاقت کیا ہوتی ہے، وہ دکھاتے ہیں اسے۔ اس بار میں اور وڈیرہ شاکر ہوں گے ، جہاں اس کا حساب کتاب کرو گا، سب کے سامنے۔ 

خانی چاچا۔۔۔  یہ لو، بندوق۔ یہ جرمنی کی بنی ہوئی ہے۔ اگر ان کے پاس بندوق ہوئی تو یہ کام آئے گی۔ 

میں (خوش ہو کر)۔۔۔  شکریہ، لیکن  ابھی۔۔۔۔۔ 

چاچا۔۔۔ او ہیرو، ابھی آپ اتنے بڑے نہیں ہوئے ہو۔ جب آپ اپنے  خاندان کے بچاؤ کے لیئے میدان عمل میں  جائیں گے، وہاں مل جائے گی اگر چاہیے ہو  تو، ورنہ نہیں۔ ابھی آپ کے مستی کے دن ہیں، تھوڑی مستی کریں اور باقی ذمہ داری۔ ابھی ہتھیاروں کے ساتھ نہیں کھیلنا۔ جو سکون تڑپا کر مارنے میں ہے، وہ مزہ جھٹکے میں مارنے میں کہاں؟ اور ویسے بھی یہ بندوق میری ہے۔ 

میں۔۔۔  ٹھیک ۔۔ٹھیک ہے

٭٭٭٭٭٭٭

دارالحکومت  میں  2 دن بعد

کنول اور نسرین باجی دونوں نسرین جلال میم  کے گھر جا رہی تھیں۔ آج سنڈے تھا تو ان کا بھی آف تھا اور نسرین جلال بھی آج فری تھی۔ کچھ دیر میں دونوں نسرین جلال کے گھر پہنچ گئیں۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 گھر کا رکھوالا کی اگلی قسط بہت جلد

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موڈ ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page