گھر کا رکھوالا ۔ رومانس ایکشن اوررومانس سسپنس سے بھرپور کہانی۔
گھر کا رکھوالا۔ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہےجس کے ماں باپ کو دھوکے سے مار دیا گیا، اس کے پورے خاندان کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا اور۔۔۔اس کے بچپن میں ہی، اس کے اپنے خاندان کے افراد نے ہی اس پر ظلم وستم کیا، اور بہت رلایا۔۔۔اورچھوڑ دیا اسے بچپن میں ہی ماں باپ کے پیار کو ترسنے کےلئے۔۔۔
گھر کا رکھوالا ۔ جب اس کے دادا جی نے اس کی انگلی پکڑی اپنے درد کو چھپا کر اسے اس لائق بنانے کےلئے خود سے سالوں دور کر دیا جہاں اسے اِس کا پیار ملتا ہے اور اُس پیار نے بھی اسے اس کی غریبی کی وجہ سے ٹکرا دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
-
Raas Leela–10– راس لیلا
October 11, 2025 -
Raas Leela–09– راس لیلا
October 11, 2025 -
Raas Leela–08– راس لیلا
October 11, 2025 -
Raas Leela–07– راس لیلا
October 11, 2025 -
Raas Leela–06– راس لیلا
October 11, 2025 -
Strenghtman -35- شکتی مان پراسرار قوتوں کا ماہر
October 11, 2025
قسط نمبر 15
حویلی میں اس وقت
چھوٹی چاچی:تیری بہت زبان چلنے لگی ہے۔
سینا: اچھا اگر میں بولو تو زبان چلتی ہے اور جو آپ لوگ کرتے رہے ہیں وہ کیا ہے ؟آپ لوگوں کو شرم نہیں آتی۔
کنول: سینا ایسے نہیں بولتے وہ ہماری ماں ہے۔
سینا:ماں کونسی ماں راحیل ان کو ماں کی طرح ہی مانتا ہے لیکن انہوں نے کیا کیا، پاپا کی موت کا زمہ دار اسے مان بیٹھی ہے جب پاپا فوت ہوئے وہ تو تب چھوٹے سے تھے، لیکن نہیں انہوں نے اسے ہی قصوروار ٹھہرایا اور شروع سے لے کر آج تک ظلم ہی کیا ہے ،کبھی سوچا ہے وہی سب کچھ تیمور کے ساتھ ہوتا تو؟کیا گزرتی ہوگی بھائی کے ماں باپ پر جب وہ اوپر سےدیکھتے ہونگے۔
چھوٹی چاچی اور بڑی چاچی: سینا
اور چھوٹی چاچی نے ۔۔تڑاک تڑاک تڑاک ۔۔کتنے ہی تھپڑ سینا کے گال پر مارے۔
سینا روتے ہوئےبولی: بس یہی آتا ہے آپ لوگوں کو اور آپ کو بھی بڑی چاچی آپ سب نے مل کے میرے بھائی کو مجھ سے دور کیا ہے اوپر والے کے گھر میں دیر ہے اندھیر نہیں جو جیسا کرتا ہے وہ اسی دنیا میں بھرتا بھی ہے دیکھ لینا ایک دن وہی آپ سب کے کام آئے گا۔
اتنا کہہ کر روتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے۔
بڑے چاچا اور چاچی کمرے میں بات کر رہے تھے
چاچا بولا: اب انہیں بھی حویلی سے باہر نکالنا ہے اور پھر دنیا سے پھر ساری جائیداد ہماری ہوگی۔
بڑی چاچی: سمجھ گئی
اور دونوں ہنسنے لگتے ہیں دونوں تھوڑی دیر کے بعد باہر آتے ہیں۔
بڑے چاچا (چھوٹی چاچی سے ): دیکھو اروی یہ دونوں بہنیں ہاتھ سے نکلتی جا رہی ہیں انہیں باہر بھیج دو پڑھنے کے لیے ان کا دل لگا رہے گا ورنہ یہاں راحیل کو یاد کرتی رہیں گی اور ایسے ہی فساد برپا کرتی رہے گی۔
چھوٹی چاچی: آپ ٹھیک بول رہے ہیں، میں بابو جی سے بات کرتی ہوں ۔
تھوڑی دیر بعد چھوٹی چاچی دادا جی کے پاس گئی اور بولی :بابو جی میں چاہتی ہوں کنول اور سینا آگے اپنی پڑھائی بیرون ملک لندن سے کریں وہاں ان کی پڑھائی اچھے سے ہوگی وہاں کے سکول کالج اچھے ہیں ان کے پاپا کی بھی یہی خواہش تھی۔
دادا جی کچھ دیر چھوٹی چاچی کو دیکھتے رہے اور پھرکچھ سوچ کر کہا: سینا کو بھیجو مگر کنول کو نہیں ، کنول لاہور سے پڑھے گی اور وہیں سے اپنی کالج کی پڑھائی بھی مکمل کرے گی۔
چھوٹی چاچی: لیکن بابو جی
دادا جی: بس بہت ہوا ، سینا بھی کالج کی پڑھائی یہاں سے ہی کرے گی ، سکول تک لندن سے، بس یہی فائنل ہے اور یہ ہمارا حکم ہے ، فی الحال دونوں کو باہر بھیج دو۔
پھر دادا جی رحیم دادکو کہتے ہیں: دونوں پوتیوں کا داخلہ لندن کے بہترین سکول میں کرا دو، اور ان کی سکیورٹی کے لیے خانزدہ کو کہہ دو۔
چھوٹی چاچی اور رحیم داد کے جانے کے بعد دادا جی اپنے دل میں بولتے ہیں : مجھے پتہ ہے کون کیا چال چل رہا ہے لیکن ان کا جواب دینے والا بھی جلد ہی آئے گا، مشتاق شک تو مجھے تجھ پر بھی ہے ، میرے دونوں بیٹوں کے قتل کا لیکن میرے پاس ثبوت نہیں ہے ، میں جانتا ہوں کہ تیری نظر یں عقیل کی جائیداد پرلگی ہوئی ہیں ، اور وہ جائیداد جو آج تک میں نے سب سے چھپائی ہے وہ چپھی ہی رہے گی اور تو کبھی نہیں جان پائے گا کہ کتنی ہے۔
دوسری طرف اپنے کمرے میں بڑے چاچا فون پراپنے ساتھی کو بول رہاتھا: دو چلے گئے ہیں اس دنیا سے اب ان کی اولاد باہر جا رہی ہے، جیسے ہی اکیس سال کے ہوں ایکسیڈنٹ میں مار دینا، راحیل کاکوئی پتہ نہیں ہے مجھےکہ کہاں گیا ہے ۔ میں نے دو آدمی بھیجے تھے پچھلے سال اُس کی تلاش میں لیکن دونوں ہی مرے ہوئے ملے مجھے، اور ہاں یہ خبر بڑی سرکار تک بھی پہنچا دینا۔ اوربھائی میرے سو کروڑ مت بھولنا ۔
اتنا کہہ کر اُس نےفون بند کیااور پھر زور زور سے ہنستے ہوئے کہنے لگا: ان کے مرنے کے بعد سو کروڑ اور گاؤں کی جائیداد بھی میری ہوگی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ادھر میں پچھلے تین گھنٹوں سے لیٹا ہوا تھا لیکن نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی، کیونکہ میرے دل کے درد کی وجہ سے میری آنکھوں میں بھی درد اور جلن ہورہی تھی ، ایک آگ تھی جو میرے اندر جلنے لگی تھی ۔اور میرے دماغ میں بدلا لینے کا طوفان برپاتھا۔ تبھی مجھے کسی کے آنے کی آہٹ ہوئی اور میں نے بنا دیکھے ہی پہچان لیا کہ خالد آگیا ہے ۔
میں نے کہا: تو آگیا
خالد : مجھے تو آنا ہی ہے اور کہاں جاؤں گا تو نے ہی بولا تھا کہ مجھ سے دور مت ہونا کبھی اور سالا خودمجھے اکیلے چھوڑ کے یہاں آگیا۔
راحیل: بس یار دل گھبرا رہاتھااس لیئے کچھ دیر اکیلے رہنا چاہتا تھا تو آگیا یہاں پر۔ آجا بیٹھ جا ۔
خالد: کیا سوچ رہا ہے راحیل؟
میں : کچھ نہیں بس یہی کہ زندگی میں کب کیا ہوجائے اور کب زندگی کا دھارا بدل جائے پتہ ہی نہیں لگتا ہے۔ پہلے معلوم ہوا تھا کہ ماں بابا کی حادثاتی موت ہوئی تھی۔ آج پتہ لگا انہیں مارا گیا تھا جس میں میری ماں کا تو پتہ بھی نہیں ہے کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں۔
خالد: بولتا رہ دل میں مت رکھ دل ہلکا ہو جائے گا۔
میں: پتہ ہے خالد مجھے چھوڑ کے سب جانتے ہیں میرے ماں باپ کو کہ وہ کیسے تھے گاؤں میں سب مجھےدیکھ کر کہتے تھے کہ چھوٹے مالک اپنے باپ پہ گیا ہے بالکل ان کے جیسا ہے ۔ لیکن ایک میں ہوں جسے کچھ پتہ ہی نہیں ہے آج پہلی بار اُستاد جی نے مجھے بتایا ہے۔ باقی سب نے تومجھ سے چھپایا ہے۔ کیا بیٹے کا حق نہیں ہے اپنے ماں باپ کے بارے میں جاننے کا؟
خالد اتنا پتہ ہے بھائی ہر کسی کے پاس اپنی کسی بات کو مخفی رکھنے کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے ۔ تیرے دادا جی کو ہی لے لو انہوں نے تجھے بہت پیار سے پالا ہے پھر بھی تجھے یہاں بھیجا تاکہ تو کچھ بن سکے اس قابل بن سکے کہ خود کی حفاظت کر سکے انہوں نے بھی تو اپنا بیٹا کھویا ہے تو ان کے لیے کیایہ دُکھ کم ہوگا،کہ نہ وہ تجھے جتا سکتے ہیں نہ لفظوں میں بتا سکتے ہیں، تو ان کا دکھ تیرے دکھ سے بڑا ہے بھائی تو بس ہمت کر ٹریننگ کر طاقتور بن اور پھر سچائی کا پتہ لگا وہ سچائی جو سب سے چھپی ہوئی ہے ایسے دکھ منانے سے کیا ہوگا۔
میں کچھ نہیں بولا اور خالد بھی سمجھ گیا وہ بھی کچھ نہیں بولا تھوڑی دیر بعد میں نے کہا۔
میں : خالد میرا یقین نہیں توڑے گا نا کبھی۔
خالد: جس دن ایسی نوبت آئی کہ تجھے دھوکہ دینا پڑا وہ دن میری زندگی کا آخری دن ہوگا، میں ہمیشہ تیرے ساتھ تیرے ہر دُکھ سُکھ میں ساتھ رہوں گا۔
میں: خالد تو میری پرچھائی بن کے رہنا ،میرا تو دوست ہی نہیں بھائی بھی ہے۔ اب تو جا میں کچھ دیر اور رکوں گا پھر آ جاؤں گا۔
خالد:- جلدی آ جانا بھائی ورنہ مجھے تیری فکر ہوتی رہے گی ۔
اتنا کہہ کر وہ چلا گیا اور میں رات نو بجے واپس ہوسٹل آ گیا اورکھانا کھاکر سو گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
گھر کا رکھوالا کی اگلی قسط بہت جلد
پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں
-
Keeper of the house-130-گھر کا رکھوالا
August 15, 2025 -
Keeper of the house-129-گھر کا رکھوالا
August 15, 2025 -
Keeper of the house-128-گھر کا رکھوالا
August 15, 2025 -
Keeper of the house-127-گھر کا رکھوالا
August 15, 2025 -
Keeper of the house-126-گھر کا رکھوالا
August 15, 2025 -
Keeper of the house-125-گھر کا رکھوالا
August 7, 2025

Raas Leela–10– راس لیلا

Raas Leela–09– راس لیلا

Raas Leela–08– راس لیلا

Raas Leela–07– راس لیلا

Raas Leela–06– راس لیلا
