Keeper of the house-22-گھر کا رکھوالا

گھر کا رکھوالا

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی نئی سلسلہ وار کہانی ۔۔گھر کا رکھوالا۔ ۔ رومانس ایکشن اور سسپنس سے بھرپور کہانی۔

گھر کا رکھوالا۔ایک ایسے نوجوان  کی کہانی ہےجس کے ماں باپ کو دھوکے سے مار دیا گیا،  اس کے پورے خاندان کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا اور۔۔اور اُس کو مارنے کے لیئے اُسے ڈھونڈھنے لگے ۔۔ دادا جی نے اس کی انگلی پکڑی  اور اُس کو سہارا دیا ۔۔لیکن اُس کے اس کے بچپن میں ہی، اس کے اپنے خاندان کے افراد نے  ہی اس پر ظلم وستم کیا،  اور بہت رلایا۔۔۔اورچھوڑ دیا اسے ماں باپ کے  پیار کو ترسنے کےلئے۔۔

گھر کا رکھوالا  کو  جب اس کے دادا جی نے اپنے درد کو چھپا کر اسے اس لائق بنانے کےلئے کہ وہ اپنا نام واپس لے سکے اُس کو خود سے سالوں دور کر دیا ۔ لیکن وہاں بھی قدم قدم پر اُس کو نفرت اور حقارت کے ساتھ ساتھ موت کے ہرکاروں سے بھی لڑنا پڑا۔۔اور وہاں سے وہ ایک طوفان کی طرح اُبھرا ۔ جہاں اسے اِس کا پیار ملا۔۔لیکن اُس پیار نے بھی اسے اسے ٹکرا  دیا۔ کیوں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

چلو چلتے ہیں کہانی کی طرف   

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

قسط نمبر 22

بریک کے وقت

کنول:- دیکھو یار کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا ہے اگر راحیل کو پتہ لگ گیا ، اور  اس نے پرنسپل   سے کہہ دیا تو؟

روشنی: کچھ نہیں ہوگا یار دیکھ تجھے پیسے اسی کام کے لیے ملے ہیں ناں ، تو ایک لاکھ میری طرف سے  اور ملیں  گے تجھے،کیونکہ  مجھے راحیل کے ساتھ  سیکس کرنا ہے۔بس  ایک بار یہ شازیہ سے الگ ہو جائے تو میرا کام آسان  ہو جائے گا۔

لیلی: اور دیکھو ہم کامیاب بھی ہورہے ہیں وہ تیرے مموں کو کیسے گھور رہا تھا۔  بس تھوڑا وقت اور پھر تیرے پاس پیسہ ہی پیسہ ہوگا اور راحیل اور شازیہ کی جوڑی ختم پھر راحیل بھی زمین پر آ جائے گا۔

کنول: ٹھیک، ٹھیک ہے ۔

 جاویدکی سوچ  ان سب سے الگ ہی تھی۔

ادھر راحیل اور شازیہ

راحیل: شازیہ ہمارے پاس دو سال ہے. پھر تم نے کیا سوچا ہے تم کالج کی پڑھائی کے لیئے  کہاں جاؤگی۔

شازیہ: مجھے تو اپنے پاپا کے کاروبار میں مدد کرنی ہے۔ تو میں ایم بی اے کراچی سے ہی کروں گی تم کیا کرو گے؟

راحیل: ابھی پتہ نہیں ہے یار اگر ہوسکا تو کراچی ہی آجاؤ گا ایم بی اے بھی ساتھ کرلیں  گے۔

شازیہ: جیسے تمہیں ٹھیک لگے

راحیل: تم نہیں چاہتی کہ میں ایم بی اے تمہارے ساتھ کروں

شازیہ: نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے چلو اب اسکول بند ہونے والا ہے۔

راحیل: دنیا میں سب کو ایک دفعہ ہی موقع ملتا ہے اور ٪90 لوگ اُس موقع کو گنوا دیتے ہیں تم مت گنوا دینا ۔ اب چلو۔

میں شازیہ کو چھوڑ کر پی ٹی   ٹیچر کے پاس آگیا اور پی ٹی ٹیچر    نے مجھے کھیل کے سارے اصول سمجھائے کچھ ویڈیوز بھی دکھائی اور میں واپس انسٹیٹیوٹ کی طرف چل دیا۔

شام 4 بجے

ماسٹر عمر خان  : میں دوبارہ حملہ کرو گا تم نے مجھے روکنا ہے

 راحیل: ٹھیک ہے ماسٹر  

اور پھر میری پٹائی شروع ہوئی چہرہ چھوڑ کر ہر جگہ بندر کے پچھواڑے کی طرح لال کردی۔ پہلے دن تو آدھا گھنٹہ دو قسطوں میں مار پڑی تھی لیکن  آج ایک قسط میں ہی بڑی  جم کر میری پٹائی کی ،ماسٹر کے د س میں سے مشکل سے ایک وار روک پا رہا تھا۔

ماسٹر عمر خان  : پانچ منٹ آرام کرلو پھر ہم لاٹھی چلانا سیکھے گے۔

راحیل میں خاموش رہا بس گردن اٹھائی اور نیچے جھکا دی.

ماسٹر عمر خان  : لاٹھی اگر صحیح سے استعمال کرنا سیکھ لی تو اچھے اچھوں کو دھول چٹا سکتے ہو،  میں جیسے جیسے حرکت کروں ویسے ویسے تم کرو گے

ماسٹر جیسے جیسے لاٹھی کو گمارہے  تھے میں بھی ویسے ہی کررہا تھا،ماسٹر  کے ایک ایک وار سے  ہوا میں کسی چیز کو کاٹنے جیسی  آواز آرہی تھی اور وہ بہت تیزی  سے لاٹھی کو گھما رہے تھے،  کچھ حد تک میں بھی اُسی کی طرح  کرنے میں کامیاب ہو گیا۔

ماسٹر عمر خان  : روزانہ میرے سکھانے کے بعد اسکی پریکٹس کرو۔

 راحیل: ٹھیک ہے ماسٹر

اتناکہہ کر میں ماسٹر کے سے انداز میں لاٹھی کو ہوا میں گھمانے اور وار کرنے کے سے انداز می چلانے لگا،میری سیکھنے کی صلاحیت بہت اچھی تھی اسی لیے میں جلدی سیکھ رہا تھا اگلے ایک گھنٹے میں مجھے جو سکھایا گیا تھا وہ مجھے یاد ہوگیا اور  میں تقریباً دس فیصد تک صحیح لاٹھی چلانے لگ گیا۔

ماسٹر عمر خان  : شاباش ایسے ہی کوشش کرتے رہو گے ، تو ایک ہفتے میں زبردست لاٹھی باز بن  جاؤ گے ۔

اور میری آج کی ٹریننگ ختم ہوگئی۔یہاں پر اس انسٹیٹوٹ میں مجھے جو کچھ بھی سیکھایا گیا وہ ہر اعتبار سے بہت اعلیٰ پیمانے پر سیکھایا گیا اور سیکھایا جارہاتھا۔اور ہر ہنر مجھے الگ الگ کر کے سیکھایا جارہا تھام۔

اب ماسٹر عمر خان کو ہی لے لو جو کچھ وہ مجھے سیکھا رہے تھے ۔ وہ میری طربیت ایک نوسیکھے جیسی کر رہے تھی ،اصل میں یہ بات بھی نہیں تھی کہ مجھے لڑنا نہیں آتاتھا۔لیکن ماسٹر عمر خان  مجھ پر جو بھی وار کرتے  وہ  بہت تیزی سے کرتے تھے ، دراصل  وہ مجھے خود سے بھی اوپر لے کر جانا چاہتے تھے  اس لیے میری اتنی سخت تربیت کر رہے تھے۔

٭٭٭٭٭٭٭

ایک طرف راحیل کی ٹریننگ چل رہی تھی اور دوسری طرف

 جاوید(فون پر):  بھائی میں جاوید بول رہا ہوں

دوسری طرف سے : ہاں جاوید

 جاوید: بھائی یہاں ایک کشتی کا  مقابلہ ہونے والا ہے،اُ ایسا کریں کہ  اس میں ایک طاقتور پہلوان کو بھیج دیں  جو اسکول کا سٹوڈنٹ لگے۔

دوسری طرف سے : کسی سے لڑائی ہوئی ہے کیا؟

جاوید: اس نے میری سکول میں بے عزتی کردی سب کے سامنے بھائی ۔

 دوسری طرف سے : اُس کی ایسی کی تیسی چھوٹے، بے فکر رہے میں بھیجتا ہوں۔

 جاوید: شکریہ بھائی نام وغیرہ بتا دینا

کال بند ہو جاتی ہے

 جاوید: اب دیکھوں گا بچو تجھے

٭٭٭٭٭٭٭

صبح 9 بجےسکول میں

کومل: ہائے بھائی مُجھے آپ سے بات کرنی ہے

 راحیل: بول

کومل: وہ بھائی پاپا آرہے ہیں میں چاہتی ہوں آپ ان سے ملو

راحیل: کیا ہوا؟۔ اچانک سے آرہے ہیں

کومل: نہیں بھائی وہ یہاں پولیس  کی میٹنگ ہے تو اُس میں شرکت کے لیئے  آئے ہوئے تھے اسی لئے سکول بھی ملنے آئیں گے۔

راحیل: ارے واہ یہ تو بہت اچھی بات  ہے (میں نے اسے ایک طرف سے گلے لگاتے ہوئے کہا)  ہم ضرور ملیں گے ہماری بہن کے پاپا سے

خالد: ارے تو میں بھی مل لوں کوئی مسئلہ تو نہیں

کومل اور راحیل: کیوں

کچھ دیر رک کر:  ہاہاہاہا مل لینا

یہ اسی طرح کی باتوں میں مصروف تھے کہ  پی ٹی ٹیچر کی آواز آئی : راحیل

 راحیل: جی سر  

پی ٹی ٹیچر  : آؤ ہمیں دوسر ے اسکول نام رجسٹر کروا کر آنا ہے، باقی سب کا ہوگیا ہے صرف تمہارا باقی ہے۔ تم انسٹیٹیوٹ سے نہیں آسکتے اس لیے ابھی وہاں جاکر رجسٹرڈ کر کے آنا ہے

 راحیل: ٹھیک ہے سر    چلیں

 

اورہم    اُس اسکول کی طرف چل دیئے جہاں مقابلہ ہونے والا تھا وہ شہر میں تھا جو انسٹیٹیوٹ سےتقریباً  20 کلومیٹر دور ہے ۔3 سال بعد   بائیک پر جاتے ہوئے باہر کی دنیا دیکھ کر دل خوش ہو گیا ،بڑا مزہ آ رہا تھا۔

پی ٹی ٹیچر  : راحیل کیا دیکھ رہے ہو؟

راحیل:   اپنا بچپن ڈھونڈ رہا ہوں

 پی ٹی ٹیچر  : کیا مطلب؟

راحیل: بچپن سے گھر کے اندر رہا ہوں کبھی باہر گھوم ہی نہیں پایا پھر یہاں تین سال سے ٹریننگ اور سکول بس یہی زندگی فی الحال رہ گئی ہے۔

 پی ٹی ٹیچر  : راحیل آج ہم جو کر رہے ہوتے ہیں، اس کا پھل ہمیں آگے جا کر ملتا ہے۔ کیا پتہ تمہاری زندگی میں اس سے زیادہ خوشیاں لکھی ہوں ،ابھی تمہارے ہاتھ میں صرف کام ہے وہ کرتے جاؤ اور پھل دینا اوپر والے کے ہاتھ میں ، تو تم تمہارا کام کرو باقی اوپر والا اپنا کام کرے گا۔

راحیل: جی بلکل سر  آپ نے بہت کم لفظوں میں بہت  گہری بات کہہ دی ۔ ویسےسر    مقابلے میں کتنے اور کہاں کہاں سے کھلاڑی آئیں گے؟

پی ٹی ٹیچر  : یہاں پورے پاکستان سے کل ملا کر 32 کھلاڑی آئیں گے۔ اور انعام کی رقم 25 لاکھ ہے ۔لو  ہم پہنچ گئے ہیں آجاؤ۔

ہمیں سکول میں قریباً ایک گھنٹہ لگا سکول بس ٹھیک ٹھاک ہی تھا اس سے اچھا ہوتا اگر ہمارے سکول میں ہوتا تو۔ لیکن گورنمنٹ کے اپنے اصول  ہوتے ہیں اور اُس کی خلاف ورزی اچھی  بات نہیں ہے ۔خیر  ہم باہر آئے تو پی ٹی ٹیچر   نے کہا

پی ٹی ٹیچر:  کچھ کھاؤ گے؟۔

میں نے کہا :   میرا گھر شہر سے دور تھا مگر دادا جی بچپن میں کبھی شہر جاتے تو پیزا لے کے آتے تھے میں نے سنا ہے کہ ڈومینو کا پیزا اچھا ہوتا ہے وہی کھلا دیجیے۔

پی ٹی ٹیچر  :  بیٹا راحیل تم مجھے اپنا ٹیچر مانو یا جو بھی ، لیکن ایک بات میری اپنے  دل میں رکھ لو کہ جب کسی چیز کا دل کرے کھانے کو تو مجھے کہہ دیا کرو میں منگوا دیا کروں گا۔ تم ایک نیک دل بچے ہو ،چلو وہی کھاتے ہیں جو تمہیں پسند ہے ۔

 ہم وہاں سے ڈومینو کے ریسٹورنٹ گئے اور ویٹر کے آنے پر پیزا آرڈر کر دیا ۔ جب گرم گرم پیزا آیا تو مزہ آگیا کھانے کا بہت عرصے بعد کھا رہاتھا ۔

راحیل: بہت زبردست   یہ تو بہت مزیدار ہے اس کے آگے میرے شہر کا پیزا تو زیرو ہے

پی ٹی ٹیچر  :  ہاہاہاہاہاہاہا  ۔

راحیل نے ایک خالد کے لیے پیک کروایا اور ایک کومل کے لیے بھی اور واپس انسٹیٹیوٹ کی طرف چل پڑے۔

 میں مزے سے ارد گرد کی لوکیشن دیکھ رہا تھا آخر تین سال بعد باہر جو نکلا تھا تب ہی راستے میں ایک سفید کار کو کچھ بدمعاش ٹائپ  لڑکے شراب پی کے راستہ روک کر کھڑے ہوئے تھے ہم پہنچے اور تھوڑی دوری پر رکے ان کی بات سنی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 گھر کا رکھوالا کی اگلی قسط بہت جلد

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
سمگلر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more
سمگلر

Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page