Keeper of the house-34-گھر کا رکھوالا

گھر کا رکھوالا

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی نئی سلسلہ وار کہانی ۔۔گھر کا رکھوالا۔ ۔ رومانس ایکشن اور سسپنس سے بھرپور کہانی۔

گھر کا رکھوالا۔ایک ایسے نوجوان  کی کہانی ہےجس کے ماں باپ کو دھوکے سے مار دیا گیا،  اس کے پورے خاندان کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا اور۔۔اور اُس کو مارنے کے لیئے اُسے ڈھونڈھنے لگے ۔۔ دادا جی نے اس کی انگلی پکڑی  اور اُس کو سہارا دیا ۔۔لیکن اُس کے اس کے بچپن میں ہی، اس کے اپنے خاندان کے افراد نے  ہی اس پر ظلم وستم کیا،  اور بہت رلایا۔۔۔اورچھوڑ دیا اسے ماں باپ کے  پیار کو ترسنے کےلئے۔۔

گھر کا رکھوالا  کو  جب اس کے دادا جی نے اپنے درد کو چھپا کر اسے اس لائق بنانے کےلئے کہ وہ اپنا نام واپس لے سکے اُس کو خود سے سالوں دور کر دیا ۔ لیکن وہاں بھی قدم قدم پر اُس کو نفرت اور حقارت کے ساتھ ساتھ موت کے ہرکاروں سے بھی لڑنا پڑا۔۔اور وہاں سے وہ ایک طوفان کی طرح اُبھرا ۔ جہاں اسے اِس کا پیار ملا۔۔لیکن اُس پیار نے بھی اسے اسے ٹکرا  دیا۔ کیوں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

چلو چلتے ہیں کہانی کی طرف   

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کا رکھوالا قسط نمبر - 34

راحیل ، خالد اور کومل کار میں جا رہے تھے،  اُستاد جی الگ کار میں تھے۔

کومل(روتے ہوئے): آپ ٹھیک تو ہو ناں ہمیں پہلے ڈاکٹر کے پاس ہسپتال جانا چاہیے

  میں نے اُسے سائیڈ سے گلے سے لگایا اور کہا: دیکھ میں بالکل ٹھیک ہوں اور تیرے سامنے ہوں اتنی چوٹ میرے لیے کچھ نہیں ہے روتے نہیں ہے۔

خالد پہلے تو خاموش تھالیکن اب  غصے سے بولا: وہ پچھلے ایک گھنٹے سے  رو رہی ہے جب سے تیرے پکڑے جانے کی بات پتہ لگی ہے ،اور اس نے انکل کو بھی کال کیا تھا۔

راحیل: کومل چپ ہو جاؤ، دیکھو میں ٹھیک ہوں اور انکل سے بھی میری بات ہوگئی ہے ان کی کال آتے ہی مجھے چھوڑ دیا تھا منسٹر، ایس پی سب آ گئے تھے۔

کومل: ہاں میں نے دیکھا تھا آپ آگے سے ایسا کچھ نہیں کریں گے اور آج کے بعد ان کلاس کی چڑیلوں سے دور رہے گے ،ان کنجریوں  کو بولنے کی بھی تمیز نہیں ہے، گھمنڈی امیر گھر کی کتیاں کہیں کی ،غلیظ سالی۔

خالد اور میں دونوں ہی حیرت سے کومل کو دیکھنے لگے،کیونکہ  آج کومل نے گالی دی،  ہمیں اتنے سال ساتھ ہوگئے تھے پہلی بار اس نے ایسا کیا۔

خیر اُس کو کسی نہ کسی طرح مطمین کرکے پہلے ہوسٹل چھوڑ کر آئے اور اسے کہہ دیا تھا کہ تھانے والی بات کسی کو نہیں بتائے گی کوئی کچھ پوچھے تو کوئی کہانی سنا دینا۔

٭٭٭٭٭٭

“ٹریننگ سینٹر میں”

اُستاد جی: خالد یہ دوائی اسے لگا دینا اور یہ گولیاں بھی اسے دے دینا اور کہہ دینا روز رات کو ایک گولی  لازمی کھائے

 خالد: ٹھیک ہے اُستاد جی

 اُستاد جی: بیٹا ایسے ہی اس کے ساتھ رہنا، تمہیں چھپ کر اس کا ساتھ دینا ہے، تمہارے بارے میں کسی کو  پتہ نہیں لگنا چاہئے ۔ سب کو یہی لگے کہ راحیل اکیلا ہے اور تم صرف اس کے ساتھ پڑھتے ہو، اب جاؤ آرام کرو۔

 میں آرام سے لیٹا ہوا تھا کہ خالد آیا اور دوائی مجھے دے کر اُس نے جو مرہم تھا اُستاد جی کا دیا ہواوہ میری پیٹھ پر لگانے لگا۔

راحیل: سالے ہر وقت بیوی مت بنا کر،  وہ بھی ایسے  نہیں کرتی ،  جیسے تو کرتا ہے اتنی بھونڈی شکل بنا کر۔

خالدنے اتنا سنا اور زور زور سے رگڑ کر مرہم سے مالش کرنے لگا، مجھے درد اور زبردست جلن ہونے لگی۔

 راحیل: غلطی ہوگئی معاف کردے دوبارہ نہیں بولوں گا نہ ٹوکوں گا۔

خالد: ان سب کو آج مار دینا چاہیے تھا سمجھا۔ تو نہیں روکتا تو سب مارے جا چکے ہوتے، دوبارہ کسی ایسے معاملے میں مجھے روکا نا تو تیرے ہی پچھواڑے میں چاقو ڈال دوں گا۔

راحیل: ٹھیک ہے بھائی، کہا نا دوبارہ نہیں روکوں گا ،ویسے اس انسپکٹر کو اس کی اوقات میں نے دکھا دی ،لیکن یار اس کے بارے میں جان کر اس سے ہمدردی ہوگئی، اور دوسری بات یہ کہ سب ہی اس کی تعریف کر رہے تھے کہ ایماندار ہے ہمت والی ہے ، اچھا لگا کہ کوئی تو ایماندار ہے ۔اور سب سے بڑی بات کاشف انکل نے اسے مارنے سے منع کیا ۔ اسی لئے چھوڑ دیا۔ ویسے یار  خالدکچھ بھی ہو انسپکٹر بہت ہاٹ تھی۔

خالد: تو نے اتنی مار کھا لی ابھی بھی تجھے ہاٹ نظر آرہی ہے ٹھرکی سالے۔ ٹھیک ہے اب یہ گولی کھا لے اور آرام کر ،تھوڑی دیر تک کھانا کھائیں گے میں آتا ہوں۔

خالد اُسے آرام کرنے چھوڑ دیتا ہے اور باہر نکل آتا ہے ۔

٭٭٭٭٭٭

وہیں دوسر ی طرف

بشیر: ہاں بول کیا خبر ہے

غنڈا: بھائی وہ نسرین جلال نے اس لڑکے کو اٹھا لیا تھا

بشیر: کیوں اس نے کیوں اٹھایا ،پوری بات ایک بار میں بتا سمجھا

غنڈا: جی بھائی اس کی شاپنگ سینٹر کے باہر لڑائی ہوئی تھی(وہ پوری بات بتاتا گیا آخر میں)  بھائی جب میں تھانے کے پاس پہنچا ایس پی خود اسے چھڑوانے آیا تھا۔ کافی بڑا پنگا ہوا تھا مجھے لگتا ہے امیر گھر کا لڑکا ہے اسی لئے سب آئے تھے۔ ہمیں اور ہوشیار رہنا پڑے گا

بشیر: امیر گھر کا ہے تو کیا؟ اسے مرنا ہی پڑے گا ۔اور کل جب وہ اپنے سکول کی طرف واپس جائے گا تو وہ مرے گا،  ہم اس پر سنسان علاقے میں حملہ کریں گے اور اسے اٹھا کر یہاں لائیں گے اور پھر اُسے ان بھوکے کتوں کے درمیان ڈال دوں گا سالے کو تڑپتا ہوا دیکھیں گے ۔تو بس یہ پتہ رکھنا اس کے ساتھ کوئی سیکیورٹی تو نہیں ہے ناں۔

غنڈا: جی بھائی جی آج بھی ویسے سیکیورٹی نہیں تھی اور کل کا بھی میں دھیان رکھو گا آپ کو خبر کر دوں گا۔

بشیر: ہاں ٹھیک ہے اور شہر کے غنڈوں کو اکھٹا کرلے منشیات اڈے پر لانی ہے کچھ گڑبڑ ہوئی تو وہ پولیس سے مقابلہ کرنے  کو تیار رہیں۔ اور ہمارا مال حفاظت سے یہاں پہنچنا چاہئے۔

نسرین جلال ہاسپٹل میں راحیل کے ہوتھوں  زخمی پولیس والے ساتھیوں کے ساتھ

نسرین جلال: آج کے لیے جو ہوا اس کے لیے معافی مانگتی ہوں

حوالدار: میڈم ہم جانتے ہیں کہ آپ کیا ہو اور کیسی ہو۔ اس لئے آپ اتنا نہیں سوچیں آپ کی تو خود جان بہت مشکل سے بچی ہے. چلو اس بہانے ہمیں آرام مل جائے گا جو ہڈیاں ٹوٹی ہیں وہ واپس پوری طرح جڑ جائیں گی آپ آرام کریں ابھی بشیر کو پکڑنا ہے۔

نسرین جلال: ٹھیک ہے

اور وہ پولیس جیپ میں گھر نکل گئی راستے میں سوچتی جارہی تھی کہ راحیل اب تم سے دوبارہ ملنا ہی پڑے گا آخر تم چیز کیا ہو؟  جو اس کم عمر ی میں بھی پولیس والوں سے لڑ گیا ۔اور آدھے گھنٹے میں ہی اتنا طوفان مچا دیا۔ راحیل تم کون ہو؟

اور نسرین جلال کے چہرے پر ایک مسکراہٹ دوڑگئی ، جو کسی کو بھی گھائل  کرنے کے لیے کافی تھی کیونکہ نسرین جلال خود بلا کی خوبصورتی کی مالک  تھی اور اُس کو اپنی ورت بھی پتہ تھی ۔ 34 کے ممے 28 کی کمر گورا رنگ اور پولیس کی وردی میں قیامت ہی لگتی تھی۔

 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اسکول ہاسٹل میں کومل کے کمرے میں سب لڑکیاں جمع ہوچکی تھی۔ اور کومل سے راحیل کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔ راحیل شاپنگ سینٹر کے بعد کہاں غائب ہوگیا تھا ۔ کیونکہ کومل بھی اُسی وقت سے وہاں سے غائب ہوگئی تھی۔اور پھر ، راحیل ، خالد اور کومل کو اُنہوں نے ایک ساتھ گاڑی سے اُترتے دیکھ لیا تھا۔

دیکھ کومل تو بتا رہی ہے یا نہیں؟

یہ کنول تھی جو لگاتار کومل سے راحیل کے بارے میں پوچھ رہی تھی

 شازیہ، روشنی، لیلی، کنول اور کچھ سینیر لڑکیاں سب اس کے کمرے میں کومل کو گھیرا ڈال کربیٹھی اور کھڑی تھی۔

نسرین: کومل مہربانی کرکے بتا دے

کومل: ٹھیک ہے پہلے تو کنول تم بیٹھ جاؤ اور سنو بھائی تھوڑے پریشان تھے،  اس لئے ہم اُس کو ساتھ لے کرے وہاں سے گھومنے دوسری طرف چلے گئے۔

نسرین اور سب: بس اتنی سی بات

کومل: ارے یار ہم نے خوب مزہ کیا اور ٹیکسی سے ہم سورج غروب آفتاب  کا منظر دیکھنے گئے وہاں کیا نظارہ تھا۔ پھر ہم گھومے پھرے کچھ ہلکا پھلکا کھایا اور واپس ہاسٹل آگئے۔ کار تو تم لوگوں نے دیکھی ہی تھی تم لوگوں کے سامنے خالد خود نیچے اترا تھا۔سب اس کی بات سن کر پرسکون ہوگئی ۔

٭٭٭٭٭٭٭

“دو سری طرف لڑکوں کے ہاسٹل میں”

آفتاب : تیری آج کی منصوبہ بندی تو فیل ہوگئی۔ نصیر کچھ کرسکےگا یا نہیں یا وہ بھی راحیل کے ہاتھوں مار کھا کر پڑا رہے گا گُجر کو مفت میں اور پیسے دینے پڑے۔

جاوید: اب مجھے تھوڑی نہ پتہ تھا کہ وہ چوتیا گُجر گانڈو نکلے گا ۔ویسےنصیر ہے تگڑا اور کافی نامی گرامی پہلوان بھی ہے۔ کل نصیر ہی اس کا علاج کرے گا۔

آفتاب:اگر وہ نہ بھی کر پایا تو بشیر تو ہے ہی۔  ہمارا کام ہر حال میں ہوجائے گا ۔ہمیں تو بس انتظار کرنا ہے ۔

وہ  دونوں ایسے ہی باتیں کرتے رہے ۔

٭٭٭٭٭٭٭

پر ان دونوں سے دور ایک شخص اور تھا جو گہری سوچ میں ڈوبا کمرے میں گھوم رہا تھا۔تھوڑی دیر یونہی گھومتے ہوئے اس نے کچھ سوچا اور کمرےسےباہرنکل کر ایک طرف  چل دیا۔ وہ ایک کمرے کے سامنے آیا دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک شخص باہر آیا۔

وہ شخص کمرے سےنکلےشخص سے  بولا: ایک کام کرنا ہے، کل جب تک راحیل واپس انسٹیٹیوٹ تک نہیں پہنچ جاتا ہے تب تک بنا کسی کی نظروں میں آئے اس کی حفاظت کرنی ہے ،کوئی بھی چاہے کوئی بھی اُسے کسی قسم کا نقصان پہنچانے آئے اسے ختم کر دینا ، اور وہاں  ثبوت بھی نہ چھوڑنا، صفائی سے کام کرنا ہے ۔جب راحیل  اسکول یا انسٹیٹیوٹ میں ہو تب کوئی فکر نہیں ہے۔ باہر آج بھی لوگ اس کے بارے میں معلومات کرتے پھر رہے ہیں۔

 دوسرا شخص: ہو جائے گا میں کسی کی بھی نظروں میں آئے بغیر اس کا خیال  رکھو گا۔

کل کا دن بہت کچھ لانے والا ہے شطرنج کی بساط میں پیادے لڑنے والے ہیں سب کی دوسر ے دن کی منصوبہ بندی ہوچکی ہے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 گھر کا رکھوالا کی اگلی قسط بہت جلد

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
سمگلر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more
سمگلر

Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page