Keeper of the house-55-گھر کا رکھوالا

گھر کا رکھوالا

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی نئی سلسلہ وار کہانی ۔۔گھر کا رکھوالا۔ ۔ رومانس ایکشن اور سسپنس سے بھرپور کہانی۔

گھر کا رکھوالا۔ایک ایسے نوجوان  کی کہانی ہےجس کے ماں باپ کو دھوکے سے مار دیا گیا،  اس کے پورے خاندان کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا اور۔۔اور اُس کو مارنے کے لیئے اُسے ڈھونڈھنے لگے ۔۔ دادا جی نے اس کی انگلی پکڑی  اور اُس کو سہارا دیا ۔۔لیکن اُس کے اس کے بچپن میں ہی، اس کے اپنے خاندان کے افراد نے  ہی اس پر ظلم وستم کیا،  اور بہت رلایا۔۔۔اورچھوڑ دیا اسے ماں باپ کے  پیار کو ترسنے کےلئے۔۔

گھر کا رکھوالا  کو  جب اس کے دادا جی نے اپنے درد کو چھپا کر اسے اس لائق بنانے کےلئے کہ وہ اپنا نام واپس لے سکے اُس کو خود سے سالوں دور کر دیا ۔ لیکن وہاں بھی قدم قدم پر اُس کو نفرت اور حقارت کے ساتھ ساتھ موت کے ہرکاروں سے بھی لڑنا پڑا۔۔اور وہاں سے وہ ایک طوفان کی طرح اُبھرا ۔ جہاں اسے اِس کا پیار ملا۔۔لیکن اُس پیار نے بھی اسے اسے ٹکرا  دیا۔ کیوں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

چلو چلتے ہیں کہانی کی طرف   

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کا رکھوالا قسط نمبر - 55

 اُستاد جی  کافی دیر سوچتے رہے پھر بولے:  اگر میں یہ کہوں کہ یہ تو مسئلہ ہی نہیں ہے تو؟

راحیل :وہ کیسے؟

 اُستاد جی : تم ایک عورت کی عزت کا فرض نبھاؤ اور ایک بھائی کا بھی فرض  پورا کرو اور تمہارا جو ٹیچر کے ساتھ  وعدے کی بات ہے،  تو تمہارے ٹیچر  نے کہا تھا سکول کے کسی بھی طالب علم کی شکایت نہیں آنی چاہیے ہاں،  تو کام ایسا ہو کہ  پتہ ہی نہیں  نہ چلے کہ کس نے وہ کام  کیا ہے یا   کس نے مارا ہے تو شکایت کیسے آئے گی۔

اُستاد جی کی بات سُن کر میں حیرت سے منہ کھول کر اُستاد جی کو دیکھنے لگا۔اور سوچنے لگا کہ اُستاد جی نے تو چٹکی میں سارا مسلہ ہی حل کردیا۔

 راحیل: شکریہ اُستاد جی میں سمجھ گیا ۔ کہ کیسے یہ کام کرنا ہے ، میں رات کو ہی اس کام کو  نپٹا دوں گا۔

اُستاد جی:  بیٹا نسرین جلال تم راحیل کا دھیان رکھنا کہ اسے کوئی پریشانی  نہ ہو ،  اور خالد تم بھی ساتھ جاؤ گے۔

ہم دونوں: ٹھیک ہے  اُستاد جی

پھر اُستاد جی نے ہم دونوں کو جانے کا اشارہ کیا تو میں اور خالد اُستاد جی کے کمرے سے باہر نکل آئے ۔اور ہم دونوں کے باہر جانے کے بعد اُستاد جی کے کمرے میں ماسٹر عمر خان   نسرین جلال اور اُستاد جی ایک ساتھ بیٹھے تبادلہ خیال کر رہے تھے

اُستاد جی: تم لوگوں کی منصوبہ بندی صحیح ہے لیکن   راحیل کو ایسے درمیان میں رکھنا

ماسٹر عمر خان  : وہ اس کا خود کا فیصلہ ہے اُستاد جی،  راحیل کہتا ہے شکار میرا ہے تو چارہ بھی میں ہی بنوں گا۔

اُستاد جی: ٹھیک ہے جیسے تمہیں ٹھیک لگے،  دو دن بعد  وہ بھی آ جائے گا اسے بھی شامل کر لینا اپنے ساتھ اور جلد ہی ختم کرو اس بشیر کو،  ورنہ میں کچھ کروں گا تو پریشانی ہو جائے گی۔

اُستاد جی کی بات سُن کر  ماسٹر عمر خان   کو پھر سے دورے پڑے!!!

 ماسٹر عمر خان  : اُستاد جی نہیں، نہیں  آپ اس کا نام کیوں لیتے ہیں وہ کم عقل ہے وہ سب کچھ جلا دے گا ایسے بھی کوئی کرتا ہے کیا ۔ وہ کمینہ۔۔۔ اس کے لیے ہر کام جائز ہوجاتا ہے ، اُستاد جی وہ پھر قصور وار اور بے گناہ کو نہیں دیکھتا وہ سب  کو زندہ جلا دیتا ہے۔

نسرین جلال بیچاری جو حالت کچھ دیر پہلے راحیل کی ہوئی تھی وہ اب اس کی ہو رہی تھی وہ کبھی اُستاد جی کو تو کبھی ماسٹر عمر خان   کو دیکھ رہی تھی۔

اُستاد جی: مسکرا رہے تھے اور ماسٹر عمر خان   اپنا سر دباتے ہوئے چلے گئے

تو اُستاد جی نے  نسرین جلال کو  بھی بھیج  دیا کہ کہ جاؤ راحیل کے پاس اور اُس کا خیال رکھنا۔

تو  راحیل نسرین جلال کو اپنا انسٹیٹیوٹ دیکھانے لے گیا

راحیل :  چلو انہیں کچھ دیر چھوڑ کے کہیں اور چلتے ہیں

٭٭٭٭٭٭٭٭

آفتاب اور  جاوید آپس میں سر پکڑ کر بیٹھے پلاننگ کر رہے تھے

 آفتاب : یار اس چوتیا کو انسٹیٹیوٹ سے باہر کیسے نکالیں اور شہر کیسے لے کے جائیں

جاوید: تم نے کتنی کوشش کی لیکن وہ  نہیں مانا۔ اب تم   پریشان نہ ہو ہم مل کر  کچھ نہ کچھ سوچ لیں گے

 آفتاب: وہ جو راحیل کی ویڈیو بنائی تھی اُس کا میموری کارڈ سنبھال کے رکھا ہے نا؟

 جاوید: ہاں میں نے اُس کو سیف جگہ پر رکھ   دیا ہے

آفتاب: بس کچھ ہی مہینوں کی بات ہے اس کے بعد  راحیل کا  توپتہ صا ف ہوجائے گا پھر اُس کے ساتھ کیا ہوتا ہے اور کیا  نہیں ہوتا، لیکن کومل مجھے مل جائے گی اور میں جو چاہوں گا اُس کے ساتھ کروں گا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

بشیر کے خفیہ ٹھکانے پر بشیر اپنے ساتھی غنڈوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔

بھائی یہ بہترین کھلاڑی ہے سو لوگ بھی بلا لو بھائی ناں مرنے سے ڈرتا ہے نا پولیس سے ڈرتا ہے۔ انہیں بس پیسے دو اور یہ سامنے والے کو کاٹ کر پھینک دیتا ہے اور لاش تو کیا وہ انسان اس دنیا میں تھا یا نہیں یہ تک پتہ نہیں لگتا

بشیر: ہاہاہاہا ۔۔نسرین جلال بھی مرے گی اور وہ لڑکا بھی اور ان کی بدولت پورا شہر ہمارا ہوگا بس جیسے ہی وہ لڑکا باہر نکلے گا ہمارے پاس کال آ جائے گی اور لڑکے کا کھیل ختم اب کی بار کوئی چوک نہیں ہوگی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭

نسرین جلال  کو اُس کے فون پر کال آئی وہ  ابھی تک انسٹیٹیوٹ میں ہی  تھی۔

جاسوس: میڈم یہاں جنگل میں بڑی ہلچل مچی  ہوئی ہے تقریباً  130 کے قریب لوگ اکٹھے ہیں اور ان کی شکل دیکھ کے لگ رہا تھا کہ سارے چٹے ہوئے غنڈے اور جرائم پیشہ ہیں۔ہم نے اُن کا جنگل میں پیچھا کرنے کی کوشش کی لیکن  اندر تھوڑی دور جاتے ہی وہ سب غائب ہو جاتے ہیں۔

نسرین جلال: جلدی اس بشیر کے پچھواڑے میں ڈنڈا ڈال کر اور  ایک پنکھ والا مور بنا کے نچواؤں گی۔  بس کچھ دن اور تم سنبھل کر  نگرانی کرتے رہنا  اور پل پل کی خبر مجھے دینا، اور اُن کا اندر تک پیچھا کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اسے بل سے باہر نکلنے کا طریقہ ہے میرے پاس ، بس کچھ دن اور  اُسے جی لینے دو، پھر تو ویسے بھی اُس کی کہانی  سُن کر غنڈوں کی ہوا نکل جایا کرے گی۔اور وہ خود کو غنڈہ بدمعاش کہتے ہوئے ڈر یں گے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

صبح 6 بجے دو موٹر سائیکل تیز رفتاری سے شہر کی طرف جارہی تھی ایک بائیک پر   راحیل اور نسرین جلال بیٹھے تھے اور بائیک  پر خالدسوار تھا

ہم نارمل  رفتار سے شہر میں داخل   ہوئے ، ہم نے اپنی  منزل کے بارے میں  کومل کو بتا دیا تھا۔  ہمیں 20 منٹ لگے وہاں پہنچنے میں۔ہماری منزل  سٹیڈیم تھی وہاں پہنچ کر  ہم دور سے ہی نگرانی کرنے لگے ۔ نگرانی کرتے ہوئے ہی نسرین جلال کو ساری بات بتا دی کہ آج سکول میں کیا ہوا تھا۔

تھوڑی دیر بعد سکول والے سینئر فٹ بال والے چوتیے آتے ہوئے دکھائی دیے میری آنکھیں نسرین جلال سے ملی ہم نے ڈیسائیڈ کیا کہ  نسرین اور کومل کے آنے کا انتظار کیا جائے، تاکہ انہیں بھی پتہ لگے کہ ان سے بدتمیزی کرنے والوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے ،  تھوڑی دیر میں ہی وہ دونوں بھی پہنچ گئی۔وہ  دونوں یہاں آکر کچھ حیران اور کچھ پریشان نظر آ رہی تھیں ۔ کیونکہ اُن کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اُنہیں رات کو اس وقت اس جگہ بلانے کا کیا مقصد ہے ۔

راحیل: آگئی آپ دونوں

کومل: لو آپ نے بلایا ، اور ہم نہ آئیں ایسا ہو سکتا ہے۔

 راحیل: آگے بڑھا اور نسرین کو گلے لگایا اور ان کے کان میں بولا سب ٹھیک ہے میں ہوں نا جس نے تمہارے ساتھ بدتمیزی کی تھی ،  وہ بھگتے گا اور زندگی بھر پچھتائے گا ۔

نسرین نے بھی راحیل کے پاس آ کےاُسے  گلے لگا لیا

خالد کومل کے گلے میں باہیں  ڈال کے بولا : میں  تو اجنبی ہوں  نا، کیونکہ تمہارا  ایک ہی بھائی ہے،  میں کیا ہوں مطلب میری کوئی قدر ہی  نہیں ہے۔

 راحیل: چل بے تو بعد میں اپنے لاڈ اٹھوا لینا کچھ کام کرتے ہیں ۔

راحیل نسرین جلال سے: آپ ان دونوں کو اس طرف سے اندر لے کے آؤ

نسرین: بھائی ، لیکن  یہ سب

راحیل : ہماری بہن کے ساتھ کوئی الٹی بات کرے یہ ہم کیسے سن سکتے ہیں ہمارے ہاتھ بندے ہیں ورنہ آج ان کی گردن ہم کاٹ دیتے

 میں نے خالد کو اشارہ کیا:  اس نے بولا تھا کتا کتی فلم لگی ہے اب چلو فلم دیکھتے ہیں۔

 میری اس بات پر نسرین ہلکا سا مسکرا دی تھی۔

آٹھ بج گئے تھے اور سب جا چکے تھے سوائے کچھ امیر ماں باپ کی بگڑی ہوئی اولاد کے جو بیئر پی رہے تھے۔ خالد ان کی طرف جا جا رہا تھا ۔ اور وہ سارے اسے اپنی طرف آتا  دیکھ  کر دیکھنے لگے۔

ایک لڑکا: ابے چوتیے منہ میں کیا لنڈ لیا ہوا ہے ، جو رات میں بھی ہیلمٹ پہن رکھا ہے

دوسر ا لڑکا : ابے یہاں ہم گانڈ نہیں مارتے ہیں کہیں اور جا کے مروا

خالد: سیدھا گیا اور ایک کے بال پکڑ کر نیچے جھکایا اور سیدھا گھٹنا منہ پہ دے مارا،  سالے کے چار دانت ٹوٹ گئے اور پھر اس کا ہاتھ پکڑکر اپنے گھٹنے پر  مارا  جس سے اس کی کہنی ٹوٹ گئی اتنے میں باقی بھی بھاگتے ہوئےوہاں آگئے ۔

تو  خالد بولا:  کتا، کتا، کتا، کتا ، کتا

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 گھر کا رکھوالا کی اگلی قسط بہت جلد

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
سمگلر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more
سمگلر

Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page