Lust–01–ہوس قسط نمبر

ہوس

ہوس ۔۔ نامساعد حالات میں جینے والے نوجوان کی کہانی۔ بے لگام جذبوں اور معاشرے کی ننگی سچائیاں۔ کہانیوں کی دنیا  پیڈ سیکشن کا نیا سیکسی سلسلہ وار ناول

ہوس قسط نمبر 01

میری آنکھ پیاس کی وجہ سے کھلی، میں اٹھا اور اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکلا۔ پورا گھر خاموشی اور تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ میں کچن میں گیا ، سٹیل کے گلاس میں ٹونٹی سے پانی بھرا اور پینے لگا۔ پانی پی کر جب میں امی کے کمرے کے سامنے سے گزرا تو مجھے ایک عجیب سی ہائے جیسی آواز سنائی دی۔ میں نے ایسی آواز کبھی پہلے نہیں سنی تھی۔ یہ بیماروں یا درد والی ہائے نہیں تھی۔ یہ آہ کی آواز تھی جیسے ٹی وی میں لڑکیاں شربت پی کر آہ کہتی تھیں، کہ آہ پی کر مزا آگیا۔

میں نے تجس سے مجبور ہو کر بند دروازے کے شگاف سے اندر جھانکا تو وہ منظر دیکھا جوکوئی میری عمر کا بچہ بھی دیکھ لے تو اس کا لن تناؤ حاصل کرلے۔ امی اندر الٹی لیٹی ہوئی تھیں اور کوئی آدمی اپنا لن ان کے چوتڑوں کے درمیان گھس رہا تھا۔ میں بچہ تھا مگر اتنا نادان نہیں تھا کہ یہ سمجھ نہ سکتا کہ امی اس آدمی کے ساتھ کیا کر رہی تھیں۔

میں نے دوستوں سے اکثر سنا تھا کہ لڑکیوں کی پھدی ماری جاتی ہے۔ لڑکوں کا جس جگہ لن ہوتا ہے لڑکیوں کی اس جگہ ایک لائن ہوتی ہے جس میں ایک گہر ا سوراخ ہوتا ہے۔ اسے پھدی کہتے ہیں، لڑکے اپنا لن اس سوراخ میں داخل کرتے ہیں تو اسے پھدی  مارنا کہتے ہیں۔

میں جان گیا تھا کہ امی کسی سے اپنی پھدی مروارہی ہیں۔ یہ سوچ کر میرے بال کھڑے ہو گئے ، زندگی میں پہلی بار اگر میں نے سیکس دیکھا تو اپنی ہی ماں کا کسی غیر مرد کےساتھ  ۔

میں اپنا تعارف کروادوں۔ میرا نام سکند رہے، میں آٹھویں جماعت کا طالبعلم ہوں۔

میرے والد ملک حیات ایک الیکٹریشن ہیں ، ان کی مزنگ کے پاس دکان تھی ، ہمارا گزارہ مشکل سے ہوتا تھا تو ایک بار کسی کے کہنے پر اباجی دکان فروخت کر کے سعودیہ عرب چلے گئے۔ پہلے کچھ مہینے تو کام جمنے میں لگے اس کے بعد اباجی کا کام جم بھی گیا اور بن بھی گیا۔

اباجی نے وہیں پر ایک بیوہ عورت سے شادی رچالی۔ وہ بڑی معمولی رقم ہمیں بجھواتے اور دو چار سال بعد خود بھی چکر لگاتے۔ ابا جہاں معمولی شکل و صورت کے مالک تھے وہیں امی نہایت حسین و جمیل تھیں۔ پتا نہیں امی کو کس جرم کی سزاملی جو ابا سے بیاہی گئی تھیں۔ میں گھر میں تیسرے نمبر پر تھا۔ سب سے پہلے شاہینہ آپا تھیں، شاہی آپا ہیں سال کی تھیں اور کالج میں پڑھتی تھیں۔ ان کے بعد راحیلہ باجی تھیں جو فرسٹ ائیر میں تھیں، ان کی عمر سترہ سال تھی۔ پھر میں تھا جو کہ پندرہ سال کا تھا اور آخر میں سدرہ تھی۔ سدرہ کلاس تھری کی سٹوڈنٹ تھی اور دس سال کی تھی۔

ابا کو باہر گئے لگ بھگ قریباً سولہ سال ہو چکے تھے۔ ان سولہ سالوں میں ابا محض چار مرتبہ آئے تھے۔ یہ اچھی بات تھی کہ ابا ہمیں پیسے باقاعدگی سے بجھواتے تھے۔ ابا کی بھیجی رقم اتنی کم تھی کہ اس سے بس گزارہ ہی ہوتا تھا مگر اس کے باوجو د نجانے کیا بات تھی کہ ہم اچھا کھاتے پیتے اور پہنتے تھے۔ خاص طور پر امی ہر وقت مہنگے ملبوسات میں سجی سنوری رہتی تھیں۔ امی کی محلے میں کسی سے سلام دعا اور دوستی یاری نہ تھی مگر میری بہنوں کی خوب تھی۔ امی عموما دن کو گھر سے باہر ہو تیں اور اس اغیاب کی ایک ہی وجہ بیان کی جاتی کہ کسی سہیلی کے گھر میلاد پر گئی تھیں۔ ہم کبھی ان کی کسی غائبانہ سہیلی کے بارے میں نہ جان سکے تھے نہ کبھی میں یا کوئی بہن ان کے ساتھ گئی۔

امی کے پاس ہر وقت پیسے ہوا کرتے تھے مگر ان سے پیسے نکلوانا بڑا مشکل کام تھا۔ وہ کسی صورت بھی بٹوہ ڈھیلا نہ کرتیں اور چڑ کر کہتیں کہ تمہارا وہ باپ کچھ بھیجے تو دوں نا۔۔ بس بچے پیدا کر کے دفع ہو گیا ہے۔ اس کے بعد وہ کو سنے اور مغلظات سناتیں کہ مانگنے والے کی اپنی بس ہو جاتی۔

میری بہنیں بھی امی کی طرح نہایت حسین و جمیل اور خوبصورت تھیں۔ ایک بھائی بہن کی کیا خوبصورتی بیان کرے، بس اتنا ہی بتا سکتا ہوں کہ تمام بہنیں نہایت ترشیدہ جسم کی مالک تھیں، پتلی کمر ، شفاف رنگت اور متناسب چھاتیاں۔ یہ سب بھی یوں دکھائی دیتا کہ بڑی بہنیں گھر میں میری موجودگی میں دوپٹہ لینا اور جسم ڈھانکنا غیر ضروری تصور کرتی تھیں۔ یوں مجھے سب سے پہلے جو عورت کے جسم کی رعنائیوں کا احساس ہوا وہ اپنی ہی بہنوں کے سراپے پر نظریں ڈال کر کر ہوا۔

اس رات مجھے نیند ہی نہ آسکی۔ وہ سلسلہ کچھ دیر چلتا رہا پھر وہ آدمی نکلا اور امی نے اسےباہر نکال کر دروازہ بند کر دیا۔ امی کے اطمینان سے صاف نظر آتا تھا کہ یہ پہلی بار نہیں جو ان سے ملنے کوئی آیا ہے۔

اگلی صبح میری آنکھ کھلی تو میں نے امی سے کہا: مجھے سکول نہیں جانا، آج میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے ؟

اس پر شاہینہ آپا ہنس کر بولیں: کیوں تو بھی لڑکی ہے کیا کہ مہینے میں چار پانچ دن تیری طبیعت لازمی خراب ہوتی ہے ؟

امی نے انھیں گر کا اور کہا: بکو اس مت کر شاہی۔ کیا ہوا تجھے رات کو سویا نہیں کیا؟

میں نے امی کے گیلے بال اور گیلی قمیض سے جھانکتے گورے جسم سے نظریں چراتے ہوئے کہا:

 بس امی ! کچھ بے چینی سی ہو رہی تھی۔

امی بولیں: تونے نشہ تو نہیں شروع کر دیا

میں بولا : نہیں امی۔۔ قسم لے لیں۔۔

شاہینہ آیا بولیں: پوچھ لیں امی کہیں کسی نیا شوق میں تو مبتلا نہیں ہو گیا۔ وہ شیخوں کےلڑکے کی طرح۔

امی بولیں: تو تو جب ہی کرنا بکو اس ہی کرنا۔ تجھے بڑا پتا ہے شیخوں کے لڑکوں کا۔ اب تیرے منہ سے ان کا نام سنا تو گلا کاٹ دوں گی، سمجھی۔۔ چل ناشتہ کر اور دفع ہو۔

شاہینہ آپا ہنستی ہوئی اندر چلی گئیں۔ میں بھی ناشتہ کر کے گھر سے نکل آیا۔ گلی لی کے کونے پر سلو پان والا تھا، اس کی منڈیر پر گلی کے تمام لونڈے لپاڑے بیٹھا کرتے ہیں۔ اس وقت بھی وہاں رضو بیٹھا تھا۔ رضوان عرف رضو، محلے کا سب سے بڑا خبری تھا، کسی گھر میں کیا چل رہا ہے، کسی بچی کا کس کے ساتھ ٹانکا بھڑا ہے، اسے خوب معلوم ہوتا تھا۔

میں اس کے پاس بیٹھا گیا اور بولا: سناؤر ضو بھائی ! کیا ہو رہا ہے؟ رضو نے پان کی گلوری منہ میں رکھی اور بولا: ابے کچھ نہیں یار! ابے نے بولا تھا کہ دکان پر آنا پر اپنا موڈ نہیں تھا۔ ویسے بھی اس وقت اپنی رانی گزارتی ہے گلی سے ، سوچا اس کا نظارہ کر لوں، شاید چانس بھی بن جائے۔ مہینہ ہو گیا ہے سالا شلوار کی  کھجلی ہی دور نہیں ہو پارہی۔

میں بولا: کیسا چانس رضو بھائی؟

وہ بولا : ابے کا کے بندے کو ایک ہی چانس چاہیے ہوتا ہے۔ بچی کی پھدی کا چانس۔ اپنی رانی اس وقت ادھر سے گزارتی ہے، اگر اس کی ماں کہیں آگے پیچھے ہو تو ہم کو ایک دو منٹ کا چانس مل جاتا ہے۔

میں بولا لا: کس کی بات کر رہے ہو رضہ ر ضو بھائی؟

وہ بولا : ابے وہ ہے کونے والا منور کی چھوٹی بیٹی۔۔ رضیہ۔۔ وہی تو ہے اپنی رانی۔ مجھے رضیہ یاد آگئی ، رضیہ ہمارے گھر آیا کرتی تھی اور اس کی شاہی آپا سے اچھی دوستی تھی۔

میں بولا : ارے ہاں ! جانتا ہوں رضو بھائی اسے۔ سہیلی ہے میری آپا کی۔۔

رضوا چانک چونکا اور بولا : ابے ہاں ! سالے تیرے گھر تو وہ آتی جاتی ہے۔ ابے تو تو اپنا بندہ ہے، یہ کام تو کر بھائی کا؟

میں بولا : کیسا کام؟

وہ بولا : تو اس کے گھر جا اور پوچھ کہ میں کتنے بجے آؤں؟ اس طرح اس کے انتظار میں  گھنٹوں کھڑا رہتاہوں۔ دکان کا بھی حرج ہوتا ہے ، اگر پہلے سے پروگرام کا پتا ہو تو بندہ اسی وقت پہنچ جائے۔

میں بولا : مگر بھائی ! کرنا کیا ہوتا ہے اس کے ساتھ ؟ سچ مچ اس کے ساتھ۔۔

وہ بولا : ابے اور نہیں تو کیا ہے۔ اپنی رانی ہے جم کر پھدی ماری ہے اس کی میں نے۔

میں بولا : سچی میں۔۔ مطلب اس نے آپ کے سامنے شلوار اتاری ؟

وہ ہنسا اور بولا : ابے اور نہیں تو کیا۔۔ پھدی ماری ہے کا مطلب، وہ پوری ننگی ہوئی۔۔ جہاں جہاں میں نے چمیاں لیں، اس نے دیں۔۔ میں نے اس کی لیس دار اور گیلی پھدی میں پورا اتارا تو سالی چیخ اٹھی کہ رضو اتنا لمبا اور موٹا میں برداشت نہیں کر سکتی، مگر میں نے بھی جم کر اس وقت تک چودا جب تک لن کا رس اس کے اندر نکل نہیں گیا۔ سمجھا۔۔ پورا کام کیا ہے اس کے ساتھ۔

میں حیران ہو کر اسے دیکھتا رہا اور بولا : واقعی۔۔ دیکھ کر تو ایسا نہیں لگتا کہ وہ کسی کےسامنے ننگی ہوتی ہو گی ؟

وہ ہنسا اور بولا : تو کیا ماتھے پر لکھا جاتا ہے ؟ بس اب تو باقی باتیں چھوڑ اور جا اس کے گھر اور پوچھ کہ رضو کب آئے؟ تو واپس آ تب تک میں ہوٹل میں دودھ پتی بنواتا ہوں تیرے لیے۔

میں اٹھا اور رضیہ کے گھر کی طرف چلا گیا۔

رضیہ کے گھر دروازہ خودرضیہ نے کھولا کیونکہ عموماً اس وقت اس کے باقی بہن بھائی سکول گئے ہوتے ہیں۔ مجھے دیکھ کر اسے حیرت ہوئی کہ اس سے قبل میں کبھی اس کے گھر نہیں آیا تھا۔

وہ سوالیہ انداز میں بولی: ہاں سکندر ؟ کیا چاہیے ؟

میں سرگوشی میں بولا: وہ باجی رضو بھائی نے پوچھا ہے کہ کتنے بجے ملنے آؤں؟ رضیہ کا رنگ یک لخت اڑ گیا، اس نے ادھر ادھر دیکھا اور مجھے اندر کھینچ کر دروازہ بند کر دیا۔ اس کی ماں کی آواز آئی ، کون ہے رضیہ ؟

رضیہ بولی: اماں ! سکند رہے، سوٹ کا ڈیزائن مانگ رہی ہے شاہی۔

رضیہ مجھے ایک سائیڈ پر لے گئی اور بولی: ابھی اماں گھر پر ہے تم ایسا کرو، اسے کہو کہ دس بجے دوبارہ پتا کرے۔ اماں شاید کہیں باہر جائے تو اس وقت وہ آجائے۔

مزید کہانیوں کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
سمگلر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more
سمگلر

Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page