ہوس ۔۔ نامساعد حالات میں جینے والے نوجوان کی کہانی۔ بے لگام جذبوں اور معاشرے کی ننگی سچائیاں۔ کہانیوں کی دنیا پیڈ سیکشن کا نیا سیکسی سلسلہ وار ناول
-
میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا
April 17, 2025 -
کالج کی ٹیچر
April 17, 2025 -
میراعاشق بڈھا
April 17, 2025 -
جنبی سے اندھیرے
April 17, 2025 -
بھائی نے پکڑا اور
April 17, 2025 -
کمسن نوکر پورا مرد
April 17, 2025
ہوس قسط نمبر 02
اس نے ایک قمیض مجھے شاپر میں ڈال کر دے دی اور بولی : اب تم جاؤ۔۔
میں پانچ منٹ بعد ہی آگیا اور بولا: یہ لو رضو بھائی رضیہ باجی کی قمیض اور پیغام۔ میں چلتاہوں۔
پیغام سن کر وہ بولا : تو کہاں چلا پیارے ؟ ابھی رک دس بجے دوبارہ جانا۔
میں رک گیا، رضو مجھے بتا تا رہا کہ کیسے اس نے رضیہ اور دیگر کئی لڑکیوں کی پھدیاں ماری ہیں اور محلے کی ہر دوسری لڑکی مفت کی رنڈی ہے۔
میں نے پوچھا: رضو بھائی ! یہ شیخوں کے لڑکوں کو کیا شوق ہے؟
وہ بولا : ابے تجھے تو نہیں ورغلایا حرامیوں نے۔ بڑے کمینے ہیں سالے۔
میں بولا : نہیں ویسے ہی بات سنی ہے۔ بات ہے کیا ؟ وہ بولا : ابے بات کیا ہوتی ہے ؟ لونڈے باز ہیں سالے۔ لڑکیوں کی بجائے لڑکوں کےعاشق ہیں۔
میں بولا : لڑکوں کا مطلب؟
وہ بولا : ابے لڑکیوں کی پھدیوں کی بجائے لڑکوں کی گانڈ مارتے ہیں اور اپنی گانڈ مرواتے ہیں۔
یہ میرے لیے ایک نئی اور انوکھی بات تھی۔ میں بولا : سچ میں رضو بھائی۔۔ وہ بولا: سب کو پتا ہے ، تو بھی ذرا بچ کے رہیں۔ سالے اپنی ماں بہنوں کی طرح خوب گورا چٹا اور لمبا چوڑا ہے۔ کوئی بچی پھنسائی ہے کبھی؟
میں بولا : نہیں !رضو بھائی۔۔
وہ ہنس کر بولا : ابے سارے محلے کی پوپٹ بچیاں تیرے گھر آتی جاتی ہیں اور تو نے کبھی کسی سے ٹانکا نہیں بھڑایا۔ چول ہے ایک نمبر کا تو بھی۔
اس دوران دس بج چکے تھے ، اس نے مجھے دوبارہ واپس بھیجا۔ میں قمیض لوٹانے کے بہانے گیا تو رضیہ کی ماں نے دروازے کھولا، قمیض اس نے وصول کی مگر رضیہ نے پیچھے سے اشارہ کیا کہ رکوں؟
میں رک گیا، پانچ منٹ بعد رضیہ نے دروازہ کھولا اور بولی: گیارہ بجے۔
میں واپس رضو کے پاس پہنچ گیا۔ گیارہ بجے رضو مجھے اپنی موٹر سائیکل پر بٹھا کر رضیہ کی گلی میں لے گیا۔
میں نے گھنٹی بجائی تو رضیہ نکلی اور بولی: پانچ منٹ بعد میں دروازہ کھلا چھوڑوں گی، تم دونوں اوپر آجانا۔
ہم گلی میں ناکا لگا کر کھڑے تھے کہ رضیہ کی ماں گھر سے نکلی اور ہماری مخالف سمت میں دو تین مکان چھوڑ کر ایک مکان میں داخل ہو گئی۔ دو تین منٹ کے وقفے کے بعد میں دوبارہ دروازے پر گیا تو رضیہ وہیں موجود تھی۔ اس نے مجھے اندر بلا لیا اور اوپر کمرے میں لے گئی۔ پانچ منٹ بعد۔
بولی: اب تم رضو کو بھی بلالو ۔ مگر گلی میں ادھر ادھر دیکھ کر۔
میں دبے پاؤں نیچے اترا اور رضو کو اشارہ کیا۔ وہ عجلت میں اندر داخل ہو گیا۔ میں نے دروازہ بند کیا اور اس کے پیچھے او پر اس کمرے میں داخل ہو گیا۔
رضو نے بے تابی سے رضیہ کو بانہوں میں بھر لیا اور اس کے بھاری کولہوں کو دباتے ہوئے بولا : کتنا تر سایا تو نے کمینی ؟
رضیہ بولی کیا کرتی، اماں بس تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے باہر جاتی ہیں، میں پیغام کیسے بجھواتی؟
رضو بولا: چل چھوڑ اب تو اپنا پٹھا آگیا ہے نا ؟
رضیہ کو اب میرا خیال آیا، وہ خود کو اس کی بانہوں سے چھڑاتے ہوئے بولی: سکندر ! تم باہر رکو۔
رضو نے مجھے آنکھ ماری اور بولا : ہاں ! تورک بس دس پندرہ منٹ میں چلتے ہیں۔ میں کمرے سے باہر آگیا، اندر سے دروازہ بند ہو گیا۔ میں نے بوسیدہ دروازے سے اندر جھانکنے کی جھری بناہی لی اور حسب توقع منظر دیکھا۔ رضیہ محض ایک منٹ میں ہی مکمل ننگی ہو چکی تھی۔
رضو نے بڑی بے تابی اس کی پھدی میں اپنا تنا ہوا لن گھسا دیا۔ یہ منظر دیکھا کر میر الن بھی تن گیا، رضورضیہ کی پھدی کو جھٹکے لگانے لگا اور میری اس وقت یہ خواہش تھی کہ کاش وہ لن میرا ہو تا جو رضیہ کی پھدی میں جا رہا تھا۔ رضو کے جھٹکوں کے ساتھ رضیہ کی سکاریاں اور آہیں جاری تھیں۔ رضو کسی دودھ پیتے بچے کی طرح رضیہ کی چھاتی کو بھی چوم اور چوس رہا تھا۔
یہ سلسلہ بس پانچ منٹ ہی چلا اور رضو نے جھٹکے لیے اور لن باہر کھینچا۔ مگر اس کے لن سے لیس دار منی رضیہ کی پھدی میں نکل چکا تھا۔ رضیہ بھی تیزی سے اٹھی اور بنا پھدی کو صاف کیے جلدی جلدی شلوار پہننے لگی۔ رضو نے بھی اپنی شلوار او پر کھینچی اور رضیہ کے کولہوں پر ہاتھ مار کر بولا : چل اب چلتا ہوں۔ اب تو اکثر موقع ملتے رہیں گے۔
رضیہ بولا: یہ سکندر کسی کو بتائے گا تو نہیں؟
رضو بولا: او نہیں ! اپنا جگر ہے۔۔ نہیں بتائے گا۔ تو فکر مت کیا کر۔
میں فوراً دروازے سے ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔
رضو باہر نکل کر بولا : چل پیارے نکلیں ادھر ہے ۔۔ اس کی ماں کسی بھی وقت آسکتی ہے۔
سب سے پہلے میں گلی میں نکلا اور جب تسلی ہو گی کہ کوئی اس طرف متوجہ نہیں تو رضو بھی نکل آیا تو ہم چہل قدمی کرتے ہوئے اس کی موٹر سائیکل تک گئے اور سوار ہو کرسیدھا رضو کی دکان کی طرف انار کلی چلے گئے۔ رضو کے باپ کی وہاں کتابوں کی دکان تھی۔
ہم ساڑھے گیارہ بجے دکان پر پہنچے۔ اس کا باپ رضو کو بٹھا کر خود کہیں نکل گیا۔ رضو مجھے رضیہ کے ساتھ ہونے والے بقیہ جنسی واقعات بھی بتانے لگا۔ شام تک مجھے جنسی تعلقات کی خاصی آگاہی ہو چکی تھی۔
میں گھر واپس آیا تو رضیہ بھی موجود تھی۔ موقع ملتے ہی وہ مجھے ایک رقعہ پکڑاتے ہوئے
بولی: یہ لے لو اور رضوان کو دے دینا۔ ٹھیک ہے۔
میں نے سر ہلا دیا۔ میرا دل بڑی شدت سے چاہنے لگا کہ کاش رضیہ ایسا کوئی رقعہ مجھے دیتی تا کہ رضوان کی جگہ میں اس کی پھدی مار سکتا۔
میں نے اگلے دن ہی رضو کو وہ رقعہ دے دیا۔ رات کو وہ رقعہ میں نے بھی پڑھ لیا تھا۔ اس میں محض یہ لکھا تھا کہ ایک دو دن بعد تم دوبارہ سکندر کو بھیجنا اور میں جو بھی صور تحال ہو گی وہ تمہیں بتادوں گی۔ ساتھ ہی یہ بھی درج تھا کہ اس مہینے کی گولیاں بھی تین چار باقی رہ گئی ہیں۔ نیا پتہ بھی سکندر کے ہاتھ بجھوا دو۔
رضو بولا: لے بھئی تیری بھابھی کا پیغام ہے۔ ان کی ایک فرمائش ہے کہ انھیں گولیوں کاپتہ دیا جائے۔ چل بھی تجھے لے دوں، تو آج سکول سے واپسی پر پکڑا دینا۔
میں بولا : رضو بھائی ! یہ کس بات کی گولیاں ہیں ؟
وہ بولا: یہ پھدی مروانے کا مزا لینے کی گولیاں ہیں۔ یہ گولیاں ہوں تو بندہ جم کر پھدی مارے مگر کسی کو پتا نہیں چلتا۔ مروانے والی کار از راز ہی رہتا ہے تا کہ وہ جم کر مروائےاور شریف کہلائے۔
میں نا سمجھی سے بولا: گولیاں کھانے سے کیسے پتا نہیں چلتا ؟
وہ بولا : یار ! تو سوال بہت کرتا ہے۔ ابے سالے! جب بچی پھدی مرواتی ہے تو اس کے پیٹ میں چودنے والا کا کا کا جنم لیتا ہے، سمجھا۔ عورت چدوانے سے ہی تو ماں بنتی ہے۔
میں بولا : مطلب ! ہر بچہ اسی طرح پیدا ہوا ہو گا ؟
وہ بولا : اور نہیں تو کیا ؟؟ چل اب باتیں چھوڑ اور بیٹھ تجھے گولیاں دلاؤں اور پھر سکول چھوڑ کر آتا ہوں۔ اور ہاں! یہ گولیاں کسی بم سے کم نہیں ہیں، اگر تیرے پاس سے برآمد
ہو گئیں یا کسی نے دیکھ لیں تو سمجھ لے تباہی بچ جائے گی۔ تجھے تو وہ جوتے پڑیں گے۔۔ کہ
پوچھ مت۔۔ ساتھ ہی رضیہ اور میرے ورانٹ نکل آئیں گے۔
میں بولا : رضو بھائی ! تم نے بولا کہ رضیہ بھا بھی ہے، مطلب تم اس سے شادی بھی کرو گے؟
وہ ہنسا اور بولا : ابے منہ بولی بھا بھی ہے تیری، جیسے میں تیرا منہ بولا بھائی ہوں، ویسے وہ میری منہ بولی بیوی ہے۔ اس دو پہر میں نے رضیہ کو وہ گولیاں تھمادیں۔ اب میں دن رات یہی سوچنے لگا کہ کسی طرح میں رضیہ کی پھدی مارلوں ۔ مگر کوئی طریقہ سمجھ نہ آیا۔ میں اسی طرح دو چار بار رضیہ کو رقعے وغیرہ تھا آیا اور ایک دو بار رضو کے ساتھ گیا مگر اندر جانے کی بجائے باہر میں پہرہ دیتا رہا۔ رضوا کیلا ہی جاتا تھا اور منٹوں میں کام نپٹا کر لوٹ آتا۔ پندرہ ہیں دنوں میں میں نے رضیہ کے گھر چکر لگا لگا کر جوتیاں گھساڈا لیں۔ ایک دو پہر رضو نے مجھے ایک خط اور چند چیزیں جن میں لپ اسٹک اور دیگر سستی سی چیزیں تھیں تھمائیں اور
بولا: چل میرے شیر ! یہ ذرارضیہ کو دے آ۔
میں بولا : رضو بھائی ! میں تنگ آگیا ہوں یہ روز روز ڈاکیا بن کر۔ مجھے کیا فائدہ ہے یوں خط پہنچانے کا
رضو بولا : ابے کیا فائدہ چاہیے۔ تو کیا چاہتا ہے کہ خط کی فیس کے بدلے رضیہ تجھے بھی پھدی دیا کرے
میری دل کی بات اس نے ایسے آرام سے کہہ دی کہ میں دہل گیا۔ میں بات بناتے ہوئے بولا : نہیں ! مگر کوئی میرے لیے بھی تو ڈھونڈ ور ضو بھائی ۔ تم دونوں کو دیکھ دیکھ کر مجھے بھی ہشیاری آجاتی ہے۔ کوئی میرا بھی جگاڑ لگاؤ نہ رضو بھائی، اب تو مجھے چودنے کا سبق بھی یاد ہو گیا۔
وہ بولا : سب سمجھتا ہوں یار ۔۔ سب سمجھتا ہوں۔ بچی ایسے نہیں ملتی۔ بچی کے لیے حرامی پن کرنا پڑتا ہے۔ سمجھا۔۔ جس دن تو حرامی پن پر آگیا بچی بھی ملے گی اور اس کی پھدی بھی۔
رضو شاید نہیں جانتا تھا کہ یہ جملے میری زندگی کو بدلنے والے تھے۔
میں بولا : رضو بھائی! حرامی پن کا کیا مطلب؟
وہ بولا : حرامی پن کا مطلب ہے کہ دنیا میں جس کی ہو ، اس کی لینے کی پوری کوشش کرو۔ کہتے ہیں محبت میں سب جائز ہے، آج سے یاد رکھ۔۔ چوٹیا پن میں بھی سب جائز ہے۔ پیار، محبت، دھونس، زبردستی، فریب، دھوکا، چالبازی جس بھی طریقے سےملے ، پھدی مار ڈالو۔
میں وہاں سے اٹھا تو ایک نئی سوچ اور ایک نیا سکندر جنم لے چکا تھا۔ میرے ذہن میں ان ناموں کی یلغار تھی جن کے ساتھ پھدی لگی ہوئی تھی۔ رمشه، سائرہ، مائره، ندا، کشف، مناہل، جمیلہ ، انجم، زو باریہ ، یہ سب وہ تھیں جو محلے کی تھیں اور جن سے میراروزآنہ ٹا کر ا ہوتا تھا۔ مگر اس وقت تو میں صرف ایک پھدی کو اچھی طرح جانتا تھا اور بول چال تھی، وہ رضیہ تھی۔
میں نے سوچا تھا کہ شام میں رضیہ کی طرف جاؤں گا مگر میں شام کی بجائے کڑکتی دو پہر ہی میں اس کے گھر چلا گیا۔ گلی میں پینٹ شرٹ میں ملبوس ایک لڑکا کھڑا تھا، اس کی نگاہوں میں وہی بے چینی تھی جو رضیہ کے گھر جاتے ہوئے رضو اور مجھے ہوا کرتی تھی۔ اچانک رضیہ کے گھر کا دروازہ کھلا اور وہ لڑکا جھٹ سے اندر گھس گیا۔ اگلا سین میری سمجھ میں خود بخود آگیا۔ رضیہ کے ساتھ سین وہی چلتا تھا مگر اس بار کردار بدل جانا تھا۔ حرامی بین رضو ہی نہیں رضیہ بھی خوب کر رہی تھی۔ میں نے چند منٹ انتظار کیا اور پھر جا کر گھنٹی بجائی، میں تصور کی آنکھ سے دیکھ سکتا تھا کہ رضیہ اس وقت عجلت میں شلوار پہن رہی ہو گی اور اس وقت قمیض چڑھا کر نیچے کی طرف بھاگ رہی ہو گی۔ میری سوچ سے دو منٹ تاخیر سے اندر سے رضیہ کی کپکپاتی آواز آئی: کون ہے ؟
میں بولا : باجی میں سکندر۔
رضیہ بولی: سکندر شام کو آنا۔ ابھی جاؤ۔
میں بولا : باجی دروازہ کھولو۔۔ کچھ سامان ہے۔
وہ سخت لہجے میں بولی : کہانا شام کو آنا۔
میں بولا : باجی! دروازہ کھولو ورنہ تمہاری اماں کو لے آؤں گا، اس کے آنے پر تو کھولو گی ناں۔
دروازہ جھٹ سے کھلا اور رضیہ کی پتھرائی نگاہیں میرے چہرے کا طواف کر رہی تھیں جہاں مذاق کا کوئی نشان نہ تھا۔ میں بولا : باجی ! یہ لو سامان اور رقعہ ۔ جب یہ پینٹ والا چلا جائے گا تو میں آؤں گا۔ اکیلا۔ تمہاری پھدی مارنے۔ تیار رہنا اور انکار کا سوچنا بھی مت میں بڑا حرامی ہوں۔۔
رضیہ کا کیا حال تھا اور کیا احساسات یہ جاننے کی مجھے قطعی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اب سے پہلے میں مفت کا غلام بنا اس کے یار کو خط پہنچاتا رہا اور اس نے یہاں ایک سے زیادہ یار پال رکھے تھے۔
رضو جو خود کو محلے کا سب سے بڑا خبری سمجھتا تھا، بے خبری میں تھا کہ اس کی اپنی بلبل کسی اور کے نام کا انڈا دیتی تھی۔ یعنی سب سے زیادی عیاشی اس کی تھی جو سب بڑا حرامی تھا۔
اس نے مجھے ایک بہت بڑی سیکھ دی تھی کہ حرامی بن، حرامی پن دکھا۔ جس نے یہ ٹپ دی تھی سالے اس کی محبوبہ سے میں نے حرامی پین کی ابتدا کی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن میں اتنا حرامی پنا دکھاؤں گا کہ لوگ مجھے میرے حرامی پن کی وجہ سے یاد رکھیں گے۔ اس رضو کی تو میں ماں بہن سبھی کی پھدی بجاؤں گا۔ ہر عورت پھدی مرواتی ہے ، میری ماں بھی مروارہی تھی۔ کوئی میری ماں کو چود رہا تھا اب میری باری تھی کہ میں بھی کسی کی ماں، بہن، بیٹی پر ہاتھ صاف کروں۔
اصولا تو مجھے غیرت کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا کہ اپنی ماں کے یار کو کاٹ ڈالتا مگر نجانے کیوں میرے دل میں ایک وسوسے نے جنم لیا کہ کہیں سالا وہی میرا باپ نہ ہو۔ کیونکہ ابا تو سولہ سال سے باہر تھا اور میں یہاں پیدا ہوا۔ امی کی غیر حاضریاں بھی مجھے اب مشکوک لگنے لگی۔
میں جتنی دیر رضیہ کی گلی میں کھڑا رہا میرے دماغ میں خیالات کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا رہا۔ وہ لڑکا پانچ منٹ بعد ہی عجلت میں نکل گیا۔ شاید اسے رضیہ نے بنا مستفید کیے بھگا دے تھا۔ میں پورے اعتماد نے اپنے تنے ہوئے لن کو مسلتا ہوا، اس کے کھلے دروازے سے اندر داخل ہوا اور کنڈی لگالی۔
رضیہ مجھے خونخوار نظروں سے گھور رہی تھی، وہ سانپ کی طرح پھنکار کر بولی: کیا چاہیے تمہیں؟
میں اطمینان سے بولا : وہی جو رضو اور اس لڑکے کو دیتی ہو تم۔
وہ بولی ؛ بکو اس مت کرو۔ میں تمہاری امی اور بہنوں کو بتادوں گی۔
میں بھی عیاری سے بولا تو میں بھی یہ سب تمہارے گھر کے ایک ایک فرد کو جمع ثبوت گا۔
وہ اچانک ہی گھبر اگئی اور بولی : ثبوت کو نسے ثبوت ؟
میں بولا : میں نے ان سب خطوں اور رقعوں کی فوٹو کا پیاں کر والی تھیں، تاکہ کل کو تم اگر میر انام لگاؤ تو تم بھی صاف بچ نہ سکو۔
وہ کمزور لہجے میں بولی: میں صاف مکر جاؤں گی۔
میں بولا : مگر جب رضو کو چار جوتے پڑیں گے اور تمہاری اماں کو میں ان گولیاں کی تفصیل
بتاؤں گا جو تم کھاتی ہو تو تم بے شک مکر کر دکھانا۔ وہ سب اگلوالیں گے۔
وہ اب منت بھرے لہجے بولی: دیکھو ! سکندر میرے بھائی ۔ تم تو میرے بھائیوں جیسے ہو ، تم ایسی گندی باتیں کیوں کر رہے ہو ؟ بہنوں کے ساتھ ایسے تھوڑی کرتے ہیں۔
میں بولا : واہ ابھائی خط لے جاسکتا ہے ، بہن کو پھدی مروانے کی گولیاں لا کے دے سکتا ہے ، بہن کے یار کو اسے چدوانے کے لیے ساتھ لا سکتا ہے۔ تو پھر وہی بھائی خود کیوں نہیں تمہاری پھدی مار سکتا۔ یار بلوانے کی بھی ضرورت نہیں رہے گی اور خطرہ بھی کم ہوگا۔ کیا سمجھی؟؟
رضیہ بولی: دیکھو میں ایسی لڑکی نہیں ہوں جیسی تم سمجھ رہے ہو۔ وہ تو رضو نے مجھے مجبور کیا تو میں بہت بے بسی میں مان گئی ورنہ میں تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ میں بولا: چلور ضو نے مجبور کیا ہو گا ، اس پینٹ والے نے بھی مجبور کیا ہو گا۔ اب میں بھی مجبور کر رہا ہوں۔ چپ چاپ سے میری بات مان لو ور نہ آج کی رات تم اور تمہارے سارے عاشقوں پر بہت بھاری گزرے گی۔
وہ خاموش ہو گئی، میں جانتا تھا کہ پھدی مروانا اس کے لیے کوئی خاص بات نہیں، بس وہ میرے نیچے نہیں لگنا چاہتی تھی۔
نہ کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا، میں نے آگے بڑھ کر اس کا ایک پستان پکڑ کر دبایا تو اس نے میرا ہاتھ جھٹک دیا۔ میں نے اس بار زور سے اس کا پستان دوبارہ دبایا۔ اس نے پھر جھٹک دیا۔ میں اسے دھکا دیا تو وہ نیچے فرش پر گر پڑی میں فوراً اس کے اوپر سوار ہو گیا۔ رضیہ مجھ سے پانچ چھ سال بڑی تھی مگر میں قد میں اس کے برابر تھا اور اس کی نسبت توانا بھی۔ میں نے اسے بالوں سے پکڑا اور بال نوچ کر بولا : کب سے تجھے پیار سے کہہ رہا ہوں ، پھدی دے دے، پھدی دے دے مگر سالی نخرے کر رہی ہے۔ تیرے ان یاروں کے لنوں کے ساتھ ہیرے لگے ہوتے ہیں جو میرے لن کے ساتھ نہیں لگے چل چپ چاپ لیٹی رہو ورنہ پھدی بھی ماروں گا اور پول بھی کھول دوں گا۔ محلے کےایک ایک مرد کو بتاؤں گا کہ تو کیا کیا کرتی ہے۔
رضیہ ٹسوے بہانے لگی، مگر اس کی مزاحمت نہ ہونے کے بہانے رہ گئی۔
، وہ روتی رہی مگر میں نے شلوار اتاری تو اس نے اتار نے، قمیض ہٹا کر مموں کو دبایا تو اس نے اس سے بھی منع نہ کیا۔
میں نے اپنا ازار بند کھولا اور اپنا تنا ہو الن، اس کی گیلی پھدی پر رگڑا۔ اب یہاں پر مجھے سمجھ نہ آرہا ہو کہ لن جانا کسی سوراخ میں ہے ؟ بہر حال تین چار رگڑوں کے بعد لن خود ہی ایک سوراخ میں غڑاپ سے داخل ہو گیا۔ رضیہ نے ایک پیچ نماسکاری بھر کر مجھے احساس دلایا کہ لن ٹھیک جگہ چلا گیا ہے۔ میر اسالم لن رضیہ کے اندر اتر چکا تھا۔ ایک تو میر ان اتنا موٹا اور لمبا نہیں تھا، دوم رضیہ کئی سالوں سے ایک سے زیادہ مردوں سے چدوار ہی تھی تو اس کی پھدی کافی کشادہ تھی۔ بہر حال ان باتوں کا احساس مجھے بعد میں ہوا۔ اس وقت تو لگے جیسے لن کسی نیم گرم پانی کی تنگ کٹوری میں چلا گیا ہے۔ میں نے کمر سے زور لگا کر رضیہ کے زیادہ سے زیادہ اندر کیا ۔ مگر لن اس سے آگے نہیں جا سکتا تھا کیونکہ لن کی جڑ تک اندر اتر چکی تھی۔ میں دو منٹ اسی طرح رضیہ کے اوپر ساکت لیٹا رہا اور خود کو یقین دلانے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہا کہ میرا لن ایک لڑکی کی پھدی میں ہے۔ اس کے بعد میں اٹھا اور اپنی شلوار او پر کھینچ کر ازار بند باندھنے لگا۔ رضیہ بھی مجھےشلوار پہنتا دیکھ کر بولی: بس! اتنا ہی کرنا تھا؟
میں بولا : ہاں ! بس اتنا ہی۔۔ کیوں کیا ہوا؟
وہ اٹھی اور اپنی شلوار سیدھی کر کے پہنتے ہوئے بولی: نہیں کچھ نہیں۔ اب تو تم جاؤ، اماں آتی ہو گی۔
میں رضیہ کے گھر سے نکلا تو اس کی ماں گلی میں مکان سے دو قدم دور ہی تھی، میں اس سےبولا : سلام خالہ۔۔
وہ بھی جو ابا ایک سرسری نگاہ ڈال کر بولی: وسلام۔۔ سن پتر ۔۔ تو نے فیضو کی دکان دیکھی ہے؟
میں بولا : ہاں خالہ دیکھی ہے؟
وہ بولی: چل میر ابچہ وہاں سے بیسن اور کلو گھی تولا دو، اور کہنا پیسے رضیہ کے ابا کے کھاتے میں بولا : ابھی لو خالہ ۔۔ تم چلو میں لاتا ہوں۔
میں عجلت میں فیضو کی دکان پر پہنچا اور اس سے بیسن اور گھی لے کر رضیہ کے گھر پہنچ گیا۔ رضیہ کی ماں کچن میں پیاز اور دیگر مصالحے کاٹ رہی تھی۔
مزید کہانیوں کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں
-
Lust–25–ہوس قسط نمبر
January 26, 2025 -
Lust–24–ہوس قسط نمبر
January 26, 2025 -
Lust–23–ہوس قسط نمبر
January 26, 2025 -
Lust–22–ہوس قسط نمبر
January 18, 2025 -
Lust–21–ہوس قسط نمبر
January 18, 2025 -
Lust–20–ہوس قسط نمبر
January 18, 2025

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

کالج کی ٹیچر

میراعاشق بڈھا

جنبی سے اندھیرے

بھائی نے پکڑا اور
