Lust–04–ہوس قسط نمبر

ہوس

ہوس ۔۔ نامساعد حالات میں جینے والے نوجوان کی کہانی۔ بے لگام جذبوں اور معاشرے کی ننگی سچائیاں۔ کہانیوں کی دنیا  پیڈ سیکشن کا نیا سیکسی سلسلہ وار ناول

ہوس قسط نمبر 04

میں بولا : رضو بھائی ! اس کی ماں بیمار پڑ گئی ہے۔ کہیں باہر آتی جاتی ہی نہیں ہے ، صبح مجھے دس روپے دیئے دربار پر نیاز کے لیے۔ سامنے ہی لیٹی رہتی ہے۔ کوئی چانس نہیں بن سکتا۔

رضو اس کی ماں کو گالی دے کر بولا : موٹی گشتی سالی ! اسے بھی ابھی بیمار ہونا تھا۔ دو چار دن بعد بیمار ہوتی تو اس کی بیٹی کی پھدی کا مزا اٹھا لیتا۔ اب تین دن ابے کی وجہ سے ضائع ہوں گے اور باقی دو چار دن اس کی ماہواری کے چکر میں گل ہو گئے۔ بہن چود ہفتے دس دن کی چھٹی ہو جائے گی۔

میرے پورے وجود پر نشہ سا طاری تھا، میں لڑکھڑاتا ہو اگھر میں داخل ہوا اور بستر پر جا گرا۔ اس رات مجھے ایسی گہری نیند آئی کہ صبح سکول کے لیے بھی نہ اٹھا گیا۔ امی نے ناشتہ بنایا اور تیار ہو کر اپنی کسی غائبانہ سہیلی کی طرف نکل گئی۔ شاہی آپا اپنے کمرے میں گھس گئی اور ٹیپ میں گانے کی کیسٹ لگا کر رسالے پڑھنے لگی۔ میں اٹھا اور کسلمندی سے نہانے گھس گیا، لن کو مسل مسل کر صابن سے دھو کر نکلا اور دھلا ہو اسوٹ پہنا۔ میں نے آپا کے کمرے میں جھانکا تومجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا کیونکہ جو میں نے دیکھا وہ میرے پورے جسم کو سلگا گیا میں نے دیکھا کہ شاہی اپا فل میک اپ میں بلیک جینز کی پینٹ میں موجود تھی اور اوپر جسم پر کوئی کمیز نہیں تھی وہ صرف ریڈ برا میں موجود تھی اور وہ شیشے کے سامنے اپنے فون میں تصویریں لے رہی تھی

اف قیامت کا نظارہ تھا میرا  ہاتھ خود بخود میری شلوار میں چلا گیا اور میں نے اپنے تنے ہوئے لنڈ کو زور سے پکڑ لیا میرا ذہن اس وقت کچا تھا مجھے مٹھ  مرنا بھی نہیں اتا تھا میں لنڈ کو ہاتھ میں پکڑے  دیکھ رہا تھا کہ اہستہ اہستہ کمرے کا منظر بدلنا شروع ہوا اپا نے پہلے اپنی برا اتاری اور اس کے بعد انہوں نے اپنی جینز بھی اتار دی اور پھر سے فون پکڑ کر تصویریں لینے لگی

اف موٹی گانڈ پتلی کمر سفید رنگ میری جان نکال رہا تھا تبھی اچانک باہر ڈور بیل بجی اور میں جلدی سے اپنے کمرے میں بھاگ گیا میں اس وقت بہت گرم ہو گیا تھا اور میں خود کلامی کرتا ہوا بولا کاش گھر اسی طرح اکیلا ہو اور رضیہ ا جائے

میں گھر سے باہر کھسکنے کی سوچ ہی رہا تھا، رضیہ کا سوچ کر لن تنا ہوا تھا کہ دروازے سے قدرت داخل ہوئی۔ مجھے دیکھ کر اس نے عجیب سامنہ بنایا اور بولی: آنٹی کہاں ہیں؟ میں عیاری سے بولا: سب اوپر والے کو ٹھے میں ہیں۔ تم اندر چل کر بیٹھو ، میں بلا کے لاتاہوں۔

میں نے سیڑھیوں کی طرف قدم بڑھایا مگر اس نے مجھ سے پہلے قدم بڑھا دیئے اور تیزی سے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر والے کمرے میں چلی گئی۔ یہ کمرا محض سٹور تھا، یہاں گھر کا فالتو سامان رکھا تھا، ایک چار پائی بھی پڑی تھی جو کبھی کبھی شام میں چھت پر بیٹھنے کے وقت کام آتی تھی۔

وہ سٹور کے اندر داخل ہو کر بولی: آنٹی۔۔ آنٹی۔۔

میں نے اس کے پیچھے گھس کر دروازہ بند کر دیا۔ وہ متوحش ہو کر پلٹی اور بولی: دروازہ کھولوں۔

میں اس کی طرف بڑھتا ہوا بولا: اچھا کھول دوں گا، پہلے یہاں میرے پاس بیٹھو تو سہی۔ وہ مجھے انگلی دکھا کر بولی: سکندر ! خبر دار اگر تم نے کل جیسی کوئی حرکت کی تو۔۔

میں اپنا لن کو دبا کر بولا: اچھا! نہیں کرتا۔۔ یہاں بیٹھو تو میرے ساتھ۔۔ میں نے اس کا ہاتھ تھامنے کی کوشش کی تو اس نے جھٹ میرے منہ پر تھپڑ مارا اور دروازے کی طرف بھاگی۔ تھپڑ پڑتے ہی میرے اندر جیسے کوئی درندہ جاگ اٹھا، میں نے بھاگتی قدرت کو بالوں سے پکڑا اسے کھینچ کر چار پائی پر    پھینکا۔ اس کی چیخ نکل گئی، میں نے اسے اٹھایا اور چار پانچ تھپڑ اس کے منہ پر مارے اور اس کے اوپر چڑھ گیا۔ وہ بےچینی سے بولی  : امی۔۔ آنٹی۔۔ شاہی آپی۔۔

میں نے اس کے ہونٹوں پر ہ ہتھیلی رکھ دی، مجھے یقین تھا کہ گانے کی آواز میں آپا کو قدرت کی چیخ نہیں سنائی دی ہو گی۔ ہاتھ بڑھا کر اس کی شلوار نیچے کی طرف کھر کادی، وہ شدید مزاحمت کرنے لگی، مگر وہ نہایت دبلی پتلی اور کمزور سی تھی، میں اس سے کافی سے زیادہ جاندار تھا۔ میں نے با آسانی اسے نیچے سے ننگا کر دیا اور اپنا تنا ہوا لن اس کی سخت سی پھدی پر رکھا۔

وہ مجھے دھمکاتے ہوئے بولی: نہیں۔۔ سکندر ۔۔ ایسا کچھ مت۔۔ کرنا۔۔ ورنہ۔۔ میں۔۔ سب کو بتا دوں گی۔

میں طیش میں بولا : بتا دینا۔۔ مگر ابھی تو تجھے بنا چو دے نہیں چھوڑوں گا۔۔ میں نے اس کی ٹانگوں کو اور کھولا کیونکہ میرا لن اس کی پھدی میں نہیں جا پار ہا تھا، میں مسلسل زور لگا تار ہا مگر لن اندر نہ گیا، لن دہراہو کر نیچے یا اوپر نکل جاتا۔ وہ رونے والی ہو گئی اور بولی: پلیز سکندر۔۔۔ مجھے چھوڑ دو۔۔ پلیز میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گا۔۔ اور پھر کبھی اپنی مرضی سے تمہیں دوں گی۔۔۔ آج نہیں ۔۔ میں ضدی لہجے میں بولا : نہیں ! آج تو پھدی ماروں گا ہی۔۔۔

 وہ بولی: نہیں ! سکندر۔۔ بہت درد ہوتا ہے۔۔ پلیز ۔۔ نہیں۔۔

میں نے لن گھسایا تو اس بار لن اس کی پھدی کے لبوں میں ٹک گیا۔ وہ مچھلی کی طرح تڑپی اور میں جو اسے مشکل سے قابو کیے لیٹا تھا، اب ہاتھ کے استعمال سے لن کو گھسانے کی کوشش  میں تھا، وہ پھسل کر میرے نیچے سے نکل گئی۔ وہ تیزی سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی اور بنا شلوار کے ہی لپک کر دروازہ کھولنے کے لیے بھاگی۔ میں نے اسے پکڑنے کی کوشش کی مگر وہ بھاگ کر کنڈی کھول چکی تھی، میں نے تیزی سے اپنی شلوار اوپر کی با مشکل ازار بند باندھا اور اس کی شلوار اور دوپٹہ اٹھا کر نیچے بھاگا۔ وہ سیڑھیوں کے سامنے ہی سرخ چہرا لیے کھڑی تھی اور بولی: سکندر میری شلوار واپس کرو ورنہ میں شور مچادوں گی۔ پھر سب کو پتا چل جائے گا کہ تم نے گندی حرکت کی ہے۔

اب کوئی چارا نہ تھا، میں نے اس کی شلوار اسے لوٹا دی۔ وہ مجھے پر محتاط نظریں جمائے شلوار پہننے لگی، شلوار پہن کر دو پٹہ بھی مجھ سے جھپٹ لیا اور تیزی سے گلی میں نکل گئی۔ مجھے اب ڈر تھا کہ وہ کہیں گھر میں نہ بتا دے۔ تھوڑی ہی دیر میں امی آگئی تو میں کپڑے بدل کر گھر سے نکل کر رضیہ کے گھر چلا گیا۔ میں نے شلوار کی بجائے پینٹ پہن لی تا که ازار بند والا مسلئہ ہی نہ ہو ، زپ اور بٹن کھولا اور پھدی مارلی۔ پروگرام تو دو پہر کا تھا مگر رضیہ کی ماں مجھے گھر سے نکل کر پڑوس میں جاتی دکھائی دے گئی۔ میں سیدھا اندر گھس گیا اور کچن میں آٹا گوندھتی رضیہ کو پکڑ لیا۔ اسے گالوں، گلے پر دو چار بو سے دیئے اور اس کے گداز مموں کو زور سے دبایا ۔

وہ مجھے گالی دے کر بولی: آگیا تو حرامی ؟ دروازہ بند کیا ہے یا یو نہی ہی گھس آیا ؟

میں مموں کے بعد اوپر سے ہی اس کی پھدی کو انگلیوں سے مسل کر بولا: بند کیا ہے نا۔

میں اسے پکڑ کر بولا : چلونا اندر۔۔ مجھے پھدی دو۔

وہ بولی : تیر دل کبھی بھرتا ہے پھدی مارنے سے ؟ اور آج یہ پینٹ شرٹ کس خوشی میں۔

میں بولا : چلو نہ رضیہ باجی۔۔ اندر چلو۔۔ یہ بھی اس لیے پہنی ہے کہ پھدی مارنے میں آسانی ہو۔

وہ بولی : نہیں ! اماں بس ساتھ ہی گئی ہے ، ابھی آتی ہو گی۔

میں لن کو مسلتے ہوئے بولا: پر میں کیسے گزارہ کروں؟

وہ اچانک مجھے عجیب سی نظروں سے دیکھ کر بولی: ایک دوسرا کام کریں؟

میں بولا : کونسا کام؟

وہ مجھے بولی: تو ایسا کر یہاں ٹانگیں پھیلا کر بیٹھ ، میں اوپر بیٹھ کر کرتی ہوں۔ مجھے سمجھ نہ آئی، میں زپ کھول تے ہوئے لن کو نکال کر ٹانگیں سیدھی کر کے بیٹھے گیا، رضیہ نے اٹھ کر اپنی شلوار رانوں تک ہٹائی جس طرح پیشاب کے لیے لیٹرین میں بیٹھتے ہیں ۔

میرے لن پر بیٹھی اور مجھے کہا کہ میں ایک ہاتھ اس کی پھدی پر رکھوں اور دوسرے سے لن اس کی پھدی میں ڈالوں۔

دو تین بار کوشش میں لن اس کی پھدی میں چلا گیا۔ رضیہ کے کولہے میری رانوں پر مکے تھے۔ رضیہ نے ہاتھ بڑھا کر آٹا گوندھنے کی پرات گھسیٹ لی اور آٹا گوندھنے لگی۔ ہل ہل کر آٹا گوندنے سے لن کو بھی مزا آتا کیونکہ رضیہ جان بوجھ ہلتے ہوئے اپنے کو لیے ہلاتی تولن اوپر نیچے ہوتا۔ اس طریقے سے مزا تو آ رہا تھا مگر مجھے اس کے اوپر لیٹ کر اس کے نرم بھرے بھرے جسم کے ساتھ جسم رگڑنے میں زیادہ مزا آتا تھا۔ اس طرح تو اس کی پیٹھ میری طرف تھی۔

وہ پانچ منٹ تک مسلسل ہلتی رہی پھر بولی : بس آٹا ہو گیا، تو اندر چل، میں ہاتھ دھو کر آتی ہوں۔

 میں اٹھا اور کپڑے جھاڑتا ہوا اندر کمرے میں گھس کر بے چینی سے اس کا انتظار کرنے لگا۔ وہ ہاتھ پونچھتی ہوئی آئی اور شلوار پیروں تک اتار کر چار پائی کے کنارے رکوع کی حالت میں کھڑی ہو کر بولی: اب ڈال پیچھے سے۔

میں بولا: ایسے کیسے ؟ تم لیٹو نا ۔۔ میں اوپر سے کروں گا۔

وہ بولی: نہیں پہلے ایسے کرو۔۔ وہ بعد میں کرواؤں گی۔

میں نے ایک دو بار کوشش کی پھر اس نے میرا لن پکڑا اور خود اپنی پھدی میں ڈالا اور

بولی: اب میری کمر کو پکڑ کر اندر باہر کر۔۔ تیزی سے۔۔ ہائے ۔۔ سکندر۔۔ تو کتنا۔۔ مزے۔۔ کا

۔۔ چودتا ہے۔۔ اور ۔۔ تیزی سے۔۔ شاباش۔۔ ہائے۔۔ اوئی۔۔ اماں۔۔ اور تیزی۔۔ سے۔۔ ہائے۔۔ میں جو سمجھ رہا تھا کہ اس طرح مزا نہیں آئے گا میرا لن بہت زیادہ گھے کھا رہا تھا کیونکہ اس کے موٹے چوتڑوں میں سے بھی لن کو رگڑ لگ رہی تھی۔

 وہ سکاریاں لیتی بولی ہائے ۔۔ سکندر ! میری گانڈ کو بھی دبانا۔۔ ہائے۔۔ مزا۔۔ آ۔۔ رہا۔۔ ہے تجھے۔۔؟

میں بھی چودتے ہوئے بولا ہاں !۔۔ بہت۔۔

وہ بولی : تو بول۔۔ نا۔۔ میری گانڈ ۔ ۔ اچھی ہے نا۔۔؟

میں بولا : ہاں !۔۔۔ بہت اچھی ہے۔۔

وہ بولی : سکندر ! تیرا ۔۔ لن۔۔ بہت سخت ہے۔۔ اور زور ۔۔ لگا۔۔۔ چھیل ۔۔ دے میری پھدی۔۔ ہائے ۔۔ اور ۔۔ سکندر۔۔۔ تیزی سے۔۔ کر۔۔

 میں نے رفتار اس کے کہنے کے مطابق بڑھادی۔

وہ مسلسل بولتی رہی، کبھی کہتی

سکندر تیر ان کتنا اکڑا ہوا ہے، کبھی کہتی سکندر میرے چھوٹے بھائی ! بہن کی پھدی کا مزا لے رہا ہے نا۔ میں ہاں میں جواب دیتا

تو کہتی تو بول کہ رضیہ باجی! تیری پھدی رسیلی ہے۔۔ بول کہ باجی! تیری پھدی کا پانی نمکین ہے۔ کبھی کہتی کہ بول کہ میری گانڈ اورممے مزے کے ہیں۔

وہ جو جو مجھے بولنے کو کہتی رہی میں بولتا رہا، میں دس منٹ کے مسلسل جھٹکوں کے بعد چھوٹا۔ اس بار بھی بہت تھوڑا سا پانی نکلا۔ وہ اپنی شلوار اوپر کر کے میرے ہونٹوں کو چومنے لگی، میرا گیلا لن جو اس کی پھدی سے نکلا تھا اور ابھی بھی تنا ہوا تھا اور ڈھیلا ہونے لگا تھا، اس نے منہ میں لے لیا اور چوس کر اس پر سے پھدی کی ساری لیس ختم کر دی۔

وہ بولی: جب میری پھدی مارتا ہے تو اس وقت مجھ سے گندی باتیں بھی کیا کر۔ مجھے بتایاکر کہ میری پھدی کیسی ہے ؟ مجھے کہا کر کہ میں ننگی کیسی لگتی ہوں؟ مجھے کہا کر کہ میں تیری کیا لگتی ہوں اور مجھے کیوں چودتا ہے ؟ یہ ساری باتیں جب جھٹکے لگاتا ہے تب کیا کر سمجھ گیانا ؟

میں سعادت مندی سے بولا : ہاں جی سمجھ گیا۔

وہ بولی: اوپر چل میں آتی ہوں، باتیں کریں گے اور دو پہر کو اماں سو جائے تو دوبارہ چدائی کریں گے۔

میں پینٹ کے بٹن اور زپ کو بند کر تا او پر چلا گیا۔ وہ دس منٹ بعد آگئی۔ اس کی ماں بھی آگئی تھی۔

رضیہ دھیمی آواز میں بولی : اماں ! اب سو جائے گی مگر تو بھی آہستہ بولنا۔

میں نے سر ہلا دیا۔ وہ میری لیے روٹی سالن لائی تھی، جو میں نے چپ چاپ کھالی۔

وہ مجھے چار پائی پر اپنی گود میں بٹھا کر بولی: تو نے پہلی بار میری پھدی ماری ہے نا؟ میں اس کے گلے میں بانہیں حائل کر کے بولا : ہاں ! مجھے ٹھیک سے پھدی مارنے کا اسی دن پتا چلا تھا جب رضو کے ساتھ آیا تھا۔ ویسے سنا تھا مگر دیکھا یا کیا نہیں تھا۔

وہ میرے کو لہے دبا کر بولی: اب تو کر لیانا ؟ کل بھی تو نے چھوٹنے تک ماری اور آج بھی۔

میں بولا : ہاں ! مجھے دونوں بار بہت مزا آیا۔

وه چت لیٹ کر بڑے دلار سے بولی : آجا سکندر ! میرے اوپر لیٹ جا۔ آجا شاباش۔۔ ہاں۔۔ ایسے۔

اس نے ٹانگیں کھول دیں اور میرے لن کو عین اپنی پھدی کے لبوں پر سیٹ کر کے مجھےاوپر لٹا لیا۔

اس کے گرم جسم کے اوپر لیٹ کر مجھے ویسے ہی بڑا مزا آتا تھا۔ اب مجھے سکون ملنے لگا، وہ ہلکا ہلکا سا میرے کولہوں کو دبانے لگی، جس نے لن اس کی پھدی کو رگڑتا۔

وہ زپ کو ایک طرف ہٹا کر لن کو پھدی پر رکھ کر بولی: تیری پینٹ کی زپ بہت سخت ہے۔

میں بولا : پینٹ اتار دوں ؟

وہ بولی: نہیں بھلے پینے رکھ ۔۔ کوئی بات نہیں۔ پینٹ بس ذرا سائیڈ پر کر لی ہے میں نے۔

میں بولا : رضیہ باجی! آج میں نے وہ قدرت ہے نا وہ چکی والے کی بیٹی ، اس کی پھدی میں لن ڈالنے کی کوشش کی، لن اندر گیا ہی نہیں۔

وہ چونک گئی اور بولی: سچی۔۔ تو نے اس کی پھدی مارنے کی کوشش کی؟ ہائے میں مر جاواں۔ اس نے ڈالنا دیا؟ رکھنے میں تو بڑی معصوم بچی سی لگتی ہے۔

میں بولا : نہیں ! میں اسے بہانے سے چھت والے سٹور میں لے گیا اور وہاں اسے قابو کرکے ڈالنے کی کوشش کی مگر لن اندر گیا ہی نہیں اور وہ موقع دیکھ کر نکل گئی۔۔ سالی۔

 رضیه بولی: حرامی ہے ایک نمبر تو بھی۔ اگر وہ گھر پر بتادے تو سمجھ لے تجھے بڑے جوتے پڑیں گے۔ اور اگر تو اس کی مار لیتا اور پتا چل جاتا تو تجھے پولیس پکڑ کر لے جاتی۔

میں بولا : کیا پھدی مارنے سے بندہ جیل چلا جاتا ہے ؟

وہ بولی: ہاں ! اگر دونوں پکڑے جائیں تو دونوں جیل جاتے ہیں۔ اگر لڑکی یہ کہہ دے کہ میری زبر دستی ماری ہے تو بڑی سخت سزا ملتی ہے۔ زیادتی کا کیس بن جاتا ہے۔

میں کچھ تو گھبرا گیا اور بولا: اب کیا ہو گا ؟ وہ بتا تو نہیں دے گی؟

رضیہ بولی: نہیں بتانا ہو تا تو وہ شور کر دیتی اور سب کو اکٹھا کر لیتی۔ وہ بس چپ چاپ رہے گی۔ زیادہ تر لڑکیاں نہیں بتا پاتیں۔ پھدی مروا کر بھی چپ چاپ سہہ لیتی ہیں۔

میں بولا : باجی! ایک بات پوچھوں ؟ تم نے کس سے مروائی تھی پہلی بار ؟ رضو سے یا کسی اور ہے ؟

رضیہ کچھ دیر خاموش ہو گئی ، پھر بولی: تیر اپتا نہیں ہے کیونکہ تو بڑا حرامی ثابت ہواہے، خیر کسی کو بتا نامت، میں بتا دیتی ہوں۔ پکی بات کر ، کسی کو بتائے گا تو نہیں؟

میں بولا : ہاں۔۔ قسم سے کسی کو نہیں بتاؤں گا۔

وہ بولی: وہ میرے وڈے چاچے کا داماد تھا، ایک واری وہ میری چاچازاد پیٹ سے ہوئی تو میں اس کے گھر ایک دو دنوں کے لیے گئی۔ وہیں اس کے خاوند نے پہلی واری میری پھدی مار دی۔ پکا حرامزادہ تھا وہ بھی، اسے یہ بھی پروانہ تھی کہ میں اس کی رشتے کی سالی ہوں۔ میں نے اپنی بہن کو بتایا تو اس نے مجھے گالیاں دیں کہ میں اس کے شوہر کے پاس کرنے کیا گئی تھی۔ میں نے ہی اسے موقع دیا ہو گا۔ پھر مجھے ڈرایا کہ اگر میں نے کسی کو بتایا تو میری شادی نہیں ہو سکے گی اور میں بڑی بد نام ہو جاؤں گی۔ پھر اس رات وہی کام پھر ہوا، اس بار تو اس کمینے نے مجھے بیوی کے سامنے گھسیٹا اور دوسرے کمرے میں لے گیا۔ بیوی نے بولنے کی کوشش کی تو طلاق کی دھمکی دے ڈالی۔ اس بے غیرت نے بھی اپنا گھر بچانے کے لیے میری پھدی چدنے دی۔ یہ ہے دنیا۔

میں جو دم سادھے ملتے ہوئے سن رہا تھا، بولا : پھر کیا ہوا؟

 وہ بولی : میں اگلی سویرے واپس آگئی۔ انیس سال کی تھی تب۔۔ یہ تین سال پہلے کا واقعہ ہے۔

پھر رضو سے یاری ہو گئی، اس نے بھی مجھے زبر دستی ہی کیا، دھیرے دھیرے مزاآنے لگا۔

مزید کہانیوں کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

رومانوی مکمل کہانیاں

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کالج کی ٹیچر

کالج کی ٹیچر -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

میراعاشق بڈھا

میراعاشق بڈھا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

جنبی سے اندھیرے

جنبی سے اندھیرے -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

بھائی نے پکڑا اور

بھائی نے پکڑا اور -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کمسن نوکر پورا مرد

کمسن نوکر پورا مرد -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page