ہوس ۔۔ نامساعد حالات میں جینے والے نوجوان کی کہانی۔ بے لگام جذبوں اور معاشرے کی ننگی سچائیاں۔ کہانیوں کی دنیا پیڈ سیکشن کا نیا سیکسی سلسلہ وار ناول
-
میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا
April 17, 2025 -
کالج کی ٹیچر
April 17, 2025 -
میراعاشق بڈھا
April 17, 2025 -
جنبی سے اندھیرے
April 17, 2025 -
بھائی نے پکڑا اور
April 17, 2025 -
کمسن نوکر پورا مرد
April 17, 2025
ہوس قسط نمبر 05
یہ جنسی واقعات سن کر مجھے پھر سے تناؤ ہو رہا تھا۔ میں بولا: وہ دوسر الڑکا کون تھا؟ وہ بولی : وہ میرے وڈے بھائی کی دکان کے ساتھ ایک دکان میں سیلز مین ہے۔ ایک دو واری بھائی کی روٹی لینے آیا تو مجھے لائن مارنے لگا۔ اچھا منڈا ہے ، مجھے خط لکھتا تھا۔ میں نے بھی سو چا رضو کا کوئی خاص بھروسا نہیں، شاید اس سے بات بن جائے۔ اس لیے میں نےاس کے ساتھ سیٹنگ بنالی۔
میں اس کے کان میں سرگوشی میں بولا : مجھے ہشیاری آرہی ہے۔ پھر پھدی ماریں؟
وہ بھی اٹھ کر قمیض اتارتے ہوئے بولی: چل آج پورے کپڑے اتار کر چدائی کریں۔
میں بولا : ٹھیک ہے، مگر میں اوپر لیٹ کر پھدی ماروں گا۔
وہ بولی: چل سہی ہے۔ اوپر لیٹ کر کر لینا۔ کپڑے تو اتار اپنے۔
ایک منٹ ہی میں ہم دونوں ننگے تھے۔ رضیہ مکمل تنگی کافی حسین اور جاذب نظر لگتی تھی۔ ورنہ ویسے دیکھنے میں وہ عام سی گھریلو لڑ کی دکھائی دیتی تھی۔
میں نے اس کے اوپر لیٹ کر جو نہی لن گھسایا، وہ سکاری لے کر بولی: ہائے سکندر ! اپنی بہن کو مارے گا کیا ۔۔ اوئی۔۔ کتنا۔۔ چودے گا مجھے۔۔ پھدی سے اکتاتا نہیں ہے؟
میں نے جوابا کہا: بس میری جان ! جب تک تم مجھے مزا دو گی، میں چودتا رہوں گا۔
وہ بولی: ہائے۔۔ تیزی سے مارنا۔۔ اگر مجھ سے پیار کرتا ہے تو ۔ پھاڑ دے میری۔۔ ہائے۔۔
میں نے اپنی طرف سے رفتار بڑھادی، رضیہ کی سسکاریاں اور باتیں دونوں جاری تھیں۔ اس کی ان گندی باتوں سے مجھے بھی زیادہ جوش اور ہشیاری محسوس ہوتی تھی۔
وہ بولی: سکندر ! میرے بھائی۔۔ میرے مموں کو دبا اور چوس۔۔۔ ہائے۔۔ اور زور سے مار۔۔ جان لگا۔۔ دے۔۔ میری۔۔ پھدی میں۔۔
میں نے اپنی طاقت صرف کر دی اور ساتھ ساتھ اس کے مموں اور چھاتی کو چومتا بھی رہا۔
وہ بولی ہائے۔۔ مزا آرہا ہے۔۔ بہت۔۔۔ ہائے۔۔۔ اور دو۔۔۔ اماں ۔۔۔ ہائے۔۔
میں بولا : مجھے بھی بہت مزا آ رہا ہے۔۔۔ اور زور لگاؤں ۔۔۔۔؟؟
وہ بولی : ہاں۔۔ مموں کو کاٹ۔۔ دانتوں سے ، ۔۔۔ ہاں۔۔ ایسے۔۔۔ اوئی۔۔
اس نے اب اپنی ٹانگوں کو ہوا میں اٹھالیا، میں نے اس کے ہونٹوں کو چوما تو اس نے اپنی زبان میرے منہ میں ڈال لی اور میری زبان کے ساتھ اسے ملنے لگی، پھر میری زبان اپنے منہ میں ڈال کر اسے چوسنے لگی۔ میں مزے سے اپنی زبان اس کے منہ میں گھسا کر چسوا تا رہا۔ ٹانگیں اٹھا کر چودنے سے میرا لن اس کی پھدی میں زیادہ سے زیادہ گہرائی میں اتر نے لگا۔ اس کی سسکاریاں اور بھی زیادہ واضع اور بلند ہو گئیں۔ مجھے اس بار دس پندرہ منٹ بعد ہی وہی لذت محسوس ہونے لگی جو چھوٹنے سے پہلے ہوا کرتی تھی۔ میں نے اور زیادہ زور لگایا اور لن کو گہرائی میں اتار کر رک کر جھٹکوں کا انتظار کیا، لن کو جھٹکے لگنے لگے۔ میں دن میں دوسری بار اس کی پھدی میں فارغ ہو چکا تھا۔ میں نے لن نکال لیا اور کپڑے پہنے لگا۔ وہ بولی : کل سکول سے واپسی پر آنا۔۔ اس کے بعد ایک دو دن چھٹی ہے میرا مہینہ شروع ہونے والا ہے۔
وہ میرے لن کو چوسنے لگی تھی کہ میں نے منع کر دیا۔ مجھے لن پر اس کی لیس اچھی لگتی تھی۔ میں دبے پاؤں نیچے اترا اور گلی میں اپنے گھر کی طرف جانے لگا۔
اسی وقت ٹونی جو کہ میر ا دوست تھا مجھے ملا اور بولا : اوئے سکندر ! کدھر جا رہا ہے ؟
میں بولا: گھر جارہا ہوں، کیوں؟
وہ بولا : یار اوہ میں اپنے ماموں کی بیٹی کے گھر جا رہا ہوں علی پارک ، کام سے ، تو بھی چل، اکیلا اتنی دور جاتا بور ہو جاؤں گا۔ وہاں سے کوئی مال پانی بھی مل جائے گا، عیش کریں گے۔
میری سوئی لفظ ” بیٹی “ پر اٹک گئی، مجھے لگا ماموں کی پھدی کہا ہے اس نے۔ میں فورا چل پڑا اس کے ساتھ ۔ ہم بس میں چڑھ گئے اور ایک گھنٹے میں آر۔ اے بازار اتر گئے۔ اس کے ماموں کی بیٹی، بیٹی کم اور ماں زیادہ ثابت ہوئی۔ وہ تیس بتیس کی فربہی مائل اور عام سی شکل کی عورت تھی۔ اس کے دو بچے تھے جو دونوں ماں کی ہی طرح ہو۔ موٹے موٹے تھے۔ ٹونی نے اسے کپڑوں کا ایک شاپر دیا جو شاید اس نے سلوانے کی غرض سےہمارے محلے میں بجھوایا ہو گا۔
میں صحن میں بچھے موڑھے پر بیٹھ گیا۔ دس پندرہ منٹ بعد ایک سترہ اٹھارہ سال کی گندمی رنگت والی لڑکی نے مجھے شربت کا گلاس پکڑایا۔ میں نے اس کا غور سے جائزہ لیا۔ وہ سادہ سے لان کے سوٹ میں تھی اور بھرے بھرے جسم کی مالک تھی۔ شکل سے پڑھی لکھی لگ رہی تھی۔ اس نے گلاس خالی ہونے کا انتظار نہ کیا اور واپس لوٹ گئی۔
ٹونی ایک گھنٹے بعد بولا: چل آجا، واپس چلیں۔
راستے میں اس نے مجھے پچاس روپے کا ایک نوٹ دکھایا اور بولا : اماں نے سوٹ کی سلائی کے ایک سو میں کہے تھے۔ میں نے ڈیڑھ سو مانگ لیے۔ میں 50 روپے باجی نے ویسے ہی دے دیئے۔
ہم واپسی پر لشمی گئے اور پچاس روپے میں تکہ بوٹی کے ساتھ بوتلیں پی کر شام ڈھلے گھر آگئے۔
میں نے راستے میں ٹونی سے پوچھا: یار ! وہ لڑکی کون تھی، وہاں ؟
وہ بولا : کونسی لڑکی ، وہ شبانہ ۔۔ ہاں وہ باجی کی نند ہے۔ ادھر کالج میں پڑھتی ہے۔
میں نے سر ہلا دیا۔ گھر میں داخل ہوا تو نورین آئی بیٹھی تھی مگر قدرت نہیں تھی ساتھ۔
میں نے ڈرتے ڈرتے دبے پاؤں اپنے کمرے میں جانے کی کوشش کی تو شاہی آپا کی آوازآئی: اوئے سکندرا ادھر آ۔
میرا رنگ اڑ گیا، میں مرے مرے قدموں سے آپا کے پاس پہنچ تو آپا بولیں: کدھر تھا تو سارا دن؟
میں بولا : ادھر ہی محلے ہی میں تھا۔ اور کہاں جانا ہے ؟
وہ بولی: گھر کے سو کام ہوتے ہیں، بازار سے کچھ منگوانا ہوتا ہے اور تو ہے کہ ہمیشہ غائب ہی ہوتا ہے۔ پہلے تو نکڑ پر مل جایا کرتا تھا، اب کہاں دفع ہو جاتا ہے۔
میں بولا: وہ آپا کہتے ہیں کہ راستوں میں نہیں بیٹھنا چاہیے تو سائیڈ پر دوستوں کے ساتھ بیٹھتا ہوں۔
آپا نے گھورنا جاری رکھا اور بولی: اچھا چل اب۔ روٹی کھالے اور پھر جا کر انڈے لے آناشتے کے لیے۔
میں بولا: وہ آپا روٹی میں نے نہیں کھانی، پیسے دو انڈے لے آتا ہوں۔
آپا بولی: تو نے ناشتے کے بعد سے کچھ نہیں کھایا، ابھی بھی بھوک نہیں ہے۔
میں بولا : وہ ایک دوست کی امی نے کڑاہی پکائی تھی وہ کھالی۔ اب شام کو ٹونی نے تکا بوٹی اور بوتل پلادی۔ بس پیٹ بھر گیا۔
آپا بولی : لو ۔۔ ہم پریشان ہیں کہ صاحب بھوکے ہوں گے، یہ تکے اڑا کر آرہا ہے۔ چل جا اور انڈے لا۔
میں انڈے لا رہا تھا کہ رضو مل گیا۔
وہ بولا : اب کہاں گم ہے شام سے ؟ کیا بنا میرے کام کا ؟
میں بولا : رضو بھائی ! تمہارا پیغام دے دیا تھا۔ اس کی ماں گھر پر ہی رہی۔ اب بتاؤ میں کیاکروں؟
وہ منہ بنا کر ایک طرف چلا گیا، ظاہر تھا رضیہ کی پھدی نہ ملنے پر اسے غصہ اور جھنجھلاہٹ ہو رہی تھی۔
اگلی دو پہر کو میں رضیہ کی طرف گیا تو رضو گلی ہی میں تھا۔
وہ بولا : ابے! تیراہی انتظار کر رہا تھا۔ جا اور اس سے پوچھ کر آ۔ آج کل میں کام کروادے بھائی۔۔ پورے 20 روپے انعام دوں گا۔
میں بولا : رضو بھائی ! تم مارنے والے ، وہ مروانے والی اب میں اس میں کیا کروں؟
وہ پانچ پانچ کے چار نوٹ میری جیب میں ڈال کر بولا : اب تو جانا۔ آج کی سیٹنگ جمادے بھائی۔
میں نے دروازہ بجایا تو رضیہ بولی: ہاں ! آجا۔
میں سرگوشی میں بولا : باجی ! وہ رضو بھی کھڑا ہے۔
وہ کوفت سے بولی: میرا بالکل موڈ نہیں، اس کو پھدی دینے کا۔
میں بولا : اب کیا بہانہ بناؤں ؟
وہ بولی: تو بول کہ مجھے مہینہ آج سے شروع ہو گیا ہے اور اماں اوپر چھت پر ہے۔
میں واپس گیا اور رضو کو اشارہ کر کے گلی سے دور بلوایا اور بولا: وہ بھابھی نے بولا کہ مہینہ شروع ہو گیا ہے اور اماں اوپر چھت پر کام کر رہی ہے۔
وہ رضیہ اور اس کی ماں کو گالیاں بکتا موٹر سائیکل پر بیٹھا اور نکل گیا۔ میں ایک دو منٹ بعد دوبارہ گیا تو دروازہ کھلا تھا۔ میں دبے پاؤں داخل ہوا اور کنڈی چڑھا کر کمرے کی طرف گیا۔ حسب توقع اس کی ماں مدہوش سوئی پڑی تھی اور رضیہ اوپر چھت پر تھی۔
میں اوپر چھت پر گیا تو وہ بولی: سکندر ! تو ایک کام کرے گا؟
میں پینٹ کا بٹن کھول کر بولا : کیا باجی؟
وہ بولی: تو میرے ساتھ ایک کھیل کھیل۔ میں تیری استانی بنتی ہوں، تجھے پڑھاؤں گی، پھر میں پیشاب کرنے جاؤں گی تو تو مجھے پکڑ لینا اور زبردستی کر کے میری پھدی مار لینا۔
میں جو جلد از جلد لن اس کی پھدی میں گھسانا چاہتا تھا، بولا : اس سے کیا ہو گا؟
وہ بولی : بس مزا آئے گا۔ تو کر تو سہی۔ شاگر داستانی کی زبردستی عزت لوٹ لے گا، یہ کھیل کر مزا آئے گا۔
مجھے اس کی یہ عجیب منطق سمجھ تو نہ آئی مگر میں نے حامی بھر لی۔ رضیہ نے ایک دوپٹہ اوڑھا اور سلیقے سے جسم ڈھانپ پر میرے سامنے بیٹھ گئی۔
ایک پر انا اخبار جہاں پڑھاتی ہوئی بولی: آپ روز بنا سبق یاد کیسے آتے ہیں۔ اب کی بار میں نے آپ کو سخت سزادینی ہے۔ سمجھے گئے آپ ؟
میں خوفزدہ لہجے میں بولا: جی میں۔۔ کل سے کام یاد کر کے آیا کروں گا۔
رضیہ بولی: اب یہاں سے بالکل مت ہلنا، میں ابھی آرہی ہوں۔
وہ اٹھی اور شلوار پیشاب کے انداز میں اتار کر مجھ سے کچھ دور جھوٹ موٹ کا پیشاب کرنے لگی۔ میں اٹھا اور اچانک اسے دھکا دیا۔ وہ پیروں کے بل بیٹھی تھی اوندھی گرگئی، میں لن نکال کر اس کے اوپر لیٹ گیا۔
وہ غصہ کر کے بولی: یہ کیا بد تمیزی ہے ، آپ کی جرات کیسے ہوئی بنا اجازت میرے ٹائیلٹ میں آنے کی ؟
میں نے اس کی ننگے کولہوں پر دھکے لگائے اور بولا : مس! آج میں آپ کو سزا دوں گا اور آپ کی پھدی ماروں گا۔ میں کب سے آپ کی پھدی کو سوچ کر لن کا کھڑا کر کے بیٹھاتھا۔
رضیہ بولی: بکو اس مت کریں، میں آپ کی ٹیچر ہوں، استانی ماں ہوتی ہے ، اس کے ساتھ ایسی گندی باتیں نہیں کرتے۔
میں بولا : مجھے نہیں پتا، میں آپ کی پھدی ماروں گا اور ضرور ماروں گا۔ میں نے اس کی قمیض اوپر کی اور شلوار اتار نے لگا۔ رضیہ نے جھوٹ موٹ کی مزاحمت کی مگر سیدھی نہ ہوئی اور شلوار بھی اتر گئی۔ میں نے اس کی پھدی کے لبوں کو انگلی سے مسلا اور لن کولہوں کے شگاف کے بیچ رگڑا تو رضیہ تڑپ کر بولی: اوئی۔۔ سکند را آپ نےیہ کیا مجھے لگایا ہے؟
میں نے لن اس کی مٹھی میں پکڑایا اور بولا : مس! یہ میرا لن ہے۔
وہ لن دبا کر سہم کر بولی: یہ اتنا سخت۔ مجھے تو مار ڈالے گا۔ پلیز مجھے چھوڑ دیں مجھے بہت درد ہو گا۔
میں بولا : ہاں ! جب آپ ہمیں فٹے سے مارتی ہیں تو ہمیں بھی درد ہوتا ہے۔
وہ بولی : آپ بھی مجھے فٹے سے مار لیں، یہ مت میرے اندر گھسائیں۔۔ میں آپ کی منت کرتی ہوں۔
میں نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی اور لن کو نیچے کی طرف گھسایا، جس کی عزت لٹنے والی تھی اس نے خود نہ صرف ٹانگیں کھول دیں تاکہ لن اندر جا سکے بلکہ جب مجھ سے نہیں گھسایا گیا تو ہاتھ سے پکڑ کر گھسا لیا
اور چیخی : ہائے۔۔ امی۔۔ میری عصمت لٹ گئی۔۔ اوئی۔۔ میں مر گئی۔۔
رضیہ دھیمی آواز میں بولی : تم کہو میں آپ نے بچہ سمجھ کر مجھے مارا، اب میں آپ کی پھدی سے آپ کے اندر اپنا بچہ پیدا کروں گا۔ آج آپ کا ریپ ہو گا، پھدی سے خون نکلے گا۔
میں نے اس کا کہا ڈائیلاگ دہرا دیا۔
وہ جھوٹ موٹ روتے ہوئے بولی: اگر مجھے پتا ہو تا کہ آپ کا لن اتنا بڑا ہے تو میں کبھی آپ کو نہ مارتی۔
میں بولا : اب تو جو ہونا تھا ہو گیا۔ پھدی کا پردہ پھٹ گیا ہے ، اب سیدھی ہو کر چد والیں۔
وہ سیدھی چت لیٹ کر مجھے اشارے سے اپنی چھاتی چوسنے کو بولی تو میں نے زبر دستی ہی اس کی قمیض اوپر کی
اور بولا : مس! آج میں نے ناشتے میں دودھ نہیں پیا، وہ میں ڈائریکٹ آپ کے مموں سے پیوں گا۔
وہ بولی: نہیں پلیز ا یہ دودھ میں نے اپنے بچوں کے لیے سنبھال کر رکھے ہیں، انھیں جھوٹا مت کریں
میں بولا : آپ کے بچے بھی تو میرے لن کی وجہ سے پیدا ہوں گے، پہلے ان کا باپ تو پی لے۔
میں نے اس کے مموں کو خوب چوسا اور نجانے کب مجھے یہ فیلنگ آنے لگی کہ میں رضیہ کو نہیں بلکہ واقعی اپنی کسی ٹیچر کاریپ کر رہا ہوں۔ میں نے آنکھیں موندیں تو سکول کی ایک خوبصورت استانی کا عکس آنکھوں میں اتر آیا اور مجھے وہی مزا آنے لگا جو اس ٹیچر کو چود کر ملتا۔ میں اس دن نا صرف جلدی چھوٹ گیا بلکہ منی بھی خوب گاڑھا اور زیادہ نکلا۔
رضیه منی چوت میں محسوس کر کے بولی: لگتا ہے اب تمہارا سسٹم بھی چل پڑا ہے۔ اب تم بھی بچے پیدا کر سکتے ہو۔
میں مزید ایک گھنٹہ وہاں رہا پھر گلی میں نکل آیا۔ میں رضو کے گھر کے پاس سے گزرا تو اس کی بڑی بہن چھیمو نے آواز دی۔ رضو کی یہ بہن بیوہ تھا اور چالیس سال کے لگ بھگ تھی۔ میرے جتنے تو اس کے بچے تھے۔
وہ بولی: اوئے سکندر ! سن ادھر آ۔ تو نے ٹونی کو دیکھا ہے؟
میں بولا : نہیں تو ! پر سوں دیکھا تھا، کیوں خیر ہے؟
وہ بولی: اچھا! یہ جوڑے تو اس کے گھر دے آ۔
میں نے زنا نے سلے ہوئے جوڑے دیکھے تو بولا: یہ اس کی کینٹ والی ملویر (ماموں زاد) کے ہیں ناں؟
وہ بولی:ہاں اس کے ہیں پر تم کیسے جانتے ہو
میں بولا : وہ جی کل پر سوں بھی وہ بتارہا تھا کہ سوٹ دے کر آیا ہے۔
وہ بولی: ہاں ! یہ تین جوڑے اس کی ماں کو دے دے اور بول کہ بجھوا دے۔ تین سو روپے لینے ہیں ان کے۔ سمجھا۔ وہ میں ٹونی کی ماں سے لے لوں گی۔
مزید کہانیوں کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں
-
Lust–25–ہوس قسط نمبر
January 26, 2025 -
Lust–24–ہوس قسط نمبر
January 26, 2025 -
Lust–23–ہوس قسط نمبر
January 26, 2025 -
Lust–22–ہوس قسط نمبر
January 18, 2025 -
Lust–21–ہوس قسط نمبر
January 18, 2025 -
Lust–20–ہوس قسط نمبر
January 18, 2025

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

کالج کی ٹیچر

میراعاشق بڈھا

جنبی سے اندھیرے

بھائی نے پکڑا اور
