Lust–06–ہوس قسط نمبر

ہوس

ہوس ۔۔ نامساعد حالات میں جینے والے نوجوان کی کہانی۔ بے لگام جذبوں اور معاشرے کی ننگی سچائیاں۔ کہانیوں کی دنیا  پیڈ سیکشن کا نیا سیکسی سلسلہ وار ناول

ہوس قسط نمبر 06

میں نے شاپر سنبھال لیا اور ٹونی کے گھر کی طرف گیا۔ اچانک مجھے کل والی وہ لڑکی یاد آگئی جس نے شربت پلایا تھا۔ میں خود کلامی کرتے ہوئے بولا : چل بھئی! اج بنا سکندر کے جاکر دیکھتے ہیں۔

میں ایک بس میں چڑھ کر آر۔ اے بازار کی طرف چلا گیا۔ بچہ ہونے کی وجہ سے کسی نے کرایہ طلب ہی نہ کیا۔ میں سوا گھنٹے بعد ٹونی کی کزن کا دروازہ بجارہا تھا۔ صد شکر کہ دروازہ کھولا ہی شبانہ نے تھا۔ وہ دروازہ نیم واکر کے بولی: ہاں جی۔

میں بولا : وہ باجی سے ملنا ہے۔

وہ بولی بھا بھی تو گھر پر نہیں ہیں۔ آج سکول میں کچھ کام تھا۔

مجھے تب پتا چلا کہ اس کی بھا بھی سکول ٹیچر تھی۔ سکول ٹیچر سے میرے دماغ میں سکول ٹیچر کی زبر دستی کی چدائی تازہ ہو گئی۔ ویسے بھی اس چدائی کو گھنٹہ دو ہی تو ہوا تھا، لن ابھی بھی لیس دار تھا

میں بولا : اچھا! تو میں انتظار کر لیتا ہوں۔

اس نے دروازہ کھول دیا اور مجھے صحن میں بٹھا دیا۔ وہ میرے لیے حسب توقع روح افزالے آئی۔

شربت پی کر میں نے اس کا جائزہ لیا۔ وہ اٹھارہ انیس سال کی تھی، اس کی رنگت گندمی اور جسم بھر ابھر تھا۔ اس کی چھاتی ، کمر اور کو لیے بھاری تھی۔ اس کی ناک بھی پھیلی ہوئی تھی مگر ہونٹ گداز اور رسیلے تھے ۔ مکمل طور پر وہ ایک عام قبول صورت لڑکی تھی۔ وہ خاصی خاموش طبع اور اداس سی تھی۔ میں نے شربت پی کر گلاس واپس کیا تو وہ گلاس لے کر اندر چلی گئی۔ میں دعا کرنے لگا کہ ٹیچر کی طرح کاش یہ بھی کہیں پیشاب کر رہی ہو اور میں رضیہ کی طرح اس کا بھی ریپ کر دوں۔ میں نے ڈرتے دل کے ساتھ اس کے پیچھے اندر قدم بڑھائے، وہ کچن میں گلاس دھو کر واپس رکھ رہی تھی۔ میں نے ہلکا سا کھنگار ا تو وہ حیرت سے واپس مڑی، اسے میرے گھر کے اندر چلے آنے کی امید نہ تھی۔

وہ مجھ سے سوالیہ انداز میں بولی : کچھ چاہیے کیا؟

میں بولا: جی نہیں ! وہ میں بور ہو رہا تھا تو سوچا آپ سے پوچھ لوں کوئی کام تو نہیں ہے۔

وہ مجھے غور سے دیکھ کر بولی: نہیں کوئی کام نہیں ہے۔

میں خود بھی نروس ہو رہا تھا، سو بولا : آپ کچھ پریشان لگ رہی ہیں جی۔

وہ کچھ نہ بولی اور کچھ دیر بعد بولی: آپ باہر چل کر بیٹھیں۔ بھا بھی آتی ہوں گی۔ میں واپس صحن میں آکر موڑھے پر بیٹھ گیا۔ چار پانچ منٹ بعد وہ دوبارہ آئی اور بولی: لگتا ہے بھابھی کو دیر ہو جائے گی، آپ جانا چاہیں تو چلے جائیں۔ میں بولا : نہیں جی۔ میں انتظار کروں گا، اتنی دور سے روز آنا بہت مشکل ہے۔

وہ میری قریب ہی دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑی ہو گئی۔ میں نے ہمت کر کے پوچھا: وہ جی آپ کیا کرتی ہیں ؟

وہ بولی: میں فرسٹ ائیر میں پڑھتی ہوں۔

 

میں بولا : میں بھی 9th میں پڑھتا ہوں۔ آپ کے بھائی کہاں ہوتے ہیں؟

 

وہ بولی : وہ نیوی کے سمندری جہاز پر کام کرتے ہیں۔ دو تین مہینوں بعد آتے ہیں.

 

میں بولا : آپ اتنی اداس کیوں رہتی ہیں ؟

 

وہ پہلی بار مسکرا کر بولی: میں تو اداس نہیں رہتی۔

 

میں بولا : اب آپ نے مسکرایا ہے ناجی۔ اب آپ بہت پیاری لگی ہیں۔ آپ ہمیشہ ایسےہی مسکراتی رہا کریں۔ بڑی پیاری اور سوہنی لگتی ہیں۔

 

وہ بولی: تم کیسی مکھن والی باتیں کرتے ہو ؟ میں بولا : نہیں نہیں جی۔ اس میں مکھن والی کونسی بات ہے ؟ آپ پیاری ہیں تو پیاری ہی لگیں گی۔

 

وہ کھل کر مسکرانے لگی۔ تھوڑی ہی دیر میں میں نے اس سے باتوں باتوں میں گھر کا روٹین جان لیا۔ وہ کالج میں جاتی تھی مگر ان دنوں پرچے ہونے والے تھے تو کالج میں چھٹیاں تھیں۔ اس کی بھا بھی ایک سکول میں پڑھاتی تھی۔ وہ صبح ساڑھے سات جاتی اور ڈھائی بجے لوٹتی۔ اس دوران شبانہ گھر میں اکیلی ہوتی تھی۔ یہ بہت بڑی معلومات تھی۔ اسی دوران اس کی بھا بھی آگئی، شبانہ بڑی تیزی سے اندر گئی اور دو پٹہ اوڑھ کر آ گئی۔ بھا بھی نے سوالیہ انداز میں مجھے دیکھا تو میں نے شاپر اس کی طرف بڑھا دیا۔ اس نے میرے سامنے ہی کپڑے نکال کر دیکھے اور بولی : پیسے اندر سے لادیتی ہوں۔اس نے مجھے 150 کے حساب سے 450 دیئے۔ میں نے نوے روپے لوٹاتےہوئے کہا

 باجی ! اب جب بھی سوٹ سلوانا ہو مجھے دینا۔ میں ایک سو میں میں ہی باجی چھیمو سے سلوا دیا کروں گا۔ نوے روپے بچنے پر اس نے خوشی کا اظہار کیا۔ میں نے ایک اور جھوٹ بولا کہ میں یہاں قریب ہی ٹیوشن پڑھنے آتا ہوں تو واپسی پر ہو تا جایا کروں گا تا کہ اگر کبھی کوئی سوٹ یا کوئی اور کام ہو تو بتا دیں۔ میں جانے لگا تو اس کی بھا بھی بولی: سکندرا تم اتوار کو فارغ ہو تو آ جانا۔ میں نے ایک دعوت رکھی ہے کچھ کام کاج کروا دینا۔ میں نے سر ہلا دیا۔ ادھر شبانہ نے بھی الوادعی مسکراہٹ سے نوازا اور میں خوشی خوشی واپس ہو لیا۔ اتوار تو دور تھی مجھے تو کل ہی آنا تھا۔

 

اگلے دن میں نے صبح صبح چھیمو کو تین سو ساٹھ روپے پکڑائے اور سکول جانے کی بجائے آر۔ اے بازار والی بس میں بیٹھ گیا۔ نو بجے کے قریب میں نے دروازہ بجایا تو شبانہ نے کھولا ۔ وہ ڈھلے ڈھالے کرتے اور شلوار میں تھی۔ اس کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ ابھی تک سورہی تھی۔

 

مجھے دیکھ کر بولی: ہاں ! سکندر اتنی صبح کیا کام ہے ؟

 

میں بولا : وہ جی باجی نے بلوایا تھا۔

 

وہ بولی بھابھی نے کب بلوایا تھا؟ انھوں نے اتوار کا کہا تھا۔ اس دن دعوت ہے ایک چھوٹی سی، بھا بھی کی ایک دو سکول والی دوستیں آئی ہیں۔ آج کا تو نہیں کہا تھا۔

 

میں بولا : بس جی میرا دل چاہا تو میں آج ہی آگیا۔

 

وہ بولی: اچھا! اب آگئے ہو تو آجاؤ۔

 

وہ بولی : دراصل میں جسم میں درد تھا تو میں لیٹ گئی، کل سے طبیعت بڑی بو جھل ہےمیری۔

 

میں جھٹ سے بولا : میں آپ کا جسم دبا دوں؟

 

وہ حیرانی سے بولی : کیا مطلب دبا دوں؟

 

میں بولا: وہ ہمارے محلے میں ایک پڑوسی ہیں وہ جب بھی جسم میں درد کا شکار ہوں، میں ان کا جسم دباتا ہوں،انھیں سکون آجاتا ہے۔ بلکہ اصل سکون تو تب آتا ہے جب میں ان کو مالش کرتا ہوں۔

 

وہ ہنس کر بولی : تم سبھی کے یونہی کام کرتے ہو ؟

 

میں بولا : ہاں جی ! سب کے کام بھاگ بھاگ کر کرتا ہوں۔

 

وہ بولی: سب کے کام کرتے ہو تو اپنا کام کب کرتے ہو ؟

 

میں بولا: میں جن کے کام کرتا ہوں وہ میرا بھی خیال رکھتے ہیں۔

 

وہ نا سمجھی سے بولی: خیر ، چھوڑو۔ بتاؤ کیا دوں ؟ شربت یا چائے ؟

 

میں بولا : نہیں جی، بس میں آپ کو دباؤں گا۔ ایک بار طبیعت بہل جائے تو پھر آپ جو مرضی دے دینا۔ ابھی آپ اندر چل کر لیٹیں۔ میں دباتا ہوں۔

 

وہ مجھے منع کرتی رہی مگر میں اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے کمرے میں لے گیا اور اسے بستر پر گرا کر اس کے پیروں کو گھر گھدی کے انداز میں دبانے لگا، وہ پہلے تو ہنستی اور کھکھلاتی رہی، پھر جو ابا مجھے بھی گھر گھدی کرنے لگی۔ اس شر انا چھیڑ خانی میں کئی بار میرے ہاتھ اس کی بھاری چھاتی اور کولہوں کو چھو گئے مگر نہ اس نے اس کا نوٹس لیانہ میں نے ایسا ظاہرکیا کہ ایسا جان بوجھ کر ہوا ہے۔

 

تھوڑی ہی دیر بعد میں نے اسے بازؤں میں جکڑ لیا اور چت لٹا کر اوپر لیٹ گیا، وہ ابھی ہنس کر مجھے نیچے اتارنے کی کوشش کرنے لگی، مگر اب میں سکندر کی بجائے ایک حرامی

مرد میں ڈھل چکا تھا۔

میں نے پورے جوش اور طاقت سے اس کی پھدی کے لبوں پر چار پانچ گھسے مارے۔ وہ جو ہنس رہی تھی اچانک سنجیدہ ہو گئی۔ تنا ہوا لن پھدی پر جان بوجھ کر دباؤ ڈالے اور ایک لڑکا چاہے کم عمر ہی کیوں نہ ہو تنہا گھر میں اوپر چڑھا ہوا ہو تو لڑ کی کو سمجھنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ وہ مجھے سنجیدگی سے بولی: سکندر ! مجھے چھوڑو اور میرے اوپر سے ہٹو۔ میں نے دو چار اور گھے لگائے اور بولا : ایک دو منٹ اور باجی۔ وہ بولی: میں نے کہانا ہو۔۔ ابھی ہٹو۔

 

میں اس کے اوپر سے ہٹا تو اس فور دو پٹہ ڈھونڈ کر چھاتی کے بھاری ابھار کو ڈھانپ لیا۔ مجھے کنکھیوں سے دیکھا اور میر اتنا ہو الن جو شلوار میں صاف دکھائی دے رہا تھا، وہ بھی محسوس کیا اور بولی: تم اب جاؤ۔ بھا بھی دو پہر میں آئیں گی۔ تم شام میں آنا۔

 

میں بولا اچھا پانی تو پلادی 

 

وہ اٹھی اور کچن میں چلی گئی۔ میں بھاگ کر گیا اور برآمدے کا دروازہ بند کر کے کنڈی لگا

 

دی۔ واپس آیا تو وہ گلاس میں فریج سے بوتل نکال کر پانی بھر رہی تھی۔

 

میں کمرے میں پہنچا تو وہ گلاس لا رہی تھی۔ میں دوبارہ اس کے بیڈ پر بیٹھ گیا۔ میں نے گلاس تھام لیا اور پانی پی لیا۔ مجھ میں خود ہمت نہیں ہو رہی تھی مگر ان تھا کہ مجھے اس کی پھدی کو چودنے کے لیے ہر حد سے گزر جانے کی ترغیب دے رہا تھا۔ میں نے گلاس لوٹانے کے ہاتھ بڑھایا، اس نے گلاس تھامنے کی کوشش کی تو میں اچانک اس کی کلائی تھام اسے اپنی طرف کھینچا۔ وہ اس غیر متوقع جھٹکے سے میرے اوپر ہی آن گری، میں نے اچانک ہی پلٹا کھایا اور دوبارہ اس کے اوپر چڑھ گیا۔ اس بار اس نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی مگر میں رضیہ کی مزاحمت کی طرح اس کی ٹانگوں کو قابو کیا اور شلوار کے اوپر سے ہی اس کی پھدی کو رگڑا۔

 

وہ غصے سے بولی: یہ کیا کر رہے ہو سکندر ؟ کیا بد تمیزی ہے یہ ؟

 

میں نے رضیہ کو بولے گئے ڈائیلاگ جیسا ایک ڈائیلاگ مارا: آپ کی پھدی مار رہا ہوں ، شبانہ باجی

 

وہ غصے سے بولی: کیا بک رہے ہو ، اٹھو میرے اوپر سے، گھٹیا انسان، باجی کہہ کر ایسی گندی حرکت ؟

 

میں بولا : بس مجھ سے رہا نہیں جا رہا۔۔

 

میں نے اس کے گالوں، گردن، منہ اور ہونٹوں کو بے تحاشا چومنا شروع کر دیا۔ اس چومنے میں میں نے یہ چیز فراموش کر دی کہ میرے چومنے کے ساتھ ہی اس کی مزاحمت کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے اور اس نے مجھے ہٹانا اور برابھلا کہنا بند کر دیا ہے۔ احساس ہو اسر اٹھا کر تو ساکت چت پڑی شبانہ کو دیکھا جو گہری سانسیں لیتی ہوئی

 

مجھے بولی: اب کرو بھی۔ جو کرنا ہے۔

 

میں بولا : پھدی مار دوں نا آپ کی ؟

 

وہ بولی: اور میں کیا کہہ رہی ہوں۔۔ مارنی ہے تو مار لو۔۔۔ جلدی کرواب۔۔

 

میں نے فوری طور پر اس کی شلوار اتاری اور اس کی بھری بھری چھوٹے چھوٹے بالوں سے مزین پھدی جو کہ گیلی ہو چکی تھی، کے لبوں پر اپنالن رکھا اور جھٹکا دیا۔ شبانہ کی سکاری نکل گئی، وہ سیسكی لے کر بولی ؛ ہائے۔۔ امی ۔۔ آہ۔۔ آرام سے۔۔ کرو۔۔نا۔

 

میں نے لن پورا گھسا دیا، لن بنا کسی مشکل پورا چلا گیا۔ شبانہ کی پھدی اور جسم بھر بھرا تھا ۔ اس کی پھدی تنگ اور نرم تھی۔ میں نے جھٹکے لگانے شروع کر دیئے، ساتھ ہیساتھ شبانہ کے بھاری مموں کے ساتھ بھی انصاف شروع کیا۔ ان کو بھی چوس چوس کر لال کر دیا۔ وہ پہلے تو چپ چاپ ہی لیٹی تھی بعد میں اس نے آہیں بھر نا شروع کر دیا، وہ آہ بھر کر بولی: ہائے۔۔ سکندر۔۔ مجھے پورا ننگا تو کرو۔۔۔۔ ہائے ۔۔ آرام

سے۔۔ کرو۔۔۔ ہائے۔۔ میں نے اس کی قمیض اوپر کر دی جو جسم سے الگ تو نہ ہوئی مگر وہ ایک قسم کی مکمل ننگی ضرور ہو چکی تھی۔ اس کی پھدی رضیہ کے مقابلے میں بخار کی طرح گرم تھی اور میرے لن کو رگڑ بھی بہت لگ رہی تھی، اس کے نرم جسم کے اوپر لیٹنا بھی رضیہ کی نسبت زیادہ گداز محسوس رہی رہا تھا۔ مکمل ننگی ہو کر وہ قدرے زیادہ فربہی مائل محسوس ہونے لگی، جسم پر ایک دو جگہ داغ بھی تھے مگر جو بھی تھا، اس کی پھدی مزیدار تھی۔ اس کی پھدی میں جھٹکے لگاتا ایک بات میں سوچ رہا تھا کہ جب شبانہ جیسی اچھی شکل و صورت والی جوان لڑکی اتنی آسانی سے چدوانے کو راضی ہو سکتی ہے تو اس سالی سری سوکھی قدرت جس کا گہرا رنگ تھے، مے نہ ہونے کے برابر تھے، اسے کیا موت پڑی تھی جو اتنا ڈرامہ اور ہنگامہ کیا۔ میں اس کے اوپر سے ہٹا اور لن نکال لیا، وہ ٹانگیں سکیڑ کر اپنی پھدی کو انگلیوں سے چھو کر بولی : کیا ہوا بس ہو گیا ؟؟؟ تمہارا نکل گیا ؟؟

 

میں بولا : نہیں ! آپ اب الٹی لیٹ جائیں۔

 

وہ بولی: میں نے پیچھے نہیں ڈلوانا۔۔

 

میں بولا : آگے ہی ڈالوں گا مگر پچھلی طرف سے۔

 

وہ الٹی لیٹ گئی، اس کے بھاری کولہوں میں سے جب چار پانچ دھکے لگائے تو وہ

 

بولی : ہائے ۔۔ سکندر ! مجھے ایسا لگ رہا ہے۔۔ جیسے پیشاب آرہا ہو۔۔۔ ہائے۔۔ جلدی۔۔ کرو۔۔ بس۔۔ اب۔۔

 

شبانه خوب مزے لیتی کبھی بولنے لگ جاتی اور کبھی خاموش ہو جاتی، میں نے جم کر اس کی

 

پھدی کو میں پچیس منٹوں تک چودا پھر چھوٹ گیا۔

 

میں اس کے اوپر سے اٹھاتو وہ بولی بہت کمینے ہو تم۔ میں تو تمہیں بچہ سمجھتی رہی۔۔ ہائے

ایسی ماری ہے کہ درد ہو رہا ہے۔

 

میں بھی اپنی شلوار پہنتے ہوئے بولا : آپ کی پھدی بھی بہت مزے کی ہے۔

 

وہ ہنس کر بولی بھی مطلب ؟؟؟ اور کس کس کی مزے کی ہے ؟؟؟ کتنی مار کر دیکھی ہیں تم نے ؟

 

میں نے جھوٹ بول دیا: بس یہی دو تین۔۔

 

وہ اسی شلوار سے پھدی کو خشک کرتے ہوئے بولی: اچھا۔۔۔ مجھے اس وقت تک تمہاری

خراب نیت کا احساس نہیں ہوا جب تک تم نے وہ جھٹکے نہیں لگائے۔

 

میں بولا : آپ نے پہلے کس سے مروائی تھی ؟

 

وہ بولی: ایسے سوال نہیں پوچھا کرتے۔ بس میں نے تمہیں دے دی، تمہارے لیے یہی کافی ہونا چاہیے ۔۔ ویسے تم اچھا کر لیتے ہو۔ میں نے آج کوئی تین سال بعد کیا ہے۔ اور تم نے؟

 

میں بولا : جی میں نے تو کل بھی کیا تھا؟

 

وہ تجس سے بولی: اچھا! کس کے ساتھ ؟؟

 

میں دل میں بولا : خود تو بتایا نہیں، میرا پوچھ رہی ہے۔

 

میں بولا : بس جی ایک ٹیچر کے ساتھ۔۔

 

وہ حیران ہو کر بولی: اپنی ٹیچر کے ساتھ۔۔ اوئے ہوئے۔۔ کیسا زمانہ آگیا ہے۔۔ عورتوں کو شرم و حیاہی نہیں۔ تو بہ تو بہ ۔۔

 

وہ شلوار کے بغیر ہی باتھ روم چلی گئی۔ پانچ چھ منٹ بعد واپس آئی تو ایک تیل کی شیشی اس کے ہاتھ میں تھی۔ وہ مکمل مادر زاد ننگی ہو کر فرش پر اوندھی لیٹ کر بولی: تم مجھےاب تیل کی مالش کرو۔ مجھے کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ میں نے اپنی قمیض اتاری اور ننگا ہو کر اسے تیل لگانے لگا۔ یہ تیل مالش ایک گھنٹہ چلتی رہی، وہ بھرے جسم کی مالک تھی اور اس کے نرم جسم کو مسلنے اور دبانے سے مزا آتا تھا۔

 

وہ مالش کروا کے نہانے چل دی اور میں  تیل والے ہاتھ دھونے لگا۔ اس نے نہانے کے بعد اپنے لیے ناشتہ اور میرے لیے چائے بنائی۔ چائے کے بعد وہ بولی: اب تم جاؤ اور جمعرات والے دن اسی وقت آنا۔ ایک دو دن میں نے کالج بھی جاناہے اور خبر دار جو تم نے کسی کو بتایا۔

 

میں بولا : آپ کو مزا آیا ؟

 

وہ گہری سانس لے کر بولی: ہاں ! مزا تو بہت آیا۔ میری زندگی بہت بے رنگ اوربے رونق ہو گئی تھی۔ اس سے پہلے ہم سیالکوٹ میں تھے، وہاں ایک لڑکا تھا جو میری ہی گلی کا تھا، وہ مجھ سے پیار کرتا تھا۔ اس نے میری دو تین بار لی تھی۔ میں تب میٹرک میں تھی اور تمہارے جتنی تھی۔ پھر ہم یہاں آگئے ، بھابھی کا رویہ بھی میرے ساتھ ٹھیک نہیں، میں بہت اکیلی اور اداس ہو گئی تھی۔ دو سال میں یونہی گھر پر بیٹھی رہی، اب کہیں جا کر مجھے دوبارہ کالج جانے کی جازت ملی ہے، مگر اس میں بھی کوئی مزا نہیں۔ لڑکوں کو اب ماڈرن اور بولڈ قسم کی لڑکیاں پسند ہیں، مجھ جیسی بس بستر پر وقتی پیاس بجھانے کو چاہیے ہوتی ہیں۔ مجھ جیسی سے پیار کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ تم جب مجھے سے چھیڑ چھاڑ کرنے لگے تو میں بڑے دنوں بعد ہنسی، جب تم نے اپنا وہ مجھے وہاں لگایا تو مجھے نجانے کیوں برا لگنے کی بجائے اچھا لگا۔ مجھے لگا کہ وہ مجھ سے پیار کرتا تھا تو اس نے میری لی۔ تم شاید میری لو تو تمہیں مجھ پہ پیار آجائے ۔ آج جب تم نے کیا تو مجھے وہی والی فیلنگ آئی جو اس نے پہلی بار کیا تھا تو آئی تھی، ایسا لگ جیسے وہی میرے ساتھ کر رہا ہے۔ اس لیے میں نے تمہیں اپنی دے دی۔ مجھے یہ کروا کے شرم یا افسوس نہیں محسوس ہو رہا بلکہ ایک خوشی اور ہلکا پن محسوس ہو رہا ہے۔ بھا بھی خوب مزے کرتی ہے، اچھا کھاتی ہے، اچھا پہنتی ہے اور سہیلیوں کے ساتھ گھومنے جاتی ہے اور میں بس گھر میں اداس بیٹھی رہتی

ہوں۔ بھا بھی کہتی ہے کہ میں ایک ذمہ داری ہوں اسے مجھ پر نظر رکھنی پڑتی ہے۔ ہر وقت مجھے آنکھوں کے سامنے رکھتی ہے کہ میں کسی سے نین مٹکا نہ کرلوں۔ تین سال کسی نیک اور صابر لڑکی کی طرح گزارے تو دکھ ہی بھر گیا۔ آج لگا جیسے سارے دکھ پھدی کے ساتھ ہی دھل گئے۔

 

میں اس کی یہ عالمانہ منطق سمجھتا نہ سمجھتا گھر کی طرف جانے لگا۔ میری خوشی دیدنی تھی، میں نے دو پھدیاں مارلی تھیں۔

 

میں بولا : وہ آپ گولیاں کھا لینا۔ میں لا دوں دکان سے ؟

 

وہ بولی : ارے ہاں ! یہ تو میں نے سوچاہی نہیں تھا۔ تم تو بڑے ہوشیار ہو سب پتا ہے

 

تمہیں۔ گولیاں تو گھر میں بہت ہیں ، بھا بھی کھاتی ہے نا۔

 

میں گھر کی طرف جارہا تھا کہ بلو مل گیا۔ وہ بولا : اوئے بلونگڑے کدھر آجا تجھے گھر چھوڑدوں۔

 

میں اس کی موٹر سائیکل پر بیٹھ گیا، بلو ایک محکمے میں کلرک تھا۔ رستے میں وہ بولا : اوئےتیر ارضو کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہے ان دنوں، ایک بات بتا وہ واقعی کسی کی لیتا ہے یا بس باتیں بنی ہیں۔

 

میں بولا : لیتا تو وہ ہے۔ یہ بات تو سچ ہے۔

 

وہ بولا : تو نے خود دیکھا ہے؟

 

میں بولا : ہاں ! دیکھا بھی ہے اور اس کو گولیاں لیتے بھی دیکھا ہے۔

 

وہ بولا: اچھا! ہے بڑا حرامی رضو۔ پتا نہیں اسے بچیاں کیسے مل جاتی ہیں۔ ادھر بہن چودمیری اگلے مہینے شادی ہے ، ابھی تک میں نے اصلی پھدی بھی نہیں دیکھی۔

 

میں بولا : تو تم شادی کے بعد دیکھ لینا۔ بلکہ مار بھی لینا۔

 

وہ بولا : شادی کے بعد تو یار سب دیکھتے ہیں۔ کم از کم شادی سے پہلے بندے کی پریکٹس تو ہو کم ازکم دو چار بار  پھدی ماری ہو تو ذرا کام ٹائٹ رہتا ہے۔ سمجھا

 

میں بولا : بلو بھائی ! تو کوئی ڈھونڈو۔۔ پھدی مارنا تو کوئی مسلئہ نہیں۔

 

وہ طنزیہ لہجے میں بولا : تو تو ایسے کہہ رہا ہے جیسے تو نے بڑی پھدیاں لی ہیں ؟

 

میں بولا : ہاں ! میں نے تولی ہیں۔

 

وہ چونک کے بولا : ابے کیا کہہ رہا ہے ، تو نے پھدی ماری ہے۔ رضو حرامی نے لے کر دی ہو گی اور مجھے بہن چود ٹال رہا ہے۔ مجھے سے اب تک ہزار روپیہ بھی کھا چکا ہے مگر پھدی

نہیں دلائی۔

 

میں بولا : نہیں۔۔ نہیں۔۔ اس نے نہیں دلائی۔۔ میں نے خود پھنسا کر لی ہے۔

 

وہ بولا : کس کی۔۔ ؟ کوئی چھوٹی بچی ہو گی ہے نا ؟

 

میں بولا : ارے نہیں ! کالج کی بچی ہے، انیس سال کی ہے۔

 

اس کی آنکھیں پھٹ گئیں ، وہ ہکلا کر بولا : ابے بیچ میں۔۔ او بہن چود۔۔ ابے مجھے بھی

 

لے دے یار ۔ کسی کی بھی لے دے۔۔ میں تجھے دو سو روپے دوں گا۔

 

دو سو روپے بڑی رقم تھی، میں سوچ میں پڑ گیا۔ میں بولا: واہ بلو بھائی ! تم نے رضو کو ہزار دیا اور مجھے دو سو میں ٹرخاتے ہو ۔ ہزار مجھے بھی دو تو پھدی لے دوں گا۔

 

وہ بولا : ابے تو بھی اس کی طرح ہزار لے کر گل ہو گیا تو ؟؟؟

 

میں بولا : تم پیسے اس وقت دینا جب بچی کی پھدی میں لن چلا جائے۔ اب بولو۔

 

وہ بولا : ہزار زیادہ ہے ، کچھ کم کر۔۔ میری پوری تنخواہ 2500 ہے یار۔

 

میں بولا: یہ پیسے کم نہیں ہوں گے۔ منظور ہے تو ہزار لے آنا۔

 

بلو بولا : تو سچ کہہ رہا ہے نا ؟ یہ نہ ہو کہ ہزار میں لے آؤں اور تو مکر جائے۔

 

میں بولا : تم ہزار روپیہ لاؤ، اس کے بعد اگر میں مکر جاؤں تو منہ کالا کر واکر گدھے پر بٹھا

 

دینا۔ بچی ایک نمبر ہو گی دو نمبر یا چالو نہیں ہو گی۔ مگر یہ بات اور یہ سودا بھی میرے

 

تمہارے درمیان ہو گا، تم محلے میں ڈھنڈورامت پیٹ دینا۔

 

میں چپ چاپ گھر میں داخل ہو گیا۔ گھر میں اس وقت مکمل اندھیرا تھا اور میں پ*** مارنے کے سرور میں اگے بڑھتا جا رہا تھا کہ تبھی میں شاہی اپا کے دروازے کے سامنے سے گزرا اور اندر کا مستمول دیکھ کے میں وہیں رک گیا اور میرے قدم خود بخود کمرے کی طرف بڑھ گئے۔۔۔ میں کمرے کے اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ شاہی اپا  نے ایک باریک سی قمیض پہنی ہوئی ہے۔۔۔ جس میں اس کے 36 سائز کے ممے تن کے کھڑے ہیں اور قمیض کا گلا کھلا ہونے کی وجہ سے اس کے ادھے سے زیادہ ممے  باہر ہی نظر آرہے تھے ۔۔۔ میں جب اس کے قریب گیا تو مجھے حیرت کا ایک اور شدید جھٹکا لگا۔۔۔ غور سے دیکھنے پر  مجھے پتہ چلا کہ آپا  اج بغیر برا کے سو رہی ہے.   میری باچھیں کھل گئیں ۔۔  ایک خوشی کی لہر میرے پورے وجود میں دوڑ گئی۔۔۔ میں پہلے سے ہی شہوت کے زہر اثر تھا  اور یہاں آپا کے کپڑے میری نیت خراب کرنے کے لیے کافی تھے۔۔۔ ایک  دفعہ پھر سے اپنی تسلی کرنے کے لیے پورے گھر کا جائزہ لینا مناسب سمجھتے ہوۓ ۔۔۔ میں الٹے قدم باہر نکلا برامدے سے امی ابو کے کمرے کا جائزہ لیا تو  وہ امی  ارام سے سو رہے تھی ۔۔۔ جبکہ دوسرے کمرے میں دونوں بہنیں بھی ارام سے سو رہی تھیں ۔۔میں  دبے پاؤں واپس  آپا کے روم میں چلا گیا ۔۔میں نے اندر جاتے ہی دروازے کو بند کر دیا اور کھڑکی کا پردہ اگے کر دیا۔۔۔ دروازہ بند کر دیا

آپا  سو رہی تھی کسی  ہوئی قمیض میں اس کے ممے غضب ڈھا رہے تھے بہن کا سیکسی جسم بھی کیا کمال ہوتا ہے راضیه کو دیکھ کر اگر میری شہوت 10 پرسنٹ تھی۔۔۔ تو اب اپنی ہی بہن کو دیکھ کے میری شہوت 110 پرسنٹ ہو گئی تھی میری شہوت میں ایک دم اتنا اضافہ میرے لیے خود حیران کن تھا لیکن اس وقت میں اپنے دماغ سے نہیں اپنے لنڈ سے سوچ رہا تھا ۔۔۔

میں تو پہلے سے ہی گرم تھا ۔۔۔لیکن اپنی ہی بہن کے گلے سے جھانکتے ہوئے ممے مجھے وحشی بنا رہے تھے میرے ہاتھ بے چین ہونے لگے کہ میں کس وقت ان پیارے اور گول مموں کو اپنے ہاتھ میں لے کے مسئلوں

اور پھرمیری شہوت میرے دماغ پر غالب ا گئی اور میرا ہاتھ بڑھتا ہوا سیدھا آپا کے ایک ممے پر پہنچا اور میں نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا

ہائے کیا ہی خوبصورت منظر تھا جو لوگ ریل میں انسسٹ کر چکے ہیں وہ اس فیلنگ کو سمجھ پائیں گے جیسے ہی میں نے آپا  کا ایک مما اپنے ہاتھ میں پکڑا اس کے جسم نے ایک ہلکی سی جھرجھری لی

اس کے نرم مموں کا لمس میرے جسم میں شراب کی طرح نشہ بڑھاتا جا رہا تھا میں بہت ایکسائٹڈ ہو رہا تھا آپا کا پورا مما میرے ہاتھ کے نیچے تھا اور میں ان سے اپنی مٹھی میں پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اس کا سائز اس قدر بڑا تھا کہ وہ میرے ہاتھ میں نہیں ا رہا تھا میں نے دوسرا ہاتھ بھی اس کے مموں کی طرف بڑھایا اور اس کا ایک مما دونوں ہاتھوں کے پیالے میں لے کر اس کے سائز کا اندازہ لگانے لگا اور میرے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں اپس میں نہیں مل پا رہی تھی میں آپا کے ممے دبا رہا تھا اور میرا ہاتھ اس کے مموں سے الگ ہی نہیں ہو پا رہا تھا اور نہ میرا دل ان مموں کو دبانے سے بھر رہا تھا میں جب بھی ان موں کو دباتات اور کرنٹ سیدھا میرے لنڈ میں جاتا اور جو میرے دماغ میں اور ہوسکو بڑھاتا میرے جسم میں سیکس کا نشہ بڑھتا جا رہا تھا جو میری برداشت سے بھی باہر ہوتا جا رہا تھا میں نے اپنے ہونٹ اس کے ننگے سینے کی طرف بڑھا ہے اور وہاں سے پانچ چھ بوسے لیے اور اس کے مموں کی لکیر میں ایک دفعہ اپنی کھردری زبان کو پھیرا کاش یہ لمحہ کبھی نہ ختم ہوتا یہ لمحہ یہیں ٹھہر جاتا انم سچ میں ایک سیکسی بوم تھی

پھر اہستہ اہستہ میں نے نیچے سے رکھنا شروع کیا اور میں نے اس کے پیٹ کے اوپر سے قمیض ہٹائی اور جب اس کا سفید دودھیا پیٹ باہر ایا تو میرے کو حیرت کا ایک اور شدید جھٹکا لگا کے نیچے سے اس کی شلوار تھوڑی سی پھٹی ہوئی تھی اور مجھے اس کی پھدی کے بال جو کہ بہت چھوٹے تھے نظر انے شروع ہو گئے میرے جسم نے ایک کمال کی جھرجھری لی اور میں نے بے ساختہ اپنے ہونٹ اس کی ناف پر رکھے اور وہاں سے ہلکا سا چوسا اور اپنی زبان کو اس کی ناف سے پھیرتا ہوا نیچے کی جانب جا ہی رہا تھا کہ انم کے جسم نے ایک بھرپور جھٹکا لیا اور اس کی انکھ کھل اپ مجھے بے یقینی سے دیکھ رہی تھی لیکن انہوں نے نہ ہی کوئی شور کیا اور نہ ہی مجھے ڈانٹا اور نہ ہی مجھے کچھ کہا مجھے بس ان کی انکھوں میں حیرت نظر ارہی تھی میں نے بھی وہاں سے کھسکنے میں اپنی بہتری سمجھی اور چپ کر کے اپنے کمرے میں ا کر سو گیا  سہ پہر کے وقت رضیہ کی طرف گیا۔

وہ مجھے دیکھ کر بولی: مجھےکپڑے کیا آئے تو غائب ہی ہو گیا۔

 

میں بولا : کہاں غائب ہوا ہوں، لو آتو گیا ہوں۔ کل تمہاری ماری تھی، آج پتا ہے پھدی نہیں ملے گی مگر آگیا ہوں۔

 

وہ بولی : اچھا اچھا چل ٹھیک ہے۔ رسالہ پڑھیں ؟

 

میں بولا : ہاں ! تو پڑھو۔۔

 

وہ بولی : ایسے نہیں۔۔ ذرا گندے طریقے سے پڑھتے ہیں۔۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید کہانیوں کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

رومانوی مکمل کہانیاں

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کالج کی ٹیچر

کالج کی ٹیچر -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

میراعاشق بڈھا

میراعاشق بڈھا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

جنبی سے اندھیرے

جنبی سے اندھیرے -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

بھائی نے پکڑا اور

بھائی نے پکڑا اور -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کمسن نوکر پورا مرد

کمسن نوکر پورا مرد -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page