ہوس ۔۔ نامساعد حالات میں جینے والے نوجوان کی کہانی۔ بے لگام جذبوں اور معاشرے کی ننگی سچائیاں۔ کہانیوں کی دنیا پیڈ سیکشن کا نیا سیکسی سلسلہ وار ناول
-
میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا
April 17, 2025 -
کالج کی ٹیچر
April 17, 2025 -
میراعاشق بڈھا
April 17, 2025 -
جنبی سے اندھیرے
April 17, 2025 -
بھائی نے پکڑا اور
April 17, 2025 -
کمسن نوکر پورا مرد
April 17, 2025 -
میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا
April 17, 2025 -
کالج کی ٹیچر
April 17, 2025 -
میراعاشق بڈھا
April 17, 2025 -
جنبی سے اندھیرے
April 17, 2025 -
بھائی نے پکڑا اور
April 17, 2025 -
کمسن نوکر پورا مرد
April 17, 2025
ہوس قسط نمبر 09
میں ہزار روپے دینے کے لیے تیار ہوں، اب بتا بچی کون ہے ؟
میں نے اسے اشارہ کیا تم میرے ساتھ آؤ۔ ہم ایک سائیڈ پر آگئے تو میں بولا : بچی تو
ہے، مگر اس کے ساتھ زبر دستی کرنی پڑے گی۔
وہ بولا : ابے مروامت دینا۔ کہیں ریپ کیس میں مت پھنسوا دینا۔
میں بولا : ارے نہیں بلو بھائی ! خود میں نے کئیوں کی پھدیاں زبر دستی ماری ہیں۔ بس یہ بچیوں کو نخروں کی بیماری ہوتی ہے۔ مجھے دے سکتی ہے تو تمہارے لن سے کیا بگڑ جائے گااس کا؟
بلو بولا : چلو ٹھیک ہے مگر یار مجھے زبر دستی کرنے سے ڈر لگ رہا ہے۔ کوئی ایسی بچی ہوتی توبہتر تھا جو مرضی سے کروا لیتی۔
میں بولا : اچھا تو تمہیں گشتی چاہیے۔ صاف ستھری اور گھر یلو بچی نہیں چاہیے جو پڑھی لکھی اور شریف ہو۔ تمہیں تو بلو بھائی ! ہزار بندوں سے چدی عورت چاہیے۔ بھائی تم کسی اورسے پتا کر لو۔ ایک تو تمہاری مدد کے لیے اپنی بچی تمہیں دے رہا ہوں اور تم ہو کہ اس میں بھی کیڑے نکال رہے ہو۔
لڑکی کے کوائف سن کر اس کے منہ میں پانی آگیا، وہ بولا: اچھا اچھا یار ۔ یہ تو واقعی اچھی بات ہے کہ بچی گھر یلو اور شریف ہے۔ پھر کب چلیں؟
میں بولا : جمعرات کو چلنا میرے ساتھ ، صبح نو بجے ۔۔ ایک جگہ جانا ہے۔ وہ بولا: جمعرات یعنی پر سوں۔۔ بالکل ٹھیک ہے مگر یار بچی کی شکل تو دکھا دے۔
میں بولا: پرسوں اس کا سب کچھ دیکھ لینا۔ پہلے مکمل ننگی بچی دکھاؤں گا اگر پسند ہوئی تب ہی ڈیل ڈان کریں گے
شام کو میں بازار گیا اور اس جیسے رسالے ڈھونڈنے کی کوشش کی، بڑی مشکل سے ایک رسالہ ملا جو اس نے پانچ روپے میں دیا۔
میں نے رسالہ رضیہ کو دیا اور بولا : تم اس میں سے اچھی اچھی کہانیاں پڑھ لینا اور ہم ان پر چدائی کریں گے۔
وہ رسالہ لے کر خوش ہو گئی۔ میں گلی میں یونہی آوارہ گردی کر رہا تھا کہ مجھے شیخوں کی سب سے بڑی بیٹی مقدس دکھائی دی۔ شیخوں کے لڑکوں کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ لونڈے بازتھے۔ لڑکیوں کے بارے میں کبھی کوئی بات سنی نہیں تھی۔ میں نے حجاب میں لپٹی مقدس کو سلام کیا اور بولا : باجی ! اس وقت ٹیوشن پر جارہی ہیں ؟ وہ رکے بغیر بولی: نہیں ٹیوشن سے واپس آرہی ہوں ، تم سناؤ شاہی اور راحیلہ ٹھیک ہیں ؟ میں بولا: جی باجی ! آپ نے چکر نہیں لگایا بڑے دنوں سے۔ وہ بولی بس کام میں مصروف تھی، وقت ملے گا تو لگاؤں گی۔ اسی اثنا میں اس کا گھر آگیا اور بنا کچھ مزید کہے اندر داخل ہو گئی۔ میں بھی واپس لوٹ گیا۔ شیخوں کی دونوں بیٹیاں بلا کی حسین اور خوش بدن تھیں۔ مگر تھیں مکمل سنجیدہ اور بردبار۔ ان کے متعلق کوئی غلط بات یا افواہ کبھی سنائی نہیں دی تھی۔
میں گھر واپس آیا تو نورین موجود تھی، قدرت ساتھ نہ تھی۔ میں نے نورین کا پہلی بارجائزہ لیا، نورین قدرت کی نسبت قدرے خوش شکل اور بھرے جسم کی مالک تھی۔ سب سے اہم یہ تھا کہ نورین مکمل جو ان تھی اور رنگ بھی کچھ صاف تھا۔
میں نورین میں گم تھا کہ رضیہ آگئی۔ رضیہ کا یوں آنا بلا مقصد نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ یقینی طور
پر مجھ سے ملنے آئی تھی۔ اس کا سرخ چہرا بھی یہی بتارہا تھا۔ اس کی ماں بھی ساتھ تھی، رضیہ نے مجھے اشارہ کیا اور نکلتے وقت ایک پرچی پکڑا دی۔ میں نے پرچی اٹھا کر دیکھی تو لکھا تھا، کل سکول جانے سے پہلے مجھے مل کر جانا۔ ایک کام ہے بہت ضروری۔ میں خود تجس کا شکار ہو گیا کہ ایسا کو نسا ضروری کام تھا جو رضیہ خود میرے گھر آئی اور شام میں رسالے لیتے وقت تو کوئی کام نہیں بتایا تھا اس نے۔ میں اگلی صبح کی بجائے ہیں پچیس منٹ بعد ہی اس کے گھر پہنچ گیا۔ وہ مجھے دیکھ کر بولی: توصبح آتا اس وقت تو ابا اور بھائی آنے والے ہیں۔
میں بولا : تم بتاؤنا، کیا بات ہے ؟
وہ بولی: اچھا ! ابھی جا پانچ منٹ بعد اوپر چھت پر چلا جانا۔
پھر سے وہی ٹیکنیک اپنائی گئی کہ رضیہ نے ماں پر پہرا دیا اور میں کھلے دروازے سے دبے پاؤں اپر چلا گیا
وہ پانچ منٹ بعد آئی اور بولی: سکندر ! تجھ سے ایک کام ہے ، وہ اگر تو کر دے تو میں تجھے50 روپے دوں گی اور کسی لڑکی کی پھدی بھی لے کر دوں گی۔
50 روپوں کا سن کر میرے من میں لڈو پھوٹ پڑے۔ میں بولا : کام کیا ہے ؟
وہ بولی: وہ میری ایک سہیلی ہے، اس کا شوہر کا بچہ نہیں ہو رہا، تو اسے ایک دو بار چودے گا تو میں تجھے پچاس روپے بھی دوں گی اور جو لڑ کی تجھے پسند ہو گی اس کی پھدی بھی لے کر دوں گی۔
میں بولا : تم یہ کہہ رہی ہو کہ میں ایک لڑکی کی پھدی ماروں گا تو تم مجھے پچاس روپے دو گی؟
وہ بولی : ہاں! اور ساتھ میں جو لڑکی تمہیں پسند ہو گی ، اسے بھی تمہارے ساتھ سیٹ کرواؤں گی۔
میں تذبذب کا شکار ہو گیا۔ ایک طرف بلو پھدی مارنے کے ہزار دینے کو تیار تھا، دوسری طرف رضیہ پھدی مروانے کے پیسے دینے کو تیار تھی۔ بطور مرد پھدی مارنے کے بدلے پیسے دینے تو سمجھ آتے تھے، مگر مارنے کے پیسے ملنا یہ بات مجھے ہضم نہیں ہو رہی تھی۔
میں بولا : مگر بات کیا ہے ؟ مجھے ساری بات بتاؤ تو میں کوئی مدد کروں گا۔ اور میں کیوں وہ کسی کو بھی اپنی پھدی دے دے۔
وہ بولی: میری سہیلی کا ایک مسلئہ ہے، اس کا اپنا مرد بڑا حرامی اور کمینہ ہے۔ بیوی کو تو منہ ہی نہیں لگاتا اور باہر لڑکے پر منہ مارتا ہے۔ وہ بیچاری بچے کو ترس رہی ہے، مجھے بتایا تو میں نے کہا کہ میں کسی سے کروادوں گی جو بات چھپا بھی لے گا اور اس کا کام بن جائے گا۔
میں بولا : اگر میرے چودنے سے بچہ نہ ہوا تو ؟؟؟
وہ بولی: تو تجھے ہر بار کے میں پچاس دوں گی۔ بچہ ہو گیا تو دو سو۔
میں بولا : ٹھیک ہے پھدی مارنے کے میں سولوں گا اور اگر بچہ ہو گیا تو پانچ سو۔ میں تیارہوں پھدی مارنے کے لیے۔ اب بتاؤ کون ہے وہ ؟
رضیہ بولی: چل ٹھیک ہے سولے لینا۔ وہ جب تیرے ساتھ جاؤں گی تو خود دیکھ لینا مگرپہلے قسم کھانی ہو گی کہ کسی کو نہیں بتائے گا۔
میں بولا : ہاں ! میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ کسی کو نہیں بتاؤں گا۔
رضیہ کے چہرے پر اطمینان آگیا۔ وہ بولی: تو کل دوپہر میں آجانا۔
میں گھر آگیا۔ اگلے دن سکول سے لوٹا تو سکول کے باہر بلو موٹر سائیکل لیے کھڑا تھا۔ وہ مجھے دیکھ کر بولا : آجا تجھے گھر چھوڑ دوں۔
میں اس سے بولا: بلو بھائی ! مجھے بھی یہ موٹر سائیکل چلانا تو سکھاؤ۔
وہ ترنگ میں بولا: تو اپنا بھائی ہے اب۔ سکھا دوں گا۔ کل کا پروگرام تو پکا ہے نا۔
میں بولا : ہاں ہاں بالکل بالکل۔ تم بس لن کو تیل پلاؤ۔
میں نے جلدی جلدی میں کھانا کھایا اور رضیہ کے گھر کی طرف بھاگا۔ رضیہ منہ پر نقاب لپیٹ رہی تھی، مجھے بولی: چل آجا۔ اماں میں سکندر کو ساتھ لے جارہی ہوں مجھے وہاں چھوڑ کر آجائے گا۔
میں اس کے ساتھ نکلا تو بولا: باجی! اگر تمہاری اماں کو پتا چلے کہ جس بچے کو تم بھائی بنا کر ساتھ لے جارہی ہو خود وہ تمہیں پھدی، گانڈ اور منہ میں لن ڈال کر چودتا ہے تو کیا حال ہو اس کا ؟
وہ بولی: بس ! یہ سب تو تجھے پتا ہے اس عمر میں ہوتا ہے۔ ہر عورت نے کوئی نہ کوئی یار بنایا ہوتا ہے، بعد میں شادی کسی اور سے ہو جاتی ہے۔ یہ تو ہر عورت کی کہانی ہے پھدی ایک سے مروائی اور شادی دوسرے سے کی۔ ہر مرد کسی کی بیوی چودتا ہے اور اس کی اپنی کسی اور چدی ہوتی ہے۔
میں بولا : بات تو تمہاری ٹھیک ہے۔ جانا کہاں ہے ؟
وہ بولی: یہ بس دو گلیوں کے بعد گھر ہے سہیلی کا۔ وہ کام پہ جائے گی تو ہمارا کام بنے گا۔
ہم ایک مکان کے چوبارے میں گئے۔ دروازہ کھولنے والی پچیس چھبیس سال کی صاف رنگت والی موٹی سی عورت تھی۔ رضیہ سلام کر کے اندر داخل ہو گئی۔ اس عورت نے شربت پلایا اور بولی: میں بس تم لوگوں کا انتظار کر رہی تھی، وہ بھی بس آتی ہی ہو گی۔
میں ابھی تک معاملہ سمجھ نہیں پایا تھا کہ کون آتی ہی ہو گی۔ یہ عورت کون ہے ؟؟؟ مجھے پھدی کس کی مارنی ہے۔ دس ہی منٹ بعد دروازہ بجا۔ اس بار جو داخل ہوئی وہ مکمل برقع میں تھی۔ اس کی آنکھوں کے سوا کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ وہ عورت اٹھی اور بولی : تم لوگ بیٹھو، میں نے ڈسپنسری جانا ہے ہو کر آتی ہوں۔ پھر عورت رضیہ کو اندر بلا کر نجانے کیا کیا کہنے لگی۔ پانچ منٹ بعد رضیہ آئی اور بولی : آ
جا سکندر۔۔ میں کمرے میں داخل ہوا تو وہ عورت بدستور برقع میں لپٹی بستر پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کی نگاہیں جھکی ہوئی تھیں اور جسم جیسے کپکپا رہا تھا۔ رضیہ بولی: سکند را تو بیٹھ جا یہاں ساتھ ۔ میں اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔ رضیہ نے کمرے کا دروازہ بند کر دیا اور بتی بجھادی۔ کمر افوراہی تاریک ہو گیا۔ وہ عورت بستر پر چت لیٹ گئی اور برقع کے گاؤن کے دو بٹن کھول کے اوپر سے چادر اوڑھ لیی ۔ رضیہ بولی: سکندرا شلوار اتار کر اوپر لیٹ جا۔ چادر کے اندرمیں اس عورت کے اوپر چڑھ گیا، میرے اوپر سے اس عورت نے چادر اپر اوڑھ لیی ۔ اس عورت نے ہاتھ بڑھا کر گاؤن کے دو کھلے بٹنوں کے درمیان سے اپنی شلوار کو نیچے کیا اور خود اپنے ہاتھ سے میرا لن پکڑ کر اپنی پھدی میں گھسانے لگی۔ ایک دوکوششوں کے بعد لن پھدی میں اتر گیا۔ میری زندگی کی چوتھی پھدی کا احساس ان تینو پھدیوں سے یکسر مختلف تھا جو میں چود چکا تھا۔
یہ پھدی شدید تنگ، سخت اور لیس دار تھی۔ میں نے جھٹکے لگائے تو ایک سسکی اس کے منہ نکلی۔ تنگ اور گرم پھدی میں مجھے ایسا لگا جیسے لن کسی شکنجے میں آگیا ہو۔
رضیه بولی: سکندر ! آرام سے کر کیا جلدی ہے ؟
میں آرام سے دھکے لگانے لگا۔ رضیہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنا مما مجھے پکڑا دیا اور مجھ سے چھاتی ڈبونے لگی۔ میری پوزیشن یہ تھی کہ میں ایک انجان اور مکمل پردہ پوش عورت کی پھدی مار رہا تھا اور دوسری نیم دراز عورت کا مما دبار ہا تھا۔
مجھے بڑا عجیب سا محسوس ہو رہا تھا، سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے ؟ اس عجیب احساس کی وجہ سے میری جنسی طلب میں کمی آگئی اور مجھ سے جھٹکے ٹھیک طریقے سے نہ لگ سکے۔ اس عورت نے مجھے روک دیا اور میر اڈھیلا لن اپنی پھدی سے نکال دیا۔
رضیہ بھی حیران ہوئی اور بولی: سکندرا تو باہر چل میں آتی ہوں۔
میں بنا اپنی شلوار اٹھائے باہر آگیا۔ پانچ منٹ بعد رضیہ بھی آگئی اور بولی: کیا ہوا ہےتجھے ؟ لن کیوں ڈھیلا پڑ گیا تیرا۔ میری مارتے ہوئے تو جنگلی بن جاتا ہے کہ تجھ سے اتنی بڑی ہونے کے باوجود مجھے پھدی میں قرار آجاتا ہے، یہاں کیوں ڈھیلا پڑ گیا؟ میں بولا: یہ کیسی پھدی ہے ؟ نہ مزانہ چوما چاٹی، نہ گندی باتیں، نہ وہ نگی ہوتی ہے۔ اندھیرے میں برقع پہن کر پھدی مروارہی ہے۔ لگ رہا کسی مولوی کی بیوی کی
پھدی ہے۔
وہ بولی: سکندرا بات کو سمجھ ، وہ کوئی شوق میں پھدی نہیں مروارہی ہے۔ اس کی مجبوری ہے اس لیے چھپ چھپا کر یہ کام کر رہی ہے۔ اچھا! چل میں تیری مدد کرتی ہوں ٹھیک ہے، آجا شاباش۔
میں واپس اندر گیا۔ رضیہ بولی: لن دھو کر آ۔
میں لن کو دھو کر آیا تو رضیہ نے اپنی قمیض اتار دی اور لن کو منہ میں لے لیا، وہ مہارت سے لن چوسنے لگی۔ وہی لن جو بیٹھ گیا تھا منٹوں میں تن گیا۔ رضیہ بولی: آجا اب، شاباش۔۔
میں دوبارہ سے اس عورت کے اوپر چڑھ گیا۔ رضیہ نے اس عورت کو برقع کے نیچے کے
تمام بٹن کھولنے کو کہا، پھر اس کی شلوار مکمل اتار دی۔ اس کی تنگی ٹانگیں سڈول اور خوشنما تھیں۔ کمرے میں مکمل اندھیرا تھا مگر یہ ہیولہ دیکھ کر میں نے اس کی خوشبدنی کااندازہ لگالیا۔
اس نے ٹانگیں کھول لیں اور بیڈ کے بالکل کنارے لیٹ گئی۔ میر اتنا ہوا لن رضیہ نے اس کی پھدی میں ڈالا، لن اس بار پورا اور ٹھیک طرح سے گھس گیا۔ اس کے جسم میں بھی جھر جھری سی پیدا ہوئی، اس بار یقینا اسے بھی لن کا مزا آیا تھا۔ رضیہ کھڑی تھی اس نے ایک گھٹنا بیڈ پر نکایا اور میرے ہونٹوں کو چوسنے لگی۔ اس کے چوسنے میں وہ حیوانی جوش تھا کہ خود بخود ہی میرے لن سے اس عورت کو جو شیلے جھٹکے لگنے لگا۔ اس کی عورت کی ٹانگیں تنگ ہونے لگیں یعنی اسے ہر جھٹکے کے ساتھ خوف لطف اور مزا محسوس ہو رہا تھا اور وہ مزے سے بے حال ہوئی پھدی تنگ کر لیتی تھی۔ میں رضیہ کو چومتا اور چاٹ تا جا رہا تھا ، اس کا منہ ، اس کی چھاتی ، اس کا جسم اور وہ مجھے کمر اور باقی جسم پر جوش سے سہلا رہی تھی اور ہماری جنسی جوش کا سارا مز ا جو میرے لن سے اس پراسرار عورت میں منتقل ہو رہا تھا۔ یہ سلسلہ دس ہی منٹ چلا کہ عورت نے بے تابی سے میرے کو لیے تھام لیے اور انھیں اپنی طرف دبانے لگی۔ میں نے جھٹکے لگانے اور تیز کردیئے اور دو چار منٹ بعد ہی وہ عورت بے دم ہو کر ڈھے گئی۔ میں بھی مسلسل جھٹکے لگاتا اس کی پھدی میں چھوٹ گیا۔ اس بار بھی خوب گاڑھا منی نکلا کیونکہ اب تو یہ میری چوتھی پھدی تھی۔
میں اٹھا اور کپڑے اٹھا کر باہر آگیا۔ رضیہ نکلی اور مجھے سو روپے کا نوٹ دے کر بولی سکندر ! تو اب جاء میں خود ہی گھر چلی جاؤں گی۔
میرا کام ہو چکا تھا ، میں وہاں سے نکل کر گھر لوٹ آیا۔ یہ سب کیا معمہ تھا، یہ مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا مگر جو بھی تھا میں بڑا خوش نصیب محسوس کر رہا تھا کہ مجھے پھدی مارنے کے اب پیسے ملا کریں گے۔
مجھے بلو پر ترس اور حقارت محسوس ہوئی کہ سالا پھدی کے لیے ہزار روپیہ دے رہا ہے ۔ وہی پھدی جو میں مفت میں مار رہا ہوں۔
سو روپیہ اچھی خاصی رقم تھی، تین روپے میں دہی بھلے کی پلیٹ آیا کرتی تھی اور بوتل سات میں۔
سکول میں جس کے پاس 20 روپے ہوتے وہ امیر تصور کیا جاتا اور میرے پاس تو پورےسو روپے تھے۔ میں نے دہی بھلے کھانے کا ارادہ ترک کیا اور بریانی کی اٹھارا روپے والی پلیٹ کھانے لکشمی کی طرف گیا۔ راستے میں چنگ چی سے اتر کر میں نے بینظیر سے دو سموسے بھی کھا لیے اور ادھر ادھرگھومنے لگا۔
گھومتے گھامتے مجھے منزی دکھائی دی۔ منزئی سدرہ کی سہیلی کی بڑی بہن تھی۔ منزئی مجھ سے شاید سال ہی چھوٹی تھی مگر اپنی اٹھان کے باعث بڑی بڑی لگتی تھی۔
منزئی مجھے دیکھ کر بولی: سکندر بھائی ! تم یہاں لکشمی میں کیا کر رہے ہو ؟
میں بولا : کچھ نہیں بس یونہی گھومنے آیا تھا اور تم ۔۔؟
وہ بولی: میں یہاں استانی جی سے سلائی سیکھتی ہوں۔
میں بولا : اچھا اچھا۔۔ تم لوگ تو یہیں لکشمی کے پاس ہی رہتے ہونا ؟
وہ بولی: ہاں ! وہ سامنے والی گلی میں ہی تو گھر ہے ہمارے۔ تم آئے تو تھے ایک بار سدرہ کولے کر۔
میں یاد کر کے بولا: ہاں ! مگر کافی سال ہو گئے ہیں تو ٹھیک سے یاد نہیں ہے۔
میں بولا : منزیٰ ! تم سموسے کھاؤ گی؟
وہ مسکرا کر بولی: نہیں ! میر ادل نہیں چاہ رہا؟
میں بولا : تو بریانی کھالو۔
بریانی اس دور میں نئی نئی متعارف آئٹم تھی تو لوگ بڑی رغبت اور شوق سے کھایا کرتے تھے۔ ساتھ ہی اس کی قیمت بھی بہت زیادہ تھی۔ مجھ جیسے چھوٹے کنبے کے لیے بھی فی کس ایک پلیٹ کے حساب سے ایک سو چالیس روپے کی بریانی چاہیے تھے۔ منزئی جیسے بڑے خاندان کو تو کم از کم تین چار سو کا ٹیکہ لگتا۔ بہر حال منزئی نے میری طرف دیکھااور نفی میں سر ہلا دیا۔
میں نے اصرار کیا اور بولا : آؤ نا۔۔ بس دو منٹ ہی تو لگیں گے۔اس کے چہرے پر دوہری کیفیت تھی، وہ اندر سے ہاں کرنا چاہتی تھی مگر ساتھ ہی اسے یہ بھی تھا کہ کسی سے اتنے پیسے خرچ کر دانا بھی مناسب نہیں، ساتھ ہی یہ بھی تھا کہ کیا پرائے لڑکے کے ساتھ کھانا ٹھیک ہو گا۔ اس نے ناں میں دوبارہ سر ہلا دیا اور چلی گئی۔
میں نے بھی مزید اصرار نہ کیا اور اسے جاتے دیکھتا ہوا خود واپس ہو لیا۔ سموسے کھانےکے بعد بریانی کا موڈ ہی نہیں ہو رہا تھا۔
میں گھر واپس آگیا۔ رات کے کھانے کے بعد کسی کام سے دکان پر گیا تو گلی میں بلو موجودتھا، وہ مجھے دیکھتے ہی لپک کر آیا اور بولا ہاں بھئی! کیا پروگرام ہے؟
میں بولا : یار! تمہیں کتنا بتاؤں بس جانا ہے تو جانا ہے۔
وہ بولا : تم ساتھ جاؤ گے ؟
میں بولا : تم سکول کے پاس والی گلی میں موٹر سائیکل لے کر آجانا۔ جاتے جاتے نو بج جائیں گے۔
وہ بولا : ٹھیک ہے، پیسے ساتھ ہی لے لوں نا ؟
میں بولا : ہاں جب تمہارا لن اس کی پھدی میں چلا جائے اس وقت میں خود تمہاری جیب
سے لے لوں گا۔ یہ ٹھیک رہے گا۔۔ اگر لن پھدی میں نہ جائے تو پیسے مت دینا۔
وہ خوش ہو کر بولا : شہزادہ لگا ہے پیارے۔۔ چل پھر کل ملتے ہیں۔
پتا نہیں اس نے رات کیسے گزاری ہو گی۔ صبح ہی مجھے وہ گلی کے کنارے دکھائی دے گیا۔
میں نے اس کی حالت پر افسوس کیا اور بولا : پیسے لائے ہو ؟
وہ پینٹ کی جیب سے پانچ پانچ سو کے دو نوٹ نکال کر دکھا کر بولا: ہاں الا یا ہوں۔
میں بولا : بس ٹھیک ہے۔ جب تم اس کے اوپر چڑھ جاؤ اور یہ پینٹ اتار کر مجھے دے دینا۔ میں خود نکال لوں گا۔
ہم 45۔8 بجے ہی آر۔ اے بازار پہنچ گئے۔ میں اترا اور بولا : تم آدھے گھنٹے بعد اس گھر کا دروازہ کھول کر اندر آجانا۔ سمجھ گئے اور کوئی گڑ بڑ مت کرنا۔ میں اس دوران اس بچی کو ننگا کرتا ہوں اور تمہارے لیے تیار کرتا ہوں۔ یاد رکھنا، شریف بچی ہے زبردستی ہی اس کی پھدی مارنی پڑی گی۔
وہ بولا : یار ! کوئی مسلئہ نہ بن جائے؟
میں بولا : مسلئہ کیا بنے گا؟ وہ کونسا تمہیں جانتی ہے، وہ تو خود سیالکوٹ سے یہاں مہمان آتی ہے، کل چلی جائے گی۔
یہ سن کر اس کے چہرے پر اطمینان بکھر گیا۔
میں نے شبانہ کے گھر کا دروازہ بجایا ، شبانہ میری توقع کے عین مطابق میری آمد کی منتظر تھی۔ اس نے پیلا سوٹ پہن رکھا اور ہونٹوں پر لال لپ اسٹک بھی لگار کبھی تھی۔ وہ اس بات سے انجان تھی کہ میں نے اس کی پھدی کی قیمت لگارکھی ہے۔
وہ بولی : تم تو وقت سے پہلے ہی آگئے۔
میں بولا : صبر نہیں ہو رہا تھا۔
وہ ہنس کر بولی: اچھا! اب اندر آجاؤ۔
ہم اندر چلے گئے۔ وہ اس دن کی طرح ڈھیلے ڈھالے کپڑوں میں تھی، میں نے اسے جلد از جلد ننگا کیا اور اس کی بالوں سے پاک شفاف پھدی میں لن گھسا دیا۔ اس نے سیسكی بھری اور بولی: اتنی بھی کیا بے صبری ہے، پہلے مجھے کسی تو کر لیتے ؟ تھوڑا سا چھیڑ چھاڑ ہوجاتا، اس کے بعد تم اپنا کام پورا کرتے۔
میں بولا: آپ نہیں سمجھیں گی۔ بس کیا معلوم دوبارہ آپ کی پھدی کب نصیب ہو ؟ وہ سمجھی نا سمجھی میں چدوانے لگی، میں بولا : الٹی ہو کر لیٹیں، مجھے پیچھے سے بھی مزا لیناہے۔
وہ الٹی ہو گئی، میں نے چار پانچ منٹ پوری طاقت سے زور لگایا اور پھر جب چھوٹنے لگا، لن نکال لیا۔
میں بولا : میں ابھی ہاتھ روم سے آیا، آپ اسی طرح لیٹیں۔
وہ بولی: یہ کیا کر رہے ہو تم آج۔۔ اچھا واپسی پر تیل بھی اٹھا لانا۔۔ مجھے آج بھی مالش کروانی ہے۔
میں اٹھا اور باہر نکلا، اس کمرے کی برآمدے میں کھلنے والی کھٹر کی کھول دی۔ حسب توقع بلو گلی میں سامنے موجود تھا، میں نے دروازہ کھول دیا۔ ایک ہی منٹ بعد وہ اندر داخل ہوا۔ اس کا چہرا شدت جذبات سے سرخ ہو رہا تھا پہلی بار جو کسی لڑکی کی پھدی ملنے والی تھی۔
میں بولا : میں اندر جارہا ہوں، پانچ منٹ بعد تم کپڑے اتار کر دروازے کے پاس رک جانا۔
میں نے کھڑکی سے اندر جھانکا تو شبانہ مکمل ننگی اپنی پھدی کے لبوں کو مسل رہی تھی، اس کا دھیان کھٹر کی کی طرف نہیں تھا۔
میں بلو سے بولا : مال دیکھ لو۔۔ پھر نہ کہنا کہ پیسے ناجائز لیے ہیں۔
بلو نے پہلی بار نگی لڑ کی اندر چت لیٹی دیکھی تو اس کے تو ہوش ہی اڑ گئے، وہ بولا : صحیح ہے
بالکل صحیح میں کمرے میں داخل ہو ا تو وہ چت لیٹی تھی، میں بولا: آپ کو کہا تھا کہ الٹی لیٹ جائیں۔
وہ بولی: اچھانا ، لیٹ رہی ہوں الٹی۔ وہ الٹی لیٹ گئی، میں نے لن اس کی پھدی میں گھسا کر چار پانچ دھکے لگائے اور پھر لن نکال کر بولا؛ میں تیل لانا بھول گیا، ابھی لا یا چودتے ہوئے تیل بھی لگاتا جاؤں گا۔
وہ بولی: اچھالے آؤ۔ باتھ روم کی کھڑکی میں رکھا ہے۔
میں نکلا تو بلو الف ننگالن کو چھپائے کھڑا تھا، میں نے اسے اندر جانے کا اشارہ کیا اور باہر سے کنڈی لگادی۔ محض دس سیکنڈ بعد شبانہ کی چیخ سنائی دی، وہ روتے ہوئے بولی:
سکندر بچاؤ۔ آئی۔ امی بچاؤ۔ لک۔ کون ہو تم ؟ سکندر ، سکندر ، کوئی بچاؤ۔
میں نے کھڑکی سے جھانکا، شبانہ اسی طرح الٹی لیٹی تھی اور بلو اس کے اوپر چڑھا اس کی پھدی میں لن ڈالنے کی کوشش کر رہا تھا، اس کے وزن کے نیچے شبانہ بے بس تھی۔ بلو کو زیادہ وقت نہ ہوئی شبانہ کی پھدی میں لن گھسانے کی، گیلی پھدی میں لن کا دخول شبانہ کی چیخ کے ساتھ ہوا۔
شبانہ کی چیخ نے ایک بار تو مجھے بھی دہلا دیا۔ بلو نے شبانہ کو سیدھا کر لیا تھا یا شاید خود شبانہ نے دھینگا مشتی میں خود کو سیدھا کر لیا تھا۔ بلو تیزی سے اس کی پھدی میں جھٹکے لگا رہا تھا۔ شبانہ بلک بلک کر رو رہی تھی اور مدد کے لیے چلا رہی تھی۔ بلو بڑی بے تابی سے اس کے منہ ، گلے، مموں کو چوم رہا تھا۔ اس کی زندگی کی پہلی لڑکی تھی وہ کیسے اسے بنا چودے چھوڑتا۔ یہ بات تو طے تھی کہ بلو کو شبانہ کی پھدی مارنے میں ذرا بھی وقت نہ ہوئی تھی کیونکہ شبانہ کی پھدی پہلے سے گیلی تھی اور وہ مکمل ننگی تھی۔ ایک مکمل ننگے مرد کو مکمل نگی اور گیلی پھدی والی لڑکی کو چودنے میں زیادہ دقت پیش نہیں آتی۔ بلو نے اس کا گلا دبوچ لیا اور دھمکی دیتے ہوئے بولا : چپ کر حرامزادی، یہاں ننگی ہو کر پھدی ہی تو مروا رہی ہے ، میرے لن سے کیا تکلیف ہے، چپ چاپ مر والے ورنہ گلا گھونٹ کے مارڈالوں گا۔
شبانہ پانچ سات منٹ کی چیخ و پکار کے بعد خاموش ہو گئی کیونکہ لن تو شروع ہی سے اندر چلا گیا تھا۔۔ وہ بس سسک سک کر رو رہی تھی۔ بلو پورے مزے اٹھاتے اسے چود تا رہا۔ میرے اندازے سے بھی کم وقت میں وہ شبانہ کی پھدی میں فارغ ہو گیا۔ میں نے اس کی پینٹ میں سے ہزار روپے نکال لیے۔ بلو باہر نکلا اور مجھے بولا: واہ ! یار مزا ہی آ
گیا۔ یار ! ایک دفعہ بس ایک دفعہ اور مارلوں تو پھر چلتے ہیں۔ مجھے کیا اعتراض ہو سکتا تھا؟ پھدی شبانہ کی تھی ، لن بلو گا۔ میری بلا سے رات بھر چدائی کرتے۔ بلو دوبارہ کمرے میں گھس گیا، سک سک کر روتی شبانہ کے پاس بیٹھ گیا۔ اس کے مموں کو دباتے اور سہلاتے ہوئے بولا: میری جان ! بہت مزا آیا، رونا بند کرو۔ میں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا میں شدید مجبور تھا۔
شبانہ نے یہ سوال نہیں کیا کہ کیا مجبوری تھی ؟ وہ بس روتی ہی رہی، بلو مسلسل اس کے جسم کے ساتھ چھیڑ خانی کرتا رہا۔ کبھی اس کے مموں کو دباتا، کبھی منہ میں لیتا، کبھی اس کے منہ کو چومتا، کبھی ہونٹوں کو چومتا، کبھی پھدی کو انگلیوں سے چھیڑ تا، وہ کچھ چیزوں میں اس کا ہاتھ جھٹک دیتی چھ کو بادل نخواستہ برداشت کرتی۔ اس نے کسی قسم کا سوال نہ کیا کہ تم کون ہو اور کیوں میرے ساتھ زبردستی کر رہے ہو ؟ نہ ہی یہ پوچھا کہ تم نگی حالت میں اندر کیسے آگئے۔ وہ بس چپ چاپ اس کی چھیڑ چھاڑ سسکتی ہوئی برداشت کرتی رہی۔ آدھے گھنٹے بعد ایک بار پھر شبانہ نیچے تھی اور بلو اس کے اوپر ۔ ایک بار شبانہ نے بالکل بھی مزاحمت نہ کی، اسے اندازہ ہو چکا تھا کہ مزاحمت اور شور شرابہ بے کار ہے۔ بلو نے پھدی مارے بغیر جانا نہیں۔ ویسے بھی اسے یہ بھی ادارک ہو گیا تھا کہ پھدی تو اس نے ویسے ہی مروانی تھی فرق صرف اتنا تھا کہ بندہ بدل گیا تھا۔ جتنا نا جائز کام مجھ سے پھدی مروانا تھا اتناہی بلو سے تھا۔ غیر مرد چاہے کوئی بھی تھا پھدی میں مزا تو ایک جیسا تھا۔ بلو بھی اس بار خوش تھا کیونکہ شبانہ بڑے تعاون کرنے والے انداز میں چد رہی تھی ، بلو نے ٹانگیں اٹھائیں تو اس نے اٹھوالیں، بلو نے کھلی ٹانگوں سے پھدی میں لن گہرائی تک ڈالا تو شبانہ نے بلا چون و چراپھدی کو حاضر کر دیا کہ جیسے چاہے پھدی مارو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ پچھلی بار کی نسبت اس بار بلو بڑا خوش تھا اور اس نے شبانہ کو چوم چوم کے لال اور گیلا کر دیا۔ بلو نے پورے سات آٹھ منٹوں کی پر لطف چدائی کے بعد شبانہ کی پھدی ہی میں منی نکال دیا۔ بلو اٹھا تو شبانہ بے حس و حرکت چت لیٹی تھی۔ بلو اپنے گیلے لن کو اس کی چھاتی پر مسلنے لگا اور بولا : میری جان تم میری زندگی کی پہلی لڑکی ہو اور اتنا مزہ مجھے پہلے کسی بھی چز میں نہیں آیا۔ آئی لو یو۔ میری جان بلو اس کے ہونٹوں کو الوادعی انداز میں چوم کر اٹھا اور باہر نکلا۔ میں کپڑے پہن چکا تھا۔ بلو نے بھی اپنے کپڑے پہنے اور ہم عجلت میں وہاں سے نکل آئے۔ ہم نے دروازہ کر اس کیا تو مجھے شبانہ کی جھلک دکھائی دی، وہ کپڑے پہن کر دروازے کو بند کرنے آرہی تھی۔
ہم تیزی سے بلو کی موٹر سائیکل پر بیٹھے اور بلو نے منٹوں ہی میں اس جگہ کو پیچھے چھوڑ دیا۔
بلو ترنگ میں آکر بولا: واہ یار واہ۔ بڑا ہی مزا آیا۔ بہن چود کیا بچی تھی، کیا اس کے جسم کی خوشبو تھی اور کیا لیس دار پھدی تھی۔ واقعی مٹھ مارنے سے پھدی مارنے کا مزا کہیں زیادہ ہے۔ مجھے بتا نہیں سکتا یار ۔۔ واہ۔۔
میں بولا : مت بتاؤ، کیونکہ میں پھدی مار چکا ہوں اور جس کی تم نے ماری ہے اس کی بھی پہلے سے مار چکا ہوں۔ بلکہ میں نے تو کل ہی ایک نئی پھدی ماری ہے۔
وہ بولا: واقعی ! ابے تجھے کہاں سے مل جاتی ہیں پھدیاں ؟
میں بولا : بس بلو بھائی سمجھو یہ ایک گر ہے، بچی کو پٹانے کا۔
وہ بولا: یار ! اب مجھے اس کی دوبارہ کب دلائے گا؟
میں بولا : جب تم ہزار کا کڑ کڑا تا نوٹ لاؤ گے۔
وہ بولا : یار ! کچھ تو کم کر۔ میں پورا مہینہ کام کروں تو سر کار پچیس سو دیتی ہے تو آدھے گھنٹے کے ہزار بنا رہا ہے۔
میں بولا : کام بھی تو وہ کیا ہے جو تم خود پچیس سال میں نہیں کر سکے۔ یعنی پچیس سال میں تم پھدی نہیں لے سکے اور میں نے تمہیں فٹ لے دی۔
وہ لاجواب ہو گیا۔ میں قدرے امیر امیر محسوس کر رہا تھا۔ میں اپنی گلی میں اتر اتو دن کے گیارہ بج رہے تھے، ابھی سکول کی چھٹی میں دو گھنٹے باقی تھے۔ میں گھر تو جا نہیں سکتا تھا ، سو رضیہ کے گھر کی طرف گیا۔ اس کی ماں محلے کے ٹور پر تھی اور رضیہ چھت پر رسالے چاٹ رہی تھی۔ میں بولا : ہے کوئی کہانی جس کو پڑھ کر لن پھدی والا کھیل کھیلاجائے؟
وہ بولی ہے تو سہی۔۔ ابھی سنے گا یا دو پہر میں ؟
میں بولا : ابھی سنا دو۔
وہ بو جھل لہجے میں بولی: چل شلوار اتار کر میرے اوپر چڑھ جا۔
وہ اوندھی لیٹ گئی اور میں اس کے ننگے کولہوں پر لن مسلنے لگا۔۔۔
اگلی قسط بہت جلد
مزید کہانیوں کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں
-
Lust–25–ہوس قسط نمبر
January 26, 2025 -
Lust–24–ہوس قسط نمبر
January 26, 2025 -
Lust–23–ہوس قسط نمبر
January 26, 2025 -
Lust–22–ہوس قسط نمبر
January 18, 2025 -
Lust–21–ہوس قسط نمبر
January 18, 2025 -
Lust–20–ہوس قسط نمبر
January 18, 2025 -
Lust–25–ہوس قسط نمبر
January 26, 2025 -
Lust–24–ہوس قسط نمبر
January 26, 2025 -
Lust–23–ہوس قسط نمبر
January 26, 2025 -
Lust–22–ہوس قسط نمبر
January 18, 2025 -
Lust–21–ہوس قسط نمبر
January 18, 2025 -
Lust–20–ہوس قسط نمبر
January 18, 2025

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

کالج کی ٹیچر

میراعاشق بڈھا

جنبی سے اندھیرے

بھائی نے پکڑا اور
