Lust–10–ہوس قسط نمبر

ہوس

ہوس ۔۔ نامساعد حالات میں جینے والے نوجوان کی کہانی۔ بے لگام جذبوں اور معاشرے کی ننگی سچائیاں۔ کہانیوں کی دنیا  پیڈ سیکشن کا نیا سیکسی سلسلہ وار ناول

ہوس قسط نمبر 10

کہانی میں شبنم نامی لڑکی گھر کی پریشانیوں اور مالی تنگی کی وجہ سے نوکری کرنے جاتی ہے۔ اسے ایک بنگلے میں ملازمہ کی نوکری ملتی ہے۔ وہ اتنی حسین ہوتی ہے کہ مالک کی بیٹی بھی اس کے آگے مات کھاتی ہے۔ مالک کا بیٹا شبنم کو کمرے میں بلا کر لن کو پکڑنے کو کہتا ہے تو شبنم انکار کر دیتی ہے کہ میں شریف اور باعزت لڑکی ہوں ۔ شبنم گھر میں کام کاج میں مشغول ہوتی ہے کہ مالکن شور مچادیتی ہے کہ میرے زیور چوری ہوئےہیں۔ الزام شبنم کے سر آجاتا ہے۔ بے گناہ شبنم پہلے تو قسمیں کھاتی ہے پھر گڑ گڑاتی ہے مگر کسی کو اس کی کسی دلیل پر یقین نہیں آتا۔ مالک کا بڑا بیٹا اسے تفتیش کے بہانے اپنے کمرے میں لے جاتا ہے۔ تلاشی کے نام پر شبنم کے تمام کپڑے چاک کر کے اسے مکمل ننگا کر دیتا ہے ، ننگی حالت میں شبنم پہلے سے زیادہ جاذب نظر ہو جاتی ہے تو مالک کا بیٹا اسے جم کر چودتا ہے۔ ہلکان شبنم منٹوں میں بری طرح چد کر نیم بے ہوش ہو جاتی ہے۔ اس پر مالک کا چھوٹا بیٹا بھی پہنچ جاتا ہے اور بھائی سے کہتا ہے کہ اب میں پوچھ کر دیکھتا ہوں۔ اس کی تفتیش بھی شبنم کی پھدی میں لن ڈال کر شروع ہوتی ہے ، وہ اسے چودتے ہوئے ہی پوچھتا جاتا ہے کہ ممی کے زیور کہاں ہیں ؟ صبح تک باری باری دونوں بھائی پوچھ پوچھ کر تھک جاتے ہیں تو شبنم کو پولیس کے حوالے کر دیا جاتا ہے، تھانے میں بھی تفتیش سو فیصد شبنم کی پھدی مار مار کر کی جاتی ہے۔ ایک ہفتے بعد شبنم کو یہ کہہ کر رہا کر دیا جاتاہے کہ زیور الماری ہی سے برآمد ہو گئے ہیں اور انھیں اس کی بے گناہی کا یقین ہے۔ شبنم بے گناہی پر فخر سے پھولی نہیں سماتی اور دوبارہ سے ایک نئے گھر کام پر جانے لگتی ہے۔ نئے گھر کا مالک لن مسل کر جب اسے چائے لے کر کمرے میں بلاتا ہے تو شبنم احتیاطاً پہلے سے پوچھ لیتی ہے صاحب چائے کے ساتھ بسکٹ لاؤں یا صرف میری پھدی لیں گے؟

 

کہانی ویسی ہی تھی جیسی رضیہ کو پسند تھی ، اب وہی شغل تھا کہ ہمیں کہانی کو انجام دینا تھا۔ میرا لنڈ  ایک بار پھر رضیہ کی گانڈ میں تھا، وہ بولی: صاحب ! آپ نے کہا تھا کہ چائے کے ساتھ بس پھدی لوں گا، یہ گانڈ میں کیوں گھسا دیا؟

 

میں بولا : بس میری جان ! چائے گرم تھی تو سو چالنڈ  کی گرم صرف پھدی سے نہیں نکلے گی، گانڈ میں بھی لنڈ ڈالنا پڑے گا۔

 

وہ بولی: صاحب ! آہستہ میں آپ کی بیٹی کے جتنی ہوں۔

 

میں بولا : تبھی تو اتنی گرم ہو ، میری بیٹی بھی کسی کو ایسا ہی مزا دیتی ہو گی جیسا تم مجھے دےرہی ہو۔

میں پہلے بھی چھوٹنے کے قریب پہنچ کر رکا تھا، اس بار کچھ کہانی کی گرمی کا اثر تھا کچھ شبانہ کی چدائی کا نشہ۔۔ میں نے پوری طاقت سے رضیہ کو جھٹکے دیئے تو وہ کیریکٹر سے نکل کر بولی : سکندر ! کیا کر رہا ہے ، یہ گانڈ ہے میری پھدی نہیں ہے جو اتنا زور مار رہا ہے۔ درد ہو تا ہے اگر زیادہ زور لگایا جائے تو۔

 

میں نے چار پانچ جھٹکے دیئے اور اس کی گانڈ میں سارا منی بہا دیا۔

 

چھوٹ کر میں اٹھا اور بولا : میں صبح کا گھر سے نکلا ہوں، سکول بھی نہیں گیا، اب گھر جانا ہے، شام میں آنے کی کوشش کروں گا۔

 

وہ بولی : شام میں میں گھر نہیں ہوں گی۔ میں نے سہیلی کے پاس جاتا ہے۔

 

میں بولا : کونسی کل والی ؟

 

وہ اپنی پھدی سے پر انا خون والا کپڑا علیحدہ کر کے نیا لپیٹتے ہوئے بولی: ہاں ! وہی والی۔۔ تجھے یاد کر رہی تھی کہ تو اتنا سا ہے اور پھدی ایسے مارتا ہے جیسے چار بچوں کا باپ ہو۔

 

میں اس کا مماد با کر بولا: یہ بھی تو تم نے سکھایا ہے۔

 

وہ شلوار میں کپڑارکھ کر بولی ہاں ! یہ تو ہے۔ خیر ، اب جب پروگرام ہو گا بتاؤں گی۔

 

میں بولا : چل ٹھیک ہے۔ میں چلتا ہوں۔

 

میں نکلا اور گھر آگیا۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ سکول جانے کی بجائے میں نے ایک لڑکی کی دلالی کی ، اس کی پھدی ماری، اس کی عصمت دری کروائی اور دوسری کی گانڈ میں منی اتار کر آیا ہوں۔

 

جیسے ہی میں گھر میں دیکھا تو گھر کے برامدے میں مجھے میری بڑی بہن شاہی نظر ائی جو جھک کر جھاڑو لگا رہی تھی شاہی اپا حسب معمول اپنے ہتھیاروں سے لیس تھی ان کے جھکے ہونے کی وجہ سے ان کے ممے لٹک رہے تھے جو ان کے کھلے سینے میں سے واضح نظر ارہے تھے اور میں واضح طور پہ دیکھ سکتا تھا کہ ان کی برا کا کلر بلیک ہے میں اہستہ اہستہ چلتا ہوا ان کے قریب ایا اور ان کے ایک ممے کو ہاتھ میں پکڑ کر زور سے دبایا اور ان کی گال پہ چٹکی کاٹی اور  ان کے ساتھ جپی ڈالنے ہی والا تھا کہ انہوں نے مجھے کچن کی طرف اشارہ کیا تو میں نے جھپی کا ارادہ  ترک کیا اور کچن کے سامنے سے گزرتے ہوئے ایک نظر ماری تو وہ اور کوئی نہیں میری امی تھی جو کھانا بنانے میں مصروف تھیں کمرے میں پہنچ کر میں نے اپنے شوز اتارے اور اس کے بعد اپنے بیڈ کے سامنے کھڑا ہو کر میں اپنی قمیض اتارنے لگا ابھی میں قمیض  اتار ہی رہا تھا کہ مجھے پیچھے سے کسی نے زور کی جھپی لگا لی اف نرم گدیرہ جسم یہ شاہی اپاہی تھی

شاہی آپا ۔ شانی ابھی تو میرا بالکل دل نہیں لگتا تمہارے بغیر

اپا میری کمر پہ ممے دباتی ہوئی بولی اور اس طرح پیچھے سے جھپی ڈالنا بہت اچھا لگ رہا تھا مجھے۔ میں نے اپنی گردن پیچھے کو گھمائی اور ان کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لے لیا اور ایک مزیدار سا احساس میرے جسم میں دوڑ گیا کافی لمبا کس لینے کے بعد شاہی نے ہونٹ پیچھے کیے اور بولی

شاہی آپا ۔ میری یاد نہیں اتی کیا جو اس دن کے بعد مجھے کوئی لفٹ ہی نہیں کرائی

شاہی کا ہاتھ میرے جسم پر رینگتا ہوا میرے لنڈ پر ایا  وہ اپنی بات بھی کر رہی تھی اور اپنے ہاتھ سے میرے جسم کے تمام تر فاصلوں کو طے کرتے ہوئے میرے لنڈ تک بھی پہنچ چکی تھی اس نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے اگے مزید کہا

شاہی آپا ۔ اس رات تو یہ بہت اکڑ رہا تھا ابھی تو بڑے سکون سے سو رہا ہے

اپا کا لنڈ پر ہاتھ پھیرنے سے میرا لنڈ دوبارہ سے ٹائٹ ہونا شروع ہو چکا تھا میں نے اپا سے پوچھا

میں ۔ کیا بات ہے اپا بڑی بے چین ہو رہی ہو پھدی مروانے کا دل کر رہا ہے کیا

وہ کچھ نہ بولی اور اس کی خمار الود انکھوں نے ہی مجھے میرے سارے جواب دے دیے میں سوچنے لگا کہ سالی کس قدر ترسی ہوئی عورت ہے کہ گھر اتے ہی اس نے میرا لنڈ پکڑ لیا میں نے اس کی طرف گھومتے ہوئے اسے زور سے جھپی ڈالی اور کہا

میں۔  اچھا تو کیا دل کر رہا ہے میری جان کا

یہ کہنے کے ساتھ ہی میں نے اپنے ہاتھ پیچھے لے جا کر اس کی گانڈ کے نیچے رکھیے اور اس سے اٹھا کر دیوار کے ساتھ لگا دیا دیوار کے ساتھ لگنے کی دیر تھی کہ شاہی نے بھی تمام تر مزاحمت کو ترک کیا اور کسی بھوکے بچے کی طرح میرے ہونٹوں پر ٹوٹ پڑی اور میرے ہونٹوں کو اپنے منہ میں لے کر چوسنے لگی میں بھی اس کے ہونٹوں کو دیوانوں کی طرح چوس رہا تھا اور اس کے سیکسی ہونٹ بہت ہی کمال کے تھے میرا لنڈ پوری طرح کھڑا ہو چکا تھا شاہی تو جیسے ابھی پھدی مروانے کے موڈ میں تھی مگر میں اج اس کی پھدی نہیں مارنا چاہتا تھا کیونکہ میں ابھی دو پھودیوں سے لنڈ نکال کے ایا تھا لیکن شاہی کا جسم اس قدر گداز اور گرم تھا کہ وہ مجھے پگھلانے لگا میں مدہوش ہونے لگا پھر شاہی کو کچھ خیال ایا اور مجھے پیچھے ہٹنے کا اشارہ کیا

میں۔ کیا ہوا جانی

شاہی ۔ کہیں امی نہ ا جایں

میں نے اس کی بات کو نظر انداز کیا اور ایک دفعہ پھر اپنا ہاتھ لے جا کر اس کی گردن میں ڈالا اور اس کے ہونٹوں کو بھرپور چوسنے کے بعد میں نے اسے نیچے کو دھکیلنا شروع کر دیا وہ میرا اشارہ سمجھ گئی اور اس کے ہاتھ میرے ناڑے تک پہنچا  اور اس نے میرے ناڑے کو کھولا اور میرے سختی سے کھڑے ہوئے لنڈ کو اپنے ہاتھ میں پکڑا اور اس سے سہلانا شروع کیا پھر اس نے  میرے لنڈ پر اپنی زبان پھیری اور میرے  جسم نے جھرجھری لی اور بے اختیار میرے دونوں ہاتھ اس کے سر کے بالوں میں چلے گئے میں نے اس کے سر کو اپنے لنڈ کی طرف زور دینا شروع کیا تاکہ وہ میرا لنڈ اپنے منہ میں لے اور وہی ہوا شاہین اپنا پورا منہ کھولا اور میرا ادھا لنڈ اپنی منہ میں لے کر اسے تیزی تیری سے اگے پیچھے کرنے لگی اور میرا لنڈ چوستے ہوئے وہ میری انکھوں میں دیکھ رہی تھی اور اس کے کھلے گرےبان سے اس کے ممے ایک عجیب ہی منظر پیش کر رہے تھے میں اس وقت اس قدر گرم تھا کہ میں اپنی حالات بتانے کے قابل نہیں تھا لیکن تب ہی اچانک میری نظر دروازے کی طرف اٹھی اور میرے جسم نے ایک شدید جھٹکا لیا اور میں نے شاہی کو خود سے دور کیا شاہی نے میرا یہ رویہ دیکھا تو میری طرف حیران نظروں سے دیکھا اور میری نظر کا تعقب کرتے ہوئے دروازے کی طرف دیکھا تو اس کا بھی جسم تھر تھر کانپنے لگا کیونکہ دروازے پر اس وقت کوئی اور نہیں بلکہ ہماری امی کھڑی تھی اور ان کے دونوں ہاتھ اپنے منہ پر تھے اور وہ پھٹی ہوئی انکھوں سے ہمیں ایسے دیکھ رہی تھی جیسے انہوں نے دنیا میں کوئی بارواں اجوبہ دیکھ لیا ہو وہ بے یقین سے ہم دونوں بہن بھائی کی طرف دیکھ رہی تھی اور انہیں ابھی بھی یقین نہیں ارہا تھا کہ ہم کس حالت میں ان کے سامنے موجود تھے شاہی نے فورا اپنا دوپٹہ بیڈ سے اٹھایا اور اپنے سینے پہ اڑتے ہوئے کمرے سے بھاگ گئی میں نے بھی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جلدی سے اپنی شلوار کا ناڑا باندھنا مناسب سمجھا اور اپنے لنڈ کو اپنی شلوار میں کر کے اپنے کمرے میں موجود واش روم میں گھس گیا اب گھر میں رکنا میرے لیے محال ہو رہا تھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ امی ضرور کوئی نہ کوئی واویلا کریں گی لیکن ایک حیران کن بات تھی جو مجھے مسلسل پریشان کیے ہوئے تھی کہ امی نے ہمیں مارا کیوں نہیں یا انہوں نے کوئی شور شرابہ کیوں نہیں کیا یہ سارے سوال میرے ذہن میں کھلبلی مچائے ہوئے تھے میں نے سارے سوالوں کو ترک کیا اور گھر سے باہر نکلنے میں ہی بھلائی سمجھی مجھے شدید بھوک لگی ہوئی تھی لیکن تبھی میرے ذہن میں

 منزئی  آگئی۔ میں بھاگم بھاگ چنگ چی میں بیٹھا اور لکشمی پہنچ گیا۔ منزی کل والے وقت پر ہی مجھے آتی دکھائی دی۔

 

مجھے دیکھ کر مسکرائی تو میں ساتھ ہو لیا اور بولا : تم آج تو بریانی کھاؤ گی نا؟

 

وہ بولی: نہیں ! مجھے اچھا نہیں لگتا، یوں بریانی کھانا۔

 

میں بولا : تو چرغہ کھالو۔

 

 

 

وہ بولی: تم اتنے سخی کیوں بن رہے ہو ؟

 

میں بولا : ویسے ہی تم مجھے اچھی لگتی ہو اور سوچا کہ کچھ دیر کھانے کے بہانے ساتھ بیٹھ جاؤگی۔

 

وہ نروس ہو کر بولی: مگر ادھر تو سب مجھے جانتے ہیں۔

میں بولا : تو پھر تم میرے ساتھ گوالمنڈی چلو۔ وہاں سے کچھ کھا لیتے ہیں۔

 

وہ تذبذب کا شکار تھی کہ میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ وہ اچانک ہی بو کھلا گئی اور ہاتھ چھڑا لیا اور بولی : تم چلو میں پیچھے آتی ہوں۔

 

میں اس سے دس بارہ قدم کے فاصلے پر چلنے لگا اور وہ میرے پیچھے پیچھے آنے لگی۔ ہم ایک چھوٹے سے ریسٹورنٹ جہاں کپڑے کے پردے سے پارٹیشن بنائی گئی تھیں میں جا بیٹھے۔ یہاں وہ سب مل سکتا تھا جو گوالمنڈی میں دستیاب تھا، کیونکہ ویٹر بھاگ کر دوسری دکانوں سے بھی چیزیں لے آتے تھے۔ یوں کسی جگہ بیٹھ جاؤ پوری گلی کا مینو ایک تھا۔ اس کی فرمائش پر بریانی اور ایک چکن تکہ منگایا گیا۔ منزی کا مجھے پتا تھا، وہ بہنوں میں تیسرے نمبر پر تھی اور اس سے چھوٹی بھی دو بہنیں تھیں۔ پانچ بہنوں والے گھر میں یقینا خواہشات اور نا محرومی کا ایک سمندر تھا جو ٹھاٹھیں مارتا تھا۔ ایسے کسی ہوٹل میں بیٹھ کر بریانی منگوانا اور تکہ کھانا اس کے لیے کوئی معمولی بات نہ تھی۔ گھر میں آمدنی میں کچھ خاص زیادہ نہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ مردانہ وجاہت سے متاثر نہیں ہوئی تھی بلکہ اسے یہ اچھا لگا تھا کہ وہ میرے ساتھ اپنی پسند کی چیز بالا شرکت غیرے کھا سکتی ہے۔ وہ مسکرا کر مجھے دیکھتے ہوئے بولی: تو میں تمہیں کب سے اچھی لگتی ہوں؟

میں بات بناتے ہوئے بولا : بہت پہلے سے مگر مجھ سے کبھی کہا نہیں گیا۔

 

وہ مسکرائی ، وہ عمر کے اس حصے میں تھا جس میں لڑکیاں واقعی کسی بوائے فرینڈ کی تلاش میں ہوتی ہیں یہی وجہ تھی کہ اس نے یہ جو اکھیلا تھا۔ بریانی آگیی اور تکہ بھی۔ وہ دھیرے دھیرے کھا رہی تھی مگر کھانے کے ساتھ پورا انصاف کر رہی تھی۔ آدھے گھنٹے میں وہ پیٹ بھر کر کھا چکی تو میں نے دو بوتلیں بھی منگوالیں۔ پیسے نکالتے وقت اس نے میرے پاس پانچ سو کے نوٹ دیکھے تو اس کے چہرے کے تاثرات کافی بدل گئے۔ اس کی اصل وجہ یہی تھی کہ اس دور میں ہزار روپیہ کسی میری عمر کے لڑکے کے پاس نہیں ہوا کرتا تھا۔ میں نے بل منگوایا جو کہ نوے روپے تھا۔ میں نے نوے روپے ادا کیے اور بولا : اب کب فری ہوتی ہیں۔

 

وہ بولی: جب تم کہو۔

 

میں بولا : پھر ہم کل پارک میں ملیں گے۔

 

اس نے سر ہلا دیا۔ میں بڑی سر مستی میں واپس گھر کی طرف گیا۔ میں صبح کا سارا واقعہ بھول چکا تھا  قدرت گھر میں موجود تھی، امی گھر پر نہیں تھی ،اور امی کو گھر پر ناپا کر میں نے سکھ کا سانس لیا  قدرت جب جانے کے لیے اٹھی تو میں اس کی تاک میں تھا۔ میں نے اسے دبوچا اور سیڑھیوں کے نیچے گھسیٹ لیا۔ وہ جب میری بانہوں میں آ گئی تو بولی : کیا کر رہے ہو ؟ ابھی میں شور مچادوں گی۔

 

میں بولا: میری بات تو سنو۔ میں نے یہ کہنے کے لیے تمہیں یہاں کھینچا ہے کہ میں تم سے دوستی کرنا چاہتا ہوں۔

 

وہ بولی : تم بعد میں وہی گندی حرکت کرو گے، مجھے پتا ہے۔

 

میں بولا: وہ تو اس دن مجھ سے غلطی ہو گئی۔ مجھے لگتا تھا کہ جتنی خواہش مجھے ہو گی تمہارا دل بھی کرتا ہوگا اور جب میں تمہیں کروں گا تو تم بھی مزے لوگی۔ مجھے کیا پتا تھا کہ تم ناراض ہو جاؤ گی ۔

 

وہ مجھے گھورتے ہوئے بولی: تم پہلے مجھ سے پوچھتے تو سہی کہ مجھے کرنا ہے یا نہیں۔

 

میں اسے بانہوں میں مزید قریب کر کے بولا : تو اب بتاؤ، میرے ساتھ کرو گی۔

 

وہ سوچ کر بولی: ابھی نہیں۔۔ جب ہم تھوڑا بڑے ہو جائیں گے ، تب کریں گے۔

میں بولا : میں تب تک کیا کروں ؟

 

وہ بولی: انتظار کرو۔۔ کہاں تو ہے کہ کروں گی۔

 

میں بولا : اچھا! مجھے پپی تو دو۔

 

وہ بولی: نہیں۔۔ میں نہیں دوں گی۔

 

میں بولا : اس سے کچھ نہیں ہوتا نا۔

 

وہ بولی: اچھا ایک کر لو۔

 

میں نے موقع سے فائد ہ اٹھایا اور اس کے ہونٹوں پر زور دار کس کیا کہ اپنی زبان اس کے منہ میں گھسادی۔ اس نے منہ کس کے بند کرنے کی کوشش کی مگر اب تک میں چومنے کا ماہر ہو چکا تھا۔

 

میں نے جم کر اسے ہونٹوں کو چوما اور اسے اس وقت چھوڑا جب میری انگلیاں اس کی پھدی کو چھو ئیں اور اس نے مجھے دھکا دیا۔ وہ میری آغوش سے نکل گئی اور تیزی سے گھرسے باہر نکل گئی۔

 

میں سیٹی بجاتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔

آج کا دن بڑا یاد گار گزرا تھا، مجھے پہلی بڑی کمائی ہوئی تھی اس کے بعد شاہی اپا کا چوپا اور امی کا چھاپا بڑا ہی عجیب دن تھا لیکن ایک بات مجھے ابھی بھی ستائے جا رہی تھی کہ امی نے کوئی رد عمل  کیوں نہیں دکھایا رات کو میں بڑی دیر تک سب واقعیت کے متعلق سوچتارہا۔ کہیں پر پھدی مارنے کے پیسے ملتے تھے تو کہیں پر مروانے کے۔کہیں بہن بھائی کا لنڈ چوس رہی تھی اور بھائی مزے لے رہا تھا اور کہیں ماں چھاپا مار کے بھی خاموش تھی لیکن ایک بات میں سمجھ چکا تھا  ہر جگہ پر جہاں پھدی انوالو تھی پیسہ تھا۔ میں سوچنے لگا کہ اب تک میں جتنی بار رضیہ کی پھدی لے چکا تھا اگر ہر بار وہ کسی اور نے لی ہوتی تو کتنے پیسےبن چکے ہوتے۔ مگر ظاہر ہے کہ اتنا پیسہ تبھی مل سکتا تھا جب کہ رضیہ ہر بار مروانے کو راضی ہوتی۔ انہی باتوں کو سوچتا ہوا میں سو گیا۔ اگلی صبح میں گھر سے نکلا تو مجھے بلو دکھائی دیا۔ میں اس کے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھ گیا تا کہ مجھے سکول چھوڑ دے۔ وہ راستے میں

 

بولا : یار ! ایک بار اور کام کروادے ، بھائی نہیں ہے، پیسے لے لینا بعد میں۔

 

میں بولا ؟ بلو بھائی پیسے کی بات نہیں، وہ بچی اب نہیں مانے گی، ویسے بھی اس کا مزا تو تم لے چکے ہو، تمہیں کوئی نئی لادوں گا۔

 

بلو کو جھٹکا لگا، وہ بولا : ابے سچ میں نئی بچی لا کے دے گا؟

 

میں بولا : ہاں ! جس کی پھدی کا مزا اٹھالیا، اسے دوبارہ کیا چودنا ؟

 

وہ بولا : بات تو تیری بالکل ٹھیک ہے۔ تو نئی بچی کا انتظام کر۔

میں موٹر سائیکل سے اترتے ہوئے بولا: بلو بھائی ! تمہارا کزن مکان وغیرہ بھی کرائے پردیتا ہے نا؟

 

وہ بولا : ہاں ! دیتا تو ہے۔ کیوں خیر ہے ؟

 

میں بولا : بلو بھائی ! ایک چوبارہ ذرا ہٹ کر کرائے پر لے لو۔

 

وہ نا سمجھی کے عالم میں بولا : وہ کیوں؟

 

میں بولا : سمجھا کرو بلو بھائی۔ ہر بچی کو اس کے گھر جا کے چودنا کہاں ممکن ہے ؟ کسی کو اپنے پاس بھی تولا کے چودنا پڑے گانا۔

 

وہ بولا: بات تو ٹھیک ہے، مگر صرف بچی چودنے کو مکان چاہیے؟ مگر مکان کا تو اچھا بھلا کرایہ ہو گا۔ یہی کوئی ہزار بارہ سو ۔

 

میں بولا ؛ وہ تو کسی نہ کسی طرح کہیں نہ کہیں سے مل جائے گا۔

 

میں بولا : مکان تم لے لینا اور اس کا پتا کسی کو بھی مت بتانا۔ آگے ہم دیکھ لیں گے۔

 

وہ بولا: چل دیکھتا ہوں کوئی مکان۔۔ پھر بتاؤں گا۔

 

سکول سے واپسی پر میں نے کھانا کھایا اور لکشمی چلا گیا۔ منزئی مجھے استانی جی کے گھر جاتی

دکھائی دے گئی۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور بولا : آج چھٹی کر لو، میرے ساتھ پارک چلو۔ واپسی پر تمہیں یہیں چھوڑ دوں گا۔

 

وہ چپ چاپ میرے ساتھ چل پڑی۔ ہم تین نمبر بس پر بیٹھ کر چڑیا گھر اتر گئے اور ٹکٹ لے کر اندر چلے گئے۔ کنٹین پر میں نے منزئی کے لیے برگر اور اپنے لیے چپس منگوا لیے۔

 

منزئی برگر بڑے شوق سے کھاتے ہوئے بولی : تم کوئی کام کرتے ہو کیا؟

 

میں بولا : ہاں! ایک دو چھوٹے چھوٹے کام ہیں۔ ایک دوست ہے میری ، وہ مجھے کچھ کام کرنے کو کہتی ہے اور ساتھ ہی ہر مہینے مجھے فیس بھی دیتی ہے۔

 

وہ دلچسپی سے بولی: کتنی فیس ؟

 

میں بولا: جتنا کام کیا ہو اس حساب سے کبھی دو ہزار، کبھی تین ہزار ۔ کبھی چار پانچ بھی۔

 

وہ بولی: اتنازیادہ پتا ہے ابا کی دکان میں دن بھر کی بکری بھی ہزار بارہ سو ہوتی ہے۔ یعنی بچتا یہی دو سوا دو سو ہے۔ مگر تم تو ابھی سے اتنا کماتے ہو۔

 

میں بولا : بس ! میری جان بات ساری دماغ کی ہے۔ کام بھی کرتا ہوں اور عیش بھی۔

وہ بولی: یہ تو تم نے ٹھیک کہا۔

 

وہ برگر کھا چکی تھی، میں نے اس کے برگر کے بعد کوک منگوالی۔

 

میں بولا: میں ایک الگ گھر لے رہا ہوں، جہاں بس میں اکیلا رہا کروں۔

 

وہ بولی: مگر کیوں ؟ الگ گھر کی کیا ضرورت ہے ؟

 

میں بولا: دراصل گھر میں بہنیں ہوتی ہیں، یار  دوستوں سے بھی نہیں ملا جاتا، اس لیےایک گھر لیا جائے، بندہ وہیں رہے اور رات کو گھر آجائے۔

 

وہ تائید میں سر ہلانے لگی۔

 

میں بولا : بس جب گھر لے لوں گا تو تمہیں بھی لے چلوں گا۔ چلو گی نا۔

 

اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ جانے سے پہلے پہلی بار میں نے اسے گلے لگایا، اتنے لوگوں

 

کے سامنے گلے لگنے سے وہ سخت نجل ہو گئی مگر میں بولا: لوگوں کو کیا پتا ہمارا کیا رشتہ ہے۔

 

میں نے اسے دوبارہ بس میں بٹھا دیا اور پچاس کا نوٹ اس کی مٹھی میں یہ کہہ کر پکڑا دیا کہ رکھ لو کوئی چیز لے لینا۔

میں محلے کی طرف گیا اور رضیہ کے گھر چلا گیا۔ اس کی ماں نیچے تھی اور رضیہ چھت پر۔

 

میں رضیہ کے پاس گیا تو کپڑے استری کر رہی تھی۔

 

میں اس کے کولہوں پر لنڈ کا دھکا لگا کر بولا : سناؤ باجی! آج گانڈ کا موڈ ہے یا پھدی رواں ہو گئی ہے۔

 

وہ مڑ کر بولی: پھدی میں تو ابھی دیر ہے مگر گانڈ میں بھی درد ہے، تو نے کل بہت زور لگایا تھا۔

 

میں اس کے مموں کو دباتے ہوئے بولا : اچھا! چلو خیر ، ویسے ہی بیٹھ جاتے ہیں۔

 

وہ بولی : اچھا! ایک بات بتا، تو نے مجھے رضو سے پھدی مرواتے دیکھا تھا ؟

 

میں بولا : ہاں ! ایک بار ذرا ساد کھا تھا۔ ویسے مجھے اس نے بتایا تھا کہ وہ پھدی مارتا ہے تمہاری۔

 

وہ بولی: تجھے کیسا لگا تھا میری پھدی میں رضو جاتا ہوا؟

 

میں بولا : بس دل چاہا کہ کاش وہ لنڈ میرا ہوتا۔

 

وہ میرا لن باہر نکال کر دباتے ہوئے بولی: تو جب اس کی پھدی مار رہا تھا تو میر ا بھی یہی دل

چاہ رہا تھا کہ تو میری پھدی مارے اور وہ دیکھے۔

 

میں بولا : چلو ،،، اس بار اس کے ساتھ ساتھ تمہاری بھی پھدی وہیں مار لوں گا۔

 

وہ بولی: نہیں۔۔ اس کے سامنے نہیں۔۔ وہ وہاں خود چدنے آتی ہے مجھے چد تا دیکھنےنہیں۔

 

وہ بولی : تو کسی دوسرے کے سامنے چودے گا؟

 

میں حیرت سے بولا : میں سمجھا نہیں باجی۔

 

وہ بولی : سکندرا میں چاہتی ہوں کہ جب تو مجھے چود رہا ہو تو کوئی ہمیں دیکھ رہا ہو۔

 

میں بولا : اس طرح وہ کسی کو بتا دے گا جو ہمیں دیکھے گا۔

 

وہ بولی: نہیں بتائے گا، ہم ہند ہی ایسا چن لیں گے۔

 

میں بولا : مگر اس سے کیا ہو گا؟

 

وہ بولی: جب سے میں نے تجھے اپنی سہیلی کو چودتے دیکھا ہے میرا دل چاہتا ہے کہ تو مجھےبھی کسی کے سامنے چودے۔ مگر اس سہیلی کے سامنے نہیں، کیونکہ اس کی تو پھدی تونے ماری ہوئی ہے، کوئی نیا ہو۔

میں بولا : اگر وہ لڑکا ہوا تو وہ کہے گا مجھے بھی پھدی دو۔۔ پھر ۔۔؟

 

رضیہ بولی: تو خیر ہے ،، میں دے دوں گی۔

 

میں اب تک رضیہ کو سمجھ نہیں پایا تھا۔ عجیب لڑکی تھی، مجھ سے عجیب عجیب فرمائشیں کرنے لگی تھی۔ میرے ذہن میں ایک دم جھمکا ہوا اور ایک پیسے کمانے کا خوبصورت ائیڈیا میرے ذہن میں اگیا ایک بات تو طے تھی کہ بلو اور رضیہ کی مددسے میں اپنا دھندہ چلا سکتا تھا۔ رضیہ کے پاس پھدی تھی اوربلو سیدھا سادہ قدرے بے وقوف سا بندہ تھا، اسے

اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔

 

میں بولا : وہ موٹی سی نرس جو تھی وہ کون تھی ؟

 

وہ بولی: وہ گھر اسی کا تو تھا۔ وہ اس سہیلی کی دوست بھی ہے اور جب بھی اسے چیک اپ کروانا ہو اس کے پاس آتی ہے۔ اسے پتا ہے کہ اس کا شوہر برا بندا  ہے ، اس لیے ہم نے اسے کہا کہ کچھ کام اور ضروری باتیں کرنی ہیں جو ہم گھر پر نہیں کر سکتے۔ اس لیے جس وقت وہ ڈسپنسری جائے ہمیں گھر کی چابی دے دے۔ وہ چابی دے کر چلی گئی اور جب واپس آئی تو ہم ایسے بیٹھے تھے جیسے معمول میں بیٹھتے تھے۔ تو پہلے ہی چلا گیا تھا۔

 

میں بولا : مطلب اسے پتا ہی نہیں کہ اس کے جانے کے بعد اس گھر میں چدائی ہوئی ہے۔

وہ ہنس کر بولی: نہیں تو ۔ اسے تو یہ بتایا کہ تو میر ا چھوٹا بھائی ہے۔

 

میں بولا : اگر کبھی اسے پتا لگ تو ۔۔؟

 

وہ بولی: یہ اچھی گل نہیں ہے۔ وہ تو اس کے شوہر کو بھی جانتی ہے اور مجھے بھی۔

 

میں بولا : اچھا! اگر میں کوئی جگہ ڈھونڈلوں کوئی مکان تو تم دونوں ادھر آجانا۔

 

رضیہ نے مجھے غور سے دیکھا اور بولی: مگر تو کہاں سے مکان ڈھونڈے گا؟

 

میں بولا : بس ایک دوست کا مکان ہے، خالی ہے تم آجانا ادھر ۔

 

وہ سوچتے ہوئے بولی: اچھا! چل میں سوچوں گی۔ پہلے وہ مکان دکھانا اور پھر سوچیں گے۔

 

میں بلو سے ملا اور بولا : ہاں ! بلو بھائی مکان ملا؟

 

وہ بولا : مکان تو ایک ہے۔ ادھر منڈی کے پیچھے مارکیٹ ہے۔ مارکیٹ کی گلی میں ایک مکان ہے۔ پتا بھی نہیں چلتا کہ بندہ مارکیٹ میں ہوتا ہوا اس میں گھس جائے۔ مگر رولا یہ ہے کہ وہاں کوئی فیملی کبھی نہیں رہی۔ مارکیٹ کے شور شرابے کی وجہ سے۔

 

میں بولا: چلو۔ خیر مجھے دکھاؤ مکان۔۔

ہم دس منٹوں میں اس مکان میں موجود تھے۔ دو کمروں اور ایک چھوٹے سے برآمدے والا مکان تھا، اس میں کچن بھی برآمدے ہی میں تھا۔ مکان کے کمرے بالکل بند اور کم ہوادار تھے۔ ایک طرف گلی تھی جو مکمل سنسان تھی کیونکہ اس طرف محض دکانوں کے گودام تھے۔ اوپر چو بارے تھے جو دن میں ویران اور رات میں آباد ہوتے تھے کیونکہ ان کے رہائشی سارے مقامی دوکاندار تھے ، جو رات میں مال وصول کرتے اور ادھر ہی پڑ جاتے۔ دوسری طرف بھرا پڑا بازار تھا۔ گلی کے کونے پر گوٹا کناریوں کی دکان تھی جس

کامنہ مخالف سمت میں تھا۔

 

میں بولا: بلو بھائی ! پیسے کتنے مانگتا ہے مالک ؟

 

وہ بولا : یہی گیارہ سو کرایہ اور پانچ ہزار پگڑی۔

 

میں بولا : تم کہونا کہ مکان تم نے لینا ہے۔

 

وہ بولا : پگڑی کا رولا نہیں ۔۔ رولا کرائے کا ہے وہ کون دے گا۔۔ تو ۔۔؟

 

میں بولا : ہاں بلو بھائی میں دے دوں گا۔ اچھا کچھ سامان مل سکتا ہے؟

 

وہ بولا : کیسا سامان ؟

میں بولا؛ کوئی بیڈ ، کرسی، صوفے وغیرہ۔۔

 

وہ بولا ہاں! ایک مکان میں کرایہ دار نے کرایہ نہیں دیا تو اس کا سامان اس کے گھر پڑا

 

ہے سال سے۔ دو سنگل بیڈ، ایک ڈبل بیڈ اور دو صوفے ہیں۔

 

میں بولا : کتنے میں بنے گا ؟

 

وہ بولا : یہی کوئی پانچ چھ ہزار میں۔

 

میں بولا : بلو بھائی ! وہ اٹھوالو یا یہاں رکھوا دو۔ اس کے پیسے بھی کرائے کے ساتھ ساتھ ادا کر دیں گے۔ اسے بھی حوصلہ ہو گا کہ مال اس کے ہی گھر میں پڑا ہے۔ تھوڑے تھوڑے کر کے پیسے بھی دے دیں گے۔

 

بلو قائل ہو کر بولا : ابے تو بچہ ہے مگر حرامی پورا ہے۔ چل کر لیتے ہیں مگر میری پھدی پکی ہے نا۔

 

میں بولا : بلو بھائی ! یہ کام کرو اور سمجھو کہ تم کو میں مفت میں پھدی دلوایا کروں گا۔

 

اس کے آنکھوں کے جیسے پھدیاں ناچنے لگیں، وہ لنڈ  کو دبا کر بولا: بہن چو دا اس دن  کی پھدی کا نشہ ہی نہیں اتر رہا ہے۔ جتنا مزاپھدی مار کر ملا، اتناہی مزا اسے یاد کر کے آرہا ہے۔

میں بولا : اس پھدی کو بھول جاؤ۔۔ اب نت نئی ملنے والی ہیں۔

 

وہ خوشی سے جھوم اٹھا۔ میں نے بھی گھر کی راہ لی۔حسب معمول امی پھر گھر میں موجود نہیں تھی اور نہ ہی شاہی اپا موجود تھی چھوٹی بہن گھر میں موجود تھی لیکن میں نے اس کو نظر انداز کیا اور اپنے کمرے میں چلا گیا جب سے امی نے ہم پر چھاپا مارا تھا اس کے بعد میں نے شاہی اپا کو بالکل ترک کر دیا تھا اور امی سے بھی دوبارہ ملاقات نہیں ہوئی تھی

 

اگلے دو تین دنوں میں مکان بھی سیٹ ہو گیا اور رضیہ کی پھدی بھی رواں ہو گئی۔ اس کے دن ختم ہو گئے اور وہ دوبارہ سے چدوانے پر تیار ہو گئی۔

 

ان دو تین دنوں میں مسلسل جاتارہا اور منزئی کے ساتھ چڑیا گھر میں گھومتا، واپس پر کبھی پچاس، کبھی بیس ، کبھی تیس اسے تھما دیتا۔ میرے پاس جو بھی پیسے تھے اب ختم ہونے والے تھے۔ مجھے اب کمائی چاہیے تھی۔ میں نے رضیہ سے بات کی کہ ایک مکان ہے جس کو میں دو سو کے عوض حاصل کر سکتا ہوں۔ ایک دوست ہے اسے دو سو دوں تو کچھ دیر مکان مجھے دے دے گا۔

 

پہلی بار رضیہ اور وہ برقعے میں لپٹی لڑکی میرے مکان پر آئے۔ رضیہ مکان کی لوکیشن اور خفیہ پن دیکھ کر بولی: جگہ تو بہت اچھی ہے۔ اچھا ہو ا جو یہ جگہ ڈھونڈ لی۔ تیر اوہ دوست آ تو نہیں جائے گا۔

 

میں بولا : نہیں نہیں۔ تم بے فکر رہو۔ وہ ایک دو دنوں کے لیے شہر سے باہر گیا ہے۔

رضیہ نے اطمینان کا سانس خارج کیا اور بولی: چل آجا۔۔ اندر چلیں۔۔ آج ذرا جلدی ہے بازار بھی جانا ہے۔۔ کہیں یہ نہ کہیں کہ بازار سے خالی ہاتھ کیوں لوٹ آئیں۔ بلکہ تم کرو میں بازار سے آئی۔

 

وہ عورت ڈبل بیڈ پر چت لیٹ گئی۔ آج میں نے کنٹرول سنبھالتے ہی خود ہی اسے کے اوپر لیٹ گیا۔ میں نے بنا پوچھے یا بتائے اس کے مموں کو دبانا شروع کر دیا۔ وہ گبری سانسیں لینے لگی مگر اس کے نقاب پوش منہ سے کوئی آواز نہ خارج ہوئی۔

 

میں اس کے برقعے کے اوپر سے ہی اس کی پھدی کے لبوں پر لن کے جھٹکے لگانے لگا۔ دوچار جھٹکوں کے بعد اس نے خود ہی ٹانگیں کھول دیں تاکہ لنڈ  پھدی کے منہ پر ٹھیک سے مسلا جائے مگر ابھی بھی لنڈ  اور اس کی پھدی کے بیچ میں میری پینٹ، انڈروئیر ، اس کا برقع، قمیض اور شلوار حائل تھی۔ میں نے خود ہی پینٹ اتار کر لن نکالا اور اس کے برقعے کےسارے بٹن کھولنے لگا، اس نے ہاتھ سے مجھے منع کیا تو میں بولا : مجھے ایسے ہی مزا آتا ہےنہیں تو میر اٹھیک سے کھڑا نہیں ہوتا۔ وہ خاموش ہو گئی۔ میں نے برقعے کے بٹن کھول کر اس کی قمیض بھی اوپر اٹھا دی۔ اس کا جسم دودھیا گورا اور شفاف ناف سامنے تھی، میں نے شلوار اتاری تو اس کی شفاف اور بالوں سے پاک پھدی بھی واضع ہو گئی۔ میں نے بے ساختہ اس کی ناف پر زبان رکھ دی، اس کے جسم میں کرنٹ دوڑ گیا۔ اس نے مجھے روکنے کی کوشش کی مگر میں نے اس کی کوشش ناکام بنادی اور اس کی ناف سے ہو تا اس کی پھدی کے لبوں کو زبان سے چھیڑ نے لگا ، پہلی بار اس کے منہ سے سرکاری نکل گئی، میں نے اس کے پھدی کے لبوں کے درمیان سے اس کا دانہ نکالا اور اسے زبان کی نوک سے چھیٹر نے لگا۔ اس لڑکی کی سانسیں یکلخت ہی آہوں میں بدل گئیں۔ وہ چار پانچ منٹوں ہی میں آو۔۔ آہ۔۔ او دو۔۔ پر اتر آئی۔۔۔ ہائے۔۔ اور وئی۔۔۔ ہاں۔۔ او و دو۔۔۔ آہ۔۔ اچانک اس نے مجھے اپنے اوپر گھسیٹ لیا اور بے تابی سے اپنے مموں کو بے لباس کر کے میرے منہ میں ڈال دیا۔ میں نے اتنے گورے اور صاف سے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے، میں ان کو دودھ پیتے بچے کی طرح پینے لگا۔ وہ جلدی کی چلانے لگی اور بالاخر چھوٹ گئی۔ اس کی گہری سانسوں کےدرمیان میں نے اس کی تربتر پھدی میں لن اتار دیا، اس کی آہیں اور سکاریاں پھر سےشروع ہو گئیں

 

میں اسے پوری جان اور زور لگا کر چودنے لگا۔ پہلی بار مجھے اسے چودنے میں مزا آرہا تھا اور وہ بھی مجھے اپنے ساتھ بھینچ کر خوب مزے لے رہی تھی۔ یہ چدائی دس منٹ چلی پھر میں نے لنڈ کو جتنی گہرائی میں اتار سکتا تھا اتار دیا اور چھوٹ گیا۔

 

میں نے جلد ہی اٹھ کر پینٹ پہنی اور اس کے حسین ننگے جسم کو الوادعی انداز میں دیکھا اور بولا : آپ بہت حسین ہیں۔۔ اتنی خوبصورت لڑکی میں نے پہلے نہیں دیکھی یا چو دی۔

اس کی آنکھوں سے میں نے اس کے مسکرانے کا اندازہ لگالیا۔

 

میں بولا : آپ نے رضیہ کو کچھ پیسے بھی دیئے ہیں۔

 

اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

 

 

میں بولا : کتنے ؟؟؟ ہزار یا پانچ سو۔۔؟

 

اس نے انگلیوں سے آٹھ کا اشارہ کیا۔

 

میں بولا : اب آپ کو آنا ہو تو سیدھا یہیں آجائے گا، رضیہ کو لانے کی ضرورت

نہیں۔ میں سکول کے بعد شام تک یہیں ہوتا ہوں۔ رضیہ کی موجودگی میں میں اس طرح کی چدائی نہیں کر پاؤں گا۔ یہ سپیشل آپ کو دیکھ کر کی ہے میں نے۔

 

اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اس نے پرس کھولا اور سو سو کے پانچ نوٹ مجھے پکڑا دیئے، میں سمجھ گیا تھا کہ اس نے آج کی دھواں دار چدائی کے عوض دیئے ہیں۔

 

دو دنوں بعد میں نے رضیہ کو اکیلے آنے کے لیے کہا اور یہ بھی کہا کہ میں ایک لڑکی کو لاؤں گا جو چھپ کر دیکھے گی۔ رضیہ یہ سن کر بڑی پر جوش ہو گئی۔ منزی کو اگلی ملاقات پر میں اپنے ساتھ لے آیا۔ وہ مکان دیکھ کر بولا: یہ کتنا اکیلا اور الگ تھلگ سا لگتا ہے۔ تمہیں یہاں ڈر نہیں لگتا؟

 

میں بولا : نہیں تو۔۔ ڈر کی کیا بات ہے؟

 

وہ بولی: اچھا! تم نے بتایا نہیں کہ تم کہاں کام کرتے ہو اور کیا کام کرتے ہو ؟

 

میں بولا : میں ایک لڑکی ہے اس کے لیے کام کرتا ہوں، وہ جیسے جیسے خوش ہوتی ہے ویسے ویسے مجھے پیسوں سے نوازتی ہے۔

 

وہ بولی: وہ کیا کام کرنے کو کہتی ہے ؟

میں اس بیڈ پر اپنے ساتھ بٹھا کر بولا : بس۔۔ اسے میں اچھا لگتا ہوں تو جب جب اس کا دل کرتا ہوں میں اسے سکون حاصل کرنے میں مدد کرتا ہوں۔

 

وہ بولی : سکون حاصل کرنے کا کیا مطلب ہے ؟

 

میں اس کی رانوں پر انگلیاں پھیر کر بولا : ایک لڑکی کو سب سے زیادہ سکون اس وقت میسر آتا ہے جب کوئی لڑکا اس کے ساتھ پیار کرتا ہے ، اسے چومتا ہے اور اس کے اندر تک اتر جاتا ہے۔

 

وہ ابھی نا سمجھی سے بولی: مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔

 

میں بولا : بس آج وہ آئے گی تو تم خود ہی دیکھ لینا۔

 

تھوڑی ہی دیر میں دروازہ بجا۔ حسب توقع رضیہ ہی تھی۔ میں نے منزئی کو ساتھ والے کمرے میں چھپا دیا۔ رضیہ داخل ہوئی تو سوالیہ انداز میں پوچھا کہ وہ موجود ہے جس نے ہمیں چھپ کر دیکھنا ہے ؟ میں نے بھی اشارے ہی سے کہا کہ ہاں موجود ہے۔

 

ہم دوسرے کمرے میں داخل ہو گئے۔ کمرے کا دروازہ کھلا ہی چھوڑ دیا تا کہ منزئی سب با آسانی دیکھ سکے۔ ایک پلان کے تحت میں نے رضیہ کو کپڑے اتارنے کا کہا اور خودساتھ کمرے میں منزی کے پاس پہنچا اور اسے بولا : منزی! آجاؤ۔۔ اس دروازے کےپیچھے سے سب دیکھ لینا۔

 

وہ بولی: اگر انھوں نے مجھے دیکھ لیا تو ؟

 

میں بولا : نہیں دیکھے گی، اس کا دھیان بس سکون لینے پر ہوتا ہے۔

 

اس نے سر ہلا دیا۔ میں نے تنے ہوئے لن کو دبایا اور دوسرے کمرے میں داخل ہوا

 

جہاں رضیہ مادر زاد سنگی حالت میں میری منتظر تھی۔

 

رضیہ نے انتہائی لو فرانہ انداز میں مجھے بستر پر دھکیلا اور میری پینٹ اتار کر میرا لنڈ نکال لیا۔

 

میراتنا ہوا لنڈ  اس نے کسی ماہر گشتی کی طرح منہ میں لے لیا۔ وہ زبان پھیر کر لنڈ کو منہ میں اتار لیا اور اسے چٹخارے لیتے ہوئے چوسنے لگی۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی ننگی گانڈ کو بھی لہرارہی تھی۔ اس کی پشت پر اندر جھانکتی منزئی دنگ رہ گئی۔ اسے بالکل امید نہیں تھی کہ اندر جھانکتے ہی ایک بلتی گانڈ اور پھدی دکھائی دے گئی اور جن محترمہ کی یہ پھدی اور گانڈ تھی وہ میرا لنڈ  منہ میں لے کر ہل رہی تھی۔ وہ جب ہلتی تو سر تا پیر  ہلتی، صرف منہ اور گردن ہلانے کی بجائے پوری ہلنے سے زیادہ بھر پور جنسی سین بنتا۔ منزئی پھٹی پھٹی آنکھوں سے سب دیکھ رہی تھی۔

 

رضیہ نے پانچ چھ منٹوں تک خوب میرا لنڈ چوسا، پھر مجھے دھکیل میرے اوپر سوار ہو گئی۔ میرا لنڈ  سیدھا کر کے اپنی پھدی میں ڈال لیا۔ لن اندر گھسا تو رضیہ ایسے چیخی جیسے لنڈ  نہیں کوئی جلتا کوئلہ  پھدی میں لے لیا۔ ساتھ ہی وہ تیزی سے ہلنے لگی جیسے ہل ہل کر پھدی سے ہی دیکھتے لنڈ کو ٹھنڈا کر رہی ہو۔ ساتھ ہی اس نے چیخنا اور بولنا شروع کر

 

دیا: ہائے ۔۔ سکندر ۔۔ اوئی۔۔ مار۔۔ اور مار

 

پھاڑ ۔۔ ڈال۔۔ میری پھدی۔۔ اور دو۔۔۔۔ سکندر۔۔ اردو۔۔ آدہ ہ۔۔۔ اووو۔۔۔ ہائے۔۔۔ اوئی۔

 

میں نے ہاتھ بڑھا کر اس کی کمر کو تھام لیا۔ اسے ہلانے میں مدد کرنے لگا۔۔ چار پانچ منٹوں بعد میں اس کے اوپر آگیا اور اس کی پھدی میں لنڈ  کو پوری طاقت سے گھسا نے لگا۔ منزی کھلے دروازے میں بنا کسی مشکل بالکل سامنے کھڑی ہو کر سارا سین دم سادھے دیکھ رہی تھی۔

رضیہ کے بھاری سڈول اور ملتے مموں کو میں خوب مسل مسل کر چوس اور دبارہا تھا۔ رضیہ کی چیخوں میں ہر جھٹکے کے ساتھ تیزی اور روانی آتی گئی۔ میں نے بھی اسے چودنے کی رفتار تیز کر دی۔ وہ بلند آواز میں مجھے بار بار اپنی پھدی کو پھاڑ ڈالنے کو کہنے لگی۔ اس کے ان جوش بھرے جملوں سے میرا جوش بھی ہر لمحے بڑھنے لگا۔ ساتھ ہی مجھے بھی اس احساس سے بہت مزا آرہا تھا کہ مجھے رضیہ کی پھدی مارتے منزئی دیکھ رہی ہے۔ اس کے کیا خیالات ہوں گے وہ میں سمجھ سکتا تھا کیونکہ کچھ ہی دنوں پہلے تک یہی میرے خیالات تھے جب رضور ضیہ کو چود رہا تھا۔

 

میں جب چھوٹنے پر آیا تو رضیہ نے تیزی سے میرا لن پھدی سے نکالا اور میر امنی اپنی بھاری چھاتی کے درمیان نکال دیا۔

 

وہ منی کو پورے مموں پر تیل کے اندز میں مساج کر کے بولی: حکیم صاحب کی بیوی سےسنا ہے کہ منی اگر جسم پر ملا جائے تو جلد ترو تازہ اور جوان رہتی ہے۔

 

میں بھی گہری سانس لے کر بولا : تمہیں مزا آیا ؟

 

وہ خوش ہو کر بولی: ہاں ! بہت مزا آیا، تم پھدی بڑے مزے کی مارتے ہو۔ یہ گھر لے کراچھا کیا یہاں جتنا مرضی شور مچاؤ اور مزے اڑاؤ کوئی تنگ کرنے والا نہیں۔ رضیہ چدائی کے بعد ہی کپڑے پہنے لگی اور بولی: اب میں جارہی ہوں مجھے بازار سے سودا

بھی لینا ہے جس کا بہانہ کر کے گھر سے نکلی ہوں۔

 

رضیہ کے جاتے ہی میں نے پینٹ پہن لی اور منزئی کے کمرے میں گیا۔ وہ سر جھکائے سرخ چہرا لیے بیڈ پر بیٹھی تھی۔ وہ مجھ سے بولی: تم اس کام کے پیسے لیتے ہو ؟ میں بولا : نہیں تو ۔۔ یہ تو وہ بس سکون کے لیے کبھی کبھار مجھے کہتی ہے تو مجھے کرنا پڑتا ہے۔

 

وہ بدستور سر جھکا کر بولی : تم سے تو وہ بہت بڑی ہے پھر بھی اسے درد ہوتا ہے۔ میں سمجھ گیا کہ بطور لڑکی وہ چدوانے کے متعلق پہلے ہی کافی معلومات رکھتی ہے اور ویسے بھی اس کی جو ان بہنیں بھی تو ہیں۔ یوں لڑکیوں والے گھروں میں جنسی معلومات زیادہ ہوتی ہیں۔

 

وہ بولی: یہ تو بہت گندا کام ہے شادی سے پہلے تو نہیں کرنا چاہیے۔

 

میں بولا : ہاں ! بات تو تمہاری ٹھیک ہے مگر میں ان کو کیسا منع کرتا۔ ان کو بھی اور کبھی کبھی ان کی کوئی سہیلی بھی آجائے تو اسے بھی خوش کرنا پڑتا ہے۔

 

وہ حیرت سے بولی: تم اس کے ساتھ بھی کرتے ہو ؟

 

میں بولا : ہاں کیا کروں کرنا پڑتا ہے ؟

 

میں اس کے نزدیک کھسک کر بولا: منزیٰ ! تم نے کبھی کیا ہے ؟

 

وہ تھوڑی سی کنفیوز ہو گئی مگر نفی میں سر ہلا کر بولی: نہیں ! یہ گندا کام ہے۔

 

میں بولا : مگر انسان غلطی سے ہی کر لیتا ہے تم نے کبھی کیا ہے؟۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید کہانیوں کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

رومانوی مکمل کہانیاں

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کالج کی ٹیچر

کالج کی ٹیچر -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

میراعاشق بڈھا

میراعاشق بڈھا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

جنبی سے اندھیرے

جنبی سے اندھیرے -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

بھائی نے پکڑا اور

بھائی نے پکڑا اور -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کمسن نوکر پورا مرد

کمسن نوکر پورا مرد -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page