ہوس ۔۔ نامساعد حالات میں جینے والے نوجوان کی کہانی۔ بے لگام جذبوں اور معاشرے کی ننگی سچائیاں۔ کہانیوں کی دنیا پیڈ سیکشن کا نیا سیکسی سلسلہ وار ناول
-
میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا
April 17, 2025 -
کالج کی ٹیچر
April 17, 2025 -
میراعاشق بڈھا
April 17, 2025 -
جنبی سے اندھیرے
April 17, 2025 -
بھائی نے پکڑا اور
April 17, 2025 -
کمسن نوکر پورا مرد
April 17, 2025
ہوس قسط نمبر 12
تاری جواب سن کر نہال ہی ہو گیا۔ وہ بولا : وہ مجھے معلوم تھا آپ بھی شرمارہی ہوں
گی، اس لیے میں نے سوچا پہلے ہم چدائی کر لیتے ہیں، پھر ہم باقی سب کریں گے۔
میں آپ کی پھدی کو چھیٹروں؟
شبانہ بولی: جی۔۔ چھیٹر لیں۔۔
تاری نے اس کی گیلی پھدی جس میں اس کا منی بھی بہہ کر باہر آرہا تھا کو چھوا اور بولا: کتنی گرم ہے۔
اس نے پھدی کو اپنے رومال سے اچھی طرح صاف کیا اور اندر سے خشک کیا۔ اس کوشش میں رومال گیلا ہو گیا۔ تاری نے رومال لپیٹ پر واپس رکھ دیا۔ پھدی کو دوبارہ چھوا اور دانے کو ٹولتا ہو ابولا : یہ والا جو ہے ۔۔ یہی ہوتا ہے نا پھدی کا دانہ ۔۔۔
شبانہ بولی: جی۔۔ تھوڑا سا اوپر ۔۔ جی
۔۔ یہ۔۔ یہ ۔۔ والا ۔۔ ہاں۔۔ یہی۔۔ پلیز۔۔ آئی۔۔ آرام سے۔ ۔۔
تاری بولا: اس کو چھیڑوں؟
شبانہ بولی: جی۔۔ مگر پلیز۔ آرام سے۔۔ درد ہوتا ہے۔۔
تاری بولا : آپ لیٹ جائیں۔۔ میں اسے چھیڑتا ہوں۔۔
تاری شبانہ کی پھدی کے دانے کو مسلنے لگا۔ پانچ سات منٹوں کی مسلسل رگڑ سے شبانہ لوہے کی طرح تپ گئی، اس کی چھاتی پر نپل تن گئے ، وہ خود ہی اپنے بریسٹ کو مسلنے لگی۔
تاری بولا: میں کرتا ہوں۔
وہ ایک ہاتھ سے شبانہ کے ایک ممے کو مسلنے لگا، دوسرے ہاتھ سے اس کی چوت کا دانہ چھیٹر نے میں لگا رہا اور منہ سے شبانہ کا دوسر ا مما چوسنے لگا۔ شبانہ نے پہلی بار لطف بھری سکاری بھری اور شرم لحاظ اور لجا ترک کر کے بولی: تیز ۔۔ اور تیز ۔۔ یہ والا بھی چوسیں ۔۔ ہائے۔۔ مزا۔۔ آ۔۔ گیا۔
تاری اس کے کہنے سے اور بھی بر جوش ہو گیا، اس کے لن کو بھی شبانہ کی لطف بھری آئیں سن سن کر پہلے جیسا تناؤ حاصل ہو گیا۔ شبانہ نے اچانک ہی جھٹکے کھائے اور تاری کو او پر کھینچا، تاری کے منہ میں زبان ڈال دی اور لن کو دبا کر چلا کر
بولی ؛ بس۔۔ بس۔۔۔ اب پھدی مار دیں۔۔ میری۔۔
تاری نے تیزی سے اس کی پھدی میں لن ڈالا اور جھٹکے لگانے لگا۔ اس بار اس کا بھی جوش پہلے سے کہیں زیادہ تھا۔ شبانہ بھی اس کی کمر کے گرد ٹانگیں لپٹائے جم کر پھدی مروانے کا مزا اٹھارہی تھی۔ وہ چھوٹ چکی تھی اب پھدی مروانے کا بونس لے رہی تھی۔ وہ خود ہی بولی: پیچھے سے ماریں میری ۔۔ ہائے۔۔ پیچھے۔۔ سے۔۔
تاری اٹھا تو شبانہ خود ہی تیزی سے الٹی لیٹ گئی۔ تاری نے اس کی گانڈ سے گزار اس کی پھدی میں لن ڈالا اور چودنا شروع کر دیا۔ اس بار شبانہ زور زور سے آہیں بھر نے لگی اور کہنے لگی۔۔ تیزی
ہے۔۔ ہائے۔۔ پھٹ گئی۔۔ میری۔۔ اوئی۔۔ تیز۔۔ آئے۔۔۔ ہائے۔۔
تاری خان نے اپنے جسم کی ساری طاقت لگا کر شبانہ کی پھدی میں جھٹکے لگائے کہ جب چھوٹا تو بے دم ہو کے شبانہ کے اوپر لیٹ گیا۔ شبانہ نے ایک بار پھر تاری کے منہ میں اپنی زبان داخل کر دی تا کہ وہ آخری لمحات میں بھی مزا لے سکے۔
یہ عجیب کپل تھا دو دفعہ پھدی مارنے کے بعد اب دونوں میں کسنگ شروع ہوئی تھی۔ کسنگ کرتے کرتے اچانک ہی شبانہ بولی: مجھے جانا ہے۔۔ مجھے دیر ہو رہی ہے۔
تاری بولا : ابھی ٹھہر جائیں۔۔ باتیں کرتے ہیں۔
مگر شبانہ تیزی سے اٹھ کر شلوار پہنتے ہوئے بولی: نہیں بھابھی آنے والی ہوں گی۔ مجھے جانا ہے۔
تاری نے اس کا برا اسے اٹھا کر دیا اور جب وہ پہن چکی تو پیچھے سے ہک بند کر دیا۔ شبانہ نے جلدی سے قمیض پہنی اور دوپٹہ اوڑھ کر دروازے کی طرف جانے لگی تو تاری نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا : ایک منٹ۔۔ گلے تو مل لو۔
اس نے شبانہ کو سختی سے گلے لگالیا اور اس کی قمیض اور اٹھا کر شلوار نیچے کی اور لن کو ہاتھ سے پکڑ کر پھدی کے لبوں سے دو چار بار ٹکرایا، اس کے ہونٹوں اور مموں پر چوم کر بولا : پھر ملیں گے۔
شبانہ نے شلوار اوپر کر کے قمیض سیٹ کی، اس کے لن کو ہاتھ میں لے کر دبایا، اثبات میں سر ہلایا اور باہر نکل آئی۔ میں بھی ساتھ والے کمرے میں سے باہر نکل گیا اور بولا: جارہی ہو؟
وہ بولی : ہاں ! ابھی گھنٹہ تو گھر جانے میں لگ جائے گا۔ بھا بھی ٹیوشن پڑھا کر سات بجے آتی ہے، چھ بجنے والے ہیں، میں جاتی ہوں۔
وہ تیزی سے نکل گئی اور پانچ منٹ بعد تاری بھی کپڑے پہن کر نکل آیا۔ وہ مسرور اور بڑا پر جوش لگ رہا تھا۔ وہ بولا : اویا را ! تم نے مجھے سب سے مزیدار پھدی چکھایا ہے۔ اب کسی پھدی کا مزا نہیں آئے گا۔ اس کو ہر بار بلانا۔۔ میں کہیں سے بھی پیسے لا کے اس کو دوں گا۔ یہ ہیں اب اپنا ہے۔
میں بولا: جیسا تم چاہو۔۔ تاری بھائی۔۔
اس نے وہ لیس دار گیلا رو مال مجھے دکھایا اور بولا: یہ میری جان کی گیلی پھدی کا پانی ہے۔ میں اس رومال میں مٹھ لگاؤں گا۔
میں بولا : اب مٹھ کو چھوڑو تاری بھائی۔۔ پیسے تم ڈھیلے کرو اور نالہ میں ڈھیلا کر وادوں گا۔
وہ ہنسا اور خوش باش نکل گیا۔ اس کے جانے کے بعد بلومنہ بسورے آگیا: یار ! مجھے تو تو نے پھدی دلوائی ہی نہیں۔
میں بولا: صبر کرو یار ۔۔ دلوادوں گا۔ اب کی بار بالکل ٹائیٹ اور تازی تازی پھدی دلواؤں گا۔
میں نے خود پھدی کا مزا نہیں لیا تھا۔ اس لیے موڈ نا خوشگوار ہو رہا تھا۔
شام کافی ہو چکی تھی اس لیے میں نے بھی گھر کی طرف جانا بہتر سمجھا ابھی میں تھوڑا سا ہی اگے گیا تھا کہ گلی کے نکڑ پر کچھ کتے اپس میں لڑ رہے تھے جس کی وجہ سے مجھے اپنا راستہ بدلنا پڑا دوسری گلی میں جیسے ہی میں نے قدم رکھا وہاں سے ایک تیز رفتار موٹر سائیکل نے مجھے اتنی شدید ٹکر ماری کہ میں اپنے اوسان کھو بیٹھا جب مجھے ہوش ائی تو اس وقت میں کہیں اور نہیں بلکہ اپنی امی کے بستر پر لیٹا ہوا تھا اور میری امی میرے سرانے کے پاس بیٹھ کر میری شلوار کے اوپر سے ہی میرے لنڈ کو مسل رہی تھی میں نے کچھ دیر تو اپنا جسم ڈھیلا چھوڑی رکھا لیکن ان ہاتھوں کی گرمی کی تاب نہ لاتے ہوئے میں نے اٹھنے کی اداکاری کی اور میری امی نے میرے لنڈ کو فورا سے چھوڑ دیا
جب مجھے ہوش ایا تو میں نے محسوس کیا کہ میں ٹھیک ہوں بس میری کمر اور میرے سر پر چوٹ ائی تھی شاید سر پہ چوٹ لگنے کی وجہ سے ہی میں بے ہوش ہو گیا تھا مجھے ہوش میں اتا دیکھ کر امی فورا سے بولی
امی ۔ شکر مالک کا کہ تمہیں ہوش اگیا اب کیسا ہے میرا بیٹا کہاں کہاں درد ہو رہی ہے
میں بولا ۔ امی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں میں بالکل ٹھیک ہوں بس کمر اور سر میں درد ہو رہی ہے کیا میرے سر میں یا کمر میں کہیں پر ٹانکے بھی لگے ہیں
امی بولی ۔ نہیں بیٹا نہ تمہارے سر پر نہ کمر پر کہیں پر بھی بیرونی چوٹ کے کوئی نشان نہیں ہے تمہیں جو بھی چوٹیں لگی وہ اندرونی ہیں ڈاکٹر نے تمہیں انجیکشن لگا دیا ہے درد کا ارام ا جائے گا تم پچھلے دو گھنٹے سے بے ہوش پڑے تھے
میں بولا ۔ امی مجھے گھر کون لایا
امی بولی ۔ بیٹا وہ پچھلی گلی کا بلو تجھے اپنی موٹر سائیکل پر کسی اور لڑکے کی مدد کے ساتھ لے کر ایا
میں بولا ۔ امی بہنیں کدھر ہیں
امی بولی ۔ انہیں بالکل بھی نہیں پتہ تمہارے ایکسیڈنٹ کا کیونکہ وہ اج دوپہر سے ہی تمہاری خالہ کے گھر چلے گئی تھیں اج ان لوگوں نے رات وہیں گزارنی ہے جب تمہارے دوست تمہیں لے کر ائے تو اس وقت میں گھر میں اکیلی تھی
میں ۔ امی اب میں ٹھیک ہوں میں اپنے کمرے میں جانا چاہتا ہوں
امی ۔ بالکل بھی نہیں تم اپنے کمرے میں بالکل نہیں جاؤ گے بلکہ اج تم میرے ساتھ اسی بستر پر سو گئے اور سونے سے پہلے میں تمہارے جسم کی گرم تیل سے مالش بھی کروں گی تاکہ تم تر و تازہ اور تندرست ہو جاؤ اور جو تمہاری اندرونی چوٹیں ہیں ان میں خون جمع نہ رہے اور تم اپنی درد سے جلدی نجات پا لو
میں ۔ نہیں امی اس کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی
شاہی اپا کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑ جانے کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ میں اپنی امی کے ساتھ گفتگو کر رہا تھا اور میرے دل میں ڈر بھی تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ امی اس دن کی بات چھیڑ دیں اور مجھے ڈانٹ یا مار پڑ جائے لیکن ایک جو حیران کن بات تھی وہ یہ تھی کہ میرے جاگنے سے پہلے میری ماں میرے لنڈ کے ساتھ کھیل رہی تھی مجھے سوچ میں ڈوبا چھوڑ کر میری امی جلدی سے اٹھیں اور باہر چلی گئی کچھ دیر بعد جب وہ دوبارہ کمرے میں داخل ہوئی تو ان کے ہاتھ میں کھانا تھا انہوں نے مجھے سہارا دے کر بٹھایا اور میرے اگے کھانا رکھ دیا کیونکہ میں صبح کا بھوکا تھا اس لیے میں چپ چاپ کھانا کھانے لگ گیا جب میں کھانا کھا چکا تو امی کھانے کے برتن لے کر دوبارہ سے باہر چلی گئی اور اب کی بار جب وہ دوبارہ کمرے میں ائی تو ان کے ہاتھ میں گرم دودھ اور دوسرے ہاتھ میں تیل کی بوتل تھی انہوں نے مجھے دودھ دیا اور ساتھ میں دو گولیاں بھی کھانے کے لیے دے دیں اور کہا
امی ۔ یہ کھا لو اسے تمہیں درد میں ارام ملے گا
میں نے دودھ پی لیا لیکن گولیوں میں سے ایک گولی جو نیند کی تھی وہ میں نے نہ کھائی اور درد کی گولی کھا لی اور نیند کی گولی امی سے نظر بچا کر پھینک دی اس کے بعد امی نے میری طرف میری ایک شارٹس (فٹ بال والی نکر ) اچھالتے ہوئے کہا
امی ۔ یہ پہن لو تاکہ میں تمہارے جسم کی مالش کر سکوں
اور یہ کہہ کر وہ ایک دفعہ پھر کمرے سے باہر چلی گئی اس کے بعد نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے اپنے سارے کپڑے اتارے اور وہ شارٹس پہن کر دوبارہ سے بستر پر لیٹ گیا شارٹ کافی پرانا تھا جس کی وجہ سے میرے لنڈ کا ابھار اس میں سے واضح طور پر نظر ا رہا تھا اور تبھی دروازے سے امی کمرے میں داخل ہوں ان کو دیکھتے ہی میرے شارٹ میں میرے ابھار نے تھمبو کی شکل اختیار کر لی کیونکہ اس وقت وہ ایک بہت ہی باریک سی قمیض جس کی فٹنگ ایسی تھی جیسی کہ جسم کے ساتھ سیا ہو ایک ایک انگ اس میں سے امی کا واضح نظر ارہا تھا اور گلا اس قدر بڑا تھا کہ ان کے مموں کی گہری لکیر بغیر جھکے بھی نظر ارہی تھی اور نیچے انہوں نے شلوار کی جگہ ٹائٹس پہنی ہوئی تھیں قمیض کی لمبائی صرف ان کی رانوں تک ارہی تھی جس سے ان کے تھائز کی گولائی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا تھا ان کی قمیض سلیو لیس تھی اور ان کے گورے گورے بازو انتہائی دلکش منظر پیش کر رہے تھے اس کے بعد انہوں نے دروازے میں ہی کھڑے کھڑے اپنے دونوں ہاتھوں کو پیچھے لے جا کر اپنے بالوں کا جوڑا بنانا شروع کر دیا اور ایک اور انتہائی دل کش منظر میری انکھوں کے سامنے اگیا جب میری نظر ان کے بغل پر پڑی گورے چٹے بغلوں میں بالوں کا نام و نشان نہیں تھا میرا تو دل کر رہا تھا کہ ابھی جاؤں اور ان بغلوں میں اپنی زبان اتنی دیر تک پھیرتا رہوں جب تک کہ وہ اور میں فارغ نہ ہو جائیں لیکن یہ منظر کچھ ہی سیکنڈ رہا اور وہ اپنے بال ٹھیک کر کے دوبارہ سے میری طرف اگئی اس کے بعد انہوں نے مجھے الٹا ہونے کا کہا اور میں چپ چاپ بستر پر الٹا ہو گیا انہوں نے اپنی نازک نازک انگلیوں سے میری کمر پر تیل لگانا شروع کیا اور ایک پروفیشنل مساجر کی طرح مجھے مالش کرنے لگی انہوں نے پہلے میری کمر اس کے بعد میرے ٹانگوں پر بھی مالش کرنا شروع کر دی میری شارٹس کے اندر تک ہاتھ لے جاتی اور میری گانڈ کی بھی مالش کر دی اس کے بعد پھر شروع ہوا اصلی کھیل جب انہوں نے نیا فرمان جاری کیا کہ اب سیدھے ہو کر لیٹ جاؤ
میں سیدھا ہو کر لیٹا تو وہ میری تھائز پر ا کر ایسے بیٹھیں کہ ان کی پھدی عین میرے لنڈ کے ساتھ ٹکرانا شروع ہو گئی اور میرا لنڈ جو پہلے ہی تن کر کھڑا تھا ان کی پھدی کی لکیر میں دھنس گیا کیونکہ انہوں نے نیچے بہت ہی ٹائٹ ٹائٹس پہنی ہوئی تھی جس سے ان کی پھدی کی لکیر واضح نظر ارہی تھی جس میں اس وقت میرا لنڈ میری شارٹس میں پھنسا ہوا تھا انہوں نے جھک کر میرے سینے پر تیل لگانا شروع کیا اور جب وہ جھکتی تو ان کے بھاری ممے ان کے گریبان میں سے مجھے واضح نظر اتے اور جو میرے لیے انتہائی جان لےوا ثابت ہوتے جا رہے تھے مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے میں بغیر اپنے لنڈ کو ہاتھ لگائے ہی فارغ ہو رہا ہوں وہ نظارہ ہی اس قدر دلکش تھا کیونکہ اس وقت میری امی صرف اور صرف ایک باریک سی قمیض میں تھی جس میں ان کے نپل تن کر کھڑے ہو چکے تھے نپل کے ابھار سے واضح ہو رہا تھا کہ وہ اس وقت بغیر برا کے ہیں اور ان کے دل کش ممے میری انکھوں کے اس قدر سامنے تھے اور میں اپنے اپ کو اتنا بے بس کبھی نہیں پایا تھا کہ میں ان مموں کو ہاتھ بھی نہیں لگا پا رہا تھا اہستہ اہستہ مالش کرتی ہوئی میرے پیٹ پر ائیں اور اس کے بعد انہوں نے میری شارٹس کے ناڑے کو تھوڑا سا اوپر کیا اور اپنا ہاتھ لے جا کر میرے لنڈ کے اوپری حصے پر بھی مالش کرنا شروع کر دی اور میں بے بسی کے عالم میں بس انتظار ہی کرتا رہا کہ شاید وہ میرے لنڈ کو پکڑیں لیکن وہ ظالم عورت تو مجھے ابھی اور بھی تڑپانے کے موڈ میں تھی اور اس نے وہاں سے ہاتھ نکال کر میری ٹانگوں کی مالش شروع کر دی وہ جھک کر میرے پیروں کی مالش کرنے کے بعد اہستہ اہستہ اوپر میرے تھائز تک ائیں اور اس کے بعد میرے تھائز کے کھلے پائنچے کے اندر اپنا ہاتھ ڈالا اور میرے لنڈ کے قریب مالش شروع کر دی ان کا ہاتھ میرے ٹٹوں پر اور میرے لنڈ کے ساتھ ٹکرانا شروع ہو گیا اور اب بات میری برداشت سے باہر ہوتی جا رہی تھی اور پھر وہ ہوا جس کا انتظار میں کب سے کر رہا تھا انہوں نے میرے پائنچے میں سے ڈالے ہوئے ہاتھ کے ذریعے ہی میرے لنڈ کو پکڑ لیا اور اس پر تیل کی مالش شروع کر دی وہ اپنے تیل سے بھیگی ہوئی انگلی کو میرے ٹوپے پر اوپر سے نیچے پھیر رہی تھی اور میری انکھوں میں دیکھتے ہوئے وہ یہ عمل بار بار دہرا رہی تھی انہوں نے اپنا ہاتھ اچانک میرے شارٹ میں سے کھینچ لیا اور اس کے بعد اپنے دونوں ہاتھوں کی مدد سے میری شارٹس کو اتارنا چاہا اور میں کسی جادو کے اثر میں تھا کہ میں نے اپنی گانڈ کو اوپر اٹھا لیا تاکہ میری ماں میری شارٹس اتار سکیں اور کچھ ہی پلوں کے بعد میری شارٹس اتر کر بیڈ سے نیچے پڑی ہوئی تھی اور میرا تنا ہوا لنڈ میری ماں کی انکھوں کے سامنے تھا جسے وہ بہت ہی پیار سے دیکھ رہی تھی انہوں نے دوبارہ سے اپنے ہاتھ میں کافی سارا تیل انڈیلا اور میرے لنڈ کی مالش شروع کر دی وہ ایک ہاتھ سے میرے لنڈ کی مالش کرتی جا رہی تھی اور دوسرے ہاتھ سے وہ میرے ٹٹوں کو سہلاتی جا رہی تھی یہ دہرا حملہ میرے لیے برداشت کرنا انتہائی مشکل ہوتا جا رہا تھا اس لیے میں نے اپنے سر کو دائیں بائیں جھٹکے دینا شروع کر دیا میں فارغ ہونے کے انتہائی قریب تھا اور میری ماں یہ سمجھ گئیں اور انہوں نے میرے لنڈ کو چھوڑ دیا اور میری انکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا
امی۔ اور مزہ لینا چاہو گے
میں کچھ نہ کہہ سکا بس صرف اپنی گردن کو ہاں میں ہلا دیا اور میری امی فورا سے بھی پہلے میرے بستر سے اٹھیں اور اپنی الماری کو کھولا اور اس میں سے ایک کپڑے کو نکالا جس سے میرے لنڈ اور میرے ٹٹوں پہ لگے ہوئے سارے تیل کو صاف کیا اس کے بعد انہوں نے اپنی قمیض کو اتار کر پھینک دیا تو میں نے واضح طور پر ان کی مہرون ٹائٹس میں سے ان کی پھدی کے حصے کو گیلا دیکھا جو دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ ان کی پھدی بھی کافی پانی چھوڑ رہی ہے اور اس وقت وہ سیکس کے لیے بے تاب ہے ان کے گورے ممے ان کے سینے پر جھول رہے تھے اور میں اس منظر کی تاب بالکل بھی نہیں لا پا رہا تھا وہ دوبارہ سے میرے قریب ائیں اور میرے ہونٹوں کو ہلکا سا چوما اور مجھ سے کہا
امی ۔ تمہاری ماں تمہاری بہن سے بہت زیادہ اچھا لنڈ چوستی ہے
اور ان کے الفاظ میرے لیے کسی بم سے کم نہ تھے میں حیران پریشان ان کو دیکھ ہی رہا تھا کہ وہ تیزی سے گھومی اور میرے لنڈ پر جھکی اور میرے لنڈ پر زبان پھیرتے ہوئے کبھی نیچے سے اوپر اور اوپر سے نیچے اتی اور اس کے بعد انہوں نے میرے ٹٹوں کو باری باری چوسنا شروع کر دیا کبھی ایک ٹٹا اپنے منہ میں لیتی اور کبھی دوسرا ٹٹا اسی طرح وہ میرے ٹٹوں کی تھیلی کے ساتھ مسلسل دو سے تین منٹ تک کھیلتی رہیں اور اس کے بعد انہوں نے میرے لنڈ کے چاروں طرف زبان پھیر کر میرے لنڈ کو گیلا کیا اور میرے لنڈ کو اپنے منہ میں لے لیا وہ میرا لنڈ پورا ہی اپنے منہ میں لے رہی تھی میرے لنڈ پر ان کے گلے کی گرمی کا احساس ہو رہا تھا ان کے منہ سے غوں غوں کی اوازیں بھی ارہی تھیں لیکن وہ کسی ماہر رنڈی کی طرح میرے لنڈ پر بہت تیزی سے اپنا منہ اوپر نیچے کر رہی تھی میرے ہاتھ کس وقت ان کے سر کے بالوں میں گئے اور میں نے کس وقت نیچے سے کمر اٹھا کر اپنا لنڈ ان کے منہ میں اندر باہر کرنا شروع کر دیا مجھے بالکل بھی اندازہ نہ ہوا اور کچھ ہی پلوں کے بعد مجھے میرے جسم کا تمام تر خون اپنے لنڈ کی طرف جاتا ہوا محسوس ہوا اور میرے لنڈ نے گرما گرم پچکاریاں چھوڑنا شروع کر دیں جو سیدھا میری ماں کے خلق میں جانی شروع ہو گئی انہوں نے میری منی کا ایک قطرہ بھی ضائع نہ کیا اور پورا کا پورا نگل کر میرے لنڈ کو اچھے سے چوس کر صاف کر دیا جب میں پوری طرح سے فارغ ہو چکا تو میں بالکل ہی نڈھال ہو گیا تھا میری امی نے میری طرف دیکھا اور کہا
امی۔ بہت کچے کھلاڑی ہو تمہیں تو بہت کچھ سکھانا پڑے گا تم دو منٹ میرا چوپا برداشت نہیں کر سکے تو میری پھدی کی گرمی کیسے برداشت کرو گے
میں شرمندہ اپنی ماں کی طرف دیکھ رہا تھا اور وہ مسکراتی ہوئی بستر سے اٹھی اور میرے پر کمبل ڈال دیا اور مجھ سے کہا
امی ۔ تم نے گولی کھائی ہوئی ہے تم سو جاؤ
اور حقیقت بھی یہی تھی کچھ ڈاکٹر کے انجیکشن کا اثر تھا اور کچھ میری امی کے دمدار چپے کا اثر کہ میں ہلکا ہلکا غنودگی میں جانا شروع ہو گیا میں کس وقت سویا مجھے بالکل بھی پتہ نہیں چلا میری انکھ کسی کھڑاک سے کھلی اور اس وقت رات کے دو بج رہے تھے جب میں امی کمرے سے باہر ایا اور دیکھنا چاہا کہ یہ کیا اواز ہے تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے ہی بستر پر میری ماں ایک مرد کے ساتھ دمدار چدائی میں مصروف تھیں اور وہ گھوڑی بنی ہوئی تھی اور وہ آدمی پیچھے سے ان کی دمدار طریقے سے چدائی کر رہا تھا
اس رات میں نے ایک بار پھر اس مرد کو میری ماں کو چودتے دیکھا۔ میں نے اس مرد کو غور سے دیکھا اور شکل یاد کر لی۔ مجھے پتا لگانا تھا کہ یہ مرد ہے کون؟
صبح رضو گلی میں ملا اور بولا : ابھی سالے ! کہاں ہوتا ہے سارا دن۔۔ کبھی تو شکل دکھا جایا کر۔
میں بولا : رضو بھائی ! تم اپنا کام تو نکال لیتے ہو، کبھی سوچا ہے کہ مجھے بھی کسی بچی کی پھدی کی ضرورت ہوتی ہو گی۔
وہ بولا : ابے تو ابھی بچہ ہے ، ابھی کئی سال تجھے پھدی کے بغیر گزارنے ہوں گے۔ ابھی مٹھ وغیرہ مار ۔۔ یا۔۔ زیادہ سے زیادہ کسی بچے کی گانڈ مار اور بدلے میں اپنی اس سے مرور ۔ ہاہا۔۔
میں نے اس کے بنتے چہرے کو غور سے دیکھ کر دل میں فیصلہ کیا کہ بیٹے تیری ماں بہن جو ہاتھ لگی اس کی گانڈ تو لازمی ماروں گا اور دوسروں سے بھی مرواؤں گا۔ مجھے گانڈ مروانے کا مشورہ دیتا ہے۔
تاری خان اگلے ہی دن وارد ہو گیا اور بولا : یار! اس بچی کو بلوا دے۔ لن بڑا اداس ہے اس کے بغیر۔
میں بولا ؛ بھولے ہو تاری بھائی۔ اس ایک کی پھدی ہی مارتے رہو گے کیا ؟؟ کل والی بلبل کی کمر بھول گئے ؟
وہ ہنس کر بولا : ہاں یار ! اس کی بھی مل جائے تو کیا بات ہے؟
میں راز داری سے بولا : اسے میں پٹالوں گا مگر وہ سالی بڑی چالو ہے۔ ہزار میں نہیں مانے گی۔
وہ لن کو مسلتے ہوئے بولا: کچھ رعایت کر۔۔ ہزار روپیہ ایک مزدور کی پورے مہینے کی کمائی ہے۔
میں بولا : تاری بھائی ! عزت لڑکی کی عمر بھر کی کمائی ہوتی ہے۔ وہ اگر وہ مزدور کی مہینے بھر کی کمائی کے عوض بیچ دے تو کہاں مہنگی ہوئی۔
وہ لا جواب ہو کر بولا : چل ٹھیک ہے۔۔ میں کرتا ہوں کچھ۔۔ کیا حساب بنے گا؟
میں بولا : یہی کوئی بارہ تیرا سو دے دینا۔
وہ بولا : صحیح ہے۔۔ جب بات بن جائے تو بتانا۔
میں بولا : تاری بھائی ! اچھا موقع ہے کوئی اور بھی یار دوست بلاؤ اور ان کو مزے کرائیں گے۔
وہ آنکھیں پھاڑ کر بولا : مطلب اگر میں کوئی دوست لے آؤں تو وہ اسے پھدی مارنے
دے گی؟
میں بولا : کیوں نہیں دے گی تاری بھائی۔ ہزار روپیہ بھر رہے ہیں، زیادہ کرے گی تو تم لوگ زبر دستی پھدی پھاڑ دینا اس کی۔
وہ بولا؛ یہ ٹھیک ہے پھر ۔۔ ویسے یار! کل پتا چلا کہ جوان بچی کی پھدی کا ہی مزا ہے، یہ بڑی عورت تو بس ایویں مزا خراب کرنے والی بات ہے۔ میں نے تو جب سے اسکی پھدی ماری ہے نشہ ہی نہیں اتر رہا۔۔ کیا ٹائیٹ پھدی تھی، کسی بہن چود نرم ممے تھے اور کیا گانڈ تھی۔ مزاہی آگیا۔۔
میں بولا : تاری بھائی ! اگر کبھی تمہیں سولہ سال کی بچی کی لے دوں تو ؟؟؟
وہ جھٹکا کھا کر بولا : ابے ہے کوئی۔۔ دکھا نہ یار ۔۔ ایسا مال دکھا۔۔ بہن چود ایسی چھوٹی بچی تو بلیو پرنٹ میں بھی نہیں ہوتی۔
میں بولا : مگر وہ چار پانچ ہزار سے کم میں نہیں ملنے والی۔
وہ ریٹ سن کر بولا : بہن چود لن کی ٹرین پیسوں پر آکر رک جاتی ہے۔۔ چل کوئی نہیں ۔۔
میں وہاں سے نکلا تو رضو کی بہن چھیمو بولی: اوئے سکندرا تو نے ٹونی کی ملویر کا مکان دیکھا ہے نا؟
میں بولا : ہاں باجی دیکھا تو ہے، پر دور بہت ہے۔۔ کیوں خیر ہے؟
وہ بولی : او۔ وہاں کپڑے دینے ہیں، وہ کہتی تھی کہ اپنی ساتھی استانیوں کے بھی کپڑے لا دیا کرے گی۔ تو جا کر لا دیا کر۔۔ تو وہاں ٹیوشن پڑھنے جاتا ہے نا، وہ بتارہی تھی ؟
ایک پرانا بولا جھوٹ گلے پڑ رہا تھا، میں بولا : بس جی کدی گیا کدی نہ گیا والا معاملہ ہے۔
وہ بولی: اچھا چل پتر تو مجھ سے آنے جانے کا دس روپے خرچہ لے لیا کر۔
اسی وقت اس کی بیٹی نسرین آگئی، نسرین چھیمو کے ساتھ سلائی میں مدد کیا کرتی تھی۔
میں بولا : ویسے باجی !انی سوٹ کا تمہیں کتنا بچتا ہے؟
وہ بولی: پتر ، کاج، بٹن اور لیس کے پیسے کاٹ کے ساتھ ستر بچتا ہے۔
میں نسرین کے نمکین سراپے کو دیکھتا ہو ابولا : تو تم نسرین کو کسی سلائی مرکز میں بھیج دیا کرو۔ سو ایک سو میں تو مل جایا کریں گے۔ باقی یہ سوٹوں والا کام بھی ہو جایا کرے گا۔ یہ تو کبھی ہوئے کبھی نہ ہوئے ۔۔ وہ تو مستقل تنخواہ ہو گی۔ کام بس گھنٹے دو ہو گا۔ وہ حیرت سے بولی : سلائی مرکز کونسا۔۔؟
میں بولا: یہ جو لکشی چوک ہے ادھر ایک استانی سکھاتی ہے سلائی اور کام کے بعد سو روپیہ دہاڑی دیتی ہے۔ سمجھ لو مہینے کے تین ہزار پکے۔
اس دور میں تین ہزار ایک کلرک کی تنخواہ سے زیادہ تھی۔ اس لیے دونوں ماں بیٹیاں حیران رہ گئیں۔ چھیمو بیوہ تھی اور جوان بچوں کو لیے میکے میں بیٹھی تھی۔ ظاہر تھا کہ کپڑے سی کر اتنا گزارہ نہیں ہو پاتا تھا کہ وہ اپنے بچوں کی ضرورتیں پوری کر پاتی۔ مگر اگر تین ہزار محض نسرین کمالاتی تو ان کے لیے زندگی آسان ہو سکتی تھی۔
وہ بولی: تو سچ کہہ رہا ہے ؟
میں بولا : ہور نہیں تے کی۔۔ تم دونوں ابھی چلو میرے ساتھ تم کو استانی کا مرکز دکھاتا ہوں۔ یہ وہاں کام پر کل سے جایا کرے، میری استانی کے بیٹے سے سلام دعا ہے، میں کل ہی کچھ پیسے لے دوں گا
وہ دونوں اسی وقت تیار ہو گئیں۔ میں نے ایک جوا کھیلا اور ان کو چنگ چی رکشے پر بٹھا کر لکشی لے آیا۔
یہاں وہ سلائی سنٹر تھا جہاں منزئی ہوا کرتی تھی۔ سلائی سنٹر واقعی ایک قسم کا ٹرینگ سنٹر تھا۔
میں بولا : تم لوگ بس پیسوں کی بات مت کرنا، ورنہ ہر لڑکی کہے گی کہ اسے بھی پیسے دیئے جائیں۔ تم بس یہ کہنا کہ اس بچی کو کام سکھانا ہے۔ باقی ساری گل میں بعد میں دیکھ لوں گا۔
چھیمو کام سیکھتی کئی لڑکیوں کو دیکھ کر بولی: پر ایہہ تے بس سکول ہے ۔۔ پیسے والی گل تو مشکل ہے۔
میں بولا تم یہی تو نہیں سمجھتی ہو۔ یہ جن کپڑوں پر لڑکیاں کام کر رہی ہیں، یہ بھی تو بکھیں گے۔ ہے کہ نہیں۔۔ بنا مزدوری لڑکیاں مفت میں کام کر لیتی ہیں۔۔ استانی بیچ کر پیسے بناتی ہے۔۔ فیر جناب۔۔ جو جو خاص ہو اس کو تنخواہ دیتی ہے۔
چھیمو کے چہرے پر رونق آگئی۔ وہ گئی اور خرانٹ کی استانی سے ملی، وہیں منزئی بھی آ گئی۔
وہ مجھے دیکھ کر بولی : تم یہاں کس کے ساتھ آئے ہو ؟
میں بولا: یہ اپنے محلے کی ماسی چھیمو ہے۔ بیٹی کو کام سکھانا چاہتی ہے۔
وہ سرگوشی میں بولی: مجھے پچاس روپے دو گے ، میں نے کلر والی کاپی اور کلر لینے ہیں۔
میں اسے ایک سائیڈ پر لے گیا اور پچاس کا نوٹ پکڑا کر بولا : اچھا! اب یہ بتاؤ، پھدی کس دن دو گی؟
وہ ادھر ادھر دیکھ کر بولی: بس ایک دو دنوں میں آؤں گی۔
میں بولا : ایک اور بات کہنی ہے۔۔ اگر برا نہ مناؤ تو ۔۔۔؟
وہ بولی : کیا ؟؟؟
میں بولا : تمہیں پانچ سو روپے چاہیں ؟
وہ حیرت سے بولی : پانچ سورو ہے۔۔ اتنے سارے۔۔ تم مجھے دو گے؟
میں بولا : نہیں !۔۔ وہ جو گھر ہے اس کا مالک کہتا ہے کہ مجھے ایک بار کسی کی پھدی لے دو۔۔ پانچ سو دوں گا۔۔
وہ اچانک بلک کر بولی: نہ نہ میں ایسا گندا کام نہیں کروں گی۔۔ یہ لو اپنے پچاس روپے بھی۔
میں بولا : بات تو سنو۔۔ میں نے کب کہا کہ تم اپنی دو۔۔ کسی اور لڑکی کو مناؤ۔۔ ہم اس کی لے دیں گے اور جب وہ اس کی مارے گا تو میں تمہیں ڈھائی سو دوں گا۔ باقی ڈھائی سو اس لڑکی کو دے دینا۔۔۔ اگر تم خود چاہو تو سارے پیسے تمہارے۔۔
وہ بولی: میں کس لڑکی کو مناؤں؟
میں بولا : ادھر دیکھو یہاں کتنی لڑکیاں ہیں۔ ان میں سے جو جو مان جائے۔۔ مجھے بتا دینا ۔۔ مگر دیکھنا لڑکی شکل اور جسم کی اچھی ہو۔ جیسی تم ہو ۔۔ ویسی ہی ہو۔ تمہارے جیسی ٹائیٹ پھدی ہو اس کی
منزئی شرمندہ ہی ہو گئی۔
میں بولا : تم اگر مہینے میں چار نئی لڑکیاں لے آتی ہو تو سمجھ لو بنا پھدی مروائے ہزار روپے بن گئے تمہارے۔ اگر خود مرواتی ہو تو پہلی بار پانچ سو بعد میں جتنی بار مرواؤ گی، دوسو روپے دوں گا۔
منزئی شاید پیسوں کا حساب لگانے میں جت گئی۔
دس منٹ بعد چھیمو نکلتی دکھائی دی۔ میں بولا ہاں ! وہ نسرین کہاں رہ گئی ؟
وہ بولی: وہ تو دو گھنٹے بعد فارغ ہو گی۔
میں بولا : اچھا! تم گھر چلی جاؤ۔۔ میں اسے لے آؤں گا اور استانی کے بیٹے سے کہوں گا کہ کوئی سو پچاس آج بھی دے دے۔
وہ خوش ہو کر بولی : ہاں ہاں تو لیتا آنا بہن کو۔
وہ چلی گئی، میں منزی کے ساتھ بیٹھا باتیں کرنے لگا اور اسے سمجھانے لگا کہ کیسے کیسے ہمیں لڑکیوں کو پیسوں کا لالچ دینا ہے۔ اس کام کے لیے ان کو دہی بھلے یا گول کیسے کھلا دینا اور کہنا یہ پیسے میرے عاشق نے دیئے ہیں۔ دھیرے دھیرے جب وہ سیٹ ہو جائیں اور ان کو بھی چاہت ہونے لگے تو کہہ دینا کہ تم بھی پھدی مروالو۔ ڈھائی سو مل جائیں گے۔
آدھے پونے گھنٹے بعد میں اسے بولا؛ چلو اب اندر سے نسرین کو بھیجو۔۔ میں اسے لے جاؤں۔
نسرین گندمی رنگت والی سادہ سی لڑکی تھی، مگر اس کا جسم بھرا ہوا تھا۔ ابھی سولہ سترہ کی تھی مگر جب عورت بن جاتی تو یقینی طور پر بھاری اور سڈول چھاتی کی مالک بن جاتی، جیسے
رضیہ تھی۔
میں نسرین کو ساتھ لے کر لکشی چلا گیا اور بولا ؛ دیکھو نسرین ! مجھے تمہارے گھر کے حالات معلوم ہیں، ایسا ہے تم لوگ اپنی ممانیوں کے رحم و کرم پر ہو جب تک نانا زندہ ہے۔ اس کے بعد وہ بھی ہاتھ اٹھالیں گے۔ ایسے میں تم بڑی بہن ہو ، تم گھر کے حالات بدل سکتی ہو۔
وہ قدرے بیوقوف سی لڑکی تھی جس نے ہمیشہ ماں کو خوار اور ممانیوں کو شیر ہوتے دیکھا تھا۔ میں ایک ہوٹل میں تکے اور نان پیک کرنے کا آرڈر دے کر بولا : اس جگہ کام سیکھتی رہو مگر پیسے ملنا مشکل ہو جائیں گے۔ پیسوں کے لیے ایک دوسرا طریقہ کرنا پڑے گا۔ وہ بولی وہ کیا؟
میں راز داری سے اس کے قریب آکر بولا: یہ تکے کباب لے کر گھر چلتے ہیں، وہاں سمجھاتا ہوں۔
میں نے تکے کباب اور نان لیے اور رکشے میں بٹھا کر مکان پر لے گیا۔
کمرے میں کباب نکال کر اسے دیئے اور بولا : تسلی سے کھاؤ، مجھے اپنا دوست سمجھو۔
وہ بڑی ڈری ڈری سہی سب کچھ کھانے لگی۔ اس نے سب ختم کر لیا تو میں نے بازار کی دکان سے دو بوتلیں بھی منگوا لیں۔
میں اس کے قریب بیٹھ گیا اور اس کی کمر میں بازو حائل کر کے بولا: میری جان ! اس دنیا میں کمزور کو بھی دباتے ہیں، پیسہ بڑی طاقت ہے۔ تم بھی میری مانو تو یہ سلائی وغیرہ کو چھوڑو۔ میری بات مانو اور ہر مہینے ہزاروں کماؤ ۔۔ آدھے اپنی ماں کو دو ۔۔ آدھے اپنے پاس رکھو۔
میں نے جیب سے سو کا نوٹ نکالا اور بولا: یہ لو۔۔ یہ اپنی اماں کو دینا۔۔ کہنا استانی نے دیئے ہیں۔
اب دوسرا نوٹ اس کی مٹھی میں تھایا اور بولا: یہ تمہارا ہوا۔ ہر بار ملے گا۔
اس نے بے یقینی سے مجھے دیکھتے ہوئے نوٹ تھام لیا۔ مبادا کہ میں مذاق کر رہا ہوں۔
وہ نوٹ کو دوسری مٹھی میں دبا کر بولی: کام کیا کرنا ہو گا؟ میں اس کی کمر پر نرمی سے ہاتھ پھیر کر بولا : بس جو میں کہوں۔۔ کرتی جانا اور مزے اٹھانا۔
وہ تھوک نگل کر بولی : بتاؤ نا۔ ۔ تم کیا کرنے کو کہو گے ؟
میں اپنے کھڑے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر بولا : کام مشکل نہیں ہو گا۔۔
وہ لن کو ہاتھ میں دیکھ کچھ کچھ سمجھ گئی تھی، سہم کر بولی: کام کیا ہو گا؟
میں کھڑا ہو گیا اور بیڈ پر کنارے بیٹھی نسرین کو لٹاتا ہوا اس کے اوپر لیٹ گیا۔ اس نے زرد پڑتے چہرے کے ساتھ بلکی کی مزاحمت کی اور کپکپاتے ہوئے بولی: یہ کیا کر رہے ہو سکندر؟
میں بولا : بس میری جان ! تم نے صرف یہی کرنا ہے کہ جو میں کروں تم چپ چاپ ساتھ دیتی جاؤ۔
وہ سولہ سترہ سال کی تھی، ایک ایسے گھر میں رہتی تھی جہاں چار چار بیاہی عور تیں رہتی تھیں، اسے سب پتا تھا کہ میں کیا کر رہا ہوں۔
میں اس ہاتھ بڑھا کر اس کی شلوار نیچے کو سر کا دی۔۔ اس نے سختی سے اپنی آنکھیں موند لیں۔ میں نے اس کی قمیض اوپر کی اور اپنا تنا ہوا لن اس کی بالوں سے بھری سخت پھدی پر رکھ کر جھٹکا دیا۔
میرے جھٹکے سے اس نے بھی زور دار جھٹکا کھایا اور ہلکی سی آہ بھری۔ اس کی مکمل خشک پھدی میں لن بڑا پھنس کر گیا تھا۔ میں نے اس کے پھدی میں لن مکمل اتار دیا، اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ میں اس ذرا سا اٹھ کر اس کی قمیض اور ہاتھ کا سلا بر ابھی اتار دیا۔ اس کے درمیانے سائز کے مموں کو دباتے ہوئے میں نے اسکی گردن کو چوما اور پھدی کو چود نا جاری رکھا۔ لن چار پانچ منٹوں بعد ہی رواں ہو گیا۔ میں نے اس کی ٹانگیں
ہوا میں اٹھا دیں اور زور لگا کر جھٹکے لگانے لگا۔ وہ سسکاریاں بھرنے لگی اور بدستور آنکھیں موندے لیٹی رہی جیسے میں اس کی نہیں کسی اور کی پھدی کا مزا اٹھارہا ہوں۔
میں نے چند جھٹکوں کے بعد اسے الٹا لٹا لیا۔ وہ بنا کسی مزاحمت یا سرکشی الٹی لیٹ گئی۔
میں نے اس کے کولہوں کے درمیان سے لن اس کی پھدی میں گھسا کر خوب اچھی طرح چودا۔ وہ پہلی بار ایسے سانسیں بھر نے لگی جیسے اسے مزا آ رہا ہو۔
میں پیچھے سے اس کے مموں کو نوچ کر بولا : میری جان ! مزا آ رہا ہے نا۔۔ شاباش۔۔ مزے لو اور پھدی کا مزا دو۔۔
اس کام کے پیسے کماؤ ۔۔۔ شاباش۔۔ آو۔۔ مزا ہی آگیا۔۔
واقعی اگر وہ اڈری سہمی نہ ہوتی تو یہ چدائی بڑی پر لطف اور مزیدار ہوتی۔ بہر حال یہ اس کی میرے ساتھ پہلی چدائی تھی کچھ تو گھبراہٹ ہوئی تھی اسے۔
آخری جھٹکے میں نے اس کو دوبارہ سیدھا کر کے اس کی پھدی میں گہرائی میں لگائے اور چھوٹنے تک زور لگاتا رہا۔
میں خوب اچھی طرح جب چود چکا تو اس کی پھدی ہی میں فارغ ہو گیا۔ میں اٹھا تو ابھی بھی آنکھیں موندے چت لیٹی تھی۔ اس کی سانسیں گہری چل رہی تھیں۔ یہ تو میں بھی سمجھتا تھا کہ نسرین کی یہ پہلی چدائی نہیں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جب پھدی کے بدلے دو سو ملے تو اس نے کوئی بھی مزاحمت نہ کی۔ اس سے پہلے اس کی مفت میں کسی نے لی ہو گی۔ دروازہ بجا، میں نے جاکر کھولا تو بلو موجود تھا۔
میں بولا : بلو بھائی! اندر ایک بچی موجود ہے، چپ چاپ جاؤ، بنا کوئی بات کرے پھدی مارو اور آجاؤ۔
بلو اندر چلا گیا، اندر سے نسرین کی سسکاریاں اور رونے کی آواز آنے لگی، یہ رونا درد یا
تکلیف کی وجہ سے نہیں تھا بالکہ شاید خوف اور ڈر کی وجہ سے تھا۔ ظاہر ہے بلور ضو کا دوست تھا اور محلے دار تھا۔
بلو پانچ ہی منٹ بعد شلوار کا نالہ باندھتا ہو انکا اور بولا : ابے! یہ تو رضو کی بھانجی نسرین ہے۔
میں بولا : ہاں۔۔ اب اپنا منہ بند کرو اور سو روپیہ نکالو۔۔ اسے دے کر بھیجوں۔
اس نے چپ چاپ سو کانوٹ نکالا اور مجھے تھما دیا۔ میں بولا : رضو بڑا پھدیوں کا شکاری بنتا تھا، دیکھا اپنے گھر کی پھدیاں اس کے یار اڑا رہے ہیں۔
بلو نے اس بات پر میرے ہاتھ پر تالی ماری۔ میں نے نسرین کو سو کا ایک اور نوٹ تھمایا اور تسلی دی کہ کسی کو اس بات کی کانوں کان خبر نہیں ہو گی۔ بلو کسی کو نہیں بتائے گا۔ جاتے جاتے میں نے اسے بالصفا کریم بھی لے دی۔ نسرین دو دفعہ چدوانے کے بعد بھی نارمل لگ رہی تھی۔
میں بولا کل سے سلائی مرکز جانے کی ضرورت نہیں، گھر سے نکل کر ادھر ہی آجانا۔ اگر کوئی ساتھ ہو تو سلائی مرکز پہنچ کر ادھر سے ادھر آجانا۔ پھدی سے بال صاف کر کے آنا۔۔ سمجھ گئی نا۔۔
چل شاباش۔۔ اب گھر چلیں۔
میں نے مکان کو تالا لگایا اور نسرین کو اس کی گلی تک چھوڑا، پھر اپنے گھر چلا آیا۔
اگلی شام میں نسرین بنا کسی حیل و حجت میرے مکان پر پہنچ گئی۔ اس کی ماں نے کوئی
سوال یا جواب نہ کیا۔ اس کا منہ سو روپے نے ویسے ہی بند کر دیا ہو گا۔
میں بولا : تم نے پھدی سے بال صاف کیے ہیں ؟
اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
میں بولا؛ دکھاؤ۔۔ ذرا۔۔
اس نے شلوار اتار کر اپنی پھدی مجھے دکھا دی۔ اس کی گندمی پھدی بالوں سے بالکل پاک ہو چکی تھی۔
میں بولا : اچھا۔۔ پورے کپڑے اتار کر یہاں آؤ۔۔ میرے پاس آکر بیٹھو۔۔ میرا یہ پکڑو۔
وہ مکمل ننگی ہو کر میرے قریب آکر بیٹھ گئی۔ اس نے شلوار سے میرا لن نکال کر پکڑ لیا۔
میں اس کی گردن پر زبان پھیرتے ہوئے بولا : اسے آرام آرام سے دباؤ۔
نسرین نرمی سے میرا لن دبانے لگی، اس کے چلتے ہاتھ دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ وہ لن سے اچھی طرح واقف ہے۔ میں اس کے جسم سے اٹھتی جوانی کی بو سونگھتا ہوا اس کے جسم کو سہلانے لگا۔
میں اس کی پھدی کا دانہ چھیڑ کر بولا : تم نے پہلے کس سے مروائی تھی ؟
اس سوال سے ایک مرتبہ تو جیسے اس کی دھڑکن ہی تھم گئی۔ وہ ذراسی متوحش ہو گئی ، لن پر چلتے ہاتھ رک گئے تھے۔
میں اسے نیل پر نرمی سے چوم کر بولا : بتاؤ نا۔۔ میں اب تمہارا دوست ہوں۔ تم بتاؤ۔۔
وہ پہلی بار بولی : تم کسی کو بتاؤ گے تو نہیں۔۔؟
میں بولا: میں بھلا کسی کو کیوں بتانے لگا، اگر بتاؤں گا تو وہ پوچھیں گے کہ مجھے کیسے پتا۔۔ تم کھل کر بات کیا کرو یہاں۔۔
وہ بولی: وہ بڑی مامی کا بھائی جو دینی میں ہوتا ہے وہ ایک بار آیا تھا۔ میں رات کو اس کے کمرے میں دودھ دینے گئی تو اس نے مجھے اپنا ۔۔ یہ ۔۔ پکڑنے کا کہا۔ میں ڈر گئی مگر اس نے کہا کہ اگر نہیں پکڑوں گی تو ماموں سے شکایت کرے گا۔ مجھے اور اماں کو بہت بے عزتی اور مار سہنا پڑتی تو میں نے اس کا پکڑ لیا۔ وہ بار بار مجھے اپنا پکڑاتا اور کہتا کہ اسے منہ سے پیار کر۔ میں ڈر کے مارے کرتی رہی۔ اس نے دو بار میرے اوپر پیشاب کر دیا اس نے جب میری شلوار میں اپنا ہاتھ گھسا دیا تو میں بھاگ آئی۔
میں نے ڈرتے ڈرتے اماں کو بتا دیا۔ اماں بہت روئی اور مجھے کہا کہ میں اس کے کمرے ہی میں نہ جاؤں مگر وہ مامی کو بار بار ایسے ایسے کام کہتا جو مجھے ہی کرنا پڑتے۔ اماں کوشش کرتی کہ میں اس کے پاس نہ جاؤں مگر مامی زبر دستی بھیج دیتی۔ ایک دن اماں سبزی لینے بازار گئی تو اس نے مامی سے بولا کہ میری ٹانگوں میں درد ہے نسرین کو بھیجو تا کہ دیا دے۔ مامی نے مجھے اس نے پاس بھیج دیا، اس نے بناکسی کی پروا کیے دروازہ بند کر لیا اور مجھے زبر دستی۔۔۔ میں روتی رہی مگر اس نے میری چیخوں کو تکیے میں دبا دیا۔ اماں آگئی اور اس پر قیامت ٹوٹ پڑی یہ جان کر کہ میں بند کمرے میں اس کے ساتھ ہوں۔ اماں نے دروازہ بجایا مگر وہ مجھے نوچتا رہا اور اپنا بڑا لنڈ مجھ میں ڈالتا رہا۔
تھک ہار کر اماں روتی ہوئی بیٹھ گئی ، وہ بنا کسی کی پروا کیے شام تک مجھے کر تارہا، جب خوب دل بھر گیا تو یہ دھمکی دے کر چھوڑ دیا کہ اگر باہر جا کر یہ بولا کہ میں نے تیری ماری ہے تو تجھے اور تیری ماں کو جان سے مار دوں گا، تو بس یہ کہنا کہ ٹانگیں دبارہی تھی۔
میں نے وہی کہا جو اس نے کہنے کو کہا۔ اماں اور میں سب سچ جانتی تھیں مگر ہم میں یہ کہنے کی جرات نہیں تھی کہ میری عزت میرے ہی گھر میں سب کے سامنے لٹ گئی۔ مامی کا بھائی دینی میں فورمین ہے ، اس نے ماموں کو بیس ہزار کاروبار کے لیے دیئے تھے۔ اب ہم کچھ بھی کہتیں ہماری بات کوئی نہ سنتا۔
وہ دس دن رہا اور ہر دن مجھے لیے کمرے میں گھس جاتا۔
وہ چلا گیا۔ مگر یہ خبر دوسرے رشتہ داروں میں بھی پھیل گئی اور وہ بھی مجھے ندیدی نظروں سے دیکھنے لگے۔ میں ان سے تو بچتی رہی مگر ماموؤں کے جوان ہوتے بچے جوانی کی پہلی پیاس مجھ سے بجھانا چاہتے ہیں۔ میں بڑی مشکل سے خود کو بچارہی تھی مگر پچھلے مہینے میلاد کے دن میں چھت سے کپڑے اتار نے گئی تو بڑے ماموں کے دونوں بیٹوں نے مجھے چھت پر ہی دبوچ لیا، چھوٹے ماموں کا ایک بیٹا اور اس کا ایک دوست بھی پتنگ بازی کے بہانے چھت پر آگئے۔ میں دن دہاڑے اپنے ہی گھر کی چھت پر باری باری چاروں کی گندی نیت کا شکار بنی۔
اب بھی ہر دوسرے تیسرے دن جس کا موقع لگ جائے وہ مجھے چود کر اپنی پیاس بجھا لیتا ہے۔
وہ خاموش ہو گئی، میں جو یہ سوچ رہا تھا کہ نسرین یہ واقعہ سناتے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے گی لیکن میری سوچ کے برعکس وہ چپ تھی، جیسے یہ سب اس کے ساتھ نہیں کسی اور کے ساتھ ہوا ہو ۔
مجھ سے رہا نہ گیا اور میں بولا : تمہیں یہ سب یاد کر کے رونا نہیں آتا؟
وہ بولی: پہلی بار آتا تھا، دن رات روتی تھی ، اب کس چیز کے لیے روؤں عزت جو وہی تھی جو گھر میں لٹ گئی اور اب تک لٹ رہی ہے۔ رونا کیسا؟
میں بولا: کبھی غصہ نہیں آیا کہ ان سے بدلہ لو یا ان کا منہ توڑ جواب دو ؟
وہ بولی: بچپن سے ان کے ٹکڑوں پر پلتی آئی ہوں غصہ کیسا ۔۔ ان کے ماں باپ جھوٹن کھانے کو دیتےہیں اور بدلے میں وہ میرے جسم کو جھوٹا کرجاتے ہیں۔۔
اگلی قسط بہت جلد
مزید کہانیوں کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں
-
Lust–25–ہوس قسط نمبر
January 26, 2025 -
Lust–24–ہوس قسط نمبر
January 26, 2025 -
Lust–23–ہوس قسط نمبر
January 26, 2025 -
Lust–22–ہوس قسط نمبر
January 18, 2025 -
Lust–21–ہوس قسط نمبر
January 18, 2025 -
Lust–20–ہوس قسط نمبر
January 18, 2025

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

کالج کی ٹیچر

میراعاشق بڈھا

جنبی سے اندھیرے

بھائی نے پکڑا اور
