Lust–14–ہوس قسط نمبر

ہوس

ہوس ۔۔ نامساعد حالات میں جینے والے نوجوان کی کہانی۔ بے لگام جذبوں اور معاشرے کی ننگی سچائیاں۔ کہانیوں کی دنیا  پیڈ سیکشن کا نیا سیکسی سلسلہ وار ناول

ہوس قسط نمبر 14

مرد انگڑائی لے کر قمیض اٹھا کر بولا ؛ پھر آؤں گا تو اور بھی زور سے چودوں گا۔۔ درد ہوا ہے نا؟

نسرین نے رونی صورت بنا کر اثبات میں سر ہلا دیا۔

مرد خوش ہو گیا اور خوشی خوشی واپس چلا گیا۔ پانچ ہی منٹوں بعد تاری بھی پہنچ گیا۔ اس دوران نسرین پھدی کو اندر باہر سے دھو کر کپڑے سے خشک کر چکی تھی۔

تاری اندر داخل ہوا تو نسرین نے جسم کو تولیے سے لپیٹا ہوا تھا۔

تاری کو دیکھ کر پلٹی اور بولی: بھائی! آپ؟؟

تاری نے جھٹ سے تولیہ اچک کر اسے نگا کر دیا، وہ بھی ایسے جسم کو چھپانے لگی جیسے تاری سے پہلی بار ننگی حالت میں ٹاکرا ہوا ہو۔

تاری بولا : اور میری جان ! کیسی ہو ؟ کل کی چدائی کا مز ایاد ہے؟

وہ روہانسی ہو کر بولی: سکندر نے مجھ سے دھوکا کیا، ابھی ایک بڑی عمر کا بندہ زبر دستی میرے ساتھ کر کے گیا ہے۔ تاری شلوار اتار کر لن کو اس کی پھدی کے لبوں پر مسلتے ہوئے بولا : بس میری جان فکر نہ کیا کر۔۔ مزے لیا کر۔۔

تاری نے نسرین کو گود میں بٹھا لیا اور ایک انگلی اس کی پھدی میں گھسا دیا اور اس کے ہونٹوں کو چومنے لگا۔ نسرین کو اپنا لن تھما دیا جسے وہ دھیرے دھیرے سہلانے لگی۔ تاری اسے چومتا بھی جار ہا تھا اور پھدی کو انگلی سے اشتعال بھی دلا رہا تھا۔ پانچ سات منٹوں بعد ہی نسرین مکمل طور پر گرم ہو گئی اور فارغ ہو گئی۔ تاری نے اسے گھوڑی بنایا اور اس کی پھدی سے جم کر پیسے پورے کرنے لگا۔

مجھے معلوم تھا کہ تاری ایک بار میں کم از کم دو بار نسرین کو ضرور چودے گا۔

اس لیے میں باہر نکل آیا، مجھے منزی دکھائی دے گئی جو میری طرف ہی آرہی تھی۔

میں بولا : کہاں جارہی ہو ؟

وہ بولی: تمہارے پاس ہی آرہی تھی۔

میں بولا : اچھا! ایک منٹ آؤ۔۔ پھر ذرا کام چلتے ہیں۔

میں اسے ساتھ والے کمرے میں لے گیا اور اس کی شلوار رانوں تک اتار کر اسے رکوع کی حالت میں کھڑا کر کے اس کی خشک پھدی میں لن گھسا دیا۔ اس کی ایک چیخ نما سکاری نکلی۔ وہ بولی: سکندر درد ہو رہا ہے۔ پہلے اسے گیلا تو ہونے دو۔

میں نے چار پانچ جھٹکے دیئے اور لن نکال لیا۔ اس کی شلوار اوپر کی اور بولا : آ

جاؤ۔۔ اب بازار چلتے ہیں۔

وہ بولی: یہ کیا تھا؟ تم نے میرے اندر وہ کیوں ڈالا ؟

میں بولا : بس یونہی ۔۔ اتنے دنوں سے تم سے ملا نہیں تھا تو آج ملا تو سوچا لن اور پھدی کی بھی سلام دعا کرائی جائے۔

ہم ویگن میں بیٹھ کر مزنگ پہنچے۔ بشیر دار لماہی سے مچھلی لی اور واپس آگئے۔ ہم گھر میں ابھی داخل نہیں ہوئے تھے کہ تاری خان قمیض کے بٹن بند کرتا ہوا نکلا۔ اس کی نظر میرے ساتھ چلتی منزئ  پر پڑی تو چونک سا گیا۔ میں منزئی کو اندر بھیج کر بولا ؛ ہاں ! تاری بھائی مزا آیا۔

وہ منزئی کو مڑ کر دیکھ کر بولا : ہاں یار! بہت آج تو اس نے کمال مزے کرائے۔ یہ بچی کون ہے ؟

میں بولا: یہ اپنے پڑوس کی بچی ہے۔ ایسے ہی رستے میں ملی تو سوچا اسے بھی مچھلی کی دعوت پر بلالوں۔

میں نے مچھلی کا ایک بڑا پیس تاری کو پکڑا دیا، وہ کھڑے کھڑے کھاتے ہوئے

بولا : اس کا کیا سین ہے ؟ پھدی ملے گی نا اس کی بھی ؟

میں قدرے خفا ہوتے ہوئے بولا : تاری بھائی ! تم کتنے ندیدے اور لالچی ہو ، ہر بچی پھدی مروانے پر راضی نہیں ہوتی۔

وہ مجھے مکھن لگاتے ہوئے بولا : تو اسے بھی کسی چکر میں لے آ۔

میں بولا: اس کی پھدی مارنے کا مطلب ہے اس مکان سے ہاتھ دھونا۔

وہ بولا : مکان کی پروانہ کر۔۔ مکان میں دلوادوں گا۔۔ تو بس مجھے پھدیاں دلاتا رہ۔۔ اور سن۔۔ دوست کو پھر کب لاؤں؟

میں بولا ؛ بس جب دل کرے۔

وہ بولا: یہ ہوئی نا بات۔۔ اچھا پھر مزے کر۔

میں اندر داخل ہوا تو نسرین پینٹ اور برا  پہنے بیڈ پر بیٹھی تھی جبکہ منزئی اس کے ساتھ ، یہ راز کھل چکا تھا تاری نسرین کو چود کر گیا ہے۔ میں نے اسے کہا: منہ ہاتھ دھو کر آئے اور مچھلی کھائے۔

کھانا تینوں نے خاموشی اور رغبت سے کھایا۔ کھانے کے بعد نسرین پلیٹیں اٹھا کر اندر گئی تو منزئی بولی سکندر اوہ میری ایک دوست راضی ہے مگر تم اسے پیسوں والی بات مت کرنا

میں بولا : وہ پھدی دینے پر راضی ہے ؟

وہ بولی: ہاں مگر میں نے اسے کہا ہے کہ ایک بار کے سو روپے ملیں گے۔ یہ نہیں کہا یہ اس کام کے پیسے ہیں۔ بولا کہ بس میں ویسے ہی دوستی یاری میں دوں گی۔ بس تم میرے بھائی کو دے دو۔

میں بولا: اگر اچھی ہے تو زیادہ بھی دے سکتا ہوں۔ بھائی کزن جس کا مرضی نام لگا دو۔

میں نے منزلی کے سامنے جیب سے پانچ سو نکالے اور نسرین کو دیئے ، میں بولا: یہ لو آج کے پیسے۔

نسرین دو دنوں میں گیارہ سو کما کر حیران ہوئی سو ہوئی، منزئی کا تو رنگ ہی اڑ گیا۔ ایک دن میں پانچ سو کمانے کا سن کر۔ اسے معلوم تھا کہ یہ وہی لڑکی تھی جو دو دن پہلے

سلائی سیکھنے آئی تھی اور آج پانچ سو کا نوٹ تھامے بیٹھی تھی۔ میں نے خود ہی بات شروع کی کہ نسرین کو کام چاہیے تھا، کل اس نے ایک بندے سے پھدی مروائی اور میں نے اسے چھ سو دیئے۔ آج پانچ سو دو سے مروانے کے۔

منزئی بولی: یہ بندے کون تھے ؟

میں بولا : بس یار ! دوست ہیں۔ مل بانٹ کر کھاتے پیتے ہیں تو ان کی خوشی کے لیے۔

منزئی بھی اچھی طرح سمجھ رہی تھی کہ میں یہاں جسم فروشی کا دھندہ چلا رہا ہوں مگر پانچ سو اتنی بڑی رقم تھی کہ اس کی آنکھوں کے آگے پٹی بندھ گئی تھی۔

جاتے جاتے میں نے منزئی کو پچاس کا نوٹ اور نسرین کی موجودگی میں پھدی میں لن دونوں تھما دیئے۔ اسے پھدی مروانے پر کوئی اعتراض نہیں تھا مگر نسرین کے سامنے چدنے پر شرم محسوس کر رہی تھی۔ میں نے دو منٹ اس کی پھدی میں لن گھسا پھر

نسرین کے منہ میں ڈال دیا۔ نسرین نے منزئی کی پھدی سے نکلا گیلا لن بنا کسی ہچکچاہٹ منہ میں لے لیا۔

میں نے منزلی کو اگلے دن جلدی آنے کو کہا۔ میر اپلان کچھ اور تھا۔ میں ان دونوں کو

مکمل گشتیوں کے روپ میں ڈھالنا چاہتا تھا۔

میں اس شام گھر آیا تو قدرت موجود تھی۔ میں نے اسے ایک سائیڈ پر بلایا اور اسے بانہوں میں بھر کر بولا : میری جان ! تم نے وعدہ کیا تھا کہ اپنی دو گی؟

وہ بولی: میں نے کہا تھا جب بڑے ہو جائیں گے تب دوں گی۔

میں بولا ؛ مہینے کے مہینے خون نکلتا ہے نا؟

وہ بولی: ہاں! وہ تو کپڑے آتے ہیں مجھے۔

میں بولا : بس اتنا ہی کافی ہے۔

وہ بولی: نہیں سکندر ! ابھی نہیں۔

میں بولا : اچھا! پھدی دکھا تو دو ؟

وہ بولی: مگر تم کوئی شرارت مت کرنا۔

اس نے ادھر ادھر دیکھ کر اپنی شلوار تھوڑی سی کھسکا دی ، میں نے اس کی سخت اور کسی ہوئی پھدی کے لبوں کو چھوا اور قدرت کے منہ میں زبان ڈال کر کپڑوں کے اوپر سے لن کو اس کے پھدی پر رگڑنے لگا۔

وہ بولی : بس۔۔ اب میں جارہی ہوں۔

وہ عجلت میں چلی گئی۔ میں سوچنے لگا کہ قدرت ویسے تو سانولی سی ہے مگر پہلی چدائی کے اچھے پیسے بن سکتے ہیں۔

اگلی صبح میں گھر سے نکلا تو مجھے حجاب میں مقدس نظر آئی۔ مقدس شیخوں کی سب سے بڑی بیٹی تھی اور بلا کی حسین تھی۔ میں نے کم ہی اتنی حسین لڑکیاں دیکھی ہیں۔

میں پھسل کر اس کے پاس جا پہنچا اور بولا مقدس باجی کہاں جارہی ہیں ؟

وہ تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے بولی: ہاں سکندر ! تم کہاں جا رہے ہو ؟

میں بولا ؛ سکول کی طرف۔۔

وہ بولی: اچھا! ایک کام ہے تم سے مگر میرے بھائی ہو کسی کو بتانا مت۔

میرا دل میں لڈو پھلنے لگے کہ پتا نہیں مقدس کو کیا کام ہو سکتا ہے ؟

اس نے اپنے بیگ سے ایک لفافہ نکالا اور بولی: یہ ایک خط ہے اسے ڈاکخانے سے

رجسٹری کرانا ہے ، کرالو گے ؟

میں بولا ؛ جی باجی ضرور۔۔

اس نے پرس سے پچاس روپے نکالے تو میں بولا : چھوڑیں باجی۔۔ میں دے دوں گا۔

اس نے اصرار کیا مگر میں نے انکار کر دیا۔

میں نے لفافہ تھام لیا۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کے کالج کی بس پہنچ گئی اور وہ اس میں سوار ہو گئی۔

میں لفافہ تھام کر سکول چلا گیا۔ شام تک تو مجھے لفافہ یاد ہی نہ رہا، جب یاد آیا تو کھول کر دیکھا۔ اس کے اندر ایک فارم ساتھا۔ میں نے فارم پڑھنے کی کوشش کی تو پتا چلا کہ اسلام آباد کی کسی لیبارٹری کو رپور میں بھیجی تھیں تو ان کا رزلٹ حاصل کرنے کا فارم تھا۔ مگر وہ فارم مقدس کا نہیں تھا۔ وہ کسی ناہید کا تھا۔ میں سوچنے لگا کہ اپنے محلے میں ناہید کون ہو سکتی ہے۔ مقدس کی ساری بہنوں کو میں جانتا تھا، اب یہ ناہید کون تھی۔ میں مقدس سے

پوچھ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ اسکا خط میں نے کھول کر پڑھا تھا۔

میں نے سر جھٹک کر لفافہ رجسٹری کروادیا اور رسید جیب میں رکھ لی۔

میں محلے کے پاس تھا تو رضیہ کا عاشق دکھائی دیا، وہ تیر کی طرح میرے پاس آیا اور

بولا : اور چھوٹے بھائی ! کیسے ہو ؟

میں بولا : ٹھیک ہوں تم سناؤ ؟

وہ بولا ؛ میں بھی ٹھیک ہوں یار۔۔ وہ ملاقات کا پلان بناؤ یار۔

میں بولا ؛ مکان ہے تمہارے پاس؟

وہ بولا : مکان تو نہیں ہے۔ تم انتظام کرو۔ تین سو روپے ہیں میرے پاس۔

میں بولا : یار! یہ بار بار نہیں چلے گا۔ خیر ، تم ایک بات بتاؤ، تم رضیہ سے شادی کرو گے؟

وہ گڑ بڑا گیا اور بولا ؛ سوچوں گا۔۔ شاید بات بن جائے۔

میں بولا : یار صاف صاف کہو۔ پھدی کے چکر میں ہو۔

وہ بولا : ہاں پہلے لگتا تھا کہ اس سے محبت کرتا ہوں اب بس پھدی کا مزا آتا ہے۔

میں بولا : تو تمہیں رضیہ کی بجائے ویسے ہی پھدی لے دیتا ہوں۔

وہ حیرت سے بولا ہیں۔۔ کس کی؟

میں بولا : رضیہ کی کیا عمر ہو گی؟

وہ بولا: بائیس تئیس سال تو ہو گی ؟

میں بولا : اگر تمہیں سولہ سال کی بچی کی لے دوں، پھر ؟ عاشقی معشوقی بھی نہیں کرنی پڑے گی۔

وہ آنکھیں پھاڑ کر بولا؛ صحیح ہے۔۔ لے دو۔۔

میں بولا: مگر اس کی بات تین سو یں نہیں کم از کم آٹھ نو سو میں بنے گی۔

وہ گھبر اگر بولا: یار میرے پاس تو بس چھ سو روپے ہیں۔

میں نے اس سے چھ سو پکڑ لیے۔ مجھے معلوم تھا کہ آج تاری کے آنے کے امکان کم ہیں۔ اب نسرین کے دو سو جیب سے تو نہ دینے پڑیں۔

میں نے اسے پانچ بجے مکان پر آنے کو کہا۔ وہ کمبخت ساڑھے چار بجے ہی پہنچ گیا۔

آج نسرین کے پاس نیا گاہک پہنچا تو اس نے پہلے کی طرح نخرے دکھائے پھر اس کے اصرار پر ایک ایک کر کے سارے کپڑے اتار دیئے ۔ وہ ایسی تنگ پھدی میں پانچ منٹ ہی میں فارغ ہو گیا اور لوٹ گیا۔ میں نے دروازے سے نکلتا دیکھ کر کہا: ہاں

استاد! کیا بنا ہے مزا آیا ؟

وہ بولا: مزا تو آیا مگر پھدی بہت ٹائیٹ ہے بہت جلدی لن لیک ہو گیا۔

میں بولا : کوئی بات نہیں۔ اگلی بار ذرا لن دیر سے ڈالنا۔۔ پہلے مموں پر پیاس بجھا لینا۔

وہ چلا گیا تو میں نسرین کے پاس پہنچا اور بولا ہاں بھئی کیا بنا؟

وہ بولی بنا کیا ہے ؟ پھدی کو لن کا پوری طرح مزا بھی نہیں آیا تھا کہ چھوٹ گیا۔

میں بولا : سموسے کھاؤ گی؟

وہ بولی: نہیں پہلے تم میری پھدی مارو۔۔ پھر سموسے کھاتے ہیں۔

میں نے اسے الٹالٹا دیا اور اسے گھوڑی بنا کر اس کی پھدی میں لن گھسا دیا۔ وہ پیچ کر بولی: اوئی۔۔ سکندر تم کتنی بے دردی سے پھدی میں لن گھساتے ہو۔

میں بولا : تمہاری پھدی تنگ ہی اتنی ہے کہ کیا کروں، لن پھنس پھنس کر جاتا ہے۔

وہ سیسكاری لے کر پھدی کا دانہ مسل کر بولی : سکندر ! کل رات میرے ماموں کے بیٹے۔۔ نے۔۔ میرے ساتھ زبر دستی کی تھی۔۔ بہن چود۔۔ نے۔۔ لیٹرین میں گھس کر۔۔ پھدی ماری۔۔

میں بولا : تم کیا کرنے گئی تھیں؟ پیشاب کرنے یا پھدی مروانے؟

وہ بولی: میں تو پیشاب کرنے گئی تو کمینہ میرا انتظار کر رہا تھا، میں نکلی تو گھسیٹ کر واپس اندر لے گیا اور پھدی مار دی۔ میں نے بھی پھدی کو کس لیا۔۔۔ آو۔۔ اس طرح لن کو مزا آیا۔۔ نا؟

اس نے پھدی کو بھینچا تو لن جیسے پھدی میں مزید پھنس گیا، میں بولا : ہاں ! مزا تو

آیا ۔۔۔ پھر کیا ہوا؟

وہ اپنے کولہوں کو آگے پیچھے کر کے لن کو پھدی میں ہلاتے ہوئے

بولی : بس۔۔ مادر چود۔۔ چھوٹ گیا۔۔ دو تین منٹوں میں۔۔ میں نے قسم کھائی ہے کہ اس کی بہن کو بھی میں میں سو  روپے میں چدواؤں گی۔

میں چھوٹنے والا تھا، اس نے پورا زور لگایا اور سارا منی اس کے گانڈ کے سوراخ پر جنگوں سے بہادیا اور بولا : قسم سے نسرین تم واقعی بڑا اعلیٰ قسم کا پیس  ہو۔ جتنی بار مرضی پھدی مار لو ۔۔ لگتا ہے پھدی ڈھیلی ہی نہیں ہوتی بلکہ ٹائیٹ ہو جاتی ہے۔

وہ چوتڑوں سے بہتے منی کو ہاتھ سے صاف کرتے ہوئے بولی: مجھے پھدی کو ٹائیٹ کرنا آتا ہے۔

میں بولا : واقعی۔۔ یہ کیسے کرتی ہو تم؟

وہ بولی: میں نے جب اپنے سے بڑے بندے سے مروائی تو میں نے سوچا میری تو کھل جائے گی، تب میں جان بوجھ پھدی میں انگلیاں ڈال لیتی تاکہ لن جیسا مزا آئے۔ بعد میں مجھے رات کو بستر میں کھیلنے کو ایک کھیل مل گیا۔ میں پھدی میں انگلیاں ڈال کر ان کو پکڑنے کی کوشش کرتی تھی۔

میں نے اس کی پھدی میں اپنی دو انگلیاں ڈالیں اور بولا: انھیں پکڑ کر دکھاؤ۔

اس نے مسکرا کر پھدی کو ٹائیٹ کیا۔ تو واقعی اس کی پکڑ کی وجہ سے مجھے ذرا سا زور لگا کر انگلیاں واپس کھینچنا پڑیں۔

میں نے تین چار بار کوشش کی تو ہر بار اس نے اسی طرح کیا۔

میں بڑا خوش ہو گیا، یہ تو کام آسکتا تھا، وہ یہ طریقہ باقیوں کو بھی سکھا سکتی تھی۔

میں بولا : آج اور کوئی نہیں آنے والا، ہم دونوں ہی ہیں، سموسوں کے بعد دوبارہ چدائی شروع کریں گے۔

اس دن کوئی مزید گاہک نہیں آیا۔ مجھے مکان لیے ایک مہینہ ہو چلا تھا اور میں نے بڑی آسانی سے نہ صرف مکان کا کرایہ ادا کر دیا بلکہ سامان کے بھی پیسہ نصف ادا کر دیئے۔ میرے پاس ایک مہینے میں ایک مستقل لڑکی آچکی تھی جو ہر وقت چدنے کو میسر تھی۔ دو گاہک تھے ، ایک تاری اور رضیہ کا عاشق۔ سب سے زیادہ کمائی تاری اور بلو کی بدولت ہوئی تھی۔ باقی تو سمجھ ہیر پھیر ہی میں کمائے تھے۔

میں رضیہ کے پاس بہت دنوں بعد گیا۔ وہ بولی : کہاں ہو تا ہے تو ؟ اب تو ملتا ہی نہیں۔

میں بولا : بس کچھ کام میں مصروف تھا۔

وہ کپڑوں کے اوپر سے اپنی پھدی کو دبا کر بولی: پھدی لے گا؟

میں بولا : ہاں کیوں نہیں؟

وہ خوش ہو گئی اور بولی: چل آجا او پر ۔۔ تجھے کہانی سناتی ہوں۔

میں نے بڑے دنوں سے کہانی سنتے ہوئے پھدی کا مزا نہیں لیا تھا تو منہ کا ذائقہ بدلنے کو مان کیا۔

وہ شلوار اتار کر الٹی لیٹ گئی اور میں نے اس کے کولہوں میں سے لن گزار کر اس کی پھدی میں گھسا دیا

وہ رسالے کے صفحے پلٹتے پلٹتے ایک کہانی پر رکی اور بولی: یہ والی ٹھیک رہے گی۔ تو آرام آرام سے کر جلدی کیا ہے۔ اتنے دنوں بعد آیا ہے، آج تو تسلی سے کر۔

میں نے اس کی قمیض میں ہاتھ گزار کر ممے کو تھام لیا اور اسے چودنے لگا۔

وہ کہانی سنانے لگی: کہانی ایک بچی کی تھی جس کے ماں باپ مر گئے اور وہ اپنے رشتہ داروں کے گھر آگئی، جہاں اس کے ساتھ نہایت برا سلوک ہوتا تھا۔ وہ دن رات گھر کا کام کرتی اور اسے کھانے کو بھی کم ملتا۔ ایک دن وہ کسی کام سے بازار گئی تو وہاں ایک گھٹیا صفت دکاندار نے اسے بھوکا پاکر کھانے کو کچھ دیا اور بدلے میں اپنا لن مسلنے کو کہا۔ وہ مان گئی ، اب اسے جب بھی بھوک لگتی وہ جاتی اور دکاندار کی جنسی بھوک مٹاتی۔ دھیرے دھیرے دکاندار نے محض لن دبوانے پر اکتفانہ کیا اور اسے لن چوسنے کو کہتا۔ وہ سب مانتی رہی اور کچھ ہی ہفتوں میں چدوا  بھی لیا۔ اسے ایک ذریعہ مل گیا، اب وہ جہاں بھی جاتی اور جس بھی چیز کی ضرورت ہوتی، پھدی کے بدلے حاصل کر لیتی۔

کہانی خاص نہیں تھی مگر یہ وہ کہانی تھی جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی۔ نسرین اس کہانی کا جیتا جاگتا کر دار تھی۔ اس کہانی کا کردار بننے کے لیے یتیم ہونا بھی ضروری نہیں تھا بلکہ منزی تو باپ کے ہوتے ہوئے بھی چھوٹی موٹی چیزوں کے عوض چدوانے کو راضی تھی۔ ادھر رضیہ جس کی پھدی میں اس وقت مار رہا تھا، وہ تو مفت میں ہی چد رہی تھی۔

میں نے جھٹکے تیز کیے تو وہ بولی : سکندر ا پیچھے بھی کر ذرا سی دیر۔۔۔ ہائے کمینے تو اتنے دنوں بعد

کیوں آیا۔۔۔ مار ۔۔ نا۔۔ پیچھے سے بھی۔۔

میں نے لن اس کی گیلی پھدی سے نکال کر اس کی گانڈ میں گھسا دیا۔

وہ سیسکاری بھر کر بولی: اوئی ، مزا آگیا۔۔

میں بولا : رضیہ ! تمہاری تو پھدی اور گانڈا ایک ساتھ مارنی چاہیئے۔۔ ایک لن۔۔ پھدی

میں۔۔ ہو اور ایک گانڈ میں۔۔

وہ جھٹکے لگاتے ہوئے بولی: تو مارنا۔۔۔ جیسے تیرا دل چاہے۔۔

میں نے اس کا گانڈ چند زور دار جھٹکے دیئے اور سارا منی اس کی گانڈ میں بہا دیا۔

چودنے کے بعد میں بولا : کیا خیال ہے ایک ساتھ دو دو لن لے لو گی ؟

وہ حیرت سے بولی: تو سچ میں ایسا کہہ رہا ہے یا مذاق کر رہا ہے ؟

میں بولا : نہیں سچ کہہ رہا ہوں۔

وہ بولی: مگر دوسرا بندہ کون ہو گا؟

میں بولا : کسی کو گھیر کر لے آؤں گا۔ تم تو راضی ہونا ؟

وہ بولی : ٹھیک ہے۔۔ میں راضی ہوں۔۔

میں بولا : بس تو پھر تیار رہنا۔

اس رات مجھے قدرت ملی، میں بولا : میری جان! آؤ نہ ادھر ۔

میں اس شام میں ایک دفعہ نسرین کو ایک دفعہ رضیہ کو چود چکا تھا، اس وقت بالکل موڈ نہیں تھا مگر مجبوری تھی تو قدرت پر بھی ڈورے ڈالنے لگا۔

وہ پاس آئی تو میں نے دبوچ کر بانہوں میں بھر لیا اور لگا اسے چومنے اور چاٹنے۔ وہ پہلے تو کچھ دیر میرا ساتھ دیتی رہی پھر جو نہی میں نے اس کی شلوار کو ہاتھ لگایا، وہ مچل گئی اور بولی: سکندر ! تمہیں ہر وقت یہی کام کیوں چڑھا رہتا ہے۔ کبھی تم نے مجھ سے پیار بھری بات کی ہے۔ جب بھی ملتے ہو سیدھا مجھے ننگا کرنے لگتے ہو اور میری شلوار میں۔۔۔ چھی۔۔

میں بولا: یہ بھی تو پیار ہے۔

وہ بولی: نہیں ! یہ ہوس ہے۔۔ تم ہوس کے مارے ہو، جس دن میں نے تمہیں اپنی دے دی تم مجھے دوبارہ پوچھو گے بھی نہیں۔

وہ واپس چلی گئی، میں سوچنے لگا کہ سالی کہتی تو ٹھیک ہے ، مجھے اس سے یا کسی اور سے محبت کہاں ہے میں تو سب کی دلالی یا پھدیاں مارنے میں ہی خوش ہوں۔

اگلے دن مجھے تاری کے پاس بھی جانا تھا کیونکہ رضیہ کسی دوسرے مرد سے چدوانے کو راضی ہو گئی تھی۔ رضیہ ان لڑکیوں میں سے تھی جنہیں چدوانے کا شوق تھا، مرد کون تھا اس سے کوئی غرض نہیں تھا۔

میری صبح آنکھ کھلی تو اماں بولی: سکندر ! آج تو کہیں باہر مت جانا۔ آج سکول کی بھی چھٹی کرلے۔

میں بولا : پر میرے تو پرچے ہونے والے ہیں۔

وہ بولی: پرچوں کی کونسی تو تیاری کرتا ہے۔ سار دن تو گھر میں اور بازار میں آوارہ پھرتا رہتا ہے یا گھر سے غائب رہتا ہے۔ ایک بات اور ۔۔ تو نے کئی ہفتوں سے نہ کوئی فرمائش کی ہے اور نہ ہی مجھ سے پیسے مانگے ہیں۔۔ یہ بڑی عجیب بات ہے۔ پہلے تو سر کھا جاتا تھا۔

میں انگڑائی لے کر بولا ؛ بس میں مرد ہو تو میں کہیں نہ کہیں سے گزارہ کر لیتا ہوں۔ ویسے بھی جوں جوں بڑا ہو رہا ہوں تو کام دھندہ ڈھونڈوں گا یا ہر وقت پیسے مانگتا رہوں گا۔

اماں اور آپا گھر سے کہیں باہر چلی گئیں اور میں اکیلا بیٹھا دن گزار رہا تھا۔

میری قسمت اچھی تھی کہ چاولوں کی پلیٹ لے کر قدرت آگئی۔

مجھے چاولوں سے قطعی کوئی دلچسپی نہ تھی، مجھے تو قدرت کی سیل کھولنا تھی، کمینی بڑے مہینوں سے مجھے ٹر خارہی تھی۔ اس سے کہیں زیادہ جاذب نظر منزی اور نسرین تھیں جن کو جم کر چود چکا تھا اور یہ تھی کہ نخرے ہی ختم نہیں ہو رہے تھے۔

وہ بولی: یہ لو چاول۔۔

میں نے پلیٹ اس کے ہاتھ سے لے کر رکھی اور اسے بانہوں میں بھر لیا۔ وہ کسمسا کر

بولی: سکندر ! کیا کر رہے ہو، کوئی آجائے گا۔

میں بولا : آج اس وقت تک کوئی نہیں آئے گا جب تک میں تجھے کلی سے پھول نہیں بنا دیتا۔

میں نے اس کے ہونٹوں کو چوم لیا اور اسے مزید مضبوطی سے اپنے ساتھ چپٹا لیا۔ اس نے بڑی مشکل سے اپنے ہونٹ آزاد کروائے اور بولی ؛ سکندرا کیا کر رہے ہو ؟

میں نے اچانک ہی اسے بانہوں میں اچک لیا اور اسے اٹھا کر صحن سے کمرے میں لے آیا اور بستر پر لا پھینکا۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی مگر میں تیزی سے اپنا پائجامہ رانوں

تک اتار کر اس کے اوپر چڑھ گیا۔ اس نے مجھے دھکیلنے کی کوشش کی مگر میں پورے وزن کے ساتھ اس کے اوپر سوار ہو چکا تھا، میں نے دونوں ہاتھ اس کے کولہوں کے نیچے دیئے اور شلوار کے نیفے کو پکڑ کر نیچے گھسیٹ لیا۔ اس کی پھدی ننگی ہو گئی تو میں نے لن سے اس کی پھدی کے لبوں پر رگڑیں لگانی شروع کر دیں۔ وہ کچھ دیر تو زور لگاتی رہی پھر بولی: سکندر ! مجھے چھوڑ دو ، میں نے وعدہ کیا ہے نا کہ دوں گی۔۔ تو صبر کرو۔۔

میں بولا : تین مہینوں سے صبر ۔۔ ہی تو کیا ہے۔۔ آج تو پھدی میں لن جائے گا ہی جائے گا۔۔

وہ دھکیلنے میں ناکام رہی تو بولی: اچھا! ایک۔۔ منٹ ۔۔ ایک منٹ۔۔ تم ۔۔ یہاں مت ڈالو

میں بولا : کیا مطلب۔۔

وہ ہچکچا کر بولی: وہاں۔۔ پیچھے سے کر لو۔۔

میں بولا : مطلب۔۔ پھدی کی بجائے گانڈ میں ڈال دوں ؟

وہ اثبات میں سر ہلا کر بولی : ہاں ! وہاں ڈال دو۔۔

میں بولا : اچھا! ایک منٹ رک میں لن پر ساتھی چڑھاتا ہوں پھر ڈالتا ہوں۔

میں نے اپنی الماری سے کنڈوم اٹھائے اور ایک کا رپر کھول کر اسے لن پر چڑھا لیا۔ وہ خاموشی سے شلوار اتار کر الٹی ہو کر لیٹ گئی، یعنی اسے پیچھے سے ڈلوانے میں کوئی مسلئہ نہیں تھا۔ اس نے خود ہی شلوار اتار دی تھی اور الٹی لیٹ بھی گئی تھی۔

میں نے اسے گھنٹوں کے سہارے کیا تا کہ اس کے کولہے میرے لن کے برابر اونچے ہو جائیں اور لن اس کی گانڈ کے سوراخ پر رکھا۔ اس کا سوراخ دیکھنے ہی سے اندازہ ہو گیا کہ یہ لن اندر جانے والا پہلا امیدوار نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی لن اس کی گانڈ کی سیر کر چکے ہیں۔

میں نے لن گھسایا تو اس کی سسکاری نکل گئی، وہ سک کر

بولی: اوئی۔۔۔ سکندر۔۔ آرام سے ڈالو۔ نا۔

میں نے لن گھسایا تو وہ پورا ہی بنا کسی وقت اندر چلا گیا۔ میں نے لن کو ذرا سا باہر کو کھینچا اور دوبارہ دھکیلا ، لن بنا کسی مشکل پہلی ہی بار میں روانی میں اندر باہر ہونے لگا۔ اتنے

مہینوں سے قدرت اسی وجہ سے چدنے سے بھاگتی تھی کہ اس کو پھدی نہیں مروانی تھی اور گانڈ کا اپنے منہ سے کیسے کہتی ؟

میں نے تیزی سے اس کی گانڈ مارنی شروع کر دی، وہ گہری سانسیں لینے لگی جیسے اسے اس سے پہلے بھی گانڈ مروانے کا لطف اٹھانا آتا ہو۔

میں نے خوب زور لگا لگا کر اس کی گانڈ سے انصاف کیا اور پھر اسے اوپر بٹھا لیا۔ قدرت جو پہلے قمیض پہنے ہوئے تھی میں نے اسے مکمل ننگا کر دیا اور اسے کہا کہ وہ ہل ہل کر چدوائے۔

قدرت نے خوب اچھی طرح ہلنے کی مشق کر رکھی تھی اور ہل ہل کر گانڈ کا مزا دیا اور مجھے جلد ہی فارغ کر دیا۔

وہ میرے چھوٹنے کے بعد شلوار پہننے لگی تو میں بولا : اتنی بھی کیا جلدی ہے میری جان پہلی ننگی حالت میں جی بھر کر دیکھ تو لینے دے۔

وہ شرما کر بولی: بکواس مت کرو۔۔ مجھے ننگی ہونے میں بہت شرم آتی ہے۔ اس نے تیزی سے شلوار اور قمیض چڑھالی۔

میں نے اسے گود میں بٹھا لیا اور بولا : تو پہلے بھی جم کر گانڈ مرواتی ہے۔

وہ خاموش ہو گئی، میں بولا : بتانا۔۔ شرماتی کیوں ہے؟

وہ اب بھی چپ رہی تو میں نے پہلے کا آزمودہ نسخہ اپنایا اور جیب سے سو کانوٹ نکالا اور بولا: یہ لے۔۔ میری طرف سے کوئی گفٹ لے لینا۔ میں لینے گیا تھا مگر کچھ سمجھ نہیں آیا کہ تیرے لیے کیا خریدوں؟

اس نے ذرا سا ہچکچا کر نوٹ تھام لیا۔ یہ غریبوں کا محلہ تھا اور سو روپے بہت بڑی رقم تھی۔ کسی لڑکی کے پاس پیسے ہونا تو ویسے ہی انہونی سی بات تھی۔ انھیں کبھی ماں باپ دو تین روپے دے دیتے

تو یہ بڑی بات ہوتی۔ ان پیسوں سے وہ اپنے لیے کوئی نہ کوئی چیز لے لیتیں، جیسے دہی بھلے چاٹ یاں گول گپے ۔ سو روپے ہونا تو واقعی امیر ہونے والی بات تھی۔

خیر ، میں اس سے بولا : تو مجھے تو بتا دے۔ میں تو تیرا یار ہوں۔۔ بتا کس نے پہلے تیری گانڈ ماری ہے ۔۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید کہانیوں کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

رومانوی مکمل کہانیاں

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کالج کی ٹیچر

کالج کی ٹیچر -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

میراعاشق بڈھا

میراعاشق بڈھا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

جنبی سے اندھیرے

جنبی سے اندھیرے -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

بھائی نے پکڑا اور

بھائی نے پکڑا اور -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کمسن نوکر پورا مرد

کمسن نوکر پورا مرد -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page