ہوس ۔۔ نامساعد حالات میں جینے والے نوجوان کی کہانی۔ بے لگام جذبوں اور معاشرے کی ننگی سچائیاں۔ کہانیوں کی دنیا پیڈ سیکشن کا نیا سیکسی سلسلہ وار ناول
-
میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا
April 17, 2025 -
کالج کی ٹیچر
April 17, 2025 -
میراعاشق بڈھا
April 17, 2025 -
جنبی سے اندھیرے
April 17, 2025 -
بھائی نے پکڑا اور
April 17, 2025 -
کمسن نوکر پورا مرد
April 17, 2025
ہوس قسط نمبر 17
وہ سر ہلا کر بولی: ہاں ! افسوس تو مجھے بھی ہوا تھا۔
میں بولا: یہ رشیدہ کی بیٹی سائرہ کیسی بچی ہے؟
وہ دیدے مٹکا کر بولا : تیری کیا نیت ہے ؟ پھدی بجا تو نہیں دی اس کی ؟
میں بولا : نہیں ! ویسے ہی سوچ رہا ہوں کہ اس سے یاری لگالوں۔
وہ میرے لن کو دبا کر بولی: کیوں میری پھدی یا گانڈ میں مزا نہیں آتا اب؟
میں بولا : وہ بات نہیں، تم بڑی ہو اور دوسری بات یہ کہ تمہاری کل کو شادی بھی ہو گی۔ اس وقت میں کیا کروں گا ؟ اس لیے کوئی سہیلی تو بنانی پڑے گی نا۔
وہ بولی: یہ تو ہے۔ خیر ۔ آج کل کی دوسری بچیوں کی طرح ہے، میلاد پر ملی تھی پرسوں، ممے اچھے ہیں اس کے مگر میرے جیسے گول نہیں ہیں۔
میں بولا : کیا لگتا ہے کسی سے چدی ہو گی؟
وہ بولی : شلوار کے اندر کا حال شلوار اتارنے والی جانے یا جس نے اتروائی وہ جانے۔ ایسی لگتی تو نہیں ہے۔ دیکھنے میں تو بیوقوف سی لگتی ہے۔
میں بولا : دیکھنے میں تو تم بھی نیک پروین لگتی ہو ، اصل میں ان کی شکاری ہو۔
وہ ہنس کر میرے ہاتھ پر تالی مار کر بولی: چل اب مار میری پھدی۔ کسی چیز کا انتظار ہے؟
میں بولا : مزید لن کا۔۔ تم نے کہا تھا کہ ایک ساتھ دولن لو گی۔
وہ بولی: بولا تو تھا میں نے۔ مگر یہ بڑا عجیب لگتا ہے کسی انجان سے پھدی مروانا۔
میں بولا ؛ یقین کرو۔۔ بڑا مزا آتا ہے۔۔۔ میں نے تمہاری اس سہیلی کی بھی ایسے ہی پھدی ماری تھی۔ تم بھی مروا کر دیکھو۔ ویسے بھی تم کو کونسا جانتا ہے جو تمہارا راز فاش ہو گا۔
وہ بولی: بچہ ہے تیری طرح؟
میں بولا : نہیں بڑا ہے تمہاری طرح۔
وہ بولی: نہ نہ باپ۔۔ رے۔۔ مجھے نہیں مروانا۔
اس وقت دروازہ بجا، میں بولا : میں کھولتا ہوں، تم تب تک تیار ہو جاؤ۔۔ فکرمت کر وہ کہانیوں کی طرح کا ریپ ہی سمجھ لینا۔ سمجھ لینا۔۔ گینگ ریپ ہو رہا ہے۔
میں نے دروازہ کھولا تو تاری اور ایک دبلا پتلا بندہ موجود تھا۔
تاری نے ایک سائیڈ پر لے جاکر ہزار ہزار کے دو نوٹ مجھے تھمائے اور بولا : کہاں ہے بلبل؟
میں بولا : اندر ہے اپنے عاشق کا انتظار کر رہی ہے۔ تب تک تم مزے لے لو۔
وہ لن کو دباتے اندر کی طرف چلا گیا۔ اندر سے رضیہ کی چیخ و پکار اور تکرار کی آواز میں آئیں۔ وہ یقین مزاحمت کر رہی تھی مگر یہاں ہر لڑکی نے پہلے پہل تو مزاحمت کی ہی تھی، اس لیے جلد ہی اس کی چیخوں کی آوازین بند ہو گئیں جس کا مطلب یہی تھا کہ
رضیہ کی پھدی میں لن چلا گیا ہے اور اب چیخنا اس کے لیے بے کار تھا۔
میں نے کمرے کی کھڑی جو میرا پسندیدہ سپاٹ تھی سے اندر جھانکا تو حسب توقع سین تھا۔
رضیہ کی چوت میں تاری کا موٹا لن تھا اور اس کے ساتھی کا لن اس کی گانڈ میں تھا۔ رضیہ مکمل ننگی حالت میں بنا کسی حیل و حجت چد رہی تھی۔ اس کے چہرے کے تاثرات سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ مزے میں ہے۔
دونوں نے لن پر کنڈوم چڑھایا ہوا تھا اور لگے ہوئے تھے ، رضیہ کو آگے پیچھے سے بیک وقت چودنے میں۔ رضیہ کی سکاریاں کمرے میں گونج رہی تھیں۔
اس کی دیرینہ خواہش اور فینٹسی بھی پوری ہو رہی تھی کہ اس کی عزت لوٹی جاتی یا اس کا گینگ ریپ ہو جاتا۔
یہ تو اس نے بھی نہیں سوچا تھا کہ بیک وقت ایک پھدی میں ہو گا اور ایک گانڈ میں۔
دونوں کی رفتار کے ساتھ رضیہ کے بارے میں گندے جملے بھی جاری تھے۔
تاری خان بولا : بہن چود کی پھدی ہے کہ کنواں۔۔ پانی کے ریلے نکل رہے ہیں۔
پیچھے والا رضیہ کو کندھوں سے پکڑ کر اس کی کمر کو چوم کر بولا : سالی کی گانڈ تو ایسے ہے جیسے لن سے چر جائے گی۔
ہر جھٹکے سے رضیہ کے گول ممے تاری کے منہ سے مسلے جاتے اور وہ انھیں بار بار منہ
میں لے کر چوستا۔
پیچھے والا رضیہ کے مموں کو بار بار دباتا اور اس کی گردن اور گالوں کو چومتا۔
پہلے والا بولا : تیرا لن میرے لن سے ٹکرا رہا ہے اندر۔۔ ہے نا؟
وہ بولا : ہاں ! دیکھنا۔۔ سالی کی گانڈ اور پھدی کے درمیان کا پر وہ نہ پھاڑ دینا۔۔ آئے۔۔
تاری جلد تھک گیا کیونکہ وہ نیچے تھا۔
اب تینوں کھڑے ہو گئے۔
رضیہ کی ٹانگوں کو کھول کر یہاں بھی پہلے سے کہیں زیادہ زور دار اندر میں چدائی کی کہ رضیہ کی بیچ بیچ میں درد بھری چیخیں نکل گئیں۔ میں جان سکتا تھا کہ اسے زیادہ درد گانڈ میں ہے اور جب دونوں ایک ساتھ اندر گھتے ہیں تو اس کے گانڈ اور پھدی میں زور دار رگڑیں لگ جاتی ہیں۔
دونوں دس منٹ ہی میں فارغ ہو گئے۔ مگر یہ ابھی اینڈ نہیں تھا۔ دونوں نے کچھ دیر ستانے کے بعد باری باری دوبارہ رضیہ کو جم کر چودا۔ اس بار رضیہ نے شکر ادا کیا ہو گا کہ ایک وقت میں ایک بندہ اس کے اوپر سوار ہے۔
تاری خان اور اس کے ساتھی نے اپنے پیسے خوب اچھی طرح وصول کیے اور کپڑے پہن کر باہر نکل آئے۔
تاری خان بولا: یہ اپنا دوست ہے صادق ۔ پکا یار ہے ، آج میں نے اسے بولا کہ تیری دعوت کروں گا اور ڈش ایسی ہو گی کہ یاد کرے گا۔
وہ بولا: یاد تو میں واقعی کروں گا، کیا گرم لڑکی تھی۔۔ واہ۔۔
میں بولا : بس تم یار لوگ ہو۔ میرے ہوتے موج ہی کرو گے۔
وہ خوش باش اور سرشار چلے گئے
میں اندر داخل ہوا تو رضیہ باتھ روم میں تھی۔ چار پانچ منٹ بعد نکلی تو غصے سے
بولی: کتے کمینے۔۔ تو نے کہا تھا کہ ایک بندہ ہو گا، تو نے دو دو باپ بلوا رکھے تھے۔
میں بولا ؛ جب نیامزا لینا تھا تو دونوں لن بھی تو نئے ہی ہونے چاہیئں تھے نا۔۔۔؟
وہ لاجواب ہو کر بولی: اب مجھے مت بالانا، سمجھا۔۔ لا جو پیسے تو نے کہے تھے۔
میں نے سو سو والے دونوٹ اسے پکڑا دیئے ، وہ چپ چاپ نوٹ تھام کر نکل گئی۔
میں نے اسے آواز دی اور بولا : ایک منٹ ایک منٹ۔۔ یہ رضو نے ایک رقعہ دیا ہے۔
وہ نفرت سے بولی: دفع کر اس بے غیرت کو ۔ بلیک میل کرتا پھرتا ہے کہ محلے میں بتا دے گا کہ میری پھدی ماری ہے۔
میں بولا : اچھا!۔۔ کہو تو اس کا انتظام کروں کوئی۔
وہ بولی: تو کر سکتا ہے تو کر۔
وہ چلی گئی اور میں بھی گھر کو تالا کر اپنے گھر کی جانب چل پڑا
کاروبار کے متعلق بھی سوچ رہا تھا کیونکہ اب مجھے مزید بچیاں چاہیئں تھیں اور مکان
بھی الگ چاہیے تھا۔ ایک وقت میں دو گاہک ایک مکان میں نہیں بلائے جاسکتے تھے۔ ٹائم آگے پیچھے کرنا پڑتا تھا یا کبھی کبھار لڑکی ادھر ادھر کرنا پڑتی تھی۔
میں بازار میں سے گزر رہا تھا کہ ایک برقع پوش لڑکی نے مجھے آواز دی۔ سکندر۔
میں مڑا اور سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ کر بولا : ہاں جی ۔۔ کون ؟
وہ بولی: میں سکندر ۔۔ شبانہ ۔
میں حیران رہ گیا کہ بقول ٹونی تو اس کی شادی ہونے والی تھی، وہ یہاں کیا کر رہی تھی۔
وہ بولی: سکندر ! مجھے تم سے کام ہے، کیا تم مجھ سے کل مل سکتے ہو ؟
میں بولا : ہاں کیوں نہیں۔ کل میں گھر پہنچ جاؤں گا۔
مجھے خود بھی بڑا تجس تھا کہ جس لڑکی کی کل پر سوں شادی ہے اسے مجھ سے کیا کام ہو سکتا ہے۔
وہ بولی: نہیں گھر پر نہیں۔۔ تم کہیں باہر ملو۔
میں بولا ؛ اچھا تو تم اسی مکان پر پہنچ جانا۔
وہ سوالیہ انداز میں بولی: کونسا مکان ۔۔؟ وہ جہاں۔۔۔۔؟؟؟
میں اس کی بات کا مطلب سمجھ کر بولا : ہاں وہیں جہاں تم نے پھدی مروائی تھی۔
وہ کسمسا کر بولی: ٹھیک ہے میں پہنچ جاؤں گی۔
وہ عجلت میں چلی گئی تو میں بھی محلے کی طرف روانہ ہو گیا۔
محلے میں پہنچا تو ایک گلابی سی رنگت والی لڑکی کو گلی میں گول گپوں کی پلیٹ لے کر گھر میں داخل ہوتے دیکھا، لڑکی خوب گوری تھی اور ساتھ ہی اس کے ممے کپڑوں میں بھی بہار دکھارہے تھے۔ سولہ سترہ سال کی تھی اور ایسی بھر پور جوانی۔ ۔ مکمل عورت بن کر تو مردوں کی جان ہی نکال دیتی۔ وہ ہمارے محلے کے چاچا فوجی کے مکان میں داخل ہوئی تھی۔ چاچا فوجی فوج کا ریٹائر تھا اور انار کلی بازار میں اس کی کپڑے رنگنے کی دکان تھی۔ اس کی تین بیٹیاں تھیں جو کہ سب کی سب بیاہی ہوئی تھیں۔ یہ حسینہ نجانے کون تھی ؟
میں گھر میں داخل ہو ا تو قدرت کو اپنا منتظر پایا۔ وہ اشارے سے بلا کر بولی: چھت پر چلیں؟
میں نے کمرے میں جھانکا جہاں اس کی بہن میری بہنوں کے ساتھ گپیں ہانک رہی تھی۔
میں نے اثبات میں سر بلا دیا اور چھت پر چلا گیا۔ چار پانچ منٹوں بعد وہ بھی بلی کی طرح دبے پاؤں آئی اور بنا کوئی بات کیے شلوار نیچے جھکا کر دیوار کی طرف منہ کر کے کھڑی ہو گئی۔
میں نے بھی اپنی پینٹ کی زپ کھولی اور لن نکال کر اس کی گانڈ میں گھسا دیا۔ اس نے ایک سرکاری بھری اور بولی: اوئی۔۔ کب سے۔۔ انتظار کر رہی تھی تمہارا ۔۔؟
میں اس کی گانڈ میں جھٹکے لگاتا ہوا بولا : اچھا!۔۔۔ لگتا ہے گانڈ مروانے کو بے تاب ہو رہی تھیں۔۔
وہ بولی: نہیں۔۔ بس۔۔ ویسے ہی۔۔۔
میں نے ہاتھ بڑھا کر اس کا ایک مما پکڑ لیا اور دوسرے ہاتھ سے اس کی پھدی کے لیوں کو سہلانے لگا، وہ مزے لیتے ہوئے بولی :۔۔ پیار سے کرنا۔۔ کہیں۔۔ سیل ۔۔نہ۔۔ ٹوٹ۔۔ جائے۔
میں اس کے گلے کو چومتا ہوا بولا: پیار سے ہی تو کر رہا ہوں ۔۔ میری جان۔۔ میں چھوٹنے والا ہوا تو میں نے سارا منی اس کی گانڈ میں ہی بہا دیا۔
اس نے تیزی سے شلوار اوپر کی اور میرے ہونٹوں کو چوم کر تیزی سے سیڑھیاں اتر کر واپس چلی گئی۔
میں بھی لن کو دھو کر واپس نیچے آگیا۔ کھانے سے پہلے گرمی کا بہانہ کر کے نہا بھی لیا۔
اگلی صبح میں سکول نہیں گیا اور سیدھا مکان پر پہنچ گیا۔ نسرین ابھی نہیں آئی تھی۔ وہ دن کے دس بجے تک آیا کرتی تھی۔
شبانہ ساڑھے نو بجے پہنچ گئی۔ میں نے اٹھ کر اس کا استقبال کیا اور اس کے لیے بوتل لایا۔
سلام دعا کے بعد وہ بولی: سکندرا مجھے تمہاری مدد چاہیے۔
میں بولا : بولو کیا مد و چاہیے ؟
وہ بولی میری پرسوں رخصتی ہے۔ مگر میں یہ شادی نہیں کرنا چاہتی۔
میں بولا : تو تم شادی سے انکار کر دیتیں۔
وہ بولی: میں انکار کیسے کرتی جب کسی نے مجھ سے پوچھا ہی نہیں۔
میں بولا : مسلئہ کیا ہے ؟ تم شادی کیوں نہیں کرنا چاہتیں؟
وہ بولی: مجھے وہ بندہ پسند نہیں۔ وہ بھابھی کے رشتہ دار ہے، گندی نیت والا غلیظ انسان ہے۔ ایک بیوی پہلے تھی جو مرکھپ گئی اور اب بھابھی اس سے میری شادی کروانا چاہتی ہے۔
میں بولا : اور تمہارا بھائی ؟ وہ کوئی بات نہیں کہتا؟
وہ بولی: نہیں۔۔ وہ تو بس بھابھی کے نیچے لگا ہے۔ جیسے وہ کہتی ہے وہ ویسا کرتا ہے۔
میں بولا : ابھی کیا بول کر آئی ہو ؟
وہ بولی: کچھ بھی نہیں، بھابھی سکول گئی تھی اور بھائی گجرانوالہ میں نکل آئی۔
میں بولا : مجھ سے کیا مدد چاہتی ہو ؟
وہ بولی: میں گھر سے بھاگنا چاہتی ہوں، تم میری مدد کرو گے؟
میں بولا: کس کے ساتھ بھاگنا چاہتی ہو ؟
اگلی قسط بہت جلد
مزید کہانیوں کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں
-
Lust–25–ہوس قسط نمبر
January 26, 2025 -
Lust–24–ہوس قسط نمبر
January 26, 2025 -
Lust–23–ہوس قسط نمبر
January 26, 2025 -
Lust–22–ہوس قسط نمبر
January 18, 2025 -
Lust–21–ہوس قسط نمبر
January 18, 2025 -
Lust–20–ہوس قسط نمبر
January 18, 2025

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

کالج کی ٹیچر

میراعاشق بڈھا

جنبی سے اندھیرے

بھائی نے پکڑا اور
