Lust–26–ہوس قسط نمبر

ہوس

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

ہوس ۔۔ نامساعد حالات میں جینے والے نوجوان کی کہانی۔ بے لگام جذبوں اور معاشرے کی ننگی سچائیاں۔ کہانیوں کی دنیا  پیڈ سیکشن کا نیا سیکسی سلسلہ وار ناول

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہوس قسط نمبر - 26

شان اسے ایک بڑے سے شادی ہال میں لے گیا۔ میں بھی اس میں داخل ہو گیا۔ شان شبانہ کی کمر میں بڑی ادا سے ہاتھ ڈالے اسے لان میں لے گیا جہاں کئی لڑکے کھڑے تھے۔ ان سب کی نگاہوں کا مرکز شبانہ تھی۔ شبانہ بڑی ادا سے چھاتی کو باہر نکالے ان کے پاس پہنچ گئی، شان اس کا دوستوں سے تعارف کروانے لگا۔ سب کی للچائی نظریں اس کی چھاتی پر ہی تھیں۔ ایک دو منٹ کے بعد شان اسے لے کر اس طرف گیا جہاں اس کے باقی دوست اور دلہا موجود تھا۔

میں بھی بڑے غیر محسوس انداز میں وہیں پہنچ گیا۔ ایک لڑکا دوسرے سے بولا : بہن چودا کیا پیوبچی ہے۔۔ سالی کی گانڈ دیکھے۔۔ مجھے تو مل جائے تو میں تو بس اس کی گانڈ ہی ماروں گا۔

دوسر ابولا : تو گانڈ کے پیچھے پڑا ہے ، سالی کے ممے دیکھے۔ بندہ تو اس کے مموں میں ہی لن پھنسا دے۔

پہلا بولا : تجھے کیا لگتا ہے شان نے پھدی لی ہو گی ؟

دوسر ابولا : مجھے تو یہی کہتا تھا کہ روز لیتا ہو گا ۔

پہلا بولا : اب جھوٹ بولتا ہو گا سالا ۔ شکل دیکھی ہے اس نے اپنی۔۔ بچی بالکل سوٹ نہیں کرتی اسے۔ مجھے یقین ہے وہ اس سے نہیں چدواتی ہو گی۔

اب ان کا تیسرا ساتھی بولا : نہیں تو نے دیکھا نہیں، حرامی نے کیسے اس کی کمر میں ہاتھ ڈالا تھا۔ لڑکی اگر چدواتی نہ ہو تو جسم کو یوں ہاتھ نہیں لگانے دیتی۔

پہلا بولا : یار ! میں نہیں مانتا کہ سالے گانڈو سے اتنی پوپٹ بچی سیٹ ہو گئی ہے۔ بہن چود اس کی گانڈ دیکھ کر میرا تولن تن گیا ہے۔

دوسرا بولا : کاش یہ سالی کہیں مل جائے۔ اس کی پھدی بھی اس جیسی نرم اور بھر مجری ہو گی۔

تیسر ابولا : پھدی کا تو میں نہیں کہہ سکتا۔۔ مگر ممے نظر آسکتے ہیں۔

. دونوں بولے: وہ کیسے۔۔ ۔

وہ بولے: شان کو کہتے ہیں کہ اس کے ممے چوس کے دکھائے۔

شان کا اندازہ اپنے دوستوں کے متعلق بالکل درست تھا۔ انھیں یقین ہی نہیں تھا کہ شان بچی اس حد تک سیٹ کر سکتا ہے کہ پھدی مارے۔

میں پودوں کی اوٹ میں تھا تو وہ تینوں میری موجودگی سے انجان تھے۔ ویسے بھی مجھے ان سے تو کوئی مسلئہ نہیں تھا، میں بس شان کی نظروں میں نہیں آنا چاہتا تھا۔ اگر وہ مجھے دیکھ بھی لیتا تو مسلئہ نہیں تھا میں کہہ سکتا تھا کہ میں شبانہ پر نظر رکھنے اور حفاظت کی غرض سے آیا ہوں۔

انھوں نے شان کو بلایا، جبکہ شبانہ لڑکیوں کے ساتھ بیٹھ گئی، شان کا رنگ لال سرخ ہو رہا تھا اور ہر طرف سے سب کی نگاہوں میں بھی آرہا تھا۔ سب کی ستائش بھری نظروں نے اسے غبارے کی طرح پھلا دیا تھا۔ اس وقت وہ اکیلا ہی شاید تھا جس کی گرل فرینڈ ساتھ آئی تھی۔

شبانہ کو لڑکیوں نے کچھ سنیکس وغیرہ دیئے۔

وہ ان کے ساتھ ٹیبل پر بیٹھ گئی تو شان ہنستا مسکراتا بڑی رعونت سے دوستوں کے پاس آگیا۔

ایک بولا : ابے سالے یہ کس کو لے آیا؟

شان بولا : کس کو مطلب ؟ گرل فرینڈ ہے اپنی۔۔

وہ بولا : اتنی پوپٹ۔۔ بکو اس مت کر۔۔ تو بہن بنا کے تولا سکتا ہے۔۔ گرل فرینڈ نہیں۔

دوسرا بولا: ابے اس دن تو تو خود کہہ رہا تھا کہ مٹھ مار کر تھک گیا ہوں۔ بچی کی پھدی تو دور شکل بھی نہیں دیکھنے کو ملتی۔

شان بولا : ابے تب یہ نہیں تھی، اس سے تب چکر چل رہا تھا، بس چدنے کو تیار نہیں تھی۔

اس کا دوست دور سے ہی شبانہ کو ہوس ناک نگاہوں سے دیکھ کر بولا : تو تو نے پھدی دیکھی ہے اس کی ؟ سچ بتانا۔ ۔ اتنی جلدی سیٹ کر کے چود نا تو ممکن نہیں ہے۔

شان بولا : تو پاگل ہے کیا؟ دیکھی کی کیا بات ہے، پھدی ماری ہے تیرے بھائی نے۔

وہ بے یقینی سے بولا : نہیں یار۔۔ نہ کر

شان بولا : اور نہیں تو کیا۔۔ ٹائم اس لیے لگا کہ کنواری تھی تو چدنے سے ڈرتی تھی۔ اب تیرے بھائی کے لوڑے کی دیوانی ہے۔ جب تک چوس نہ لے ، پھدی میں نہیں جانے دیتی۔

تینوں غش کھانے لگے کہ بہن چود تو نے اس کے منہ میں بھی ڈالا ہے۔

شان بولا : ہاں ! منہ میں بھی ڈالا ہے۔

ایک دوست بولا : اچھا! ایسا ہے تو جا، ہمارے سامنے اس کے مموں کو دبا ۔ ننگا کر کے۔۔

شان بولا: پاگل ہے، فیملی فنکشن ہے، کہیں کوئی رولا ہو گیا تو ۔۔؟

دوسر ابولا دیکھا۔۔ میں نہ کہتا تھا کہ یہ بکواس کرتا ہے۔

شان بولا : چل چل ۔۔ بکواس تو کر رہا ہے۔۔ اچھا اس طرف جاکر میں تمہارے سامنے اس کے مموں کو بھی دباؤں گا اور کسی بھی کروں گا۔۔ منظور ہے۔

تینوں بولے: سہی ہے۔۔ جالے کے آاس کو۔

شان گیا اور شبانہ کو اشارے سے ایک طرف بلوایا۔

دونوں ذرا نیم تاریک گوشے میں چلے گئے جہاں کیٹر نگ والوں کا سامان یعنی دیگیں اور کولڈ ڈرنکس کی بوتلیں وغیرہ پڑی تھیں۔

اس طرف فی الحال کوئی نہیں تھا۔ اس کے دوست بھی ذرا ساہٹ گئے اور ایک اوٹ سے چوری چھپے دیکھنے لگے۔

شان نے ادھر ادھر دیکھا پھر اچانک ہی شبانہ کا ایک کولہا پکڑ لیا۔ شبانہ پلٹی تو شان نے اسے بانہوں میں بھر لیا اور اس کے ہونٹوں کو چومنے لگا۔ شبانہ بھی بے تابی سے اس سے لپٹ گئی۔ شان نے شبانہ کے منہ میں زبان گھسادی اور خوب چوسا، ادھر شبانہ بھی بھر پور ساتھ دے رہی تھی۔

شان نے ایک دو منٹ بعد اس کی چھاتی پر زبان پھیرنی شروع کر دی ، شبانہ نے کسی فلمسٹار کی طرح اس کے سر میں انگلیاں چلانی شروع کر دیں اور سسکیاں بھر نے لگی۔

شان نے بڑے واضح انداز میں اس کے مموں کو دو چار بار ہاتھ سے اور ایک دو بار کپڑوں کے اوپر سے دانتوں سے دبایا۔ شبانہ نے ہر بار مثبت رسپانس دیا۔ دوستوں کی فرمائش پوری ہو چکی تھی مگر شان کا شاید بھٹرک مارنے کا مزید موڈ تھا۔ اس نے اپنا ہاتھ شبانہ کی پھدی پر لگایا اور پھدی کو دبایا۔ شبانہ بڑک سی گئی مگر مزاحمت نہ کی۔ شان نے اس کا ہاتھ پکڑا اور پینٹ کی زپ پر سے لن پر رگڑا۔ شبانہ نے یہ کام بھی بڑی رضا مندی سے کر لیا۔

اس وقت شاید کوئی کھٹر کا ہوا تو دونوں لوٹ آئے۔ شبانہ واپس عورتوں میں چلی گئی اور شان دوستوں کے پاس گیا اور بولا: کیوں حرامیوں اب آیا یقین ؟

ان کو کیا یقین آتا، تینوں کے رنگ اڑ گئے تھے ، ایک ہلکی سی آس تھی کہ سالا جھوٹ بول رہا ہے، یہ بچی اتنی آسانی سے چدنے والی نہیں۔ اب یہ منظر دیکھ کر ان کی جان ہی جل گئی تھی۔

حسد سے کلیجہ منہ کو آرہا تھا کہ سالے کو کیسی پوپٹ بچی چودنے کو ملی ہوتی ہے اور ہم مٹھ پر گزارا کرتے ہیں۔ ایک پھنسی ہوئی آواز میں بولا : کھانا کھلنے والا ہے۔

شان بولا : اچھا! چل پھر پہلے تمہاری بھابھی کا منہ اپنے لوڑے سے میٹھا کرواتے ہیں۔ اس کے بغیر وہ کھانا شوق سے نہیں کھائے گی۔ تم لوگ دھیان رکھنا کہ کوئی اس طرف نہ آنے۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید کہانیوں کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page