کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے
ہوس ۔۔ نامساعد حالات میں جینے والے نوجوان کی کہانی۔ بے لگام جذبوں اور معاشرے کی ننگی سچائیاں۔ کہانیوں کی دنیا پیڈ سیکشن کا نیا سیکسی سلسلہ وار ناول
نوٹ : ـــــــــ اس طرح کی کہانیاں آپ بیتیاں اور داستانین صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ ساری رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی تفریح فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے دھرایا جارہا ہے کہ یہ کہانی بھی صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔
تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
-
Perishing legend king-150-منحوس سے بادشاہ
July 1, 2025 -
Perishing legend king-149-منحوس سے بادشاہ
July 1, 2025 -
Perishing legend king-148-منحوس سے بادشاہ
July 1, 2025 -
Perishing legend king-147-منحوس سے بادشاہ
July 1, 2025 -
Perishing legend king-146-منحوس سے بادشاہ
July 1, 2025 -
Perishing legend king-145-منحوس سے بادشاہ
July 1, 2025
ہوس قسط نمبر - 28
وہ بولی: پہلے کبھی کوئی ایسی بات کرتا کہ تم پھدی مرواتی ہو تو میں اس کا منہ توڑ دیتی۔ کل رات مجھے یہ جان کر عجیب سا لگا کہ میں ایسی لڑکی تھی کہ جسے ہر کوئی رشک سے دیکھ رہا تھا۔ میں اپنی مرضی سے ناچ رہی تھی، گارہی تھی، جب جب دل چاہ رہا تھا بنا کسی کی پروا کی پھدی مروار ہی تھی اور جس نے پوچھا اسے بھی صاف بتادیا کہ ہاں مرواتی ہوں۔ مجھے کسی کا ڈر نہیں تھا۔ میری پھدی ہے مرواؤں یا نہ مرواؤں۔ پہلے تو ہر بات پر گالیاں اور تانے پڑتے تھے۔ ہنسامت کر ، دو پٹہ ٹھیک کر ، برا نظر آرہا ہے ، دروازہ مت کھولا کر ، کالج سے جلدی آیا کر ، گلی میں مت جھانک، جسم ڈھک کر چل، کولہوں کو چھپا، مموں کو چھپا۔۔ ہر طرح سے مجھے کوئی نہ کوئی بات سننی ہی پڑتی تھی۔
کل رات میں نے اتنے تنگ کپڑے پہنے کہ جسم ننگا ہی ہو گیا۔ مگر مجھے کسی کی کوئی پروا نہ تھی، سب کی آنکھوں میں جلن تھی اور حسرت کہ کاش وہ بھی ایسے کپڑے پہن سکیں، کاش مردانھیں بھی یونہی للچائی نظروں سے دیکھیں۔ کاش انھیں بھی بنا دو پٹہ ناچنے کی آزادی ہو۔ رات گئے اکیلی بوائے فرینڈ کے ساتھ گھومنے پھرنے اور چدنے کی آزادی ہو۔
میں بولا : سب کی اپنی اپنی خواہشات ہیں۔ خیر ، اب تم تیار ہو جاؤ اور میں بھی ذرا کام دیکھ لوں۔
میں مکان سے نکلا تو رضیہ کا عاشق دکھ گیا۔ وہ بڑی گرمجوشی سے ملا اور بولا : یار ! ایک کام ہے تم سے ؟
میں بولا : ہاں بولو۔۔
وہ بولا : ایک دوست ہے اسے چودنے کو جگہ چاہیے۔
میں بولا : ایک گھنٹہ ملے گا، تین سو روپے۔ مگر یادر ہے ریپ نہیں ہو گا۔ لڑکی مرضی سے کرواے تو ٹھیک
وہ بولا : ہاں ہاں۔۔ اس کی اپنی منگیتر ہی ہے۔ کوئی زور زبر دستی والی بات نہیں ہے۔
میں بولا : کیا بیوقوف بندہ ہے اپنی ہی ہونے والی بیوی کو چود رہا ہے۔ کیا فائدہ ساری
زندگی اس کی تو لیتی ہے بعد میں۔ مزا تو تب ہے ابھی کسی اور کی لے۔
وہ ہنس کر بولا : بات تو ٹھیک ہے تمہاری۔ مگر کیا کرے اور کوئی سیٹ ہی نہیں ہوتی اس سے۔
میں بولا : اب یہ تو اس کی اپنی غلطی ہے۔
وہ بولا : تو لے آؤں شام میں۔
میں بولا ہاں لے آؤ۔۔ تمہارا کوئی موڈ نہیں ان دنوں۔
وہ بولا : نہیں یار بس ایک دو دنوں میں استاد تنخواہ دے گا تو تم سے کہوں گا۔ وہی اس دن والی بچی کو کہنا دوبارہ مل لے۔ اس بار پھدی سے جم کر بدلہ لوں گا۔
میں بولا : ضرور ضرور۔۔۔
وہ چلا گیا تو میں بھی محلے کی طرف گیا۔ ٹونی مل گیا وہ بولا : اوئے یار ! وہ سائرہ تو لفٹ ہی
نہیں دے رہی، تو یار نعیمہ سے ہی سیٹنگ کروادے۔
میں بولا : اس کا منہ بند کرنا پڑتا ہے، وہ کہاں سے کروں؟
وہ سوچ کر بولا ؛ اگر میں دو سو روپے کر دوں تو ۔۔؟
میں بولا؛ نہیں کم از کم پانچ سو چاہیے ۔
وہ بولا: پانچ سو تو مشکل ہے یار ۔۔ ساڑھے تین سو ہوں گے میرے پاس۔
میں بولا : نکال پھر ۔۔
وہ بولا : ابھی نہیں ہیں۔ ایک جگہ رکھے ہیں۔
میں بولا : کہیں سے اڑائے ہیں ؟
وہ بولا ہاں ! ابا کے گلے سے میں سے تھوڑے تھوڑے کر کے ۔ اکٹھے اڑاتا تو بڑے جوتے پڑتے۔
میں بولا : چل تو پچاس کا اور انتظام کر میں نعیمہ کو پیغام بھجوادوں گا۔
میں چاہتا تو ٹوٹی کو مفت میں نعیمہ کی پھدی کا مزا دلا دیتا مگر کسی کو مفت میں مزا کرانے کی عادت بنانا میری لیے نقصان دہ تھا۔ دوستی اپنی جگہ تھی دھندہ اپنی جگہ تھا۔
میں نے ٹونی کو مزید پیسوں کے انتظام پر لگادیا۔ شام میں مکان کا ایک طلبگار بھی آرہا تھا، مجھے ان کا سین بھی تو دیکھنا تھا۔
سائرہ محلے میں چھت پر دکھائی دی، اس نے اشارے سے ایک بوسہ پھینکا اور بتایا کہ کل وہ آئے گی۔
مجھے کیا اعتراض ہونا تھا؟
شام سے پہلے میں دکان پر گیا۔ ماسی چھیمو شاید میری ہی منتظر تھی، وہ بولی: لے پتر ! کاپی تے دیکھ کہ کیڑی کیڑی باڈی وک گئی ہے۔
میں نے رجسٹر اٹھایا تو بڑا حیران ہوا۔ دو دن میں 34 سائز کے بارہ بر بک گئے تھے اور شبانہ نے لکھا تھا کہ دو گاہک خالی گئے تھے ۔ 36 سائز کے صرف تین بکے تھے، جبکہ 32 کے چار۔
اس کا مطلب یہ تھا کہ 34 سائز کے برا سب سے زیادہ فروخت ہوتے ہیں۔ میں نے برا کے بل نکالے اور حساب سے جتنے برافروخت ہوئے تھے۔ اتنے پیسے لے کر ان کی ایک رسید بنائی کہ اتنے پیسے دوبارہ سے نئے برا لانے کو لیے ۔ وہ رسید رجسٹر میں درج کی۔
میں بازار گیا اور اس دکان سے دوبارہ دو در جن براخریدے۔ اس بار میں نے تمام برا 34 سائز کے لیے۔ اس میں چھ برا ڈیزائن اور کافی کشیدہ کاری والے بھی تھے۔
ہماری دکان میں اب تک سب زیادہ بکری برا کی ہی ہوئی تھی۔
سارا سامان لے کر میں واپس آگیا۔
اس ایک ہفتے میں یہ پہلا دن تھا کہ اتنی سیل ہوئی تھی۔ شاید عورتوں نے خود ہی ایک دوجے کو بتا کر ہماری مفت کی پبلسٹی کر دی تھی۔
ماسی خوشی خوشی مال سیٹ کرنے لگی۔ وہ بولی : محلے کی عور تیں بڑی خوش ہیں، کہتی ہیں محلے ہی میں دکان مل گئی تو اور کیا چاہیے۔ کہتی ہیں یہاں سے رنگ، ڈیزائن، وغیرہ پسند کرنے میں بھی شرم نہیں آتی۔۔ جو پسند ہو وہ اچھی طرح دیکھ بھال کر لیتی ہیں، بازار میں تو مردوں کے سامنے کیا بات کریں۔
میں بولا : بس خالہ ! تم دھیان رکھنا کہ کون کون سی چیز زیادہ بکتی ہے۔ ہم وہی زیادہ رکھیں گے۔ جو جو وہ مانگیں تم کاپی میں لکھواتی جانا۔ اچھا! اگلی بار میں برا کے ڈیزائن والی کتاب لاؤں گا ، وہ دکھا کر ڈیزائن پسند کر وانا، پھر جس کو جو جو چاہیئے ہو بتانا، میں ساتھ ساتھ لے آیا کروں گا۔
شام میں میں واپس مکان پر پہنچا تو تھوڑی ہی دیر بعد دروازہ بجا۔ وہاں رضیہ کا عاشق موجود تھا۔
وہ بولا : لاؤں ان کو ؟ ۔۔۔۔۔ میں بولا : ہاں لے آؤ۔
وہ گلی میں چلا گیا اور دو ہی منٹوں بعد ایک چادر میں لپٹی سہمی ہوئی لڑکی کو لے آیا۔ ساتھ ہی ایک دبلا اور مخنی سالڑ کا بھی تھا۔
لڑکی کو سیدھا اندر بھیج دیا اور لڑکا بھی آنکھ کا اشارہ پاکر اندر چلا گیا۔ میں اسے بولا : تم ذرا گلی والی دکان پر چلو، ہم چائے اور سموسے کھاتے ہیں۔
وہ سر ہلا کر باہر نکل گیا تو میں نے اپنی پسندیدہ جگہ سے تانکا جھانکی شروع کر دی۔
لڑکی انیس بیس سال کی سانولی اور قدرے ڈری سہمی سہی تھی۔ وہ ابھی بھی ہولے ہوئے کپکپارہی تھی۔ لڑکا شاید اس سے بھی زیادہ ڈرا ہو ا تھا۔
لڑکے نے لڑکی کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا تو لڑکی نے اسے جھٹک دیا اور بولی : تم نے تو کہا تھا کہ دوست کو نہیں پتا چلے گا۔ اسے تو صاف پتا تھا کہ ہم یہاں۔۔۔ کس لیے آئے
اگلی قسط بہت جلد
مزید کہانیوں کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں
-
Lust–30–ہوس قسط نمبر
May 26, 2025 -
Lust–29–ہوس قسط نمبر
May 26, 2025 -
Lust–28–ہوس قسط نمبر
May 26, 2025 -
Lust–27–ہوس قسط نمبر
May 26, 2025 -
Lust–26–ہوس قسط نمبر
May 26, 2025 -
Lust–25–ہوس قسط نمبر
January 26, 2025