Lust–29–ہوس قسط نمبر

ہوس

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

ہوس ۔۔ نامساعد حالات میں جینے والے نوجوان کی کہانی۔ بے لگام جذبوں اور معاشرے کی ننگی سچائیاں۔ کہانیوں کی دنیا  پیڈ سیکشن کا نیا سیکسی سلسلہ وار ناول

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہوس قسط نمبر - 29

وہ بولا: وہ کسی کو نہیں بتائے گا۔

لڑکی بولی: جو بھی ہو۔۔ اسے تو پتا چل گیانا کہ میں تمہیں۔۔ دوں گی۔ کیا سوچتا ہو گا میرے بارے میں۔۔ میں کیسی گندی لڑکی ہوں۔

وہ بولا : نہیں ! یہ بات نہیں ہے۔ خود اس کی ایک گرل فرینڈ ہے جسے وہ یہاں لاتا ہے۔ تمہیں پتا ہے محبت میں انسان یہ سب تو کر ہی لیتا ہے۔

لڑکی بدستور اکھٹر لہجے میں بولی: مگر یہ سب سارے شہر کو راز دار بنا کر تو نہیں کرنا چاہیے۔

لڑکا بڑی کوفت اور بے تابی سے بولا : اچھا! یہ سب چھوڑو۔۔ جلدی سے شلوار اتارو

لڑکی بولی: نہیں مجھے یہاں ڈر لگ رہا ہے۔

لڑکا بولا: کچھ نہیں ہو گا، فکر مت کرو، یہ جگہ بڑی محفوظ ہے۔

لڑکے نے اٹھ کر اپنی شلوار اتار دی اور اپنا تنا ہوا لن لڑکی کے سامنے کیا۔

لڑکی نے دونوں ہاتھوں سے اس کا لن تھام لیا اور اسے دبانے لگی۔ لڑکا بولا: جلدی سے شلوار اتارو کہیں ہاتھ میں ہی نکل نہ جائے۔

لڑکی نے تیزی سے شلوار اتاری اور ٹانگیں کھول کر لیٹ گئی۔ ظاہر سی  بات تھی کہ یہ دونوں کی پہلی چدائی نہیں تھی۔

لڑکے نے اس کی کالی سی پھدی میں لن گھسا دیا اور اوپر سوار ہو کر اسے چومنے اور چاہنے لگا۔ ساتھ ہی تیزی سے جھٹکے لگانے لگا۔

اتنا ہی منظر کافی تھا کیونکہ مجھے یقین تھا کہ اس لڑکے سے دو چار منٹوں سے زیادہ پھدی میں لگا نہیں جانا اور یہ چھوٹ جائے گا۔

میں باہر ہوٹل پر جا بیٹھا۔ وہ لڑکا بولا: دو دن بعد تم اس لڑکی کو دوبارہ بلو الینا۔

میں بولا : بلوانے کی کیا بات ہے ، وہ سامنے دکان دیکھ رہے ہو ، ہوزری کی، اس کی بیٹی ہے۔

وہ حیران رہ گیا اور بولا: ابے ! تم اس کی بیٹی کو چودتے ہو اور اسے سالے موٹے کو پتا ہی نہیں۔

میں بولا بس ایساہی ہے 

یہ تو میں نے یونہی بے پر کی اڑائی تھی کہ اب جب بھی وہ اس دکان کے سامنے سے گزرے گا چوڑا ہو جایا کرے گا کہ اس کی بیٹی کی پھدی میں نے لی ہے یاڈر جایا کرے گا کہ کبھی اس موٹے سانڈ کو پتا چل گیا تو کیا ہو گا میرا۔

ایک گھنٹے کی بجائے بیس منٹ بعد جوڑا لوٹ آیا تو میں بھی فارغ ہو گیا۔

شان ایک بار پھر آیا کہ کل کے لیے نادیہ کو تیار رکھنا۔ میں نے اسے یقین دہانی کروائی کہ ایسا ہی ہو گا۔

اگلے دن سائرہ نے بھی آنا تھا اور مجھے شام میں شبانہ کے پیچھے بھی جانا تھا۔

میں سارے پلان سوچ رہا تھا کہ کل کس طرح ٹائم کو تقسیم کروں؟ کل منزئی کے آنے کا بھی امکان تھا کیونکہ وہ دو چار دن چھوڑ کے آیا کرتی تھی۔

میں شبانہ کے پاس گیا اور اسے سمجھایا کہ تم نے باتوں باتوں میں کوشش کرنی ہے کہ اس کے دوستوں کے نام اور گھر بار کا ہلکا سا اندازہ ہو جائے۔ ساتھ ہی جو لڑکیاں وہاں ملی تھیں، ان کا بھی پتا چلانا ہے ، کل کو وہ بھی کسی کام آسکتی ہیں۔

میں شبانہ کے پاس سے اٹھا تو نسرین نے مجھے اشارہ کر کے ایک طرف بلایا، میں اس کے پاس گیا تو وہ بولی: میں نے تمہیں اپنے ماموں کی بیٹی کا بتایا تھانا۔ روشی کا؟

میں بولا: کیا بتایا تھا؟ یہی کہا تھا کہ اسے میں بیس  روپے میں چدواو  گی۔

وہ بولی ہاں ہاں وہی۔۔۔ وہی۔۔

میں بولا : تو کیا ہوا اس کا؟

وہ بولی: میں ایک دو دنوں میں اسے مکان پر لاؤں گی، تم وہاں اس کی پھدی مار دینا۔

میں بولا : او۔۔ وہ میرے ہی محلے کی ہے، مجھے جانتی نہیں ہو گی کیا؟

وہ بولی: بس کسی طرح سے تم اسے چود لینا۔ میں یہ چاہتی ہوں کہ جتنے مردوں سے پھدی میں نے مردائی ہے وہ بھی مروائے۔

میں بولا : تم اسے لانا، میں حساب لگاؤں گا کہ وہ چدنے والی پوزیشن میں ہے یا نہیں۔ ایک بار سیٹ ہو گئی تو پھدی بھی مار ہی لیں گے۔

وہ بولی: مگر یہ کام ہو نا ضرور چاہیے۔

میں بولا : ضرور ہو گا، تم فکر ہی نہ کرو۔

میں اسے تسلی دے کر لوٹ گیا۔ ایک نئی بچی روشی شاید گھیرے میں آنے والی تھی۔ میں روشی کو جانتا تھا وہ رضو کی بھتیجی تھی۔ اس مہنگے سکول میں پڑھتی تھی، محلے کے بچوں کے ساتھ اسے کبھی کھیلتے نہیں دیکھا گیا تھا کیونکہ وہ اپنے آپ کو کوئی شے سمجھتی تھی۔

میں نے اسے کم و بیش ہی کہیں دیکھا تھا۔ روشی کی ایک خاص خوبی اس کا گورا رنگ تھا۔ وہ صاف دودھیا رنگ والی بچی تھی۔ میرے دھندے میں ابھی تک سوائے پیر صاحب کی بیوی کے کوئی حسین و جمیل یا گوری چٹی بچی نہیں تھی۔

امید تھی کہ روشی اس دھندے میں نیا اضافہ ثابت ہو گی۔

میں نے اگلے دن سائرہ کو وقت دیا تھا۔ وہ آگئی۔ اس کے انگ انگ سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ آج کی ملاقات میں مکمل تعاون کرے گی۔ میں نے بھی سوچ لیا تھا کہ سائرہ پر کافی وقت اور پیسہ خرچ ہو چکا ہے ، اب اسے بستر پر لانا ہی چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا کہ سائرہ بنا دے چلی جاتی یا ہمیشہ کے لیے ناراض ہو جاتی۔ میں اسے سیدھا کمرے میں لے آیا۔ وہ سکول یونیفارم کے اوپر بڑی سی چادر لپیٹے ہوئے تھی۔ میں نے اسے پیچھے سے بانہوں میں بھر لیا اور بولا: تم کتنی نرم و نازک ہو میری جان۔

وہ شرما گئی، میرے ہاتھ اس کے پیٹ سے ہوتے ہوئے اوپر کا سفر کرنے لگے اور میں نے اس کے بریسٹ کو دبا دیا۔ وہ ہلکی سی کسمسائی مگر منہ سے کچھ نہ بولی۔ میں نے ہاتھوں کا سفر نیچے کی طرف کیا اور دھیرے دھیرے سے اس کی رانوں کو سہلانے لگا۔ وہ مزید کسمسانے لگی، میں نے بستر پر دھکیل دیا، وہ اوندھی بستر پر جالیٹی۔ میں اس کے اوپر لیٹ گیا۔ اس کے کولہوں کے کٹاؤ کے درمیان لن رگڑنے لگا اور بڑی بے صبری سے اس کے گالوں کو چومنے لگا۔

میں نے ہاتھ بڑھا کر اسے سیدھا کیا اور اس کے ہونٹوں کو چوم لیا۔ اس نے کوئی تردد نہ کیا اور بس اپنی آنکھیں موند لیں۔ میں اسے چہرے، گالوں، پیشانی، گلے پر چومتا رہا اور لگے ہاتھوں اس کی چوت کے لبوں پر لن بھی رگڑ تا رہا۔ وہ چپ چاپ لیٹی گہری سانسیں لیتی رہی۔ میں نے چومتے ہوئے نیچے کا سفر کیا اور اس کی شلوار کو نیچے کی طرف سر کایا۔ وہ بلک کر اٹھی اور بولی: نن۔۔ نہیں سکندر ۔۔ یہ مت کرو۔۔۔ یہ میں نہیں کرنے دوں گی۔۔ یہ میری عزت کا سوال ہے۔

میں نے اسے چوما اور تھوڑا سا زور لگا کر شلوار کو سرکایا۔ وہ بدستور مزاحمت کر تی رہی لڑکی اگر بستر تک آ جائے تو اس کی ناں کو ہاں ہی سمجھنا چاہیے۔ میں نے مزید زبر دستی کا مظاہرہ کر کے شلوار رانوں تک اتار ہی دی اور اس کے اوپر چڑھ گیا۔ وہ مجھے کہنے لگی، سکندر ۔۔ کچھ غلط مت کرنا۔

میں ایسا گندا کام نہیں کروں گی۔ میں اسے مسلسل چومتار با اور بولا : بس میری جان! یہ کوئی غلط کام نہیں ہے۔ تم بس پیار محسوس کرو۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید کہانیوں کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page