Lust–31–ہوس قسط نمبر

ہوس

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

ہوس ۔۔ نامساعد حالات میں جینے والے نوجوان کی کہانی۔ بے لگام جذبوں اور معاشرے کی ننگی سچائیاں۔ کہانیوں کی دنیا  پیڈ سیکشن کا نیا سیکسی سلسلہ وار ناول

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہوس قسط نمبر - 31

وہ باتھ روم چلی گئی اور شاید رگڑ رگڑ کر پھدی کو دھوتی رہی، دس منٹوں بعد آئی تو قدرے ریلکس تھی۔ میں اسے پیار سے بانہوں میں بھر کر بولا : مجھ سے ناراض مت ہونا، جذبات میں بہہ کر مجھ سے یہ ہو گیا ۔۔ یہ ہر پیار کرنے والے کے درمیان ہوتا ہے۔۔ تم خود کو غلط نہ سمجھنا۔۔

وہ بولی: پھر بھی سکندر کتنی گندی بات ہے۔۔ کوئی سنے گا تو کیا سوچے کہ سائرہ نے سکندر کو اپنی۔۔

دی ہے۔۔ لوگ کیا کہیں گے؟

میں بولا : اس میں کیا برائی ہے؟ شادی کے بعد ہر لڑکی دیتی ہے، ہم نے بس پہلے کر لیا ہے اور کیا۔

وہ خاموش ہو گئی۔ میں بولا: اچھا اب آؤ کچھ کھا لیتے ہیں۔

وہ بولی: نہیں سکندر ! مجھے جانا ہے۔ کچھ کھانے کا دل نہیں کر رہا۔

میں نے زیادہ اصرار بھی نہ کیا اور جیب سے سو سو کے دو نوٹ نکال کر بولا: یہ رکھ او ، آج جلدی میں کوئی گفٹ نہیں لا سکا تو تم خود کل ثوبیہ کے ساتھ جا کر کوئی گفٹ لے لینا۔

اس نے خاموشی سے پیسے پکڑ لیے۔ وہ چلی گئی تو میں بھی کپڑے پہن کر دکان کی طرف گیا۔ ماسی کے پاس محلے کی دو عور تیں اور جو ان سال لڑکی کھڑی تھی۔ لڑکی کی نزاکت اور سج دھج پیچ پیچ کر کہتی تھی کہ وہ نئی نویلی دلہن ہے۔ میں دور سے کھڑا ہو کر اس کی خیالی بلیو پرنٹ بنانے لگا کہ سالی کیسے کیسے چدتی ہو گی۔ اس کے نین نقش اچھے تھے مگر جسم خاص نہیں تھا۔ اس سے زیادہ مزے کی تو شبانہ یا نسرین تھیں۔

میں اسی لڑکی کو تاڑ رہا تھا اور وہ بھی خوب سمجھ رہی تھی کہ میں اسے ہی دیکھ رہا ہوں۔

وہ بھی عام لڑکیوں کی طرح بظاہر تو ماسی چھیمو کی طرف متوجہ تھی مگر چاہ رہی تھی کہ میں اس کے موٹے موٹے کولہوں پر رال ٹپکاؤں۔ اس کی سرخ قمیض بار یک تھی اور اندر سے جھانکتا سیاہ برابھی دعوت نظارہ دے رہا تھا۔ لگتا تھا ان دنوں شوہر جم کر

پھدی لے رہا تھا کہ ہر وقت چدنے کو من کر رہا

تھا۔ ماسی نے مجھے پکارا اور بولی: سکندرا پتر یہ بہن شمیم کیا کہہ رہی ہے۔

میں آگے بڑھا اور بولا : جی خالہ کیسے کیا چاہیے ؟

وہ پہلے تو میر ا جائزہ لیتی رہی کہ ایسا گورا چٹا اور خوبرو لڑ کا ماسی چھیمو کے پاس کیا کر رہا ہے، پھر ماسی چھیمو کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا، جو بولی: اپنا ہی بچہ ہے، دکان بھی سمجھو یہی چلا رہا ہے۔

وہ بولی: میں یہ کہہ رہی ہوں کہ مجھے گھر میں پہننے کے لیے کچھ باریک کپڑے چاہیئں۔

میں مکمل کاروباری بن کر بولا: آنٹی کس قسم کے کپڑے، نارمل کاٹن کے سوٹ یا رات کو سونے کے لیے نائیٹی وغیرہ۔۔

وہ کچھ گڑ بڑا سی گئی اور بولی: نائیٹی مل جائے گی ؟

میں بولا : ہاں جی ۔۔ نئے شادی شدہ جوڑوں کے لیے بھی اور میچور بندوں دونوں کے لیے نائیٹی مل جائے گی۔

میں نے وہ الہم اٹھایا جس میں نارمل اور انتہائی بہیجان انگیز دونوں طرح کی نائیٹی موجود تھیں۔ میں بولا : اس میں سے دیکھ لیں، جو پسند ہو اس کا نمبر بتادیں، ایک گھنٹے میں مل جائے گی۔

وہ دونوں ایک کونے میں کھڑی ہو کر نائیٹی دیکھنے لگیں۔ میں بھی رجسٹر اٹھا کر ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ پانچ سات منٹوں بعد انھوں نے دو نمبر منتخب کیسے ، یہ دونوں بڑی هیجان انگیز نائیٹی تھیں جو رانوں تک تمھیں اور ان کا کپڑے جالی کی طرح باریک تھا۔

میں سمجھتا تھا کہ شادی شدہ جوڑے یہی پسند کرتے تھے۔ میں بولا : بس جی ایک گھنٹے میں دونوں مل جائیں گی۔ میں نے فی نائیٹی آٹھ سو روپے وصول کر لیے۔ بلو کا موٹر سائیکل مانگ کر میں بازار چلا گیا۔

تھوڑی ہی دیر میں میں وہ نائیٹی لے آیا، دونوں مجھے ساڑھے پانچ سونی نائیٹی میں پڑی تھیں۔

میں نے منافع کی باقی رقم ماسی کو تھما دی کہ یہ بچت میں گلے میں ڈال دے۔

شبانہ تیار ہو کر آگئی۔ میں نے اسے ساتھ لیا اور مکان کی طرف چلا گیا۔ دس ہی منٹوں بعد شان آگیا اور سجی سنوری شبانہ کو ساتھ لے گیا۔ میں بھی اس کے پیچھے پیچھے نکل پڑا۔ وہ ایک اچھے سے ریسٹورنٹ گئے جہاں شان کے اس دن والے دوست موجود تھے۔ ساتھ ہی دو تین لڑکیاں بھی تھیں۔

میری نگاہ بیک وقت شان کے دوستوں اور ان لڑکیوں کی طرف تھی۔ شبانہ شان کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئی جہاں شان کے ہاتھ اس کی کمر پر مسلسل سہلانے لگے۔ یہ کھانا کوئی ایک گھنٹہ چلا پھر سب نکلنے لگے۔

شان اور شبانہ سب سے پہلے واپس گئے کیونکہ میں نے شان سے کہا تھا کہ شبانہ کا ہاسٹل جلد بند ہو جاتا ہے۔ دوم انھیں گھر جا کر ایک چدائی بھی کرنے کی جلدی تھی۔

میں ٹہلتا ہوا ان لڑکوں کے قریب پہنچا، ایک دوسرے سے بولا: بہن چود روز آجاتی ہے اس کے ساتھ ۔۔ حرامی کے تو مزے ہی ہو گئے۔

دوسر ابولا: اور نہیں تو کیا۔۔ جب چاہے بلا کر جم کر پھدی لیتا ہو گا اس کی۔

پہلا بولا : ابھی ابھی بھی یہی کہہ رہا تھا کہ پہلے پھدی مارے گا پھر ہاسٹل چھوڑے گا۔

میں نے اچانک انٹری دی اور بولا: بھائی ! صاحب یہ مون لائیٹ ریسٹورنٹ یہی ہے ؟

ایک بے زاری سے بولا : ہاں یہی ہے پڑھنا نہیں آتا کیا ؟

میں ہنس کر بولا: پڑھنا تو آتا ہے مگر اس وقت کسی سے پڑھا جائے گا جب ابھی ابھی

آنکھوں کے سامنے ایسی ظالم بچی گزری ہو۔

وہ میری طرف متوجہ ہو کر بولے : کونسی بچی؟

میں بولا : ابھی وہ نارنجی جوڑے والی۔۔ نادیہ نام ہے اس کا۔۔ میرے کزن سے

پڑھتی تھی کسی زمانے میں۔۔ آج ڈیٹ مار رہی تھی۔

وہ تینوں اب پوری طرح میرے بچھائے جال میں گھر چکے تھے۔ ایک بولا : تم اس

لڑکی کی بات کر رہے ہو جو ابھی یہاں سے گئی ہے۔

میں بولا : ہاں۔۔ اس کی۔

ایک بولا : تم اسے جانتے ہو ؟

میں بولا : ہاں ! میرا کزن پر وفیسر ہے یہ اس سے پڑھتی تھی۔

وہ بولا : اچھا! یہ رہتی کہاں ہے ؟

میں بولا : ابھی تو شاید ہاسٹل میں۔۔ مگر تم لوگوں کا کیا ارادہ ہے ؟

وہ کندھے اچکا کر بولے: کچھ نہیں۔۔ ویسے ہی۔۔

میں ذرار از داری میں بولا : تم لوگ اس کی لینے کی تو نہیں سوچ رہے ؟

تینوں اچھل پڑے اور ان کے تنے ہوئے لن اور جذبات ابھر آئے۔ ایک سنبھل کر

بولا: کیا بکواس کر رہا ہے۔۔ چل بھاگ۔۔

میں موٹر سائیکل سٹارٹ کرتے ہوئے بولا: چلو ٹھیک ہے ، ویسے اگر ایسا سوچ رہے ہو تو میں مدد کر سکتا ہوں۔

میں نے لک لگائی کہ تینوں مجھ پر پل پڑے۔۔ کہ کیسے کیسے ۔۔ بتانا۔۔ کیسے۔۔؟ ہاں ہاں لینی ہے اس کی۔۔ تو کیسے مدد کر سکتا ہے ؟ ۔۔

میں بولا : کام خطر ناک ہے۔۔ شرط یہ ہے کہ تم لوگ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دو۔ یہ نہ ہو کہ پھدی لے دوں اور تم تینوں شوخیاں مار کر سارے شہر میں اشتہار لگوا دو اور میں پھنس جاؤں۔ اگر میں پھنسا تو تم لوگ بھی جیل جاؤ گے۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید کہانیوں کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page