کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے
ہوس ۔۔ نامساعد حالات میں جینے والے نوجوان کی کہانی۔ بے لگام جذبوں اور معاشرے کی ننگی سچائیاں۔ کہانیوں کی دنیا پیڈ سیکشن کا نیا سیکسی سلسلہ وار ناول
نوٹ : ـــــــــ اس طرح کی کہانیاں آپ بیتیاں اور داستانین صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ ساری رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی تفریح فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے دھرایا جارہا ہے کہ یہ کہانی بھی صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔
تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
-
Raas Leela–10– راس لیلا
October 11, 2025 -
Raas Leela–09– راس لیلا
October 11, 2025 -
Raas Leela–08– راس لیلا
October 11, 2025 -
Raas Leela–07– راس لیلا
October 11, 2025 -
Raas Leela–06– راس لیلا
October 11, 2025 -
Strenghtman -35- شکتی مان پراسرار قوتوں کا ماہر
October 11, 2025
ہوس قسط نمبر - 37
میں بولا: ٹھیک ہے تو تم کل لازمی پہنچ جانا، دن کو آنا کیونکہ بعد میں نسرین کو ایک جگہ جانا ہے۔
میں بولا : اور ہاں۔۔ کل ہی میں تمہیں نسرین کے ہاتھوں ایک ہزار روپیہ پیشگی بھی دلوادوں گا۔
وہ شلوار پہن کر اٹھی اور چلی گئی۔ اگلی دو پہر سے پہلے میں نسرین کے پاس گیا اور اسے ہزار روپے دیئے اور ساری کہانی سمجھائی ۔ ساتھ ہی میں نے یہ کہا کہ وہ منزی کی ماں کو مکمل مطمئن کرے کہ منزئی ان کی دکان پر کام کرے گی۔۔۔۔۔۔۔
وہ شلوار پہن کر اٹھی اور چلی گئی۔ اگلی دو پہر سے پہلے میں نسرین کے پاس گیا اور اسے ہزار روپے دیئے اور ساری کہانی سمجھائی ۔ ساتھ ہی میں نے یہ کہا کہ وہ منزی کی ماں کو مکمل مطمئن کرے کہ منزئی ان کی دکان پر کام کرے گی اور یہاں سب عور تیں ہیں۔ کام کی وہ با قاعدہ اجرت ادا کریں گی۔ جب تک منزی کام میں مکمل طاق نہیں ہو جاتی تب تک کے لیے ہزار روپیہ بطور قرض سمجھ کر رکھ لیں، بعد میں کام سے کٹوتی ہو جائے گی۔ جب کام سیکھ جائے گی تو ہر سوٹ کی سلائی پر جو جو کمیشن بنے گا وہ ادا کر دیا جائے گا۔ ساتھ ہی یہ سختی سے ہدایت کی کسی کو کام کے بارے میں مت بتائیے گا کیونکہ ارد گرد کے لوگ پھر اپنی اپنی بچیاں مجبوریاں بتاتے ہوئے لے آتے ہیں۔ ہم فی الحال ایک آدھ ہی لڑکی کی گنجائش نکال سکتے ہیں۔
ماسی چھیمو کا مسلئہ تھا تو اس کا حل یہ نکالا کہ میں نے اسے پانچ ہزار دے کر شاہ عالمی کی مارکیٹ سے سامان لانے بھیج دیا شبانہ بھی فارغ تھی وہ بھی ساتھ چلی گئی۔ ماسی کو لیس اور بٹن وغیرہ چاہیے تھے ، جن کے لیے وہ مارکیٹ میں جانا چاہتی تھی۔ اس سے
قبل بھی و سامان شبانہ اور سرین کےساتھ جاکر خرید لائی تھی
میرے اندازہ کے عین مطابق منزلی دو پہر تک اپنی ماں کو نسرین کی دکان یا بوتیک پر لے آئی۔ دکان کافی سیٹل ہو چکی تھی اور وہاں کا کام دیکھ کر وہ یقینا مطمئن ہو
گئی۔ جاتے جاتے وہ ہزار روپیہ بھی لیتی گئی۔ اگر کوئی کمی دکھائی دی بھی سہی تو ہزار
روپوں نے اس سے نظریں چرانے پر مجبور کر دیا ہو گا۔
منزی کی ماں کے جانے کے بعد میں نے ان دونوں کو تیار ہو کر ریس کورس میں پہنچنے کو کہا۔
خود میں فرہاد کی اکیڈمی کی جانب بڑھ گیا۔ کامران مجھے راستے میں ملا۔ میں نے اسے مکان کی چابی دی اور بولا : سامنے والے کمرے میں جانا، باہر والے دروازے کو لاک مت کرنا۔ محلے والے ورنہ مشکوک ہوں گے۔ ایسے سمجھیں گے کہ کسی کام سے آئے ہیں۔
وہ چلا گیا تو میں فرہاد اور اس کی بہن کا انتظار کرنے لگا۔
فرہاد پہنچ گیا، آج تو اس کی بہن کے جسم کی خوشبو مجھے دور سے آگئی۔ اس کے ہونٹوں کی لپ اسٹک میں ایک فاصلے سے کھلتی ہوئی محسوس کر سکتا تھا۔
میر اسی خورد خوداش گیل
میں نے دل میں خود کو مخاطب کیا اور بولا : کیا مہک ہے اس کے جسم کی۔ لگتا ہے ابھی خوشبو کی بوتل میں تیر کر آئی ہے۔
اس جسم کی خوشبو کو بستر پر مسلوں گا۔
اور ان گداز لبوں میں میرا لن اپنی منی بہائے گا۔
تب ان کی سرخی پر سفیدی کے چھینٹے کیا رنگ دکھائیں گا
فرہاد اسے چھوڑ کر میرے پاس آگیا۔
ہم دونوں موٹر سائیکل پر سوار ہوئے اور سید ھاریس کورس جا پہنچے۔ میں گیٹ پر
اسے بولا : تم اندر جاؤ اور کہنا کہ میں تھوڑی ہی دیر میں پہنچ جاؤں گا۔
میں دو تین گھنٹوں میں آؤں گا تب تک تم اس کے مزے اٹھا سکو تو اٹھا لینا۔
وہ چپ چاپ اندر داخل ہو گیا اور میں موٹر سائیکل پر وہاں سے مکان کی جانب روانہ ہو گیا۔
میں مکان پہنچاتو گلی میں کامران کی موٹر سائیکل موجود تھی۔ میں نے فرہاد کی موٹر سائیکل کھڑکی کے سامنے کھڑی کی اور دبے پاؤں اندر داخل ہوا۔ کامران اور فرہاد کی بہن اندر کمرے میں تھے۔ میں نے اپنی مخصوص جگہ سے نظارہ کرنا شروع کر دیا۔
کامران اور وہ بستر پر ساتھ ساتھ بیٹھے تھے۔ دونوں کے جذبات اور جھجھک سے سرخ ہوتے چہرے میں محسوس کر سکتا تھا۔ کامران یقینا اسے چودنے کو بے قرار تھا مگر ابھی تعلقات اس نہج پر نہیں پہنچے تھے۔ لڑکی کا نام نیلو فر تھا جو کہ بعد میں معلوم ہوا، وہ کامران سے کچھ بڑی تھی مگر اس وقت اپنے قد کی بنا پر کامران اس کا ہم عمر اور جوڑ کا ہی دکھائی دے رہا تھا۔
کامران نے بات شروع کی اور بولا : آپ کچھ لیں گی ؟
وہ با مشکل مسکرا کر بولی: نہیں۔۔ شکریہ ۔۔ ہم کب واپس جائیں گے ؟
کامران بولا : بس ایک گھنٹے تک چلتے ہیں۔
وہ بولی : کہیں فرہاد واپس نہ آجائے۔
کامران بولا : نہیں وہ جلدی واپس نہیں آئے گا۔
نیلوفر بولی تم نےمجھے
کامران بولا : بس یونہی۔۔ سوچا کہیں اکیلے میں مل کر باتیں کرتے ہیں۔
نیلوفر مسکرائی تو کامران بھی مسکرا کر خاموش ہو گیا۔
نیلو فر بولی: یہ مکان کس کا ہے ؟
کامران بولا: یہ ایک دوست کا ہے ، وہی تو فرہاد کو ساتھ لے گیا ہے۔
وہ بولی : وہ دونوں کہاں گئے ہیں۔ فرہاد خاصا تیار ہو کر آیا تھا گھر سے جیسے کسی ڈیٹ پر جا رہا ہو۔
میں دل ہی دل ہنسا، وہ خود بھی تو تیار ہو کر آئی تھی۔ اس کی خوشبدن وجود سے ابھی بھی اس پر فیوم کی تیز خوشبو آرہی تھی اور ان دونوں سے زیادہ مجھے اشتعال دلا رہی تھی۔ پھر یکایک اک لاوا سا ابلا، نیلو فر نے اپنے سرخ ہونٹوں پر زبان پھیری۔ اس کا یہ عمل مجھے پورے وجود کو جھلسا گیا، میں نے اپنی اب تک کی زندگی میں کئی جو ان اور حسین لڑکیوں اور عورتوں کی پھدی کا مزا لیا تھا مگر جو طلب کی آگ اس کے ہونٹوں پر پھرنے والی زبان نے بھڑکائی پہلے کبھی نہیں بھڑ کی تھی۔ شاید یہ اس کے پرفیوم کا قصور تھا یا اس کی تیز لپ اسٹک کا کہ میں بے قابو ہو گیا۔ نیلو فر اچھی خاصی تھی مگر ایسی بھی نہیں تھی انسان پاگل ہو جاتا مگر میں نجانے کیوں پاگل ہو گیا۔ یہ تو طے تھا کہ ایک نہ ایک دن مجھے اس کی پھدی اور ان ہونٹوں کا مزا لینا تھا مگر اس کی زبان نے مجھے مجبور کیا کہ میں اس وقت کا انتظار نہ کروں اور ابھی اسی وقت نیلو فر پر ٹوٹ
پڑوں۔ میں نے تمام چیزوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس جنسی طلب کے آگ ہتھیار ڈال دیئے۔
کامران نے ہمت کرتے ہوئے نیلو فر کا ہاتھ پکڑا تو نیلوفر نے خوشگوار حیرت سے اس کی جانب دیکھا، میرے تن بدن میں جیسے انگارے لپٹ گئے۔
میں باہر نکلا اور دروازہ بجادیا، اندر کھلبلی مچ گئی اور اس کی صدا مجھے باہر بھی سنائی دے گئی۔
کامران باہر نکلا اور مجھے دیکھ کر اس کا اڑا ہوا بحال ہوا اور ساتھ ہی پھیکا بھی پڑ گیا۔ اس کے ذہن میں متضاد خیالات آئے ہوں گے ، اول یہ کہ میں ہوں تو پریشانی کی بات نہیں ، دوسرا یہ کہ کہیں میں نے اس کے ساتھ دھوکا دہی تو نہیں کی اور فرہاد کو ساتھ آپ میں نے اسے بلایا اور دروازے کو باہر سے بند کر دیا۔ وہ سوالیہ نظروں سے مجھے تکنے لگا۔
اگلی قسط بہت جلد
مزید کہانیوں کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں
-
Lust–50–ہوس قسط نمبر
October 7, 2025 -
Lust–49–ہوس قسط نمبر
October 7, 2025 -
Lust–48–ہوس قسط نمبر
October 7, 2025 -
Lust–47–ہوس قسط نمبر
October 7, 2025 -
Lust–46–ہوس قسط نمبر
October 7, 2025 -
Lust–45–ہوس قسط نمبر
October 7, 2025