Lust–41–ہوس قسط نمبر

ہوس

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی سٹوری ۔۔ہوس ۔۔

نامساعد حالات میں جینے والے نوجوان کی کہانی۔ بے لگام جذبوں اور معاشرے کی ننگی سچائیاں۔   نیا سیکسی سلسلہ وار ناول

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہوس قسط نمبر - 41

میں بولا : نہیں تو۔۔ یہ تو بس یونہی اسے ڈرانے کے لیے بہانہ گھڑا ہے۔۔۔۔۔۔۔

وہ بولا : اور اس نے کہا کہ مجھے تصویریں دکھاؤ تو پھر ۔۔۔؟

میں بولا : تو پہلے اس کی کچھ تصویریں کھینچ لیں گے اور دکھا بھی دیں گے۔

وہ بولا : مطلب اسے دوبارہ بلا کر اس کا ریپ کریں گے اور اس بار تصویر میں بھی لیں گے۔

میں بولا : ہاں۔۔ یہی کرنا ہو گا۔

وہ بولا : سہی ہے یار۔۔ تو تو بڑا چالو بندہ ہے۔ کیا اسکیم سوچی ہے۔ اچھا وہ فرہاد کو کہاں لے گیا تھا۔

میں بولا : ایک دوست ہے اپنی شادی شدہ ہے ، اس کے پاس لے گیا تھا۔ وہ بے چاری ان دنوں ذرا اداس ہے کیونکہ شوہر کام کے سلسلے میں دبئی گیا ہوا ہے۔ سوچا کہ فرہاد اسے بہن بنالے گا اور یار ہم اس کی بہن کو ماں بنانے میں جت جائیں گے ۔

وہ ہنسا اور بولا: واہ کہا تو تم نے ٹھیک ہے۔

میں بولا : اس دوست کو میں نے وعدہ کیا ہے کہ نئی سونے کی بالیاں لے کر دوں گا۔

بالیاں ایک ہاتھ سے تھاؤں گا اور دوسرے سے اس کی شلوار اتاروں گا۔ آگے قسمت۔۔۔

وہ جذبات سے لبریز ہو کر بولا : بیچ میں۔۔ وہ شادی شدہ ہو کر چہ جائے گی۔

میں بولا : کیوں نہیں۔۔ مگر ایک مسلئہ ہے، بالیوں کے پیسوں میں بارہ سو کم ہیں۔

وہ کچھ دیر سوچنے کے بعد بولا : یار بارہ سو میں کر دیتا ہوں۔

میں بولا : نہیں یار ۔۔ اگر پیسے تم دو گے تو مجھے یہ اچھا نہیں لگے گا کہ پھدی میں اکیلا ہی لوں۔

وہ بولا : تو ہم مل کر لے لیتے ہیں، جیسے نیلوفر کی لی تھی۔

میں بولا : نہیں اس کا معاملہ الگ ہے ، وہ منہ بولی بہن بنی ہوئی ہے میری۔ یا تو میں چودوں گا یا پھر کسی کو دوست بتا کر اس سے چدواؤں گا۔ اس پر ریپ جیسا معاملہ نہیں کیا جا سکتا، وہ بڑے مضبوط گھر کی ہے اور اس کا شوہر بھی بڑا پہنچ والا ہے۔

وہ بولا : پھر کیا کیا جائے؟

میں بولا ؛ یہی ہو سکتا ہے کہ اس کی پھدی تم اکیلے ہی لے لو۔

وہ خود غرضانہ رضامندی سے بولا : ہاں۔۔ تم کہتے ہو تو ٹھیک ہے۔

میں بولا : کل میں اس سے بات کروں گا اور سنار کو آج بالیوں کا بھی کہہ دیتا ہوں۔

اس نے مجھے بارہ سو روپے دے دیئے۔

میں نے پیسے جیب میں رکھے اور دکان کی طرف گیا۔ حسب توقع شام سے پہلے ہی دکان پر نازل ہو گئی ، وہ پورے دنوں کی تھی ویسے ہی میسنی بنتی تھی۔ وہ فرزانہ اشارے سے مجھے ایک سائیڈ پر لے گئی اور بولی: میں نے بہت سوچا مگر یہ کام مجھ سے نہیں ہو گا۔

میں بولا : میرا بھی یہی خیال تھا کہ تم کالے بچوں پر ہی اکتفا کر لو گی۔ اچھی بات ہے تم سے یہ کام نہیں ہونا تھا، یہ مجھے امید تھی۔

د کے وہ ذرا کسمسا کر بولی: دراصل میں ایک شریف لڑکی ہوں کیسے پرائے مرد . ساتھ۔۔۔؟

میں بولا : تو کس نے کہا ہے کہ کسی مرد کے ساتھ کرو، کوئی کم عمر سا بیوقوف سابچہ سیٹ کر لیں گے۔

یوں سمجھ لینا کہ کسی ڈاکٹر کے پاس علاج کی نیت سے گئی ہو۔

وہ بولی : مگر یہ بات اگر کھل گئی تو ۔۔ میراگھر والے تو مجھے جان سے مار دیں گے۔

میں بولا ؛ کون بتائے گا یہ بات ، تم ۔۔۔ اور بھلا میں کیوں بتانے لگا، بھئی تمہاری چغلی کر کے میں نے ایک مستقل گاہک سے ہاتھ دھونے ہیں کیا؟

وہ قائل ہو کر بولی: پھر ۔۔ تم بتاؤ۔۔ یہ کام کس کے ساتھ کروں، محلے میں تو سب ایسے ہی کالے کلوٹے ہیں۔

میں بولا : تو تم نری پاگل ہی ہو۔ بھلا محلے میں تو تمہیں سب جانتے ہیں یہ بات راز رہ پائے گی ؟ تم کسی انجان سے کرو جو تمہارا نام پتا نہ جانتا ہو۔

وہ بولی : ہاں۔۔ یہ بھی ٹھیک ہے مگر کروں گی کسی جگہ ، میری ساس تو ہر وقت گھر پر  ہوتی ہے اور میکہ تو اس سے بھی

میں بولا : جگہ کا انتظام بھی ہو جائے گا، تم بتاؤ یہ کام کرنا کب چاہتی ہو ؟

وہ مکمل رضامندی کا اظہار کرتے ہوئے بولی : تم بتاؤ۔۔؟

میں بولا: ایک گھنٹے میں کرشن نگر والے بازار میں آجاؤ، وہاں سے تمہیں میں اپنے ایک دوست کے پاس لے جاؤں گا، تمہارا کام بن جائے گا اور وہ بے چارا بھی خوش ہو جائے گا۔

وہ بولی : کیا مطلب ۔۔ آج ہی یہ کام کرنے چلوں۔۔ ؟ نہ بابا نہ۔۔

میں بولا : جب کام کرنا ہی ہے تو کل پر کیوں ٹالنا ؟

وہ بولی : مگر۔۔۔ میں ابھی دل سے راضی نہیں ہوں۔

میں بولا: وہ تو تم جیسی شریف گھر کی لڑکی کبھی بھی راضی نہیں ہو گی۔ مگر کیا کریں مجبوری ہے نا۔

وہ بولی: ہاں۔۔ صحیح کہہ رہے ہو۔ اچھا میں تمہیں بازار میں ملتی ہوں۔

 میں دل ہی دل میں شریف گھر کی بچی پر ہنسا، اس کے انداز بتاتے تھے کہ اس نے  بچپن جوانی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہو گی۔ شادی سے پہلے بھی خوب پھدی کا لطف دیا اور لیا ہو گا۔ یہ شرافت محض شادی کے بعد محلے میں دکھاوے کو تھی۔ کل کو رضیہ کی شادی ہو جاتی یا شبانہ اور نسرین کی ہوئی تھی تو وہ بھی یونہی شرافت کا ہی راگ الا پتیں۔ بد نام اور بد کردار وہ ہوتی ہے جو پکڑی جائے یا گناہ جسم پر ظاہر ہو جائے۔ ورنہ آگے پیچھے سے کئی کئی بندوں سے چدوا کر بھی شرافت کا لیبل لگوا کر گھومتی ہیں۔ میں سیدھا نکلا اور کامران کے پاس پہنچا، وہ ٹیوشن پر جانے والا تھا کہ میں پہنچ گیا اور بولا : چپل پیارے کام بن گیا، پہلے ہم حجام کے پاس جائیں گے تو ذرا اچھی سی شیو بنا، پھر پھدی لینے کا پروگرام سیٹ کرتے ہیں۔

وہ سارے کام چھوڑ بھاگم بھاگ میرے ساتھ چل پڑا۔ ہم تیار شیار ہو کر بازار پہنچے، میں نے اسے پہلے ہی مکان پر بھیج دیا اور خود فرزانہ کو تلاش کرنے لگا۔ وہ مجھے مل گئی تو میں اسے لے کر مکان پر پہنچ گیا۔ کامران اور فرہاد سبھی گورے چٹے اور ممی ڈیڈی ٹائپ بچے تھے۔ اس قسم کے خوشحال بچے ان علاقوں میں خال خال ہی دکھائی دیتے تھے۔ فرزانہ کی آنکھیں بتارہی تھیں کہ وہ کامران کے معاملے میں راضی ہے۔ ویسے بھی کامران سے وہ چار پانچ سال تو بڑی ہی تھی، کچھ جسامت بھی فربہی مائل تھی۔ میں فرزانہ کو لے کر کمرے میں چلا گیا اور بولا: یہ بچہ ٹھیک ہے۔

وہ بولی : ہاں ! ہے تو ٹھیک تھوڑا قد کم نہیں ہے۔

میں بولا : ابھی یہ بچہ ہے قد نکالے گا مزید۔۔ تم بس اسے زیادہ چپ چاپ کرنے دینا۔

وہ بولی: میں بتی بجھا کر کروں گی۔ میں تو کبھی شوہر کے سامنے ننگی نہیں ہوئی۔

میں بولا: بالکل ٹھیک ہے ، اسے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔

میں نے کامران کو سمجھا کر بھیجا کہ شرمارہی ہے ، جیسے جیسے کہے ویسے ویسے ہی کرنا۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید کہانیوں کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page