Lust–42–ہوس قسط نمبر

ہوس

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی سٹوری ۔۔ہوس ۔۔

نامساعد حالات میں جینے والے نوجوان کی کہانی۔ بے لگام جذبوں اور معاشرے کی ننگی سچائیاں۔   نیا سیکسی سلسلہ وار ناول

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہوس قسط نمبر - 42

کامران اندر داخل ہو گیا اور میں اپنے مقام پر پہنچ گیا۔ فرزانہ بیڈ پر کمبل اوڑھے بیٹھی تھی۔ کامران اس کے ساتھ بیٹھ گیا اور بولا : شروع کریں؟

فرزانہ بولی: دیکھو میں بہت مجبوری میں یہ سب کر رہی ہوں ، تم مجھے ایسی ویسی نہ سمجھنا۔ بہت شریف اور نیک خاندان سے تعلق ہے میرا۔

کامران نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ فرزانہ بولی: میں لیٹتی ہوں، تم اوپر آجانا۔

فرزانہ لیٹ گئی اور کامران اس کے اوپر آگیا۔

فرزانہ بولی: کر لواب۔۔ مگر آرام سے کرنا۔

کامران نے کمبل کے اندر ہی سے شاید اس کی شلوار سر کائی اور اپنی پینٹ کی زپ کھول لی یا پینٹ کا بٹن کھولا کچھ خاص دکھائی نہ دیا۔ بہر حال جو بھی تھا فرزانہ بولی: بس اتنا کافی اور مت اتارو۔۔ اب کرو۔۔

فرزانہ کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ بس اب چود نا شروع کرو مزید مجھے ننگا مت کرو۔ خود بھی بس لن ہی نکالو زیادہ مت کرو۔

شاید فرزانہ رانوں تک ننگی تھی۔ فرزانہ نے ایسی زور دار سرکاری لی جیسے پہلی بار لن لیا ہو اور بولی: آرام سے کرونا۔۔ درد ہوتا ہے مجھے۔

کامران بولا: سوری خیال نہیں رہا۔۔

کامران اس کے اوپر لیٹ کر اس کے کندھے پکڑ کر بہلنے لگا۔ تھوڑی دیر تو یہ سلسلہ چلتا رہا پھر فرزانہ بولی میرے اندر ڈال کر مزا آ رہا ہے ؟

کامران بولا : ہاں۔۔ بہت سارا۔۔

وہ گہری سانس لے کر بولی: مجھے بھی۔۔

فرزانہ بولی: تمہاری زپ چبھ رہی ہے ، پینٹ پوری اتار دو۔

کامران نے پینٹ اتار کر کمبل سے باہر پھینک دی اور ان ننگا ہو کر اسے چودنے لگا۔ فرزانہ نے بھی اندرون کمبل شلوار ایک ٹانگ سے اتار دی۔ اب ٹانگیں کھول کر چدنے لگی۔ کامران جلد ہی گہری سانسیں لیتا ہوا فرزانہ کے اندر چھوٹ گیا۔

وہ اٹھا اور گیلا اپنے انڈروئیر سے صاف کر کے پینٹ پہننے لگا تو فرزانہ بولی : تم مجھے اپنا وہ دکھاؤ گے ؟

کامران بولا : ہاں کیوں نہیں۔۔ یہ دیکھیں۔۔

فرزانہ نے ایسی حیرت کا اظہار کیا جیسے لن پہلی بار دیکھا ہو اور بولی: اتنا بڑا؟ یہ سارا تم نے ڈالا تھا ؟

مجھے ہنسی آگئی، یہ گلہ تھا یا شکایت۔ تم نے یہ سارا تو ڈال دیا تھا کہیں کچھ کم تو نہیں ڈالا تھا۔ یا شکایت کہ مجھ جیسی شریف لڑکی میں سارا ہی ڈال دیا، تھوڑا کم ڈالتے۔

کامران بولا: جی سارا ہی اندر تھا۔

فرزانہ اب ذرا کھلنے لگی تھی ، وہ سر جھکا کر بولی: تمہیں بر الگا ہو گا نا کہ میں نے اپنی نہیں دکھائی تمہیں۔ اب اپنی دکھاؤں ؟

کامران بولا : ہاں۔۔

فرزانہ نے کمبل ہٹایا اور قمیض ہٹا کر تازہ چدی ہوئی موٹے لبوں والی سرمئی رنگ والی پھدی دکھائی اور بولی: بہت درد ہو رہا ہے ، تم نے بہت زور سے کیا ہے۔

کامران بولا : بس وہ مجھے خیال نہیں رہا۔

وہ بولی: تم تھوڑا سا تیل لگا دو گے ؟

کامران بولا : ہاں کیوں نہیں مگر تیل پتا نہیں ہے یا نہیں۔

وہ بولی: کوئی بات نہیں تم اپنے پانی یا تھوک سے مالش کر دو۔۔۔ اس جگہ کی۔۔

اس نے پھدی کے دانے کو ہاتھ لگا کر کہا۔ کامران کو کیا چاہیے تھا، وہ جت گیا فرزانہ کی پھدی مسلنے ، فرزانہ آنکھیں موندے لیٹی رہی اور مزے سے دانے مسلوا کر لطف اٹھاتی رہی۔ اس کی نظریں بار بار کامران پر تھیں، شاید پہلی بار اسے کسی گورے مرد سے چد نا نصیب ہو ا تھا۔ جلد ہی وہ بھی چھوٹنے والی ہو گئی تو خود ہی بے ساختہ اس نے کامران کو اپنے اوپر گھسیٹ لیا اور تیزی سے گریبان سے ممانکال کر اس کے منہ میں ایسے ڈال دیا جیسا ماں بچے کو دودھ پلا رہی ہو۔ چند سیکنڈوں کے بعد وہ چھوٹ گئی، کامران کے اوپر چڑھ گئی اور اسے بے تحاشا چومنے لگی۔ چومتے چومتے اس نے اس کا لن بھی منہ میں لے لیا اور لن کو بھی کسی پورن سٹار جیسی مہارت سے چوسنے لگی۔

جلد ہی کامران کو دوبارہ تناؤ حاصل ہو گیا تو فرزانہ بولی: پھدی مار دے میری۔۔ جلدی کر۔۔ اووو۔

کامران تیزی سے اس کے بے قابو وجود پر چڑھ گیا اور پھر دھماد ھم چدائی شروع کر دی۔

اس بار فرزانہ چھاتی سے پیر تک ننگی تھی اور کامران محض شرٹ پہنے ہوئے تھا۔ فرزانہ نے خوب سرکاریاں اور آہیں بھریں، یہ چدائی بھی زیادہ دیر نہ چلی اور کامران چھوٹے گیا۔

پونے گھنٹے میں دو دفعہ کی چدائی کے بعد کامران اور فرزانہ بڑے خوش خوش نکلے اور فرزانہ کو میں باہر تک چھوڑ آیا۔

کامران صوفے پر گرتے ہوئے بولا : واہ یار ۔۔ یہ بھو کی قسم کی عورت تھی۔

کیا جنگلی انداز میں دی۔۔ مزا ہی آگیا۔۔۔ میری تو چوائس اب یہی بن گئی ہے۔

میں بولا : بس تو اس کا خرچہ اٹھا اور ٹانگیں خود ہی اٹھتی رہیں گی۔

وہ بولا : اس کے لیے تو جان بھی حاضر ہے۔

مجھے ایسا لگنے لگا کہ انجانے میں ایک بڑی ظالم اور پیاسی گشتی ہاتھ لگ گئی ہے۔

اگلے دن میں دکان پر گیا تو فرزانہ کو لہے مٹکاتی آگئی۔ اس کے جسم کے نشیب و فراز میں عجیب سی مستی تھی۔ کل تک وہ ایک شریف شادی شدہ عورت کا ڈھونگ رچاتی تھی۔ اب میرے سامنے تو یہ ڈھونگ رچانے کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی۔ ویسے بھی اس کے جسم میں اس کے من پسند قسم کے مرد کا پانی گھلا تھا، جس کی وجہ سے وہ کھلی پڑرہی تھی۔

 وہ ادا سے مسکرا کر بولی: کیوں چھوٹو ؟ کیا ہو رہا ہے؟

میں بولا : بس باجی حساب کتاب دیکھ رہا تھا۔ تم بتاؤ۔۔ اب تو خوش ہونا ؟

وہ بولی : ہاں ! خوش تو ہوں مگر تو ابھی بچہ ہے، یہ بات نہیں سمجھے گا۔

در اصل مسلئہ یہ ہے کہ کئی بار ایک بار کرنے سے حمل نہیں ہوتا۔ اوپر سے وہ لڑکا بھی چھوٹا تھا، اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ بات بنی ہو گی۔ شاید مجھے دوبارہ بھی اس کی ضرورت پڑے۔

میں اس کی مکاری کو سمجھ رہا تھا اور اس کو دل ہی دل میں شاباشی دے رہا تھا۔ جسے وہ بچہ کہہ رہی تھی وہ اس کی دلالی کر رہا تھا۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ مجھے الو بنا کر وہ مزے سے چدتی رہے گی اور میں اسے چدوا کر مزے کرنے کا سوچ رہا تھا۔

میں بولا : باجی ! یہ بتاؤ تمہیں مزا تو آیا نا؟

وہ بولی: نہیں۔۔۔ ویسے بھی میں تو چپ چاپ لیٹی رہی ، میں نے تو اسے اپنی۔۔ دیکھنے بھی نہیں دی ، نہ ہی اوپر سے کچھ چھیڑ نے دیا۔۔ مجبوری میں ۔۔ کام کروانا تھا تو بس کام کروایا اور فارغ کیا۔

میں ایک بار پھر اس کی عیاری پر عش عش کر اٹھا۔ میرے سامنے وہ کامران کالن چوستی رہی اور پوری ننگی ہو کر چدواتی رہی تھی اور اب کہہ رہی تھی کہ مجبوری میں بنا کپڑے اتارے چدوایا تھا۔

میں بھی افسردہ لہجے میں بولا : ہاں واقعی مجھے تو خود رہ رہ کر افسوس ہو رہا تھا کہ تم جیسی نیک لڑکی کو کیسا کام کرنا پڑ رہا ہے ، مگر تمہاری نیت نیک تھی، آخر تم یہ سب اپنے ہونے والوں بچوں کی بھلائی کے لیے ہی تو کرنے جارہی ہونا۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید کہانیوں کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page