Lust–43–ہوس قسط نمبر

ہوس

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی سٹوری ۔۔ہوس ۔۔

نامساعد حالات میں جینے والے نوجوان کی کہانی۔ بے لگام جذبوں اور معاشرے کی ننگی سچائیاں۔   نیا سیکسی سلسلہ وار ناول

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہوس قسط نمبر - 43

وہ اثبات میں سر ہلا کر بولی: ویسے وہ لڑکا رہتا کہاں ہے اور کس خاندان سے ہے ؟

میں پینتر ابدل کر بولا : وہ بھی تمہارے بارے میں یہی کچھ پوچھ رہا تھا، میں نے اسے بھی مشکل سے ٹالا ، اب کیا ہے کہ مجھے راز رکھنے پر تم ہی نے اصرار کیا تھانا۔ کہو تو اسے تمہارا نام پتا بتا دوں ؟

وہ گھبرا کر بولی: ارے نہیں نہیں۔۔ میں نے تو یو نہی پوچھا۔ تم کسی کو میر امت بتانا۔

میں بولا : تو تم بھی کبھی اس سے کچھ مت پوچھنا اور نہ بتانا۔ اس میں تمہارا ہی بھلا ہے۔  وہ ایک دو منٹوں بعد چلی گئی

میں گلی میں نکلا اور بلو کی طرف گیا۔ اس کے کزن سے ایک اور مکان کی بات کی تھی۔ میں چاہتا تھا کہ ٹھکانہ بدل لیا جائے۔

ایک ہی جگہ پر مسلسل رنڈی خانہ چلانا خطر ناک تھا۔

ہو سکتا ہے کہ کسی نے نوٹ کر لیا ہو کہ یہاں دن رات لڑکے اور لڑکیاں آتے جاتے ہیں۔

یہ فلیٹ پہلے مکان کی نسبت چھوٹا ضرور تھا مگر ایک لحاظ سے اچھا تھا کہ ایک بلڈنگ کے سب سے تاریک کونے میں اکیلا تھا۔ فلیٹ کی خامی یہ تھی کہ اس کے کمرے چھوٹے تھے ، اس لیے کوئی یہ فلیٹ نہیں لینا چاہتا تھا۔ ایک اور قباحت یہ تھی کہ فلیٹ تنگ و تاریک کونے میں تھا اور اس کے ساتھ ہی پانی کی موٹر نصب تھی۔ رات میں جب موٹر چلتی تو اس کے شور سے فلیٹ کے مکین تنگ ہوتے۔ یہ فلیٹ خاصا سستا پڑا تھا، میں نے اسے عارضی ٹھکانے کے طور پر لے لیا۔ فلیٹ میں یہ بھی اچھا تھا کہ آتے جاتے کوئی کسی سے نہیں پوچھتا تھا کہ کسی فلیٹ میں جانا ہے۔ اکیلی لڑکی کو کہیں بھی جاتا دیکھ کر لوگ یہی سمجھ سکتے تھے کہ کسی فلیٹ میں جارہی ہے۔ کس فلیٹ میں وہ نے وہ جاننے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتا تھا۔

میں نے یہ فلیٹ لے لیا اور پورا دن لگا کر سامان اس مکان سے یہاں شفٹ کیا۔ اس بلڈ نگ کے نیچے بھی بازار تھا اور فلیٹ کی پہلی منزل پر بھی سلائی کڑھائی کی دکانیں تھیں۔

میں محلے میں گیا تو رضو ملا۔ میں ان دنوں اسے دیکھ کر حقارت سے مڑ جاتا تھا مگر اس دن رک گیا۔ رسمی بات چیت کے بعد وہ بولا : تو کہاں گم رہتا ہے، کبھی دکھا ہی نہیں محلے میں ؟

میں بولا : رضو بھائی ! کیا بتاؤں تمہیں۔۔ ایک جگہ کام سیکھ رہا ہوں پراپرٹی کا۔

وہ بولا : اچھا! چل اچھا ہے کسی کام تو لگا تو ۔۔؟ تجھے محلے کی بھی خبر ہے کہ نہیں ؟

میں بولا : نہیں۔۔ تم بتاؤ۔

وہ بولا : رضیہ سے کب ملا تھا تو ؟

میں یاد کرتے ہوئے بولا : یاد نہیں۔۔ دو مہینے یا شاید زیادہ ہو گئے ہوں گے۔

وہ بولا : ہوں۔۔ تبھی۔۔ پرسوں شادی ہے اس کی۔

میں حیرت سے بولا : اچھا۔۔ کس کے ساتھ ؟

وہ بولا : اس کی ماں کے کسی چچیرے بھائی کے گھر جہلم میں۔ وہ اس کا کزن اکثر اس کے گھر دکھائی دیتا تھا۔ آنکھ مٹکا تبھی سے چل رہا ہو گا۔

میں بولا: چلو یہ تو اچھا ہے ، تم نے اپنے مزے لے لیے اور وہ بھی اب سسرال کو چلی۔

وہ بولا : ہاں ! مگر پچھلے چھ سات مہینوں میں وہ بالکل بدل گئی تھی، نہ ملتی اور نہ ہی پھدی دیتی۔ اس کا یہی رشتہ دار اس کے گھر آتا جاتا تھا، مجھے شک ہے کہ اس کے ساتھ چکر چلا رہی تھی۔ اس کو پھانس کر شادی کر رہی ہے۔ گشتی لن میر الیتی تھی، محبت کا چکر کسی اور کے ساتھ چلایا۔

میں بولا : تو تمہیں کیا تکلیف ہے، تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ ایک لڑکی کی تم نے جم کر لی ہے اور وہ تمہارے گلے بھی نہیں پڑی ۔ اگر یہی شادی تم سے ہوتی تو ۔۔۔؟

وہ حسد سے بولا؛ مگر جتنا مزا اسے میں نے دیا ہے ، اس کا شوہر کبھی نہیں دے سکتا۔ میں دل ہی دل میں ہنسا اور بولا: بالکل بالکل۔۔۔ اب اسے چھوڑو اور کوئی نئی ڈھونڈ لو۔

وہ مایوس سا ہو کر نیا پان منہ میں رکھنے لگا اور میں وہاں سے چل دیا۔

مکان بدلنے کے بعد بھی میں اس مکان کے پاس والے ہوٹل پر بیٹھا کرتا تھا تا کہ گاہکوں کو نئے مکان کی طرف لے جا سکوں۔ اس کے علاوہ میں چاہتا تھا کہ پرانے گاہکوں کی بجائے اب نئے بناؤں۔

نسرین اور شبانہ اب یہ کام چھوڑ نا چاہتی تھیں۔ خاص کر شبانہ تو چاہتی تھی کہ کسی کی گرل فرینڈ بن کر شادی رچا لے۔ نسرین کا کام سیٹ ہو چکا تھا تو اب وہ جسم فروشی کو خیر باد کہنا چاہتی تھی۔ منزکی مان گئی تھی مگر خالی منزئی سے کام نہیں چلنے والا تھا۔ نسرین نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنا متبادل دے گی مگر ابھی تک اس کا وعدہ وفا ہو تا دکھائی نہیں دیا تھا۔ ایک آدھ باری فرزانہ کی لگائی جاسکتی تھی مگر اسے مستقل گال گرل کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا تھا۔ سائرہ بھی دھمکانے کے باوجود دوبارہ نہیں آئی تھی۔ ایسے میں جسم فروشی کا دھندہ مجھے کھٹائی میں پڑتا دکھائی دے رہا تھا۔ میں ساتھ ہی کوئی دوسرا کام بھی شروع کرنا چاہ رہا تھا ، مگر وہ کونسا کام ہوتا ؟؟؟؟

میں اسی سوچ میں گم بیٹھا تھا کہ سکول یونیفارم میں چہرے کو نقاب میں لیٹے ایک لڑکی مجھے آنکھوں سے اشارہ کرتے ہوئی گزری۔ میں اسے دیکھ کر سوچ میں پڑ گیا کہ یہ کون ہے ؟ بالاخر میں اس کے پیچھے چلا گیا۔ وہ گلی میں داخل ہوئی، میرے پرانے مکان کے سامنے جا کر رک گئی اور مڑ کر مجھے دیکھا۔ میں اس کے پیچھے مکان کے دروازے پر پہنچ گیا۔ میں نے ابھی تک اسے پہچانا نہیں تھا مگر ظاہر سی بات تھی کہ وہ مجھے جانتی تھی اور مکان کا بھی اسے پتا تھا۔ میرے پاس جانے پر اس نے سلام کیا۔ سلام کے جواب دینے پر اس کی آواز سے مجھے یاد آگیا کہ یہ ثوبیہ تھی سائرہ کی سہیلی۔ سائرہ کے ساتھ ایک دو بار آئی تھی۔

میں خوشگوار حیرت سے بولا : ارے ثوبیہ ! آپ ہیں ؟ میں نے تو پہچانا ہی نہیں۔ یہ گھر تو جس دوست کا تھا وہ مکان چھوڑ کر چلا گیا، میر اپنا گھر ہے قریب ہی ، وہاں چلتے ہیں۔

وہ بولی: مگر مجھے واپس گھر بھی جانا ہے۔

میں اندر ہی اندر اسے چودنے کا منصوبہ بناتے ہوئے بولا : بس تھوڑی ہی دیر میں میں آپ کو چھوڑ دوں گا۔ ایسا کرتے ہیں رکشہ لیتے ہیں اور پھر گھر ڈراپ بھی کر دوں گا۔

فلیٹ بھی زیادہ دور نہیں تھا اگر پیدل چلتے تو ہیں منٹ میں پہنچ جاتے مگر میں نے یہی مناسب سمجھا کہ یہ سفر پانچ منٹوں میں طے کیا جائے اور باقی کے پندرہ منٹ ہم تنہائی میں گزاریں۔ وہ اکیلی ملنے آئی تھی تو یقینا کوئی خاص ہی بات ہو گی، یا تو سائرہ کا پیغام لائی ہو گی یا خود اپنی راہ ہموار کرنے۔ دونوں صورتوں میں مجھے تو بیہ پر بھی چانس مارنا تھا۔ آج پھدی نہ بھی ملتی تو کم از کم میں پھدی کی راہ تیار کرنے کی کوشش کر لیتا۔ میں نے ایک جگہ رک کر کوک کی بوتل اور بیکری کا کچھ سامان لے لیا۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید کہانیوں کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page