Lust–44–ہوس قسط نمبر

ہوس

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی سٹوری ۔۔ہوس ۔۔

نامساعد حالات میں جینے والے نوجوان کی کہانی۔ بے لگام جذبوں اور معاشرے کی ننگی سچائیاں۔   نیا سیکسی سلسلہ وار ناول

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہوس قسط نمبر - 44

ہم فلیٹ پہنچ گئے اور وہ کمرے میں بیڈ پر بیٹھ کر نقاب اتار نے لگی۔ اس کی بھاری اور بڑی چادر کی وجہ سے مجھے کبھی اس کے جسم کے نشیب و فراز کا اندازہ نہیں ہو سکا تھا۔ میں دانستہ اس کے قریب بیٹھ گیا اور کھانے کا سامان اس کی طرف بڑھاتے ہوئے ۔

میں بولا: یہ لیں نا۔

اس نے ایک سینڈوچ اٹھا لیا اور کترنے لگی۔ میں بولا : بڑی خوشی ہوئی کہ آپ آئیں اور اس سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ آپ اکیلی ہی آئی ہیں۔

وہ مسکرا کر بولی: جی بس۔۔ مجھے ایک چھوٹا سا کام تھا تو سوچا آپ سے مدد مانگوں کیونکہ اور تو میں کسی کو جانتی ہی نہیں، جو میری مدد کر سکے۔

میں بولا : جی جی بتائیں کیا کام ہے ، میں دل و جان سے حاضر ہوں۔

وہ بولی : جی بات ایسی ہے کہ مجھے شرم آتی ہے بتاتے ہوئے۔

پتا نہیں آپ کیا سوچیں۔۔ میں نے سائرہ سے بھی کہا کہ وہ میرے چلے مگر وہ نہیں مانی۔۔ اس لیے میں خود آپ سے کہہ رہی ہوں۔

میں بولا : جو بھی بات ہے بلا جھجھک بتائیں۔۔

وہ اٹک اٹک کر بولی: مجھے دوائی چاہیے ۔۔۔

میں بولا : کونسی دوائی؟

وہ بولی : وہ۔۔۔ والی۔۔ جو سائرہ۔۔ کو بھی دی تھی۔

میں نے گہری سانس لی ، یعنی ثوبیہ جانتی تھی کہ میں سائزہ کی پھدی کی سیل توڑ چکا ہوں اور اسے میں نے حمل روکنے والی گولی دی تھی۔ اب خود ثوبیہ کو بھی وہی دوائی اپنے لیے یا کسی اور کے لیے چاہیے تھی۔ دوا اس وقت بھی کمرے کی میز کی دراز میں رکھی تھی مگر ایک کنواری سکول کی لڑکی کے لیے یہ دوا حاصل کرنا کتنا مشکل کام تھا، یہ میں جانتا تھا اور اس کو مجھے کیش کرنا تھا۔

میں بولا : دوائی تو مل جائے گی اور آج ہی مل جائے گی۔

مگر مجھے پوری بات تفصیل سے بتانی ہو گی کہ کس کو چاہیے اور کیوں چاہیے، تاکہ کل کلاں کو کوئی مسلئہ ہو تو میں سنبھال سکوں۔

وہ بولی : وہ ایک دوست۔۔ کو ۔۔ درکار تھی۔۔

میں بولا : بس تو اس دوست کو کہو کہ کہیں اور سے لے لے۔۔ یا جس نے اس کی لی ہے۔  اسے کہے کہ دلائے۔۔ میں تو تب دیتا نا۔۔ جب میں نے اس کی لی ہوتی یا آپ کو خود کو چاہیے ہوتی۔

وہ بولی: سمجھ لیں کہ مجھے ہی چاہیے ۔۔ پلیز ۔۔ مجھے دلا دیں۔۔

میں بولا : میں نے کہانا کہ پہلے پوری بات کا پتا چلے تب میں دوائی لا کر دوں گا۔

وہ رونے لگی اور بولی: پلیز۔۔ مجھے دوائی لادیں۔۔

میں بولا : ضرور ۔۔ مگر پہلے پوری بات بتاؤ۔۔ ڈرومت۔۔ میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گا۔۔

وہ سسکیاں بھرتی ہوئی بولی: دوائی مجھے چاہیے اپنے لیے۔

میں کسی ڈاکٹر کی طرح سنجیدگی سے بولا : اووو۔۔ اچھا۔۔ کب ہوا یہ کام؟

وہ بدستور روتے ہوئے بولی: پرسوں۔۔ رات۔۔ کو۔۔

میں بولا : پوری بات بتاؤ۔۔ تب ہی میں مدد کر سکتا ہوں۔

وہ کچھ دیر تو سسکیاں بھرتی رہی پھر بولی : میرے گھر کے ساتھ والے گھر میں ایک لڑکا رہتا ہے ، وہ ان کا رشتہ دار ہے اور پڑھائی کے لیے لاہور آیا ہوا ہے۔ وہ کہتا تھا کہ مجھ سے پیار کرتا ہے اور مجھے اکثر گھر کی چھت پر بلاتا رہتا تھا۔ میں ایک دو بار گئی تو اس نے میرے ساتھ گندا کام کرنے کی کوشش کی۔ پرسوں رات کو محلے میں شادی تھی تو میں گھر پر جلدی واپس آگئی ، اس نے مجھے چھت پر بلایا اور زبر دستی۔۔۔ کر لی۔۔ کام کرنے کے بعد وہ بولا کہ اگر میں نے کسی کو بتایا تو ساری بد نامی میری ہی ہو گی۔ وہ کہہ دے گا کہ میں نے مرضی سے کیا ہے۔ وہ ایک بار پھر سے رونے لگی۔ میں نے سائرہ کو بتایا تو اس نے کہا کہ اس کام سے حمل ہو جائے گا، اگر دوائی نہ کھائی تو ۔

میں اسے تسلی دینے کی نیت سے اس کے قریب کھسک گیا اور اس کی کمر پر ہاتھ پھیر نے لگا۔ اس کی کمر پر مجھے اس کے برا کا سٹریپ محسوس ہوا، جس کا یہ مطلب تھا کہ کم از کم مجھے اتنے بڑے تو ہیں ہی کہ برا کی ضرورت محسوس ہوئی۔

میں اسے چھوتے ہوئے بولا : اس نے کتنی بار کیا تھا ؟

وہ دوپٹے سے ناک پونچھ کر بولی : ایک بار۔۔

میں بولا : دیکھو دوائی تو ہے میرے پاس مگر اس سے پہلے مجھے ذرا تمہیں چیک کرنا ہو گا۔ کہیں ایسا تو نہیں ہوا کہ حمل ہو ہی گیا ہو۔ اس لیے دیکھنا ضروری ہے۔

وہ بولی : مطلب۔۔ کیسے چیک کریں گے ؟

میں بولا ، سوچتے ہیں۔۔ اچھا یہ بتاؤ کہ اس کا کتنا بڑا تھا ؟

وہ ایسے سوال سے گڑ بڑا گئی اور بولی: مم۔۔ مجھے نہیں پتا۔۔

میں سمجھاتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے بولا : دیکھو۔۔ یاد کرنے کی کوشش کرو۔۔ اتنا تھا یا اتنا بڑا؟ اتنا

وہ بولی: میں نے ملکی سی جھلک دیکھی تھی جب وہ کرنے کے بعد شلوار پہن رہا تھا۔۔

میں بولا : اس نے پورا اندر ڈالا تھا۔۔۔؟

وہ سوچتے ہوئے بولی:۔۔ نن۔۔ شاید تھوڑا سا گیا تھا۔۔۔ اور ۔۔۔ اس میں سفید مادہ نکل گیا۔۔

میں بولا : وہ مادہ سارا اندر نکلا تھا۔۔۔؟

وہ بولی: نہیں کچھ اندر اور باقی باہر ہی گر گیا۔۔ دراصل میں مسلسل زور لگار ہی تھی۔۔ تو ۔۔

میں بولا : اس کا کتنی دیر تک تمہارے اندر رہا تھا۔۔؟

وہ بولی : شاید ۔۔ ایک منٹ یا کم ۔۔

میں سمجھ گیا کہ اسے چودنے والا بھی اناڑی ہی تھا جس نے لن رکھا ہی تھا کہ چھوٹ گیا۔ فی زمانہ مردوں میں یہ بات کافی عام تھی کہ پہلی دوسری چدائی میں ڈالتے ہی یا کبھی کبھار بناڈالے ہی چھوٹ جایا کرتے تھے۔ مگر یہ بات بھی اٹل تھی کہ اگر ان کا سرا بھی چوت کے منہ کے اوپر تھا تو حمل ٹھہر سکتا تھا۔ اب میں یہ موقع نہیں گنوا سکتا تھا۔ خوش قسمتی نے اس نے چدنے کی راہ خود ہموار کر دی تھی۔

میں بولا: دیکھو۔۔ ضروری ہے کہ پہلے تمہارا تفصیلی چیک اپ کیا جائے پھر میں حالات کے مطابق دوائی لا دوں۔ تمہیں ہمت کرنا ہو گی اور ذرا سا تعاون، اس کے بغیر مسلئہ حل نہیں ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ بولی : ٹھیک ہے۔۔ آپ دیکھ لیں۔۔

میں اٹھتے ہوئے بولا: یہ چادر اتار دو اور وہ کمبل اوڑھ کر لیٹ جاؤ، میں ہاتھ دھو کر آتا ہوں۔

وہ اٹھی، کپکپاتے ہاتھوں اور زرد چہرے کے ساتھ چادر اتاری۔ میں نے شکر ادا کیا کیونکہ چادر کے نیچے اس کے جسم کا متناسب ہیولہ دکھائی دیا تھا۔ ثوبیہ بھاری جسامت والی تھی تو اس کی چھاتی اور کو لیے وزنی تھے۔ یہی وجہ تھی کہ کم عمری میں بھی اس کی اٹھان اچھی تھی۔

وہ کمبل اوڑھ کر چت لیٹ گئی۔ میں ہاتھ دھو کر اس کے پاس آگیا اور آستین کے بٹن کھول کے ہاتھ کمبل میں گھسا دیا۔ جو نہی ہاتھ اس کی رانوں سے لگا وہ برک گئی۔

میں بولا : کیا ہو اڈر کیوں گئی ہو ؟ ہاتھ سے ہی تو چیک کروں گانا؟

اگلی قسط بہت جلد 

مزید کہانیوں کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page