Lust–45–ہوس قسط نمبر

ہوس

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی سٹوری ۔۔ہوس ۔۔

نامساعد حالات میں جینے والے نوجوان کی کہانی۔ بے لگام جذبوں اور معاشرے کی ننگی سچائیاں۔   نیا سیکسی سلسلہ وار ناول

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہوس قسط نمبر - 45

میں نے ہاتھ ہی سے اس کی قمیض ہٹائی اور شلوار میں ہاتھ ڈال کر اس کی پھدی کے لیوں کو چھوا۔

وہ سسک اٹھی اور اس کے چہرے پر شدید خجالت ظاہر ہونے لگی۔

اس نے میرا ہاتھ جھٹک دیا اور بولی: پلیز۔۔ رہنے دیں۔۔ آپ بس دوائی دے دیں۔۔ ٹھیک ہونا ہو گا تو ہو جائے گا۔۔

میں بولا: کونسی دوائی دیتی ہے وہ چیک کرناضروری ہے۔۔ تم ہمت سے کام لو۔۔ بس دو منٹوں ہی میں پتا چل جائے گا۔ شرمانے کی کوئی بات نہیں۔۔ مجھ سے ذرا تعاون کرو۔۔

وہ بولی: مجھے شرم آرہی ہے۔۔ میں نے کبھی ایسا کوئی کام نہیں کیا۔۔

میں بولا : تو بیہ۔۔ جانتا ہوں۔۔ بس ایک منٹ رکو۔۔۔

میں نے تیزی سے انگلی اس کی پھدی میں داخل کر دی۔ وہ ایک مرتبہ پھر سسکی اور میری انگلی نکالنی چاہی مگر میں نے اس بار زور لگا کر اس کی مزاحمت کو ناکام کیا۔ اس نے مزید مزاحمت کی تو میں نے دوسرے ہاتھ کے استعمال سے تیزی سے کمبل ہٹا دیا اور اس کی شلوار کو بھی مزید سر کا دیا۔ اب اس کی پھدی میرے سامنے مکمل ننگی حالت میں موجود تھی۔ وہ قمیض کو پھدی کے اوپر سے ڈھکتے ہوئے روہانسی ہو کر

بولی: پلیز ۔۔ نہیں۔۔۔ بس نکال لیں۔۔۔ ایسے ہی دوائی دے دیں۔

میں بولا : بس۔۔ ہو گیا۔۔۔ میری جان۔۔

میں نے چودنے کے انداز میں انگلی اندر باہر کی اور دوسرے ہاتھ سے اس کے مزاحمتی ہاتھوں کو باز رکھا۔ ایک دو منٹوں بعد جب انگلی خوب رواں ہو گئی اور پوری کی پوری اندر اترنے لگی تو میں نے انگلی نکال لی ۔

اور میں بولا : مسلئہ تھوڑا خراب ہے۔

اس نے فوری طور پر شلوار اوپر کر کے اپنی پھدی کو ڈھکا اور قمیض درست کر کے اٹھ کر بیٹھ گئی۔

وہ بولی : کیا ہوا۔۔ کیا مسلئہ ہے ؟

میں بولا : اندر کی جانب ایک چھوٹا سا دانہ بنا ہوا ہے جو ہو سکتا ہے کہ حمل بننے والا ہو۔ ما چھوٹاسادانہ بناہوا

وہ بولی : تو پھر اب۔۔ کیا ہو گا ؟

میں بولا : اس دانے کو اگر رگڑ کر پھسا دیا جائے اور پھر دوائی کھائی جائے تو مجھے یقین ہے مسلئہ حل ہو جائے گا۔ حمل بھی نکل جائے گا اور دوائی کا بھی اثر ہو گا تو دوبارہ بھی مسلئہ نہیں ہو گا۔

وہ پریشانی سے اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیر کر بولی: اسے کیسے پھسائیں گے ؟

میں تنے ہوئے لن کو دباتے ہوئے بولا : وہاں تک میری انگلی تو نہیں پہنچے گی ، ایک تو چھوٹی ہے دوسرا پتلی ہے۔۔ مجھے لن سے اسے رگڑنا پڑے گا۔

وہ تھوک نگل کر بولی: کیا۔۔ مطلب ۔۔ آپ ۔۔ میرے ساتھ۔۔ مطلب ۔۔ وہ کام کریں گے تو وہ پھلے گا۔۔۔ نہیں۔۔ میں نہیں کرنے والی۔۔

اس نے میر اتنالن پینٹ میں دیکھ لیا۔ جلدی سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی اور چادر اوڑھنے لگی۔

میں اٹھ کر بولا : دیکھو ! یہی ایک حل ہے۔ اس کے علاوہ چارا نہیں۔۔ یا تو مجھ سے کام کر والو یا پھر جس نے کیا ہے اس سے ایک دو بار کروا کے تم دوبارہ فوری میرے پاس آجانا۔۔ میں دوائی دے دوں گا۔

وہ بولی: نہیں۔۔ مجھے اب نہیں کرنا۔۔ آپ کسی اور چیز سے دانہ پھسانے کی کوشش کریں۔

میں بولا : عجیب بات ہے، کونسی چیز ہو گی، جس کا سر انرم اور گول ہو گا۔

اور جب کوئی چیز اندر ڈلوانی ہی ہے تو لن میں کیا مسلئہ ہے۔ پھر اس کا فائدہ یہ بھی ہے کہ دوائی میں فوری دے دوں گا۔

وہ بولی : مگر آپ میرے بھائی کی طرح ہیں۔ سائرہ کے دوست ہیں۔ میں آپ کا وہ کیسے اندر تو بہ ۔

میں بولا : سائرہ میری بیوی تو نہیں ہے جو تم میری سالی بن گئی ہو۔ سوچ لو۔۔ اور کوئی حل نہیں ہے۔

وہ روتے ہوئے بولی : مجھ سے یہ نہیں ہو گا۔

میں اسے کندھے سے تھام کر بولا : کچھ نہیں ہو گا۔۔ بس پانچ منٹ لگیں گے تمہیں پتا بھی نہیں چلے گا اور تم سائرہ کو بھی مت بتانا۔ اور یہ ہم کو نسا غلط کام کر رہے ہیں، یہ تو علاج کے لیے ضروری ہے۔

میں نے اسے ساتھ لپٹا لیا اور بستر پر لٹالیا۔ وہ روتے روتے بستر پر لیٹ گئی۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر اس کی شلوار نیچے سرکائی تو اس نے میرے ہاتھوں کو روکا۔ میں نے اس کے ہاتھوں کو دوسرے ہاتھ میں پکڑا اور شلوار اتار دی۔ ذرا سا اٹھ کر پینٹ کے بٹن اور زپ کھول کر اس کے اوپر لیٹ گیا۔ اس کا گداز جسم رونے کی وجہ سے ہلکا ہلکا سا گرم اور ہچکولے لے رہا تھا۔

میں نے اس کی گیلی پھدی کے لبوں پر ایک دو بار لن رگڑا اور گھسانے لگا تو وہ ایک بار پھر مجھے روکنے لگی۔۔ میں نے اس کی دونوں کلائیوں کو سیدھے ہاتھ میں دبوچ کر اس کے سر کے اوپر بستر پر بے بس کیا اور الٹے ہاتھ سے لن کو پھدی کے لبوں پر ٹکایا اور پچکار کر بولا : بس ۔۔ ایک منٹ لگے گا۔۔

میں نے جھٹکادیا تو اس کی چیخ نکل گئی ، وہ چلا کر بولی: اووو۔۔ نہیں۔۔ ہائے۔۔ سکندر بھائی۔۔ پلیز۔۔۔ نکال۔۔ لو۔۔۔ اووووئی۔۔۔ پلیز۔۔۔ نہیں۔۔۔۔

میں نے اس کے ہونٹوں کو چوم لیا اور اس کے منہ میں زبان داخل کر کے اس کی زبان کو چوسنے لگا۔

جو بھی علاج کا بہانہ تھا یا ڈرامہ تھا وہ مزید جاری رکھنے کی ضرورت باقی نہ رہی تھی۔ اس کی پھدی میں لن گھس گیا تھا اب اسے عام لڑکیوں کی طرح ہی دل لگا کر چودنا تھا۔ سارے بہانے لن ڈالنے سے پہلے کے ہوتے ہیں۔ لن پورا اتر گیا تھا اور تنگ پھدی میں لن خاصی دقت سے اندر باہر ہو رہا تھا۔ وہ سچ کہہ رہی تھی کہ لن پورا اندر نہیں گیا تھا یا رواں ہی نہیں ہوا تھا۔ مجھے بڑی طاقت صرف کر کے اس کے مچلتے وجود کو سنبھالنا پڑ رہا تھا اور ساتھ ہی میں جھٹکے لگانے میں مصروف تھا۔

میں نے اسے جھٹکے لگاتے لگاتے اس کی قمیض کو اوپر سر کا یا اور براہٹا کر اس کے مموں کو منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا۔ اس کی ٹانگوں کو پورا کھول دیا، گہرائی میں جب جھٹکے دیئے تو اس کی پہلی بار سکاریاں بلند ہوئیں۔ اگلے دو تین منٹوں میں جب لگا تار کئی مزیدار جھٹکے پھدی کی گہرائی میں لگے تو مزے کی بدولت پھدی تر بھی ہو گئی اور اس کا رونا دھونا بھی رک گیا۔

میں چودنے کے ساتھ مموں کے ساتھ بھی پورا انصاف کر رہا تھا۔

اس کے نپل تن چکے تھے اور وہ مزے لے رہی تھی۔

میں اسے چودتے ہوئے بولا : میری جان ! مزا آیا نا پھدی مروانے کا۔۔؟

اس نے آنکھیں میچ کر اثبات میں سر ہلا دیا۔

میں پندرہ میں منٹ تک جم کر اس کی کنواری اور تنگ پھدی کا لطف اٹھاتا رہا پھر چھوٹ گیا۔ میر امنی جب جھٹکوں سے اس کی پھدی میں نکلا تو وہ گہری سانسیں لیتی جھٹکوں کو محسوس کرنے لگی۔

میں جب اوپر سے ہٹ گیا تو وہ پھدی سے بہتے منی کو انگلیوں سے نکال کر مجھے بولی: آپ نے اپنا مادہ بھی اندر نکال دیا۔۔ اب کیا ہو گا ؟ دانے کا کیا بنا۔۔ وہ ختم ہوا؟

اگلی قسط بہت جلد 

مزید کہانیوں کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page