کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے
کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی سٹوری ۔۔ہوس ۔۔
نامساعد حالات میں جینے والے نوجوان کی کہانی۔ بے لگام جذبوں اور معاشرے کی ننگی سچائیاں۔ نیا سیکسی سلسلہ وار ناول
نوٹ : ـــــــــ اس طرح کی کہانیاں آپ بیتیاں اور داستانین صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ ساری رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی تفریح فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے دھرایا جارہا ہے کہ یہ کہانی بھی صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔
تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
-
Raas Leela–10– راس لیلا
October 11, 2025 -
Raas Leela–09– راس لیلا
October 11, 2025 -
Raas Leela–08– راس لیلا
October 11, 2025 -
Raas Leela–07– راس لیلا
October 11, 2025 -
Raas Leela–06– راس لیلا
October 11, 2025 -
Strenghtman -35- شکتی مان پراسرار قوتوں کا ماہر
October 11, 2025
ہوس قسط نمبر - 48
وہ بولی: دیکھو! یہ سب کام تو جوانی میں ہو ہی جاتے ہیں۔ میرے گھر والوں کی بھی یہی
خواہش ہے کہ میری شادی وہاں ہو۔
اب اگر اس نے فریحہ کا رشتہ بھیج دیا تو بہت برا ہو گا۔
میں بولا : اس جلن اور حسد کے لیے تم اسے بے آبرو کروانا چاہتی ہو ؟
وہ بولی: بے آبروئی کیسی ؟ مجھے اس کے بارے میں سب پتا ہے ، وہ بھی بوائے فرینڈز
بناتی تھی، مگر بڑی چالاک ہے ، اس نے کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دی۔
میں ہنس کر بولا : جیسے تم نے کسی کو خبر نہیں ہونے دی۔
وہ بگڑ کر بولی: تم میرا یہ کام کرو گے یا نہیں ؟ مجھے طعنے مت دو۔
میں بولا : کام تو میں یقینا کروں گا مگر تم یہ بتاؤ، تمہیں عزت لٹنے کا دکھ نہیں ہوا؟
وہ کچھ دیر سوچتی رہی پھر بولی: برا تو بہت لگا تھا مگر خیر ہے ایسا ہو ہی جاتا ہے بھی کبھی۔
میں بولا : اس سے پہلے کب ہوا تھا ؟
وہ گڑ بڑا گئی اور بولی: نہیں پہلے تو نہیں ہوا۔۔
میں بولا : بیچ سچ بتاؤ۔۔ مجھ سے تو کچھ مت چھپاؤ۔
وہ بولی: اوکے ۔۔ میرے اس کزن نے دو سال پہلے ایک بار کیا تھا۔۔ اس نے کیا میرے ساتھ تھا اور شادی فریحہ سے کرنا چاہتا ہے۔ اگر اب وہ فریحہ سے شادی کرے بھی سہی تو کم از کم فریحہ بھی اچھی طرح چدی ہوئی ہو۔
میں ہنسا اور بولا : اس نے تمہاری لے لی اور تمہاری سہیلی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ واہ واہ۔۔ کیا بات ہے جناب۔۔ صحیح ہے یار۔ ٹھیک ہے کام ہو جائے گا۔ کوئی پلان بناتے ہیں۔
دو تین دنوں بعد مجھے شمائلہ نامی وہ لڑ کی دکان پر آکر ملی جسے منزئی نے بھیجا تھا۔ میں
نے رسمی سلام دعا کے بعد پوچھا: کہیں پہلے کام کیا ہے ؟
وہ بولی: ہاں ! یکی دروازے کے پاس والے سلائی سنٹر میں کام سیکھا ہے۔
میں بولا : وہاں کیا دیتے ہیں ایک سوٹ کے ؟
وہ بولی : کوئی پکے نہیں ہیں، کبھی ہیں تو کبھی پیچیں۔
سوٹ کا حساب نہیں تھا، دن کا تھا۔
میں نے اسے کہا کہ دکان کے اندر آجائے اور ذرا اپنی چادر اتار دے۔
وہ چپ چاپ اندر داخل ہوئی اور بڑی سی چادر اتار دی۔ وہ دکان میں پڑے سٹول پر بیٹھ گئی ، چھاتی پر سوٹ کا ہم رنگ دو پٹہ تھا مگر جسم کا ہیولہ دکھائی دے رہا تھا۔ وہ شبانہ جیسی جسامت والی تھی، گول چہرا، در میانے سائز کی آنکھیں، بھاری چھاتی اور باقی جسم بھی بھاری ہی تھا۔ رنگ گندمی تھا اور نین نقش بھی بس مناسب ہی تھے۔ وہ ہیں اکیس برس کی تھی۔ اسے اپنے عملے میں شامل کیا جا سکتا تھا مگر مستقل یا زیادہ عرصے تک وہ کام نہیں دے سکتی تھی۔ اس سے کہیں زیادہ بہتر منزئی اور نسرین تھیں۔ میں اس سے بولا : شادی شدہ ہو ؟
وہ بولی: نہیں ابھی نہیں۔
میں بولا : مہینے میں کتنے کی آمدن چاہتی ہو؟
اس نے مجھے ایسے دیکھا جیسے پوچھ رہی ہو کہ یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے ، جتنی ہو کم ہے مگر سوچ کر بولی: جو مناسب ہو۔
میں نے پس منظر جاننا چاہا تا کہ کل کلاں مشکل نہ ہو اور بولا: گھر میں کون کون ہے؟
وہ بولی: دو بھائی ہیں، ایک مکینک ہے اور دوسرا ہوٹل پر کام کرتا ہے۔ ابا فروٹ کی ریڑھی لگاتا ہے۔
میں بولا : ٹھیک ہے۔ اگر ہزار روپے مل جائیں تو کام کرو گی۔
ہزار روپے سن کر اس کے چہرے پر رونق آگئی، ہزار روپے اچھے بھلے پیسے تھے۔
وہ بولی: ہاں ! کرلوں گی۔
میں بولا : ٹھیک ہے، مگر اس سے پہلے میرا ایک کام کرنا ہو گا۔
وہ سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی اور بولی : جی کیا کام ؟۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے گلی میں نظر گھمائی اور اندر کی طرف دیکھا کہ کہیں ماسی اس طرف نہ آرہی ہو اور اس کے قریب پہنچ کر پینٹ کی زپ کھول کر لن کو تھوڑا سا باہر نکال کر بولا : اسے پکڑو۔
اس کا چہرا سرخ ہو گیا اور وہ جیسے کپکپا اٹھی۔
مجھے سے ملے اسے صرف پانچ سات منٹ ہوئے تھے اور میر الن اس کے سامنے تھا۔ یہاں لانے سے منزئی سے اسے میرے بابت بتایا تھا، اسے اس سب کی امید پہلے دن سے ہونی چاہیے تھی۔ وہ نفی میں سر ہلا کر خاموش ہو گئی۔
میں نے زپ بند کی اور واپس کاؤنٹر پر کھڑا ہو گیا اور بولا: ٹھیک ہے اگر کام ہوا تو بتا دوں گا، فی الحال جگہ نہیں ہے۔
وہ اٹھ کر چادر اوڑھنے لگی اور مایوس سی صورت بنا کر جانے لگی تو میں بولا : اگر میراکام کر دو گی تو میں کوشش کروں گا کہ تمہاری جگہ نکال ہی لوں۔
شام میں میں اس ہول سیل والی دکان پر نسرین اور ماسی چھیمو کے ساتھ گیا جہاں سے میں برا پینٹی اور دیگر سامان لیا کرتا تھا۔ اس نے خاص طور پر بلوایا تھا اور ہمیں چائے اور سموسے کھلائے۔ کچھ باتوں کے بعد بولا : دیکھو جمیل پتر ! میں یہ کام کئی سالوں سے کر رہا ہوں۔ اب سوچا ہے کہ ایک چھوٹا موٹا سا کار خانہ ٹائپ بنالوں ؟
میں بولا: یہ تو اچھی بات ہے۔
وہ بولا : بات تو واقعی اچھی ہے مگر اس کا سرمایا نہیں ہے اور نہ ہی ور کر۔ اس لیے میں نے سوچا ہے کہ میں چھوٹے چھوٹے کچھ ٹھیک مختلف جگہوں پر دے کر مال تیار کرواؤں ؟ میں بولا : یہ بھی اچھا ہے۔
وہ دو تین کپڑوں کے سیمپل اٹھا کر بولا: یہ وہ کپڑے ہیں جن سے شمیزیں اور سلے سلائے پائجامے بنتے ہیں۔ ایک پائجامہ ستر روپے میں بکتا ہے۔ کپڑے کا خرچ پندرہ روپے اور مزدوری فی پیس دس روپے ہے۔ پیکنگ کا تین روپے خر چاہے۔ باقی مال لانے لیجانے کا بھی پانچ روپے لگالو۔ باقی ہر دکاندار یا ہول سیل ریٹیلر کا منافع فی پیس دس روپے تو ہے ہی۔ اگر سب ملا کر پینتالیس روپے بھی بن جائے تو فی پیس منافع پچیس روپے ہے۔ ایک کاریگر دن میں میں تو سی ہی سکتا ہے۔ میں جب یہ مارکیٹ سے خرید تاہوں تو مجھے یہ ساٹھ روپے کا پڑتا ہے ، خود بناؤں تو پینتالیس کا پڑے گا۔ اگر تم مجھے یہ پچاس میں تیار کر دو تو تمہیں ایک مستقل کام مل جائے گا اور مجھے بھی اچھا منافع ہو جائے گا۔
میں نے سارا جمع خرچ سوچا اور بولا : چاچا! پچاس تو کم ہے۔ ہمیں تو دس روپے ویسے ہی کاریگر کو دینا ہوں گے ، اس طرح فی پیں ہمیں تو صرف آٹھ روپے بچتے ہیں۔
وہ بولا : پھر کیا کہتے ہو۔
میں بولا : ایسا کرو چا چا! تم پچاس کی بجائے 55 کا کرلو۔
وہ بولا : نہیں اس طرح تو اس ساری کاروائی میں مجھے صرف پانچ روپے بچے۔ ساٹھ کا تو مارکیٹ سے مجھے ویسے مل جاتا ہے تو اپنے تیار کرنے کا کیا فائدہ ہوا؟
میں بولا : چاچا! پانچ کے سات کر لو مگر اس سے کم میں نہیں۔
وہ بولا : چلو پہلا آرڈر تو تم ایسے ہی تیار کرونا۔ سوچیں تم پچاس کے حساب سے بناؤ۔ اس کے بعد میں دیکھتا ہوں کہ کام کیسا ہے تو منافع کم کرلوں گا۔
اگلی قسط بہت جلد
مزید کہانیوں کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں
-
Lust–50–ہوس قسط نمبر
October 7, 2025 -
Lust–49–ہوس قسط نمبر
October 7, 2025 -
Lust–48–ہوس قسط نمبر
October 7, 2025 -
Lust–47–ہوس قسط نمبر
October 7, 2025 -
Lust–46–ہوس قسط نمبر
October 7, 2025 -
Lust–45–ہوس قسط نمبر
October 7, 2025