Lust–49–ہوس قسط نمبر

ہوس

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی سٹوری ۔۔ہوس ۔۔

نامساعد حالات میں جینے والے نوجوان کی کہانی۔ بے لگام جذبوں اور معاشرے کی ننگی سچائیاں۔   نیا سیکسی سلسلہ وار ناول

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہوس قسط نمبر - 49

میں نے حامی بھر لی۔ ماسی چھیمو اور نسرین نے سلائی کا پورا طریقہ سمجھا اور پچاس پائجاموں کا کپڑا بھی اٹھوالیا۔ اس کے پیسے ہمارے کھاتے سے کٹنے تھے کیونکہ کپڑا اس بار اس نے فراہم کیا تھا۔

ہم چنگ چی رکشے میں مال رکھ کر واپس آگئے۔ رات کو شبانہ کو بھی بلوایا اور کام کو آگے چلانے کا سوچا۔

دکان سنبھالنے کی ذمہ داری میں نے اور شبانہ نے لے لی۔ سلائی کے لیے گھر کے صحن کو سلائی سنٹر بنایا کا پلان بنا۔ ایسے میں ہمیں کم از کم دو اور لڑکیوں کی ضرورت تھی جو سلائی کر سکیں۔

ایک لڑکی منزی طے پائی اور دوسری نئی لڑکی شمائلہ ۔ ماسی چھیمو کپڑے کی کٹائی کرتی جاتی اور لڑکیاں سیتی جاتیں۔ فی پانجامہ سلائی کے سات روپے طے کیے گئے کیونکہ تین روپے مشین کی مرمت اور سوئی دھاگے کے لیے مختص کیے۔

اسی دن رات کو میں اور نسرین منزئی اور شمائلہ کے گھر گئے اور ان کو کل صبح صبح کام پر آنے کو کہا۔

پہلا دن کام کی چال بنانے میں لگ گیا مگر دو پہر کے بعد کام میں تیزی آگئی۔

پہلے دن شام کو جب کام بند کیا گیا تو چالیس پائجامے سے گئے تھے۔ مگر امید تھی کہ ایک دو دنوں میں ہم دن میں سو پانجامے بنا سکتے تھے۔ پورے دن میں منزلی نے دس، شمائلہ اور نسرین نے پندرہ پندرہ پائجامے سے تھے۔ پہلے دن تو اجرت نقد ادا کی مگر بعد کے لیے طے کیا گیا کہ ہفتہ وار جب مال کی پیمنٹ ملے گی تو ادا کیا جائے گا۔ ماسی کے ذمہ کٹائی اور دکان میں دیگر جو سلائی کا کام آتا تھا وہ کرنا تھا۔ شام کو میں نے جب آمدن کا حساب لگایا تو ملک اور عوام کی قسمت پر افسوس ہوا کہ دن بھر جی توڑ محنت کی آمدن سو روپے بنی تھی جبکہ جسم فروشی سے اس سے زیادہ چند منٹوں میں کمایا جا سکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جسم فروشی فروغ پارہی تھی اور ایمانداری سے کماناد قیانوسی لگنے لگا تھا۔

شام میں جب شمائلہ جانے لگی تو میں نے اس سے پوچھا: ہاں ! کام دلا دیا ہے ، اب بتاؤ میرا کام کرو گی؟

وہ خاموشی سے باہر کی طرف جانے لگی تو میں نے اس کے کولہوں پر ہاتھ مارا، وہ برک کر مڑی اور ادھر ادھر دیکھنے لگی کہ کسی نے دیکھا تو نہیں۔

میں نے دوبارہ سے سوال کیا: سوچ کیا رہی ہو ؟

دس پندرہ منٹ کا اوور ٹائم لگالو ، اس کے سو روپے علیحدہ دوں گا۔

میں نے سو کا ایک نوٹ نکالا اور اس کے سامنے لہرایا۔ جسے آٹھ گھنٹے کام کر کے سو روپے ملے ہوں ، وہ ایک سو کمانے کے لیے واقعی بے تاب ہو جائے گا۔

اس نے کپکپاتے ہاتھوں نے نوٹ پکڑ لیا۔

میں نے ادھر ادھر دیکھا اور کسی کو پاس نہ پاکر اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے اوپر شبانہ کے کمرے میں لے گیا۔ شبانہ نیچے کاؤنٹر سنبھال کر بیٹھی تھی ، ماسی چھیمو کتر نیں اور دیگر سامان سمیٹ رہی تھی، نسرین صفائی اور پانجاموں کو سمیٹ رہی تھی تو موقع تھا کہ

پانچ دس منٹوں کے لیے شمائلہ کو میں اوپر لے جاسکتا تھا۔

کمرے میں گھتے ہی میں نے اس کی چادر نوچ کر زمین پر پھینک دی اور تیزی سے اس کی قمیض اور شلوار بھی اتار کر اسے محض میلے سے ایک بریز ئیر میں ملبوس حالت میں بستر پر دھکا دیا۔ وہ چت گری اور اس نے منہ کو ہاتھوں میں چھپالیا۔ وہ ہلکے ہلکے سے رونے لگی۔ میں نے جیب سے کنڈوم نکالا ، لن پر چڑھایا اور اس کی بھری بھری پھدی جس پر کافی بال بھی تھے ، میں لن گھسا دیا۔ پھدی خشک تھی مگر ان ذراسی کو شش سے پورا اتر گیا۔ میں اس کے اوپر لیٹ گیا اور اس کے ہاتھ چہرے سے ہٹا کر

اسے چودنے لگا۔ برا میں ہی اس کے ممے ہلتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے ، وہ ان مردوں کو خوب پسند آتی جن کو بھاری ممے اور بھاری گانڈ ا چھی لگتی تھی۔ ایسے مرد کافی پائے جاتے تھے جنہیں موٹی اور فربہ لڑکیاں چود نا پسند تھا۔ اس کے جسم سے

پینے اور مٹی کی ملی جلی بد بو آرہی تھی ، بغلوں سے بھی بو اٹھ رہی تھی۔ مجھے لگ رہا تھا کہ کسی گاہک سے چدوانے سے پہلے اس پر کچھ محنت کرنا پڑے گی۔ بطور ایک جسم وہ ٹھیک تھی اور مرد کو جنسی سکون دینے کے لیے مناسب تھی۔

 میں نے پانچ ہی منٹوں میں لن نکال لیا اور منی اس کی چھاتی سے براہٹا کر چھاتی کے در میان لن رگڑ کر بہا دیا۔ منی کے کچھ قطرے اس کی گردن اور تھوڑی پر بھی گرے۔ اس نے اٹھتے ہوئے دوپٹے سے انھیں پونچھ لیا۔

میں بغور اس کا جائزہ لے رہا تھا۔

مرد کے منی کو اس نے بنا ہچکچاہٹ صاف کیا تھا تو اس کا مطلب یہی تھا کہ مرد کی منی اس کے لیے نئی یا انو کھی چیز نہیں ہے۔

میں نے پینٹ اوپر کی اور بولا : بس اتنی سی دیر لگتی تھی اور تم نے سوچنے میں اتنا وقت لگا دیا۔

وہ بنا کچھ کہے کپڑے پہننے لگی اور کپڑے پہن کر بولی: اب میں جاؤں؟

میں فارغ تو ہو چکا تھا مگر جان بوجھ کر چھیڑنے کی غرض سے بولا: ہاں ضرور مگر کیا ہے کہ لن کو تم نے پیار ہی نہیں کیا ؟

وہ سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی تو میں نے زپ جو ابھی کھلی تھی سے ڈھیلے اور گیلے ان کو اس کے سامنے لہرایا اور بولا : اسے ذرا سا پیار تو کر لو۔

میں بستر پر بیٹھ گیا۔ وہ آگے بڑھی اور زمین پر بیٹھ کر لن کو ہاتھ سے پکڑ کر صاف کیا، اس پر جو تھوڑا سامنی لگا تھا وہ صاف کر لیا۔ باقی تو منی چونکہ کنڈوم سے باہر نکلا تھا تولن صاف ہی تھا۔ وہ لن کو ہلکا ہلکا سا دبانے لگی۔

میں نے اس کا سر پکڑا اور لن کی طرف دھکیلا تو اس نے بنا کہے سمجھتے ہوئے پورالن منہ میں لے لیا اور اسے چوسنے لگی۔ یہ بھی سمجھانے کے لیے کافی تھا کہ لن چوسنا اس کے لیے کوئی نئی یا بڑی بات نہیں۔

ایک دو منٹوں بعد اس نے لن منہ سے نکال دیا اور بولی : بس ۔۔۔؟

میں اس کے مموں کو دباتے ہوئے بولا: ہاں ! آج کے لیے کافی ہے۔

وہ کھڑی ہو گئی میں نے دروازہ کھولا تو سیڑھیوں پر شبانہ اوپر کی طرف آتی دکھائی دی۔ شمائلہ اسے دیکھ کر سہم گئی مگر میں نے اسے اشارہ کیا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ شبانہ اندر داخل ہوئی اور مجھے اور شمائلہ کو ایک ساتھ کمرے میں دیکھ کر ایک سیکنڈ کے لیے حیران ہوئی مگر سمجھ گئی کہ کیا سین چل رہا تھا۔ اس نے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا اور شمائلہ کی موجودگی کو نظر انداز کر کے بولی: وہ ایک عورت آئی ہے اسے کچھ چیزیں چاہیئں تم آکر ذرا اسے ڈیل کر لو۔

میں نیچے اتر آیا۔ محلے کی ایک عورت کے ساتھ ایک دوسری عورت آئی تھی جو اس کی رشتہ دار تھی۔

مسلئہ کا من ہی تھا کہ اسے زنانہ زیر جامے چاہیے تھے، اپنے اور اپنی بچیوں کے لیے مگر بازار سے مانگتے یا لیتے شرم آتی تھی۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید کہانیوں کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page